fbpx

لاہاینا قیامت ِصغری کی زد میں

Urdu Digest September 2023- The Catastrophic Tale of Lahaina

امریکی ریاست ہوائی کا تاریخی مقام اور لاکھوں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز

دیکھتے ہی دیکھتےخوفناک آگ کی لپیٹ میں آ کرکیسے تباہ و برباد ہو ا؟…..لرزہ خیز داستان

 

یہ ۸؍اگست ۲۰۲۳ء کی بات ہے۔ پچاس سالہ شین ٹرو اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ کھڑکیوں کے پَٹ کھڑکھڑانے کی تیز آواز نے اُسے جگا دیا۔ جب حواس بحال ہوئے، تو اُسے احساس ہوا کہ باہر کافی تیز ہوا چل رہی ہے۔ وقت دیکھا، تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ سورج بس نکلنے ہی والا تھا۔

 

وہ شب خوابی کے لباس میں ملبوس ہی باہر نکل آیا۔ دیکھا کہ طوفانی ہوا کے سبب چھت پر شمسی توانائی پیدا کرنے والے جو پینل لگے تھے، اُن میں سے بعض ٹوٹ کر نیچے آ گرے ہیں۔ وہ اُنھیں جمع کرنے لگا تاکہ دوبارہ اُن کی تنصیب ہو سکے۔ تبھی اُسے زوردار پٹاخوں کی آوازیں آئیں۔ اُس نے آوازوں کی سمت نظر اٹھائی، تو دیکھا کہ کھمبے کی تاریں نیچے گری ہوئی ہیں۔ تیز جھونکوں نے اُنھیں نیچے گرا دِیا تھا۔ اب وہ باہم ٹکرا کر چنگاریاں پیدا کر رہی تھیں۔

 

طوفانِ باد و باراں سے اکثر ہر علاقے میں کھمبے تک گر جاتے ہیں، یہ تو صرف تاریں ہی گری تھیں۔ بظاہر یہ معمولی سا واقعہ تھا مگر اہلِ لاہاینا (Lahaina) کے لیے یہ ارضی قیامت برپا کرنے کا سبب بن گیا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ چنگاریاں ایسی خوفناک آگ کو جنم دیں گی جو ساری خوشیاں، رنگینیاں اور مسّرتیں خس و خاشاک کی طرح جلا کر راکھ کر ڈالے گی۔

 

بڑی بادشاہت کا دارالحکومت

 

لاہاینا کسی ترقی پذیر یا غریب مملکت کا نگر نہیں بلکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور اَمریکا کی ریاست ہوائی میں ایک تاریخی مقام ہے۔ یہ ماضی میں ایک بڑی بادشاہت کا دارالحکومت رہ چکا۔ اب بھی امریکی و یورپی سیاحوں کا دل پسند مرکز تھا۔ وہ یہاں وہیلوں کا نظارہ کرنے، تیرنے اور دِیدہ زیب ساحل دیکھنے جوق در جوق آتے تھے۔ قصبے میں کئی تاریخی عمارتیں واقع تھیں۔ ساڑھے بارہ ہزار سے زائد مرد و زن اِس کے مستقل باشندے تھے۔ موسمِ گرما میں ہزارہا سیّاح آ پہنچتے، تو لاہاینا چھوٹے شہر کی صورت اختیار کر لیتا۔

 

پچھلے پچاس برس میں یہ اُمرا کی بستی بن چکا تھا۔ دولت مند سیّاحوں نے یہاں شاندار بنگلے تعمیر کر لیے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ لاہاینا پہنچ کر موج مستی کرتے ۔ نہ آ پاتے، تو اپنے عالی شان مکان کرائے پر چڑھا دیتے۔ ہر مکان لاکھوں ڈالر مالیت کا تھا، قیمتی ساز و سامان سے آراستہ۔ بعض لوگوں نے تو مکان بنانے میں اپنی بیشتر جمع پونجی صَرف کر دی تھی۔ بیچارے نہیں جانتے تھے کہ خوفناک آگ دیکھتے ہی دیکھے اُن کے سارے خواب اور اُمیدیں بھسم کر ڈالے گی۔

 

شین ٹرو بھی ایک سیّاح تھا۔ اُسے آزاد فضاؤں والا یہ نگر اتنا پسند آیا کہ یہیں بس گیا۔ لاہاینا کے مضافات میں اپنا مکان بنایا اور مزے سے رہنے لگا۔ گرمیوں میں مکان کا کچھ حصّہ سیّاحوں کو دے دیتا۔ یوں اُسے اچھی خاصی آمدن ہو جاتی۔

 

اُس نے ۸؍اگست کی صبح جو چنگاریاں دیکھی تھیں، اُنھوں نے جلد خشک گھاس میں آگ لگا دی ۔ آگ دیکھتے ہی اُس نے پولیس اور فائربریگیڈ کو اِطلاع کر دی۔ چھ منٹ بعد دونوں سرکاری اداروں کے کارکن وہاں آ پہنچے اور آگ بجھانے کی تدبیر کرنے لگے۔ آدھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پا لیا گیا۔

 

خطرہ حقیقت بن گیا

 

شین ٹرو کی چھٹی حِس مگر اُسے خبردار کر رہی تھی کہ آج کچھ بڑا وَاقعہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ مختلف عوامل کے ملاپ نے شین کے خطرے کو حقیقت کا روپ دے ڈالا۔

 

پہلا عمل کئی عشرے قبل ظہور پذیر ہوا تھا۔ ہوا یہ کہ انیسویں صدی کے اوائل میں امریکی و یورپی آبادکار ہوائی آ پہنچے۔ اُس زمانے میں یہ جزائر جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ساحلوں کے نزدیک واقع جنگل صاف کیے اور وَہاں مچھلیاں پالنے کے بڑے بڑے تالاب بنا لیے۔ یوں مچھلیوں کے تیل کا کاروبار شروع ہوا۔

 

بعدازاں لاہاینا اور ہوائی کے دیگر مقامات پر جنگل کاٹ کر گنے کے کھیت بنا لیے گئے۔ کئی ہزار مربع کلومیٹر علاقہ اِن کھیتوں کا علاقہ بن گیا۔ بیسویں صدی میں جب بھارت، پاکستان اور دِیگر ترقی پذیر ممالک سستی چینی برآمد کرنے لگے، تو ہوائی میں گنے کے کھیت اجڑ گئے۔ چینی بنانے والے کارخانے بھی بند ہو ئے۔

 

امریکیوں نے جو جنگل صاف کیے تھے، وہاں مختلف اقسام کی گھاس اُگ آئی۔ وجہ یہ ہے کہ جب جنگل اجڑ جائے، تو پھر وہ بہ آسانی نئے سرے سے کھڑا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اوائل اکیسویں صدی تک لاہاینا کے مضافات ہی نہیں، اندرون میں بھی جگہ جگہ گھاس کے قطعات نمودار ہو چکے تھے۔ ایسے میں شاید ہی کسی نے دھیان دیا کہ گھاس میں نہ صرف آسانی سے آگ لگ جاتی ہے بلکہ وہ نہایت سرعت سے پھیلتی بھی ہے۔

 

دوسرا عمل پچھلے دو ڈھائی سال سے جاری تھا۔ لاہاینا ہوائی مجمع جزائر کے دوسرے بڑے جزیرے، موئی (Maui)  میں واقع ہے۔ اِس جزیرے پر ڈھائی سال سے بہت کم بارشیں ہوئی تھیں اور وُہ خشک سالی کا شکار تھا۔ خشک آب و ہوا نے گھاس سے ساری نمی چوس لی تھی۔

 

تیسرا عمل ۸؍اگست سے کچھ دن پہلے رونما ہوا۔ بحرالکاہل میں آنے والا ایک سمندری طوفان ریاست ہوائی میں تیز ہواؤں کے جھکڑ چلانے لگا۔ اُنھوں نے کئی مقامات پر بجلی کے کھمبے یا تاریں گرا دِیں۔ تاروں سے نکلتی چنگاریوں سے خشک گھاس فوراً جل اٹھتی۔ تاہم فائربریگیڈ کا عملہ بروقت پہنچ کر آگ بجھا دیتا اور وُہ پھیلنے نہ پاتی۔

 

لاہاینا کی تقدیر میں مگر بھسم ہونا لکھاa جا چکا تھا۔ ۸؍اگست کو دوپہر ڈھائی بجے تین چار مقامات پر بجلی کی تاریں گرنے سے خشک گھاس میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی۔ چونکہ ہوا بہت تیز تھی، اِس لیے آگ نہایت تیزی سے پھیلنے لگی۔ آگ فرو عملے نے اُسے روکنے کی بہت کوششیں کیں مگر وہ ناکام رہا۔

 

آگ کی حیران کن رفتار

 

یہ اہلِ لاہاینا کی بدقسمتی ہے کہ ہوا کا رُخ شہر کی جانب تھا۔ اِس تیز ہوا نے گھاس و خشک سبزے میں پھیلتی آگ کو مثل ہوائی جہاز بنا دیا۔ وہ فی منٹ ایک میل کی رفتار سے دوڑتی بھاگتی دیوانہ وار قصبے والوں کی جانب بڑھنے لگی۔ یہ رفتار یقیناً انسانی عقل کو متحیر کر دیتی ہے۔

 

ایک طرف خوفناک طوفانِ آتش اہلِ لاہاینا کی جانب بڑھ رہا تھا، تو دوسری سمت بیشتر لوگ اِس کی آمد سے بےخبر تھے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ بعض مرد و زن سہ پہر کو سستا رہے تھے۔ کچھ سمندر میں تیراکی کرنے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔ دیگر اپنے گھروں میں کھانا کھاتے چہلیں کرنے میں مصروف تھے۔ غرض ہر کوئی اپنی مصروفیات میں مگن اور سر پر پہنچ جانے والی آفت سے بےپرواہ تھا۔

 

شہر کے مضافات میں بستے رہائشی سب سے پہلے پھیلتی آگ سے آگاہ ہوئے۔ اُس سے اٹھتے دھوئیں، جلتی گھاس کے ترتڑانے اور تپش نے اُنھیں خبردار کیا۔ تاہم آگ کا حملہ اتنا تیزرفتار اَور زوردار تھا کہ اُنھیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ بیشتر لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ گاڑیوں میں بیٹھ کر ساحلِ سمندر کی سمت روانہ ہو گئے۔

 

آگ ایسی لرزہ خیز تھی کہ اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو نیست ونابود کر جاتی۔ اہلِ لاہاینا کی یہ بدقسمتی بھی ہے کہ اُن کے مکان لکڑی سے بنے تھے۔ لہٰذا جب کڑکتی گھاس سے چنگاریاں اور شعلے اُٹھ کر مکانوں کی چھتوں اور دِیواروں پر گرتے، تو وہ جلد آگ پکڑ لیتیں۔ اِس طرح آگ کو کہیں رکاوٹ نہ ملی اور وُہ کسی عفریت کی طرح ہر چیز ملیاملیٹ کرتی چلی گئی۔

 

انتظامیہ بُری طرح ناکام

 

یہ واضح ہے کہ آگ کے بہ سرعت پھیلاؤ نے حکام کو حواس باختہ کر دیا۔ اِس عالم میں انتظامیہ سے ایسی سخت غلطیاں ہوئی جن کا خمیازہ اَہلِ لاہاینا کو بھگتنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ جزیرہ ہوائی میں لوگوں کو خطرے سے آگاہ کرنے والا سائرنوں کا دنیا میں بہترین نظام نصب ہے۔ یہ کئی سو سائرنوں پر مشتمل ہے۔ مگر اُس دن لاہاینا میں سبھی سائرن خاموش رہے، ایک بھی نہیں بجایا گیا۔ اِسی لیے لوگوں کو اِحساس ہی نہ ہو سکا کہ ایک بلائے عظیم آگ بن کر اُن پہ نازل ہو چکی۔

 

سائرن بجانے والے عملے کے ناظم کا کہنا ہے ’’مَیں نے سائرن اِس لیے نہیں بجائے کہ یہ صرف سونامی آنے کے وقت چلائے جاتے ہیں۔ اگر مَیں سائرن بجا دیتا، تو لوگ خشکی یعنی آگ کی سمت بھاگ پڑتے اور مَیں ایسا نہیں چاہتا تھا۔‘‘ تاہم ہوائی حکومت نے اِس دلیل کو تسلیم نہیں کیا، چنانچہ اُسے استعفا دینا پڑا۔

 

انتظامیہ سے دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ تیز ہوا سے جب بجلی کی تاریں گرنے لگیں، تو عارضی طور پر چند گھنٹوں کے لیے بجلی بند نہیں کی گئی۔ ہمارے پاکستان میں بھی یہ معمول ہے کہ جب طوفانِ باد و باراں آئے، تو بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ مگر لاہاینا کی انتظامیہ خوابِ خرگوش میں محو رہی۔ جب آتشِ نار پوری طرح قصبے کو اَپنی گرفت میں لے چکی، تو انتظامیہ کو ہوش آیا اور بجلی بند کی گئی۔

 

اللہ تعالی کا انتباہ

 

عینی شاہدین کی اکثریت بتاتی ہے کہ جب آگ عین سر پہ آ پہنچی، تو اُنھیں اُس کی خبر ہوئی۔ گویا اِس قدرتی آفت نے اہلِ لاہاینا کو اَچانک، عالمِ بےخبری میں آن دبوچا۔ یہی وجہ ہے، سیکڑوں مرد و زن اِس کی لپیٹ میں آ کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب آگ فرو ہوئی، تو ایسا لگتا تھا کہ علاقے میں ایٹم بم گرا ہے یا پھر کارپٹ بم باری کی گئی ہے۔ اِس طوفانِ آتش نے جو خوفناک تباہی و بربادی مچائی، اُسے دیکھ کر قرآن پاک کی سورہ القارعہ ذہن میں گونجنے لگتی ہے:

 

’’کھڑکھڑانے والی، وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ اور آپ کو کیا خبر کہ وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ اور پہاڑ رنگی و دُھنی ہوئی روئی کی طرح ہوں گے۔ اور جس کے نیک اعمال ہوئے، وہ عیش میں ہو گا۔ اور جس کے اعمال تول میں کم ہوئے، اُس کا ٹھکانہ ہاویہ ہو گا۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ یہ کیا چیز ہے؟ یہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘

 

اِس سورہ میں جو عبرت ناک منظرنامہ دکھایا گیا ہے، اِس کی بعض سچائیاں ہمیں جیتے جاگتے انداز میں لاہاینا کی اُن وڈیوز میں دکھائی دیتی ہیں جو طوفانِ آتش کے حملے میں سامنے آئیں۔ کھڑکھڑانے والی آگ انسانوںپر حملہ آور ہے اور وُہ پروانوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ جس کے اعمال کا پلڑا بھاری تھا، وہ تو بچ گیا، کم تول والے رب تعالیٰ کے پاس واپس پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اِذن سے ہاویہ یعنی دہکتی ہوئی آگ کا ایک نمونہ اہلِ زمین کو دکھا دیا۔

 

یہ دہکتی ہوئی آگ ایسی زبردست تھی کہ حفاظت اور سیکورٹی کا بہترین نظام رکھنے والی سپرپاور بھی اِس کے سامنے سرنگوں ہو گئی اور بےبس دکھائی دی۔ انتظامیہ کے حواس مختل ہو گئے اور اُسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا عمل انجام دے۔ افراتفری کا یہ عالم تھا کہ اہلِ علاقہ کو آگ سے خبردار کرنے والا کوئی بھی نظام پوری طرح کام نہیں کر سکا۔ بہت کم لوگوں کو بذریعہ میسج اطلاع ملی۔ اِسی طرح ویب سائٹوں پر بھی الٹے سیدھے بیان جاری کیے گئے۔ غرض  دنیا کا بہترین حفاظتی نظام ایک قدرتی آفت کے سامنے بالکل ناکام ثابت ہوا۔ آگ نے ہائیڈرنٹ یعنی پانی چھڑکنے والا نظام بھی بےاثر بنا ڈالا۔

 

دور کے ڈھول سہانے

 

یہ ناکامی ہم اہلِ پاکستان کو ایک اہم سبق دیتی ہے اور وُہ یہ کہ ہم پاکستانی ترقی یافتہ ممالک کو مثلِ جنت اور وَہاں کی حکومتوں کو ہر خطا سے پاک اور فرض شناس سمجھتے ہیں۔ مگر لاہاینا کا روح فرسا واقعہ آشکار کرتا ہے کہ جب کوئی قدرتی یا غیرقدرتی آفت حملہ کر دے، تو اکثر بہترین نظام بھی اُس کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور کثیر جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ گویا سیکورٹی و حفاظتی نظام کا عمدہ و بہترین ہونا بچاؤ کی قطعی ضمانت نہیں۔ موت نے جب آنا ہو، تو نیویارک ہو یا چک ۲۷۵، ہر جگہ انسان کو دبوچ لیتی ہے۔

 

لاہاینا کی مثال ہی دیکھ لیجیے۔ وہاں قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ ایک ادارہ موجود تھا۔ اُس کا سالانہ بجٹ ایک ارب ڈالر ہے۔ پھر وہاں پولیس، فائربریگیڈ اور خطرے والے الارم کے بہترین نظام کام کر رہے تھے۔ ہر کسی کے پاس انٹرنیٹ موجود تھا۔ غرض ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کا مستحکم بندوبست تھا۔ مگر جب کھڑکھڑانے والی آگ نمودار ہوئی، تو کوئی انسانی تدبیر کام نہ آئی اور وُہ رَاستے میں آئی ہر شے نگلتی چلی گئی۔ حد یہ ہے کہ انتظامیہ منظم انداز میں قصبے سے شہریوں کا انخلا نہیں کر سکی اور کہیں دکھائی نہ دی۔

 

دولت مندوں کی بستی، ہر آسائش سے لیس، جدید ترین ٹیکنالوجی کی فراوانی مگر اُس کے مکین آگ جیسی قدرتی آفت کا ادراک نہ کر پائے جو سیکڑوں میل دور سے نظر آ جاتی ہے۔ جب آگ سر پہ پہنچی، تو ہزارہا لوگ گاڑیوں پر علاقے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ چنانچہ وہاں ٹریفک جام ہو گیا۔ یہ ایک اور مصیبت تھی جو جان بچاتے لوگوں پر نازل ہوئی۔

 

پولیس یہ ٹریفک جام بھی دور نہ کر سکی اور بےبسی کی تصویر بنی قیامتِ ارضی کو دیکھتی رہی۔ جب آگ قریب آ گئی، تو لوگوں نے سمندر میں کود کر جانیں بچائیں۔ آگ کی چنگاریوں نے ساحل پر کھڑی کشتیوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ حتیٰ کہ پانی میں بھی اُس نے انسانوں کی جان نہ چھوڑی، چنگاریوں نے کئی لوگوں کے جسم جھلسا دیے۔

 

غرض لاہاینا کی آگ نے پوری امریکی قوم کو دم بخود کر دیا اور اُنھیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ تادمِ تحریر اِس سانحے میں ۱۱۵؍افراد جاں بحق ہو چکے جبکہ ایک ہزار سے گیارہ سو کے درمیان مرد و زن کی کچھ خبر نہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا، وہ مر گئے یا زندہ ہیں اور کس حال میں ہیں۔اس سانحہ عظیم کی وجہ سے تقریباً چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

 

سازشی نظریے

 

واقعے کی ہولناکی نے سازشی نظریات کو بھی جنم دے دیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ آگ اُمرا کے ایک گروہ نے حکومت کی آشیرباد سے لگائی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لاہاینا کو ایک ’’سمارٹ سٹی‘‘ بنایا جا سکے جہاں حکومت ہر باشندے کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے گی۔ تاہم دانش وروں کی اکثریت نے اِس سازشی نظریے کو بےبنیاد قرار دِیا۔ یہ دعویٰ بھی ہوا کہ امریکی حکومت نے علاقے میں ایک ’’خفیہ ہتھیار‘‘ کا تجربہ کیا ہے۔

 

امریکی دانش ور اَپنے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ سازشی نظریات پھیلانے سے باز رہیں کیونکہ اِن کے نتائج عموماً تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً سابق امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ نظریہ پھیلایا کہ امریکا میں غیرسفید فام اقوام کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وُہ مملکت پر قبضہ کر لیں گے۔ چنانچہ پچھلے چند سال سے کٹر سفید فام ہتھیار تھام کر کئی غیرسفید فاموں کو ہلاک کر چکے۔ نیز امریکا میں تعصب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

 

لاہاینا کی آگ کے بطن سے جدید امریکی تاریخ میں سب سے بڑے سانحے نے جنم لیا۔ طوفانی آگ نے دو ہزار سے زائد مکان برباد کر ڈالے۔ قصبے کا بیشتر حصّہ تباہ ہو گیا۔ جو مکان بچ گئے، وہ بھی مرمت کے بعد ہی قابلِ رہائش ہوں گے۔ یوں چند گھنٹوں میں آتشِ عظیم نے لاہاینا کو تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالا۔

 

انسانوں سے خالی شہر

 

گھاس میدانوں اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کئی مغربی ممالک میں جنم لے رہے ہیں۔  یلو نائف (Yellow Knife) کو لیجیے جو کینیڈا کے وفاقی علاقے، نارتھ ویسٹ ٹیریٹیز کا صدر مقام ہے۔بڑے پُرفضا اور سرسبز و شاداب علاقے میں آباد ہے۔ چہار جانب خوبصورت جھیلیں، بلند پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں۔ یلو نائف میں بستے بیس Urdu Digest- Fiery Tale of America's Historic Landmark and a Tourist Haven Turned Inferno ہزار مرد و زَن ہنسی خوشی زندگی گزار رَہے تھے کہ اچانک اوائل اگست سے ایک خوفناک قدرتی آفت نے اُنھیں آن دبوچا۔

 

ہوا یہ کہ اِس کے مضافات میں پھیلے وسیع وعریض سلسلہ ِ جنگلات میں زبردست آگ بھڑک اٹھی۔ یہ آتشِ جنگل ایسی ہیبت ناک تھی کہ شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ آگ یلو نائف کی جانب بڑھنے لگی۔ اہلِ شہر میں تو کھلبلی مچ گئی اور سبھی جان و مال بچانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ ۲۰؍اگست تک تقریباً سارا شہر خالی ہو گیا۔یہ باشندے اس لیے خوش قسمت رہے کہ بر وقت خطرے کے ادراک سے اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔

 

اِس موقع پر سبھی شہری خوف و بےبسی کی تصویر بنے دکھائی دیے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جنگل کی بظاہر عام سی آگ روزمرہ زندگی تلپٹ کر دے گی۔ یلو نائف ہی نہیں، اِس سال کینیڈا کے کئی شہروں اور قصبات میں آباد لاکھوں شہری جنگلوں میں لگی آگ سے متاثر ہوئے۔

 

غرور پاش پاش

 

گلوبل وارمنگ یا عالمی گرمائو کے باعث آب و ہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی ملکوں میں واقع گھاس میدان اور جنگلات بھڑکتی آگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شمالی امریکا اور یورپ کے کئی ممالک میں بھڑکتی یہ آگ مگر دانا و بینا لوگوں کو یہ اہم سبق بھی دے گئی کہ انسان ربِ کائنات کی ہمسری و گستاخی کی جرأت نہ کرے، تو اِسی میں اس کی بھلائی ہے۔

 

امریکی و یورپی حکمران اِس غرور و تکبر میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اُنھوں نے قدرت کی سبھی قوتوں کو مسخر کر لیا۔ مگر جنگلات میں بھڑکتی آگ نے دنیا والوں پر آشکارا کیا کہ سب سے بڑی سپرپاور کا حفاظتی نظام بھی اتنا ناکارہ اَور بیکار ہے کہ ایک عام قدرتی آفت کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ جیسے ۲۰۰۱ء میں افغانستان سے انخلا کے وقت امریکیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے، اِسی طرح جنگلوں میں لگی آگ کے سامنے بھی اُنھوں نے خود کو بےبس و بےکس پایا۔ آگ، سیلاب، گرمی اور طوفانوں جیسی قدرتی آفات نے امریکا و کینیڈا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کے حفاظتی و سیکورٹی  نظاموں کو اُڑا کر رکھ دیا جو بہت مضبوط  و مستحکم سمجھے جاتے تھے۔

 

قدرت کی ’’ری سیٹنگ‘‘

 

حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ڈھائی تین سو برس سے انسان نت نئے  لحاظ سے قدرت کے ساتھ جو کھلواڑ کر رہا تھا، وہ اَب اپنا رنگ دکھانے لگا ہے۔ آب و ہوائی تبدیلیاں، سمندری طوفان، تیز و تند سیلاب، گرمی کی شدید لہریں، قحط سالی اور خوفناک بارشیں اِسی امر کی نشانیاں ہیں کہ قدرت اپنے آپ کو ’’ری سیٹ‘‘ کر رہی ہے۔ جیسے موبائل کی فیکٹری سیٹنگ کی جائے، تو وہ نیا ہو جاتا ہے، اِسی طرح قدرت بھی اپنی تعمیرِ نو کر رہی ہے تاکہ انسانی سرگرمیوں سے جنم لینے والی خرابیاں دور کر سکے ….. لیکن اِس دوران کوئی بھی غیرمتوقع عظیم واقعہ جنم لے سکتا ہے، ایسا واقعہ جو شاید دنیا کو ہلا ڈالے۔

 

آج ہر ملک میں عوام و خواص معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل میں گرفتار ہیں۔ کہیں مہنگائی عام آدمی پر بوجھ بنی ہے، تو کہیں حکمران طبقے کے طاقتور اَرکان کی لڑائی نے معاشرے کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر ۹؍اگست کو وسطی امریکا کی مملکت، ایکواڈور میں دن دیہاڑے صدارتی انتخابات میں حصّہ لینے والے امیدوار، فرنینڈو ویلنسیا کو قتل کر دیا گیا۔

 

ویلنسیا ایک صحافی تھا جو پیشہ ورانہ زندگی میں کرپٹ جرنیلوں، سیاست دانوں، ججوں اور سرکاری افسروں کی کرپشن افشا کرتا رہا۔ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں شامل کسی طاقتور شخصیت نے اُسے قتل کرا دِیا تاکہ وہ صدر بن کر بےایمان لوگوں کے خلاف سرگرم نہ ہو سکے۔اسی طرح کئی ممالک میں ’’وسل بلوئروں‘‘ کے قتال عام ہو رہے ہیں جو بااثر شخصیات کے جرائم طشت از بام کرتے ہیں۔

 

ڈرامائی گریٹ گیم

 

اُدھر برِاعظم افریقا میں عالمی طاقتوں کی ڈرامائی ’’گریٹ گیم‘‘ جاری ہے۔ افریقا میں قیمتی قدرتی وسائل وافر موجود ہیں۔ اُن پر غلبہ پانے کی خاطر روس و چین اور اَمریکا و یورپ کے مابین خفیہ و عیاں جنگ چھڑ چکی۔ حال ہی میں نائیجر میں فوجی انقلاب لا کر روس و چین نے ایک اہم لڑائی جیت لی۔ معزول نائیجر صدر اَمریکا کا حامی تھا۔ وہ دَرپردہ اَمریکی مفادات کے لیے کام کر رہا تھا۔ تاہم جرنیلوں کو اُس کا امریکی ایجنٹ ہونا ایک آنکھ نہ بھایا۔ لہٰذا رُوسیوں اور چینیوں کی شہ پا کر اُنھوں نے امریکی پٹھو صدر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ نائیجر کے پڑوسی ملکوں، مالی اور چاڈ میں بھی مغرب کے کٹھ پتلی حکمرانوں کا بوریا بستر گول کیا جا چکا۔

 

برِاعظم افریقا ہی نہیں، یورپ، بحیرہ قطب شمالی، مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور بحر الکاہل جیسے وسیع و اَہم علاقوں میں درج بالا متحارب سپر طاقتیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ اُن کا یہ ٹکراؤ بھی دنیا میں عظیم تبدیلیاں لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ روس و چین کی وضع کردہ تنظیم، برکس کا پھیلائو بھی اس لڑائی کی ایک کڑی ہے۔

 

ارجنٹائن کا عروج وزوال

 

بڑھتی مہنگائی کئی ممالک میں سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بڑے ممالک میں ارجنٹائن سرِفہرست ہے جہاں مہنگائی نے عام آدمی کو چکرا کے رکھ دیا۔ وہاں شرح مہنگائی ۱۱۳ فی صد ہو چکی جو ونیزویلا (۴۰۰ فی صد) اور زمبابوے (۱۷۲ فی صد) کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اِن کے بعد سوڈان (۷۲ فی صد) اور ترکیہ (۴۸ فی صد) کا نمبر آتا ہے۔ ارجنٹائن میں شرح ٔ سود بھی ۱۱۸ فی صد ہے۔ یہ زمبابوے (۱۵۰ فی صد) کے بعد دنیا کی بلند ترین شرح ہے۔

 

ارجنٹائن کا معاملہ یوں بھی عجیب و غریب ہے کہ اوائل بیسویں صدی تک یہ ترقی یافتہ اور خوشحال ملک تھا۔ پھر حکمران طبقے کے ارکان کی کرپشن اور باہمی لڑائیوں نے اِسے زوال پذیر کر دیا۔ یہ زوال اب اِس جنوبی امریکن مملکت کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ حتیٰ کہ آج ساڑھے چار کروڑ آبادی میں سے نصف غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی۔ یہ عروج سے زوال تک کی عبرت ناک داستان ہے۔

 

حکمران طبقے کی نااہلی، خراب انتظامِ حکومت اور کرپشن کی فراوانی کے باعث ہی عوام اگلے صدارتی انتخاب میں انتہا پسندانہ معاشی نظریات رکھنے والے ایک رہنما، جاوئیر میلسی کو نیا صدر بنانے کے درپے ہیں۔ اگر یہ شخص حکمران بن گیا، تو ارجنٹائن میں انوکھا معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔

 

مثال کے طور پر جاوئیر مملکت کامیلسی اسٹیٹ بینک ہی ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ من پسند کرنسی خصوصاً امریکی ڈالر استعمال کر سکیں۔ وہ اپنے مرکزی بینک کو ’’بدترین ‘‘کہتا ہے۔وہ نقصان میں چلتے سرکاری اداروں کی نج کاری چاہتا ہے۔ نیز بہت سی وزارتیں اور سرکاری محکمے ختم کرنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ حکومتی اخراجات کم ہو جائیں۔ جاوئیر میلسی کی پوٹلی میں ایسے کئی انوکھے ٹوٹکے پوشیدہ ہیں۔یہ لیڈر گویا ارجنٹائن کا ڈونالڈ ٹرمپ ہے، ایک غیر روایتی سیاست دان جس کا تجربہ بہرحال امریکی قوم کو خاصا مہنگا پڑا۔اور وہ اب بھی درد ِسر بنا ہوا ہے۔

 

وطن عزیز کو درپیش چیلنج

 

اہلِ پاکستان کے سامنے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ اپنے وطن کو دُنیا میں جنم لیتی عظیم تبدیلیوں سے کیونکر محفوظ و مامون رکھا جائے۔ یہ امید افزا بات ہے کہ وطنِ عزیز کی نگران وفاقی کابینہ میں کئی چہرے متنازع نہیں ہیں۔ وہ اَچھے اعمال اور عمدہ کردار کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل ہیں۔

 

عالمی حالات و وَاقعات دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے مقتدر اَور سمجھ بُوجھ رکھنے والے حلقے ایسی حکمتِ عملی وضع کریں، ایسی پالیسیاں تشکیل دیں، ایسے اقدامات اٹھائیں کہ پاکستان کسی بڑی مشکل میں گرفتار نہ ہونے پائے۔وطن عزیز پہلے ہی ان گنت مسائل میں گرفتار ہے۔ انھیں حل کرنے کی خاطر پوری قوم کو تمام اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونا پڑے گا، تبھی اندھیرے میں اُمید کی کرنیں دکھائی دیں گی۔

 

مثال کے طور پر وطنِ عزیز میں مہنگائی بڑھنے کی دو بنیادی وُجوہ ہیں: ایندھن (پٹرول، بجلی، گیس) اور اَشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ۔ اگر یہ اضافہ کم ہو جائے، تو مہنگائی کو قابو کرنا آسان ہو جائے گا اور اِس سے پاکستانی عوام کا بھلا ہو گا۔ مثلاً پاکستان مقامی سستے کوئلے سے زیادہ بجلی بنانے لگے، تو اِس کی قیمت کافی کم ہو سکتی ہے۔ یوں بجلی کے بل کم ہونے سے عوام کو سکون ملے گا جو بِلوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔

 

بھارت نے کچھ عرصہ چاول (اور چینی ) برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ مدعا یہ تھا کہ مقامی منڈی میں چاول کی قیمت کم ہو جائے۔ یہ بھارتی حکومت کا مستحن اقدام تھا جو عوام کی فلاح کے لیے اٹھایا گیا۔ پاکستان کو بھی اُس کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔ جو اَشیائے خور و نوش زیادہ مقدار میں پیدا ہوں، اُنھیں تو مناسب مقدار میں برآمد کرنا ممکن ہے۔ لیکن جن اشیا کی پاکستان میں قلت ہے یا اُن کی قیمت کافی زیادہ ہے، تو اُنھیں محض ڈالر پانے کے لیے برآمد کرنا عوام دشمن فیصلہ ہو گا۔

 

 پچھلے دنوں چند ہفتوں سے چینی کی قیمت ۹۰ روپے سے ڈیڑھ سو روپے کے قریب جا پہنچی۔ اِس دوران چینی کی برآمد جاری رہی جس نے قیمت بڑھانے میں اپنا کردار اَدا کیا۔ اگر حکومتِ پاکستان، بھارت کی طرح چینی کی برآمد پر پابندی لگا دیتی، تو قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ نہ ہوتا۔شنید ہے کہ قیمت دو سو روپے کلو تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest