fbpx

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی تھے۔ اُنھیں علم تھا کہ سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں مگر کسی پر یہ بات ظاہر نہ کی۔ جب چھپانا ممکن نہ رہا، تو اَپنے بیٹے کے پاس کینیڈا چلے گئے۔ اُن کا علاج ہوا۔ وہ تادمِ آخر سرطان کا مقابلہ کرتے رہے۔ زندگی کے بقیہ لمحات اہلیہ اور بچوں کی معیت میں بسر کیے اور پھر اپنے ربِ حقیقی سے جا ملے۔ یوں وطنِ عزیز کے ایک بڑے انسان اور اَداکار کا باب ختم ہوا۔
قوی صاحب اِس لیے یاد آئے کہ اُن کی اکلوتی بیٹی، مدیحہ اور میری اہلیہ بچپن کی سہیلیاں ہیں۔ مدیحہ امریکا میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ اَپنی دختر، نیہا اور دَاماد اِدریس سرور کے ہمراہ پاکستان تشریف لائیں۔ اِس موقع پر ہم نے اہور کے معروف ریستوران، سپائس بازار میں دعوت کا اہتمام کیا۔ یہ میری مدیحہ کے بچوں سے پہلی ملاقات تھی۔
دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ ادریس سرور بار بار اِصرار کرتے تھے کہ پاکستان جانا ہے۔ لہٰذا ساس داماد اَور بیٹی کو آبائی وطن دکھانے لے آئیں۔ ادریس برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ والدین نے بھی وہیں جنم لیا۔ دادا اَلبتہ اوکاڑہ سے ہجرت کر کے انگلستان جا بسے تھے۔ اب وہاں اُن کی اگلی نسلیں پھل پھول رہی ہیں۔
ادریس نے یونیورسٹی آف واروِک (Warwick) سے سیاسیات اور علمی امور میں گریجویشن کر رکھی ہے۔ تاہم بہ لحاظِ پیشہ وہ سٹریٹیجی (strategy) کنسلٹنٹ ہیں۔ کئی برطانوی و اَمریکی کمپنیوں میں کام کر چکے جہاں اِنھوں نے کاروبار بڑھانے اور اُسے ترقی دینے کے ذمےدار شعبوں میں اہم عہدوں پر کام کیا۔ اِس وقت ایک امریکی کمپنی، زیڈ ایس ایسوسی ایٹس سے وابستہ ہیں۔
قوی خان کی نواسی، نیہا ادب میں ماسٹرز کرنے لندن آئی تھیں۔ وہیں اِن کی ملاقات ادریس سے ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے، ساتھ عمر گزارنے کا عہد و پیمان کیا اور شادی کے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔
ادریس نے بتایا کہ وہ پاکستان اور پاکستانی قوم سے ازحد متاثر ہوئے ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ عام تاثر یہ ہے، پاکستان زوال پذیر مملکت بن رہا ہے۔ اِس کے بارے میں ہر قسم کی منفی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی جوہرِ قابل اپنا دیس چھوڑ کر دیارِ غیر جا رہے ہیں۔ ایسی گھمبیر صورتِ حال میں کسی پاکستانی نژاد برطانوی کا پاکستان کے لیے تعریفی کلمات کہنا اچھنبے کی بات تھی۔
امریکا اور برطانیہ کے علاوہ اِدریس مصر، مراکش اور یوگنڈا کی کمپنیوں سے منسلک رہ چکے۔ گویا وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ملکوں کی معاشی صورتِ حال سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ جبکہ پاکستان کا حقیقی مسئلہ ہی معیشت میں بگاڑ بن چکا۔ اِسی لیے پاکستان کے معاشی حالات پر ادریس نے اطمینان و خوشی کا اظہار کیا، تو تب بھی مَیں چونک گیا۔
ادریس کہتے ہیں ’’پاکستان کی ترقی نے مجھے دو اِعتبار سے دنگ کر دیا۔ اوّل یہ درست ہے کہ ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان کئی معاشی و سیاسی مسائل سے دوچار ہے۔ دیارِ غیر میں، مَیں اِس کے بارے میں اچھی بری باتیں سنتا ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے آبائی وطن آ کر مَیں نے اپنی آنکھوں سے صورتِ حال کا جائزہ لیا، تو اِس مملکت، لوگوں اور صنعت و تجارت کی جدت و ندرت نے مجھے حیران کر ڈالا۔
’’دوم مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پاکستان میں اَن گنت مصنوعات بنتی ہیں۔ یہاں کے بہت سے مرد و زن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ اِیجادات و اِختراعات کرنے میں منہمک ہیں۔ پھر پاکستانیوں کی اکثریت اپنے وطن سے محبت رکھتی اور اِس کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے۔
’’مَیں دنیا کے کونے کونے میں گھوما ہوں۔ لیکن اپنے آبائی وطن میں خوبصورتی، تاریخ، مہمان نوازی اور محنتی لوگوں کا جو زبردست امتزاج پایا ہے، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا اور مَیں اِس غیرمعمولی پن پر فخر و اِنبساط محسوس کرتا ہوں۔
’’مَیں اپنے تعلیمی اور عملی تجربے کی بنیاد پر محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان ’ٹیک آف‘ کے لیے تیار ہے۔ اِس کی ترقی و خوشحالی کا دور شروع ہونے والا ہے۔ یہ ملک سربلندی و کامیابی پانے کی خاطر اڑان بھرنے ہی والا ہے۔ یہ تعلّی نہیں بلکہ زمینی حقائق اِس طرف اشارہ کرتے ہیں۔
’’ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں پڑھایا جاتا ہے کہ ایک غریب ملک معاشی ترقی کے پانچ مراحل سے گزر کر ایک طاقتور وَ خوشحال مملکت بنتا ہے۔ اِن مرحلوں میں آخری مرحلہ وہ ہے جب کہا جاتا ہے کہ ملک ’ٹیک آف‘ کے لیے تیار ہے۔
’’مراد یہ ہے کہ مملکت کے شہریوں کا معیارِ زندگی بھی اب ترقی یافتہ ممالک کے باسیوں جتنا بلند ہو گیا ہے۔ ملک میں صنعت و تجارت اور کاروبار بھی اتنی ترقی کر چکے کہ اِس کا شمار اَب ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں کیا جا سکتا ہے۔
’’کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کا دارومدار اِس امر پر ہے کہ اِن چار شعبوں میں کتنی سرگرمیاں جاری ہیں: اوّل بنیادی یا پرائمری یعنی زمین سے وسائل نکالنا، دوم ثانوی یا سیکنڈری یعنی قدرتی وسائل سے مصنوعات بنانا، سوم Tertiary یعنی دوسروں کو خدمات یا سروسز فراہم کرنا اور چہارم Quarternary یعنی ہائی ٹیک اور تحقیق پر مبنی کام کرنا۔
’’مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ پاکستان میں درج بالا چاروں شعبوں میں سرگرمیاں جاری ہیں۔ مثلاً یہ دیس گندم، چاول، کپاس، گنے، چنے وغیرہ وسیع پیمانے پر پیدا کرتا ہے۔ اِن اشیا سے پھر مختلف چیزیں مثلاً آٹا، ملبوسات، چینی بنتی ہیں۔ پاکستانی کمپنیاں پاکستان ہی نہیں بیرون ممالک میں بھی کلائنٹس کو سروسز فراہم کر رہی ہیں۔ اِسی طرح ہائی ٹیک اشیا اور خدمات فراہم کرنے کا شعبہ بھی پھلنے پھولنے لگا ہے۔
’’پاکستان میں دورانِ قیام مجھے چاروں شعبوں سے منسلک پاکستانیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا سنہرا موقع ملا۔ اُن کی پُرامید باتوں نے مجھے یقین دلایا کہ پاکستان عنقریب نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔
’’جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ چین، روس، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ اِس کی افرادی قوت تیزی سے ہنرمند بن رہی ہے۔ پاکستان کا انفراسٹرکچر ترقی کر رہا ہے۔ اِس کے مقابلے میں کئی ترقی پذیر ممالک اچھی شاہراہیں بھی نہیں رکھتے اور اُن کا انفراسٹرکچر بھی زیرِ تکمیل ہے۔
’’جزئیات کی حد تک بھی پاکستان دیگر اُبھرتے ممالک سے ممتاز و توانا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بازاروں میں چہل پہل ہے اور وُہ اَشیائے ضروریہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ مجھے مصر اور مراکش کے بازاروں میں بھی اتنی متنوع اور رَنگارنگ چیزیں نظر نہیں آئیں۔ حالانکہ بظاہر وہاں فی کس آمدن پاکستان سے زیادہ ہے۔ مگر یہ ملک اتنی زیادہ چیزیں باہر سے منگواتے ہیں کہ ملکی معیشت ٹیک آف نہیں کر پاتی۔
’’غرض پاکستان کو دیکھ اور پاکستانیوں سے مل کر مَیں مجموعی طور پر بہت متاثر ہوا اَور مجھے ازحد مسرّت بھی ہوئی۔ مَیں دلی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان منازلِ ترقی طے کر رہا ہے۔ مَیں واپس جا کر بھی وطن سے تعلق قائم رکھوں گا تاکہ ہر ممکن طریقے سے اِس کے کام آ سکوں۔‘‘

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Buy Urdu Digest