fbpx

گھڑیاں مرمت کرنے والے کا بیٹا نامور بلے باز کیسے بنا

Urdu Digest August 2023- Babar Azam's Inspirational Journey of Struggle and Triumph, Conquering Numerous Challenges.

بابر اعظم کی یادگار داستان ِجہد جسے کامیابی پانے میں کئی دشواریوں اور رکاوٹوں سے نبردآزماہونا پڑا

ایڈرین سی مور اَمریکا کی سیاہ فام اداکارہ ہے۔ یہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔ بچپن سے اداکاری میں دلچسپی لینے لگی۔ اُس نے پھر ایک تربیتی ادارے میں اداکاری سیکھی۔ معمولی ملازمتیں کر کے فیس ادا کی۔ اِس دوران اُسے بہت مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ایڈرین کی جدوجہد جاری رہی اور اُس نے ہمت نہ ہاری۔ آج وہ معروف امریکی اداکارہ ہے۔ اُس کا دلکش قول ہے:

’’حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کو اَپنی زندگی میں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عام طور پر انسان یہ نہیں جان پاتا کہ دوسرا شخص کس قسم کے مصائب اور پریشانیوں سے نبردآزما ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر کامیاب انسان کی مسکراہٹ کے پیچھے جدوجہد و محنت کی لازوال داستانیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔‘‘

یہ قول بابر اعظم پر بھی فِٹ بیٹھتا ہے جس کا شمار آج دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ بابر نے بھی بچپن سے بلے باز بننے کا سپنا اپنے دل میں بسا لیا۔ پھر اِس خواب کو عمل میں ڈھالنے کی خاطر وہ تگ و دو میں لگ گیا۔ اُس کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں۔ کئی بار محسوس ہوا کہ وہ اَب مزید آگے نہیں جا سکتا۔ مگر بابر نے حوصلہ نہیں ہارا اَور جدوجہد کرتا رہا۔ اُس نے محنت، استقلال اور ثابت قدمی سے کام لیا۔ آج اُس کی بھی کامیاب مسکراہٹ کے پیچھے طویل داستانِ جہد پوشیدہ ہے۔

بابر کی شبانہ روز جدوجہد رنگ لائی اور وُہ دُنیا کا مایہ ناز بیٹسمین بننے میں کامیاب رہا۔ یہ اُس کی محنت کا خوبصورت صلہ ہے جو اَللہ تعالیٰ نے اُسے عطا فرمایا۔ یہ امر باعثِ تحسین ہے کہ شہرت، عزت اور دَولت پا کر بابر آپے سے باہر نہیں آیا اور آج بھی ایک منکسر مزاج اور سادہ اِنسان ہے۔ اُس کی داستانِ حیات آشکارا کرتی ہے کہ ایک کامیاب انسان کے پسِ پشت عموماً جدوجہد، محنت اور تگ و دَو کے کئی واقعات موجود ہیں۔ تبھی کامیابی اُس کے قدم چومتی ہے۔ جدید چین کے معمار ماؤزے تنگ کا قول ہے ’’جب انسان جستجو و کوشش میں لگ جائے، تب کوئی بھی کرشمہ انجام دینا ممکن ہے۔‘‘

صبر شکر ہمارے ساتھی

بابر اعظم ۱۵؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کو لاہور میں پیدا ہوا۔ یہ گھرانا اندرونِ شہر میں مقیم تھا۔ والد، اعظم صدیقی کا تعلق مخصوص لاہوری خاندان سے تھا۔ وہ ایک سرکاری ادارے میں پڑھاتے تھے۔ تنخواہ مگر کافی کم تھی۔ اِسی لیے اُنھوں نے گھڑیاں مرمت کرنے والی چھوٹی سی دکان بھی کھول لی۔ یوں ضروری گھریلو اخراجات پورے ہونے لگے۔ مگر کوئی زائد خرچ آ جاتا، تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ بہرحال گھرانا صبر شکر سے زندگی گزار رَہا تھا۔

اعظم صدیقی کے بڑے بھائی، محمد اکمل صدیقی ایک کرکٹ اکیڈمی کے منتظم تھے۔ اُنھوں نے اپنی نگرانی میں اپنے ایک بیٹے، کامران اکمل کو کرکٹ سکھائی اور اُسے عمدہ بلے باز اور وِکٹ کیپر بنا دیا۔ جب بابر آٹھ سال کا تھا، تو ۲۰۰۲ء میں کامران اکمل کو پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ کامران کا چھوٹا بھائی، عمر اکمل بھی ایک عمدہ بیٹسمین ہے۔

باپ مددگار بن گئے

چچازاد بھائیوں کو کھیلتا دیکھ کر بابر بھی بچپن سے کرکٹ میں دلچسپی لینے لگا۔ اُس نے محلے کی گلیوں میں کھیل کا آغاز کیا۔ اعظم صدیقی روایتی والد کی طرح نہیں تھے جو بچوں پر عموماً اپنی مرضی ٹھونس دیتے ہیں۔ اُنھوں نے دیکھا کہ بابر کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی لیتا ہے، تو وہ بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ یہی نہیں، وہ اُس کے ساتھی و مددگار بن گئے۔

باپ کی مدد پا کر بابر کو بہت اعتماد حاصل ہوا۔ اب اُسے گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِس امر نے نوجوان لڑکے کا بہت حوصلہ بڑھایا۔ بابر نے ہر قیمت پر بہترین بلے باز بننے کا تہیہ کر لیا تاکہ اپنے اور وَالد کے خوابوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے، تاہم اِس خواب کی تکمیل میں پیسوں کی کمی آڑے آ گئی۔
دراصل بابر والدین کا دوسرا بیٹا ہے اور جب اُس نے ۲۰۰۴ء سے باقاعدہ کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا، تو بابر کے دو اَور بھائی بہن تولد ہو چکے تھے۔ یوں چھ افراد وَالے گھرانے کے اخراجات بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ اتنی رقم نہ ہوتی کہ بابر کے لیے اچھی قسم کا بلا اور گیند خریدا جا سکے۔

اچھے والدین

بابر کی خوش قسمتی کہ اُسے ہمدرد وَ بہترین والدہ بھی نصیب ہوئیں۔ والدہ روزمرہ اَخراجات سے کچھ رقم بچا لیتی تھیں۔ یہ رقم پھر بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی۔ بچائی گئی رقموں ہی سے وقتاً فوقتاً بابر کے لیے بلا، گیند، گلوز وَغیرہ خریدے گئے۔ یوں والد کے ساتھ ساتھ نرم و شفیق والدہ بھی بیٹے کی مدد کرتی رہیں تاکہ وہ اَپنے سارے خواب پورے کر سکے۔

ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی والدین کی خواہشات کے برعکس اپنا کوئی راستہ چُن لے، تو اُس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ والدین ہی نہیں سارے خاندان والے بھی اُسے لعن طعن کرتے ہیں۔ بہت کم والدین بچوں کی تمنا کا احترام کرتے اور پھر اُن کے مددگار بن جاتے ہیں۔ عقلِ سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کی تمناؤں کو اوّلیت دی جائے۔ بےشک وہ ناتجربےکار ہوتے ہیں مگر وقت اُنھیں آخر تجربہ دے ڈالتا ہے۔ پھر بچہ اپنی خوشی سے زندگی کے فیصلے کرتا اور اُن کے اچھے یا خدانخواستہ برے ہونے کا ذمےدار ہوتا ہے۔

بابر تیرہ سال کا تھا کہ ایک کرکٹ کلب میں تربیت پانے لگا۔ کلب والوں نے اُس کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے بہت کم فیس رکھی تھی۔ اعظم صدیقی کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی سی ڈی سیونٹی موٹرسائیکل تھی۔ وہ اُس پہ بابر کو کلب لے جاتے۔ یہی نہیں، وہاں رُک کر بیٹے کا اِنتظار کرتے۔

قدم قدم پہ قربانیاں

کلب والے کبھی کبھی دوپہر کا کھانا کھلاڑیوں کو کھلاتے تھے۔ اُدھر اعظم صدیقی کے پاس صرف ایک انسان کا پیٹ بھرنے کی خاطر رقم موجود ہوتی، لہٰذا جب بابر کو کھانا نہ ملتا، تو وہ اُسے کِھلا دیتے اور یہ بہانہ کرتے کہ اُنھوں نے کھا لیا ہے۔ یوں بیٹے کا مستقبل سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے باپ قدم قدم پر قربانیاں دیتا رہا۔ ایک باپ ہی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دیتا ہے۔

’’بال پکر‘‘(Ball Picker)

اُنہی دنوں ستمبر ۲۰۰۷ء میں جنوبی افریقا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ اُسے لاہور میں ایک ٹیسٹ اور ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے تھے۔ تب کامران اکمل قومی کرکٹ ٹیم کا حصّہ بن چکے تھے۔ اُن کی سفارش پر بابر کو ’’مددگار لڑکے‘‘ کے طور پر رکھ لیا گیا۔ چنانچہ پاکستانی اور جنوبی افریقن ٹیموں کے مقابلوں کے دوران بابر نے مختلف فرائض انجام دیے۔

یہ تجربہ نشوونما پاتے بابر کے لیے خوشگوار ثابت ہوا۔ اُس نے جانا کہ دورانِ کھیل اور عام حالات میں اسٹیڈیم کا ماحول کیسا ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کرکٹ کیونکر کھیلی جاتی ہے۔ بلے بازوں اور بالروں کا کھیل دیکھ کر اُن کی خوبیاں اور خامیاں کیسے جانی جاتی ہیں۔ غرض تیرہ برس کے لڑکے کو ’’مددگار لڑکا‘‘ بن کر بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل گیا۔

جب پاکستانی اور جنوبی افریقن کھلاڑی نیٹ پریکٹس کرتے، تو بابر اُنھیں کھیلتے ہوئے بغور دَیکھتا۔ جنوبی افریقن ٹیم میں اُس کا پسندیدہ بلے باز، اے بی ڈی وِیلیرز بھی شامل تھا۔ بابر اُس کے کھیلنے کی تکنیک غور سے دیکھتا۔ یوں وہ مشاہدے کی اپنی قوت سے بھی کرکٹ کے اسرار و رُموز جاننے کی جدوجہد کرتا رہا۔

ایک بار بابر نے باؤنڈری پر جنوبی افریقن کھلاڑی کا مارا چھکا کیچ کر لیا۔ اُس نے جس مہارت و آسانی سے کیچ پکڑا، اُسے دیکھ کر ایک جنوبی افریقن کھلاڑی، جے پی ڈومنی نے پیش گوئی کی کہ یہ لڑکا ایک دن عمدہ کرکٹ کھلاڑی بنے گا۔ اُسے یقیناً خبر نہ تھی کہ یہ پیشین گوئی ایک دن زبردست طریقے سے پوری ہو کر رہے گی۔

عجب اتفاق کہ لاہور میں کھیلا گیا ٹیسٹ ممتاز پاکستانی بلے باز، انضمام الحق کا آخری میچ تھا۔ اُنھیں جاوید میاں داد کا ریکارڈ توڑنے کے لیے صرف ۲ رن بنانے تھے۔ تین رن بنا کر وہ پاکستانی ٹیسٹ میں سب سے زیادہ سکور بنانے والے بلے باز کا اعزاز حاصل کر لیتے۔ مگر انضمام صرف ۲ رن نہ بنا پائے۔ بابر اُس وقت ڈریسنگ روم میں موجود تھا جب انضمام آؤٹ ہو کر واپس لَوٹے۔ وہ بتاتا ہے کہ انضمام بہت غمگین اور اُداس تھے۔ اُنھیں افسوس تھا کہ وہ صرف دو رَن نہ بنا پائے۔

بابر بڑی محنت سے کرکٹ کھیلتا رہا۔ مسلسل مشق کی بدولت اُس کا کھیل بہتر ہونے لگا۔ وہ چوکے چھکے مارنے والا نامور بلے باز بن گیا۔ اب لاہور کے مشہور کرکٹ کلب اُسے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کی تگ و دو کرنے لگے۔ اپنے شاندار کھیل کی بدولت وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ اُن لوگوں کی نظروں میں بھی آ گیا جو اُبھرتے جوہرِ قابل کی تلاش میں رہتے تھے۔ لہٰذا ۲۰۰۷ء ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام کھیلی جانے والی انڈر ۱۵؍ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں اُسے بھی شامل کر لیا گیا۔

جوتے نہیں ہیں

ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں کھیل کے مطلوبہ جوتے پہن کر ہی کھلاڑی شریک ہو سکتے تھے۔ یہ جوتے خاصے مہنگے تھے۔ اِس لیے اعظم صدیقی نے کوشش کی کہ اُن کا کوئی بھتیجا (کامران یا عمر اکمل) اپنے کرکٹ جوتے بابر کو مستعار دَے ڈالے۔ کہتے ہیں کہ دونوں بھتیجوں نے انکار کر دیا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس مطلوبہ جوتے موجود نہیں۔

بابر اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ابّا کو اَپنے بھتیجوں سے جوتے نہیں مانگنے چاہئیں تھے۔ اُن کے انکار سے ہمیں بےعزتی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب مَیں نے عہد کیا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا، بلکہ اپنی محنت و سعی سے ہر شے حاصل کروں گا۔‘‘

ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں بھی بابر نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ اپنے معیاری کھیل کی بدولت وہ اُن سرکاری اداروں کی کرکٹ ٹیموں کے سلیکٹروں کی نگاہوں میں آ گیا جو نوجوان بلے بازوں کو کھوجتے رہتے تھے۔ اب زیادہ اَعلیٰ کرکٹ کھیلنے کے لیے بابر کو ’’کرکٹ کِٹ‘‘ درکار تھی۔ کرکٹ کِٹ میں بلا، گلو، بیٹنگ پیڈ اور دِیگر ضروری سامان شامل ہوتا ہے۔ مگر یہ کرکٹ کِٹ ہزاروں روپے میں آتی تھی اور یہ بابر کے اہلِ خانہ کے لیے بھاری رقم تھی۔

والدہ نے زیور بیچا

والد کی دکان سے تو جو آمدن ہوتی، وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے میں صَرف ہو جاتی۔ تاہم بابر کی والدہ بہترین منتظمہ تھیں۔ وہ اخراجات میں سے کچھ رقم بچا کر محفوظ کر لیتی تھیں۔ اب پھر یہی رقم بابر کے لیے کرکٹ کِٹ خریدنے میں کام آئی۔ مگر یہ رقم کم تھی، اِس لیے والدہ نے اپنا کچھ زیور بھی فروخت کر دیا۔ اِس طرح بابر کے لیے کرکٹ کِٹ کا بندوبست ہوا۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی صورت اولاد کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے۔ ماں باپ نہ صرف اپنے بچوں کو دکھ درد سے دور رَکھنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں بلکہ اُن کی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے اور معاشرے میں بلند مقام پا لے۔

کرکٹ کِٹ پا کر بابر کا کھیل مزید نکھر گیا۔ وہ اَب بآسانی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا۔ ماں باپ کی دعائیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور ۲۰۱۰ء میں زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیم میں اُسے شامل کر لیا گیا۔ یوں صرف سولہ سال کی عمر میں بابر والدین کا کماؤ پوت بن گیا۔ اُسے بینک کی جانب سے مناسب تنخواہ ملنے لگی۔ اب وہ اَپنے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو گیا۔

Urdu Digest August 2023- Babar Azam's Inspirational story of success in cricket stardom قومی کرکٹ میں شمولیت

فرسٹ کلاس کرکٹ نے بابر کا کھیل مزید نکھار دِیا۔ وہ بڑی مہارت اور خوبصورتی سے شاٹس کھیلنے لگا۔ اُسے موقع محل کے مطابق بھی کھیلنا آ گیا۔ جب وکٹیں محفوظ رکھنا ہوتیں، تو وہ سست رفتاری سے کھیلتا۔ اور جب تیز بلے بازی کرنے کا موقع آتا، تو وہ چوکوں چھکوں کی بارش کر دیتا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کھیل کے باعث ہی مئی ۲۰۱۵ء میں بابر کو پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔

بابر نے یہ خبر سنی، تو اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ برسوں کی محنت آخر رنگ لے آئی تھی۔ گھر میں والدین اور بہن بھائی بھی بہت خوش تھے۔ بابر نے پہلا ایک روزہ میچ زمبابوے کے خلاف کھیلا۔ اُس نے صرف ۶۰ گیندوں میں ۵۴ رن بنائے۔ اِس طرح بابر نے پہلے ہی میچ میں ففٹی مار دِی۔

شاندار بلے بازی کی بدولت بابر ایک روزہ کرکٹ کی قومی ٹیم کا مستقل رکن بن گیا۔ اُس نے آنے والے مقابلوں میں ملی جلی کارکردگی دکھائی۔ ۲۰۱۶ء میں ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اُس نے تین ایک روزہ مقابلے پاکستان کے خلاف کھیلے۔ بابر نے تینوں میچوں میں تین متواتر سنچریاں بنا کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہی نہیں، اُس نے تینوں میچوں میں کُل ۳۶۰ رن بنائے۔ یوں وہ ایک روزہ کرکٹ مقابلوں کی تین میچ والی سیریز میں سب سے زیادہ رَن بنانے والا بلے باز بن گیا۔

اکتوبر ۲۰۱۶ء میں بابر نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ ویسٹ انڈین کرکٹ کے خلاف کھیلا۔ اُس میچ میں بابر نے ۶۹ رن بنائے۔ یوں وہ پہلے ٹیسٹ میں ففٹی بنانے میں کامیاب رہا جو اُس کی زبردست صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

رفتہ رفتہ بابر کرکٹ کی تینوں اقسام (ٹیسٹ، ایک روزہ اَور ٹی۔۲۰) میں پاکستانی ٹیموں کا ناگزیر حصّہ بن گیا۔ کل کا جو لڑکا کھلاڑیوں کو گیند اٹھا کر دیتا تھا، اب بہترین بلے باز بن کر دُنیا والوں کو اَپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اُس نے اپنی شاندار کارکردگی سے اپنا اور اَپنے خاندان کا نام ہی روشن نہیں کیا بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی باعثِ فخر بن گیا۔ اُس نے بین الاقوامی کرکٹ میں سبز ہلالی پرچم شان و آن و بان سے لہرا دِیا۔

بابر اعظم کے ریکارڈ

۲۰۱۵ء سے تاحال بابر اعظم اپنی صلاحیتوں کے بَل بوتے پر عالمی کرکٹ میں کئی ریکارڈ بنا چکا۔ اُن کا تذکرہ پیش خدمت ہے:

٭ وہ دُنیا کا واحد کھلاڑی ہے جو ٹیسٹ، ایک روزہ کرکٹ اور ٹی۔۲۰ کرکٹ میں چوٹی کے پانچ کھلاڑیوں میں شامل رہا ہے۔

٭ جنوری ۲۰۱۷ء میں بابر ایک روزہ عالمی کرکٹ میں سب سے زیادہ تیزی سے ایک ہزار رَن بنانے والا کھلاڑی بن گیا۔ اُس نے یہ سکور اِکیس میچوں میں بنائے۔ بعد میں یہ ریکارڈ پاکستانی کھلاڑی، فخر زمان نے توڑ دیا۔ اُس نے ۱۸ میچوں میں ایک ہزار رَن بنا ڈلے۔

٭ اپریل ۲۰۱۷ء میں بابر ابتدائی ۲۵ ایک روزہ میچوں میں سب سے زیادہ رن بنانے والا کھلاڑی بن گیا۔ اُس نے ۱۳۰۶ رن بنائے۔ قبل ازیں یہ ریکارڈ برطانوی کھلاڑی جوناتھن ٹروٹ کے پاس تھا جس نے ۱۲۸۰؍رن بنا رکھے تھے۔

٭ اگست ۲۰۲۰ء میں بابر نے ٹی۔۲۰ کرکٹ میں صرف ۳۹ میچوں میں ۱۵۰۰؍رن مکمل کر لیے۔ صرف بھارتی بلے باز، ویرات کوہلی اور آسٹریلوی بلے باز، ارون فنچ ۳۹

؍اننگوں میں ۱۵۰۰؍رن بنا چکے۔ یہ تینوں اِس ریکارڈ کے مشترکہ مالک ہیں۔
٭ اپریل ۲۰۲۱ء میں بابر ٹی۔۲۰ کرکٹ میں تیز ترین دو ہزار رَن بنانے والا کھلاڑی بن گیا۔ اُس نے یہ کارنامہ صرف ۵۲ اننگوں میں انجام دے دیا۔

٭ ٹی۔۲۰ ورلڈ کپ ۲۰۲۱ء میں بابر نے سب سے زیادہ نصف سنچریاں (۴) اور سب سے زیادہ رَن (۳۰۳) بنا کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔

٭ مارچ ۲۰۲۲ء میں بابر ایک روزہ عالمی کرکٹ میں تیز ترین ۴ ہزار رَن بنانے والا کھلاڑی بن گیا۔ اُس نے ۸۲؍اننگوں میں یہ رن بنائے۔ عالمی ریکارڈ مشہور مسلمان جنوبی افریقن کھلاڑی، ہاشم آملہ کے پاس ہے۔ اُنھوں نے ۸۱؍اننگوں میں ۴ ہزار رَن بنائے تھے۔ یوں صرف ایک اننگ کے فرق سے یہ ریکارڈ برابر نہ ہو سکا۔

٭ اپریل ۲۰۲۳ء میں بابر کو ٹی۔۲۰ کرکٹ میں تین سنچریاں بنانے والے واحد کپتان کا اعزاز حاصل ہوا۔

٭ ستمبر ۲۰۲۲ء میں بابر اعظم نے ۸۱؍اننگیں کھیل کر ٹی۔۲۰ کرکٹ میں تین ہزار رَن بنا لیے۔ اِس سے قبل صرف بھارتی بلے باز، کوہلی نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔

٭ مئی ۲۰۲۳ء میں بابر ایک روزہ عالمی کرکٹ کی تاریخ میں سب سے تیز ۵ ہزار رَن بنانے والا کھلاڑی بن گیا۔ اُس نے صرف ۹۷؍اننگوں میں یہ عالمی ریکارڈ بنایا۔ اُس کے بعد ہاشم آملہ (۱۰۲؍اننگیں)، آسٹریلوی کھلاڑی، ڈیوڈ وارنر (۱۱۵؍اننگیں) اور کوہلی (۱۱۹؍اننگیں) کا نمبر آتا ہے۔

٭ ایک روزہ عالمی کرکٹ میں بابر نے اپنی تیرہویں، چودہویں، پندرہویں، سولہویں اور سترہویں سنچریاں سب سے کم اننگوں میں بنا رکھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول

۲۰۱۲ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بابر اعظم کو ایک روزہ کرکٹ میں ’’بہترین کھلاڑی‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔ اگلے سال کرکٹ کونسل نے اُسے سر گارفیلڈ سوبرز ٹرافی عطا کی۔ بابر سے پہلے شاہین آفریدی یہ ٹرافی جیت چکا۔ ۲۰۲۳ء میں بابر کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔

بابر کرکٹ کھیل اور اشتہاروں میں کام کر کے اب ماہانہ لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ اُس کا شمار دُنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ وہ اَگلے دس سال کرکٹ کھیل کر مزید نئے ریکارڈ بنا سکتا ہے۔ اِس نئی صورتِ حال نے مگر اُسے مغرور و متکبر نہیں بنایا۔ وہ اَب بھی انکسارپسند اور سادہ مزاج ہے۔ یہی اندازِ فکر و عمل ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول بناتا اور اُسے دوسرے انسانوں سے ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest