fbpx

دشت میں نئے گھروں کی بہار

Urdu Digest September 2023- Rebirth of Homes in the Valley of Balochistan

بلوچستان میں سیلاب سے  تباہ شدہ بستیاں مخیر احباب کے تعاون سے دوبارہ تعمیر ہو رہی ہیں

دشت کا صحرا، سیکورٹی کے خدشات، گاڑیوں کا لمبا قافلہ، اے سی سلیم کسٹم کی وردی میں ملبوس سب کو لیڈ کرتے ہوئے۔ پولیس اور ایلیٹ کی گاڑیاں، کسٹم کے چاق و چوبند دستے، کسٹم کے نوجوان سپاہی، اسلحہ سے لیس کسٹم کے آفیسران، بلوچستان گورنمنٹ کی جھنڈے والی گاڑی سمیت دشت کے صحرا تک رواں دواں تھا۔ جب بندہ اللہ کے کام کے لیے نکلتا ہے تو اللہ تکریم کرتے ہیں، عزت دیتے ہیں، ساتھیوں نے دشت جانے سے منع کیا تھا۔ یمنیٰ نے بار بار کہا تھا، بابا دشت نہیں جانا۔ دشت جانا اس  لیے ضروری تھا کہ ایک خواب کی تکمیل دیکھنا تھی۔

 

سال پہلے کوئٹہ سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع دشت کی اجڑی ،برباد بستی کا دورہ کیا تھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ دشت کے گرد و نواح سمندر کا منظر پیش کر رہے تھے۔ حد نگاہ تک پانی ہی پانی تھا۔ توصیف قریشی اور ڈاکٹر عطا الرحمن بتا رہے تھے کہ یہاں آبادبستیاں تھیں۔ لوگوں کے گھر تھے۔ سب پانی میں بہہ گئے۔ بستیاں زیر آب آ گئیں۔ برباد ہو گئیں۔ لوگ گھر سے بے گھر ہو گئے۔ کئی لوگ پانی میں بہہ گئے۔

 

بستے بستے بستی ہیں بستیاں

 

سال پہلے بچ جانے والوں کی اشک شوئی کی تھی۔ ان میں راشن اور ریلیف کا سامان تقسیم کیا تھا۔ خوشیاں بانٹی تھیں۔ ان کے دُکھوں کا مداوا کیا تھا۔ ان کے گھر بسانے کا وعدہ کیا تھا۔ الخدمت کے عبدالمجید سے طے پایا کہ دشت کے علاقہ کلی کلندرانی کی بستی کو دوبارہ بنائیں گے۔ یہاں گھر بنائیں گے۔ ان کے لئے مسجد بنائیں گے۔ توصیف احمد قریشی ریجنل آفس کوئٹہ کے ایڈوائزر ایف ٹی او کی سربراہی میں سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور ریلیف بانٹنے کا سلسلہ مہینوں جاری رہا۔ دشت کوئٹہ سے آتے ہی آواز لگائی۔ ڈاکٹر جنید اصغر ہم دم دیرینہ دوست ، کلاس فیلو نے امریکہ میں’’اپنا‘‘( APPNA)کے ڈاکٹر عائشہ ظفر، ساجد چوہدری سے بات کی۔ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا۔ ادھر پنجاب میں بستی کاشانی کو بنانے کی ذمہ داری فاطمہ جناح میڈیکل کالج المنائی نے لی۔ ’’اپنا‘‘نے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں گھر بنانے کے لیے فنڈز کی فراہمی شروع کر دی۔ الخدمت کے صوبائی صدر عبدالمجید سے بات ہوئی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کے توسط سے عبدالمجید سے گھر بنانے کا معاہدہ ہو گیا۔ انہوں نے دشت میں ہمارے ساتھ گھر بنانے کا وعدہ کر لیا۔ معاہدہ طے پا گیا۔

 

فنڈز کی فراہمی شروع ہو گئی۔ جونہی دشت کے علاقے میں پانی کم ہوا، عبدالمجید نے کام شروع کر دیا۔ کوئٹہ سے سا گھنٹے فاصلے پر واقع دشت کے علاقے میں سیکورٹی خدشات تو موجود ہیں مگر وہاں تک سامان لے جانا، پانی کا انتظام کرنا ۔ جان جوکھوں کا کام تھا۔ دشت کے پہاڑوں سے ہروقت کسی نہ کسی جھڑپ کی اطلاع ملتی رہتی۔ عبدالمجید نے اپنی ٹیم کو یکجا کیا۔ گھر بنانے شروع کر دیے۔ فنڈز کی دستیابی کے ساتھ ساتھ گھر بننا شروع ہو گئے۔ عبدالمجید نے  پہلے سب سے زیادہ مستحق گھرانوں کی فہرست بنائی۔ کام شروع کیا۔ آہستہ آہستہ اجڑی بستیاں آباد ہونے لگیں۔ گھر بننا اور مکمل ہونا شروع ہو گئے۔ آج ان گھروں کو دیکھنے کے لیے دشت میں موجود ہیں۔ کلی کلندرانی میں میلے کا سماں ہے۔ حفاظتی گاڑیوں کے چلو میں ہمارا قافلہ پہنچا۔ کلی کلندرانی کے باسیوں نے اپنے انداز میں تالیاں بجا کر بلوچی میں گیت گا کر استقبال کیا۔ عبدالمجید نے گفٹ پیکس بنائے ہوئے تھے۔ ریلیف کے لیے جہاں بھی چلے جائیں بچے سب سے پہلے جمع ہوتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں۔ اشیاء لے کر خوش ہوتے ہیں۔ بچوں کی خوشیاں دیدنی ہوتی ہے۔

 

اس کے بعد گھروں کا وزٹ کیا۔ آباد گھروں کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہر گھر ایک کشادہ کمرے، کچن اور باتھ روم پر مشتمل ہے، جس میں خاندان کے چھ سات لوگ خوشی خوشی رہ رہے ہیں۔ اس علاقے میں اجڑی ہوئی بستی کو دیکھا تھا۔ آج آباد بستی کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔

 

گھروں کی تعمیر

 

گھروں میں مقیم خاندانوں سے استفسار کیا کہ کیا وہ نئے گھروں میں خوش ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں۔ ہم ’’اپنا‘‘والے نارتھ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی ڈاکٹروں اور الائنس آرگنائزیشن امریکہ کے شکر گزار ہیں اور کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے سب سے زیادہ مشکور ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے گھر بنے۔ دشت لمبا، وسیع و ترین اور لف دق صحرا ہے۔ دُور دُور تک خالی زمین نظر آتی ہے۔ سامنے اونچے لمبے آڑے ترچھے مٹی اور پتھر کے پہاڑ ہیں، جہاں سے ہر دم دھڑ کا لگا رہتا ہے۔ بستی کلی کلندرانی اور بستی گونڈین کے علاوہ حد نگاہ تک کوئی پکا گھر نظر نہیں آیا۔ اس علاقے میں سال بھر سے کام کرتے ہوئے عبدالمجید نے بتایا کہ دشت میں دُور دُور تک آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیلاب زد گان ابھی تک پھٹے ہوئے خیموں میں یا کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا کسی طرف سے انہیں گھر بنانے کے لیے مدد ملی ہے۔ انہوں نے  نہ میں جواب دیا۔

 

دشت اور قریبی سیلاب زدہ علاقوں میں سیلاب زدگان ابھی تک بے گھر ہیں۔ کلی کلندرانی میں آ کر لوگوں کو آباد گھروں میں ہنستا بستا رہتا دیکھ کر دل بہت مطمئن ہوا۔ گھروں کو دیکھنے کے بعد ’’اپنا‘‘کی طرف سے بنائی ہوئی اماں عائشہ صدیقہ کے نام سے بنی ہوئی مسجد دیکھی۔ پیش امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے لحنِ دائودی میں قرآن پاک کی تلاوت کی۔ تلاوت سن کر ایمان تازہ ہو گیا۔ کلی کلندرانی سے آگے کلی گوونڈین کا رُخ کیا۔

 

 کلی کلندرانی میں زیادہ تر گھر’’اپنا‘‘ طرف سے عطیہ کیے گئے۔ لوگوں کو ہنستے بستے گھروں میں رہتے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشیاں دیں اور مزید آفتوں سے بچائے۔ کلی گونڈین میں الائنس آرگنائزیشن امریکہ کی طرف سے  گھروں کے علاوہ خوبصورت مسجد باب الایمان بنائی گئی ہے۔ مسجد میں دو بچیوں نے جو حافظہ قرآن بھی ہیں نے پرسوز لہجے میں تلاوت کر کے سماں باندھ دیا۔ایک بچے نے سیرت رسولؐ پر تقریر کی۔ بچوں کو کیش انعام دیا۔ کلی گونڈین میں اشفاق نے لاہور سے دوائیاں بھجوائی تھیں۔ یہاں میڈیکل کیمپ کا انتظام تھا۔ الخدمت کے ڈاکٹر مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ کیمپ لگا ہوا ہو اور مریضوں کا نہ چیک اپ ہو یہ تو ممکن نہیں۔ الخدمت کے ڈاکٹر کی جگہ بیٹھ کر دشت کے مکینوں کا چیک اپ کیا۔ تھوڑی بہت زبان سمجھ آ رہی تھی۔ ایک دم مریضوں میں مگن ہو گئے۔

 

عبدالقدوس شہید چیک پوسٹ میں جمعہ کی نماز

 

الماس اور شاہد جلدی کرنے کا کہہ رہے تھے مگر دل کر رہا تھا کہ ادھر ہی رہ جائوں ۔ کلی گونڈین سے قافلہ کوہل پور میں موجود ڈاکٹر عبدلقدوس شہید کسٹم چیک پوسٹ پہنچا ،جہاں بلوچستان کسٹم کے چیف کلکٹر اور کسٹم کے اعلیٰ افسران نے استقبال کیا۔ محمد سلیم ملک وضع دار ، مہمان نواز اور اعلیٰ پائے کے کسٹم آفیسر ہیں۔ معاملہ فہم بھی ہیں اور سینئرز کی عزت کرنا جانتے ہیں۔ سلیم صاحب اے سی نے جو سارے آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں ،صفیں بچھا دیں۔ صبح سے سفر میں اور آتے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں اپنی بستیاں دیکھنے میں اتنا مگن ہوئے کہ یاد ہی نہ رہا کہ آج جمعہ ہے۔ سلیم صاحب نے یاد دلایا اور بتایا کہ فکر نہ کریں جا کر جمعہ کی نماز ادا کر یں گے۔ صفیں بچھ گئیں۔ سلیم صاحب نے نیٹ سے خطبہ جمعہ نکال کر دیا۔ ساتھ ہی سٹک بھی دے دی کہ زندگی میں پہلی دفعہ خطبہ جمعہ اولیٰ اور ثانی پڑھا۔ جمعہ کی نماز کی امامت کی۔ اللہ کا شکر ادا کیا جس نے دشت و بیابان میں آنے اور اجڑی بستیاں آباد کرنے کی طاقت اور ہمت عطا کی۔

 

 عبدالقدوس شہید کی یادیں

 

بلوچستان میں سیکورٹی خدشات کے باوجود کسٹم کے لوگ یہاں کام کر رہے ہیں اور اسمگلنگ پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہی کوششوں کے دوران کسٹم کے بہادر اور نیک افسر ڈپٹی کلکٹر کسٹم ڈاکٹر عبدالقدوس شہید نے اپنی جان دے دی۔ ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیے کسٹم کے جاں نثار سپاہی مصروف عمل ہیں اور اس کا نام ڈاکٹر عبدالقدوس شہید چیک پوسٹ رکھا گیا۔ واپسی سے پہلے عبدالقدوس شہید کے لئے دعائے مغفرت کی۔ پانچ بجے کے قریب سیرینا ہوٹل پہنچے۔ مسجد میں عصر کی نماز باجماعت ادا کی۔ تھوڑی دیر آرام کیا۔ شاہد نے بتایا کہ دوسرے محتسبین آ گئے ہیں۔ چھ بجے کانفرنس کا آغاز ہونا ہے۔

 

بلوچستان کے محتسب نذر بلوچ ہمارے میزبان ہیں۔ زندہ دل اور بڑے دل والے ہیں۔ نئے بکنگ محتسب جناب سراج الدین عزیز بھی موجود ہیں۔ پنجاب محتسب کی جانب سے ڈاکٹر جمال یوسف کانفرنس کے لیے آئے ہیں ۔ ملک بھر کے محتسبین کے نمائندگان آئے ہوئے ہیں۔ وقت مقررہ پر کانفرنس شروع ہوئی۔ ایف ٹی ا وکے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی عزت بخشی کہ پاکستان میں محتسبین کے فورم ایف پی او ا صدر بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ملکوں کے محتسبین کی تنظیم OICOAکا جنرل سیکرٹری بنوایا۔

 

پاکستان محتسبین فورم کے تحت کانفرنس کا آغاز

 

تلاوت کلام پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ خطبہ صدارت میں ایف پی اوے اجلاس کی غرض و غایت اور  پچھلے ایجنڈے کے بارے میں بتایا سب سے زیادہ اس ضرورت پر زور دیا کہ محتسبین میں باہمی عمل و اشتراک کی ضرورت ہے۔ مختلف محتسبین کے بارے میں عوام الناس کو باخبر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ محتسب کے اداروں سے رابطہ کر کے فائدہ اُٹھائیں اور ان کے مسائل حل ہوں۔ تمام محتسبین اور ان کے نمائندوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ رات نو بجے تک کانفرنس چلتی رہی۔

 

الخدمت کے ڈاکٹر عطا الرحمن بھی آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عمر فاروق بھی آئے۔ عمر فاروق کے ای کے کلاس فیلو ہیں۔ کے ای کے دنوں میں ان سے روزانہ کلاسوں میں کم مگر مسجد میں ہمیشہ ملاقات رہتی۔ عمر فاروق سے مل کر جوانی کے دنوں کی یادیں تازہ ہو گئیں۔

 

 صبح سویرے ناشتہ کیا اور اگلے دن کی تیاری شروع کی۔ پاکستان میں موجود تمام وفاقی اور صوبائی محتسبین کانفرنس میں شامل ہیں۔ بیکنگ کے وفاقی محتسب، انشورنس محتسب کے نمائندے وفاقی محتسب کے نمائندے سرور بروہی، پنجاب محتسب کی جانب سے ڈاکٹر جمال یوسف ، آزاد جموں و کشمیر کے محتسب چوہدری نسیم ، سندھ محتسب کے مہر صاحب کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ بلوچی روایات کے حامل ہمارے ہم خیال میزبان نذر بلوچ مرنجاں مریخ انسان ہیں۔ وہ خوب باتیں کرتے ہیں۔ محفل کو گرمانے کا فن جانتے ہیں۔

 

گورنر ہائوس بلوچستان میں محتسبین کانفرنس

 

آج کا سیگورنر ہائوس میں منعقد ہونا تھا۔ صبح دس بجے تمام محتسبین کا قافلہ گورنر ہائوس پہنچا ۔ بلوچستان کا گورنر ہائوس ایک تاریخی عمارت ہے۔ آج ہم یہاں گورنر بلوچستان کے مہمان تھے۔ الماس جووندہ نہ صرف ایف ٹی او کے قانونی مشیر ہیں، انہوں نے کئی دوسری ذمہ داریاں بھی سنبھالی ہوئی ہیں۔ وہ کئی دنوں سے نذر بلوچ سے مل کر اس کانفرنس کی تیاری کر رہے تھے۔ نذر بلوچ کے دفتر کے سارے آفیسران اور اہل کاران کانفرنس میں موجود تھے۔ مقررہ وقت پر کانفرنس کا آغاز ہوا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد الماس جووندہ نے کانفرنس کے ایجنڈا کے بارے میں بتایا۔ راقم نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان محتسبین فورم کے تحت اس کانفرنس کا بنیادی مقصد پاکستان بھر کے وفاقی اور صوبائی محتسبین کے درمیان اشتراک عمل پیدا کرنا ہے، تاکہ ان کے کام اور ان کی پرفارمنس سے عوام الناس کو آگاہ کیا جائے۔ ابھی تک محتسبین کے متعلق عوام الناس کو صحیح معلومات مہیا نہیں ہیں۔ محتسبین کے ادارے لوگوں کو سستا ، فوری اور تیز انصاف مہیا کر رہے ہیں۔ انشن  کے مسائل سن کر متعلقہ اداروں کو ان کی بروقت داد رسی کا کہا جاتا ہے۔ محتسبین کی سفارشات پر من و عن عمل ہوتا ہے اور لوگوں کی شکایات کا فوری مداوا کیا جاتا ہے۔

 

کانفرنس کے پہلے حصہ میں وفاقی محتسبین بشمول وفاقی ٹیکس محتسب نے اپنے اپنے ادارے کی کارکردگی بیان کی اور سال ۲۰۲۲ء میں اپنی پرفارمنس کے بارے میں بتایا۔ راقم نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ محتسبین کے اداروں کے بارے میں ابھی تک عوام الناس کو بروقت معلومات مہیا نہیں ہیں۔ ان کو محتسبین کی ورکنگ کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کے زیادہ تر لوگ محتسبین سے رابطہ نہیں کرتے۔ ایف پی او کے فورم سے عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام محتسبین نے اس بات سے اتفاق کیا اور بتایا کہ وہ آئندہ آگاہی سیمیناروں ، پبلک کچہریوں، میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے اداروں کے بارے میں آگاہی پیدا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے استفادہ حاصل کر سکیں۔

 

گورنر بلوچستان کا خطاب

 

دوپہر ایک بجے گورنر بلوچستان عبدالولی خان کاکڑ تشریف لائے ۔ گورنر نے اپنے خطاب میں محتسبین کی کارکردگی کو سراہا ۔ انہوں نے خاص طور بلوچستان کے محتسب نذر بلوچ کے کام کا ذکر کیا اور ان کے کام کی تحسین کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جب بلوچستان کے محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں آتی ہیں تو وہ اپیل سن کر فیصلہ دیتے ہیں۔ ۹۰فیصد سے زیادہ کیسز میں وہ محتسب کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر خواتین کے خلاف ہراسگی کے کیسوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہراسگی کی صحیح طور پر تعریف اور تشریح نہیں کی گئی ۔ مردوں کے خلاف خواتین کی ہراسگی کے کیسوں میں زیادہ تر غلط قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر انسداد ہراسگی کے محتسبین کانفرنس میں شامل نہ تھے ورنہ وہ اس سلسلہ میں اپنا موقف پیش کرے۔

 

گورنر نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ۔ گورنر کے اے ڈی سی کرنل تنویر ہمارے سماجی کام اور کتابوں کے بڑے معترف تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے مضامین اُردو ڈائجسٹ میں پڑھتا رہتا ہوں۔کھانے اور ظہر کی نماز کے بعد صوبائی محتسبین کی کارکردگی کے بارے میں سیمینار ہوا، جس میں کانفرنس میں موجود تمام صوبائی محتسبین اور ان کے نمائندوں اپنے اپنے ادارے کے بارے میں بتایا۔ پانچ بجے تک سیمینار چلتا رہا۔ سیرینا ہوٹل آ کر کچھ دیر آرام کیا۔ ہوٹل کی مسجد میں عصر اور مغربکی نماز میں باجماعت ادا کیں۔

 

کچلاک میں اپنا کے گھر اور میڈیکل کیمپ

 

صبح گیارہ بجے کچلاک کے لیے روانہ ہوئے۔ کچلاک میں ’’اپنا‘‘کے تعاون سے عبدالمجید کے توسط سے ہم نے تیس گھر بنائے۔ کوئٹہ سے تقریباً ایک گھنٹہ کے فاصلے پر واقع کچلاک کا علاقہ پچھلے سال سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ کچے مکانات پانی میں بہہ گئے۔ سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عبدالمجید کی ٹیم نے کچلاک میں سروے کر کے تیس خاندانوں کی فہرست تیار کی جن میں سب سے غریب، بیوائوں اور معذوروں کو ترجیح دی گئی۔ پہلا گھر ایک بوڑھی اماں کو دیا گیا جس کا بیٹا انتقال کر گیا تھا اور وہ اس کے یتیم بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ بچوں میں تحائف اور کیش تقسیم کیا۔ سلیم کھوکھر یہاں بھی بازی لے گیا۔ بچوں کے لیے گفٹ اور کھانے پینے کی اشیاء لے کر آ گیا۔ بچوں کا جمگھٹا ہو گیا۔ سب اسے کہنے لگے :ماما ٹافی ورکا۔ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے ۔ آج تو ٹوٹ کر اسلم مروت کی یاد آئی وہ بھی ایسے ہی کیا کرتا تھا۔ آج حبس کے ساتھ ساتھ گرمی بہت تھی۔ سلیم کھوکھر نے مجھے کسٹم کا ہیٹ پہنا دیا۔ دس پندرہ گھروں کا وزٹ کیا۔ تمام مکانات زبردست طریقے سے بنے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں بڑے بڑے کمرے بنائے گئے تھے۔

 

 گھروں سے فارغ ہونے کے بعد کچلاک کے علاقے میں قائم الخدمت کے زیر اہتمام تعمیر ملت اسکول میں آگئے۔ سکول کی انتظامیہ نے استقبال کیا۔ یہاں ہماری طرف سے میڈیکل کیمپ لگایا گیا۔ کیمپ میں الخدمت کی لیڈی ڈاکٹرز اور مرد ڈاکٹر موجود تھے۔ اشفاق نے لاہور سے دوائیوں کی وافر مقدار بھیجی تھی۔ سکول میں سینکڑوں بچے، عورتیں اور مرد موجود تھے۔ جاتے ہی کیمپ کا آغاز کر دیا۔شام تک میڈیکل کیمپ جاری رہا۔ ۵۰۰سے زائد مریضوں کا چیک اپ اور علاج ہوا۔

 

واپسی کا سفر

 

شاہد نواز نے بچوں کے لیے چاول منگوائے۔ بچوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ پانچ منٹ میں تقسیم ہو گئے۔ شام۵بجے کے قریب فارغ ہو کر کوئٹہ فوڈ ریسٹورنٹ کا رُخ کیا ،جہاں فرشی قالین بچھے ہوئے تھے۔ کھانا آنے تک لیٹ کر کچھ دیر آرام کیا۔ ریسٹورنٹ والوں نے ٹھنڈی اور نمکین لسی پیش کی، جسے پی کر بہت مزا آیا۔

 

کھانے کے دوران ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈاکٹر عمر فاروق اور صادق سنجرانی کے چچا سنجرانی صاحب بھی تشریف لائے۔ چیئرمین سینٹ کے چچا ،ان کے ساتھی اور ڈاکٹر عطاء الرحمن ہمارے کام کے پہلے سے معترف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی  برس سے ہم سے ملنے کے متمنی تھے۔ انہوں نے ہماری سماجی خدمات اور سوشل ورک کے بارے میں اُردو ڈائجسٹ میں کئی مضامین پڑھ رکھے تھے۔ شام چھ بجے کوئٹہ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ سلیم کھوکھر اور کسٹم کے چاق و چوبند دستے کے ساتھ الوداعی ملاقات کی اور تصاویر بنوائیں۔ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لائونج میں سلیم کھوکھر کے پی آر او انسپکٹر بلاول نے ہمارا استقبال کیا۔ سات بجے جہاز میں سوار ہوئے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ کوئٹہ کا سفر بہت اچھا رہا۔ اجڑی بستیوں کو آباد دیکھ کر دلی خوشی ہوئی اور ان کے مکینوں کو خوش دیکھ کر دل مطمئن ہو گیا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر یہاں غربت اور پسماندگی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک حاصل نہیں۔ بلوچیوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest