fbpx

آرکائیوز سے: اسرئیل کے ذریعہ نسل پرستی اور قبضے کی تاریخ

آرکائیوز سے: جون 2021

اسرئیل کے ذریعہ نسل پرستی اور قبضے کی تاریخ

تنہا فلسطینی لڑکی جس نے ریاستِ اسرائیل سے ٹکر لی

تئیس سالہ منی الکرد (Munal-ul-Kurd) اپنے بھائیوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہی تھی کہ اُس کے بوڑھے والد نبیل گھر میں داخل ہوئے۔ وہ خاصے پریشان لگ رہے تھے۔ سبھی بہن بھائی گھبرا گئے۔ اُنھوں نے باپ کے گرد گھیرا ڈالا اور پریشانی کی وجہ پوچھی۔ نبیل سرد آہ بھر کر بولے: ’’بچو! مجھے پتا چلا ہے کہ سپریم کورٹ ہمارے خلاف فیصلہ دے گی۔ یہود ہمیں اپنے ہی گھر سے نکالنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ اور کوئی نہیں جو اِن ظالموں کی راہ روک سکے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آنسو بہانے لگے۔
نبیل الکرد مشرقی بیت المقدس (یروشلم) کی ایک مضافاتی بستی، شیخ جراح کے باسی ہیں۔ یہ ایک تاریخی علاقہ ہے جسے آٹھ سو سال قبل صلاح الدین ایوبیؒ کے شاہی طبیب، حسام الدین جراح نے آباد کیا تھا۔ انیسویں صدی میں بیت المقدس کے شرفا نے یہاں مکان تعمیر کر لیے۔ یوں یہ مسلمانانِ بیت المقدس کا ایک نمایاں محلہ بن گیا۔ ترک عثمانی حکومت نے اِسی بستی کے نام پر بیت المقدس کی ایک تحصیل کو ’’شیخ جراح‘‘ کا نام دیا تھا۔ تحصیل میں شیخ جراح کے علاوہ مسلمانوں کی دیگر بستیاں مثلاً حئی الحسینی، وادی جوز، باب الزہرا وَغیرہ شامل تھیں۔ مزید براں یہود کی دو بستیاں بھی وجود میں آ چکی تھیں۔

یہود کا طریق واردات
انیسویں صدی سے قبل فلسطین میں یہود بہت کم تھے۔ اُن کی اکثریت چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتی تھیں۔ اُسی صدی کے اواخر میں امریکی و برطانوی سرمایہ دار اَور صنعت کار پورے فلسطین میں مسلمانوں سے زمینیں خریدنے لگے۔ چونکہ وہ منہ مانگے دام دیتے تھے، اِس لیے اُنھیں ہر جگہ زمینیں بآسانی مل جاتیں۔ بھولے بھالے فلسطینی مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اُن کے خلاف یہود کی بہت بڑی سازش ہے۔ زمینیں خریدنے کے اِسی عمل کو ہتھیار بنا کر یہود نے رفتہ رفتہ فلسطین کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔ یہود کا طریقِ واردات یہ تھا کہ وہ خریدی گئی زمینوں پر اَپنے مہاجرین کو بساتے اور یوں نئی یہودی بستی تعمیر کر لیتے۔
مثال کے طور پہ بحیرہ روم کے ساحلی فلسطینی شہر، حیفہ کو لیجیے۔ ۱۸۵۹ء کی مردم شماری کی رو سے شہر میں تیس ہزار افراد آباد تھے۔ اُن میں صرف ’’۱۲۴‘‘ یہودی تھے اور بقیہ مسلمان۔ بعدازاں امیر یہودی وہاں زمینیں خرید کر اپنے ہم قوم بسانے لگے، چنانچہ پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء) شروع ہوئی، تو حیفہ کے سات ہزار باسیوں میں تین ہزار یہودی شامل ہو چکے تھے۔ اِس جنگِ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ انگریز حکمران طبقے نے یہودی سرمایہ داروں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ فلسطین میں اسرائیل کا قیام عمل میں لائے گا۔ چنانچہ اُنھوں نے امریکا، یورپ، افریقا اور جنوبی امریکا سے یہود کو فلسطین آنے کی اجازت دے دی۔ ۱۹۳۸ء میں برطانوی حکومت نے حیفہ میں مردم شماری کرائی۔ انکشاف ہوا کہ وہاں ۵۲ ہزار یہودی اور ۴۹ ہزار مسلمان آباد ہیں۔ یوں صرف چند عشروں میں حیفہ یہود کا اکثریتی شہر بن گیا۔
نومبر ۱۹۴۷ء میں امریکا و برطانیہ نے پلان کے مطابق فلسطین کو اسرائیلی یہودی ریاست اور فلسطینی مسلم ریاست میں تقسیم کر دیا۔ تب بھی یہودی فلسطین میں صرف ’’۷ فی صد‘‘ زمینوں کے مالک بن سکے تھے۔ اُن کی آبادی بھی کل نفوس میں ’’۳۳ فی صد‘‘ تھی، مگر عالمی طاقتوں نے دن دیہاڑے عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے فلسطین کا ’’۵۶ فی صد‘‘ رقبہ یہود کے حوالے کر دیا۔ یہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ سراسر زیادتی اور نااِنصافی تھی۔
فلسطینی مسلمانوں نے قدرتاً کٹا پھٹا فلسطین قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دیگر عربوں نے بھی اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا۔ جب فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے، تو یہود کی مسلح دہشت گرد تنظیمیں اُن پر حملے کرنے لگیں۔ مسلمانوں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور یوں فلسطین میں دونوں اقوام کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ اِس جنگ میں جلد ہی دیگر عرب ممالک کی افواج بھی شامل ہو گئیں۔

نیا ٹھکانہ مل گیا
نبیل الکرد اُس وقت پانچ چھے سال کے بچے تھے۔ وہ اپنے والد، سعید الکرد کے ساتھ حیفہ میں رہتے تھے۔ جب جنگ شروع ہوئی، تو یہود نے اُن کا گھر لُوٹ لیا۔ وہ بڑی مشکل سے جانیں بچا کر بیت المقدس آ سکے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہود کو جدید ترین اسلحے سے لیس کر رکھا تھا۔ یہود کو سب سے زیادہ فائدہ اِسی حقیقت سے ہوا۔ جدید اسلحے کی بدولت اُنھوں نے کئی محاذوں پر عرب مسلمانوں کو شکست دی۔ عرب افواج تعداد میں زیادہ تھیں، مگر اُن کے پاس اسلحہ فرسودہ تھا۔ یہی امر اُن کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب بن گیا۔
اردن کی فوج تاہم مشرقی بیت المقدس کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی۔ اِسی علاقے میں القدس شریف (مسجدِ اقصیٰ و گنبدِ صخرا) واقع ہے۔ ۱۹۵۶ء میں حکومتِ اردن اور اقوامِ متحدہ کے ادارے، اُنروا (ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین) (United Nations Relief and Works Agency) کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اُس کی رو سے ۲۸ فلسطینی خاندان شیخ جراح میں آباد کر دیے گئے۔ اُنھی میں سعید الکرد کا لُٹا پُٹا خاندان بھی شامل تھا۔ سب کو خوشی تھی کہ اُنھیں رہنے کا ٹھکانہ مل گیا۔
رفتہ رفتہ اٹھائیس فلسطینی خاندان پھل پھول گئے۔ اردگرد کی زمینیں خالی پڑی تھیں، لہٰذا اُنھوں نے اپنے گھروں کو وسعت دے ڈالی۔ آہستہ آہستہ وہاں فلسطینی مسلمانوں کی بستی وجود میں آ گئی۔ اُن کی زندگی معمول پر آ رہی تھی کہ شیخ جراح کے باسی دوبارہ مصائب و آلام میں گِھر گئے۔

نئی مصیبت
اسرائیلی حکمران طبقہ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے بےتاب تھا۔ وجہ یہ کہ یہود سمجھتے ہیں، القدس شریف کی جگہ ہی اُن کے پیغمبروں نے ہیکلِ سلیمانی بنایا تھا۔ یہ دعویٰ متنازع ہے، مگر القدس شریف پر کسی وقت ہیکل موجود بھی تھا تو اُسے دو ہزار سال قبل رومیوں نے تباہ کر دیا۔ بعدازاں رومی بادشاہ عیسائی ہوئے، تو اُنھوں نے ہیکلِ سلیمانی کے مقام کو کوڑا گھر بنا ڈالا۔ حضرت عمر فاروقؓ بیت المقدس تشریف لائے، تو اُنھوں نے اُس مقام کی صفائی کرائی اور وَہاں ایک عارضی مسجد بھی تعمیر فرمائی۔ اُسی مقام پر بنوامیہ کے دور میں مسجدِ اقصیٰ اور گنبدِ صخرہ تعمیر ہوئے۔ یوں القدس شریف کی ملکیت مسلمانوں کو منتقل ہو گئی جیسا کہ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے۔
۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے عرب ممالک کے خلاف نئی جنگ چھیڑ دی۔ اسرائیلی فوج امریکا، برطانیہ اور دِیگر مغربی ممالک کے دیے گئے جدید ترین اسلحے سے لیس تھی۔ یہی سچائی جیت اور ہار کے مابین بنیادی فرق بن گئی۔ اِسی اسلحے کی بدولت اسرائیل نے پھر عربوں کو شکست دے دی۔ یہی نہیں، وہ مشرقی بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ پر بھی قابض ہو گیا۔ گویا پورے فلسطین پر اسرائیل راج کرنے لگا۔
آغاز میں اسرائیلی حکومت نے اقوامِ متحدہ سے وعدہ کیا کہ وہ اُنروا (UNRWA) اور اُردن کے مابین ہوئے معاہدے کی پاس داری کرے گا۔ گویا شیخ جراح میں مقیم فلسطینی مہاجرین اپنے گھروں ہی میں رہیں گے، لیکن اسرائیلی حکمران طبقہ تو بین الاقوامی معاہدے اور اَخلاقیات کو پیروں تلے روندنے میں یدِطولیٰ رکھتا ہے۔ یہ تو پھر زمین کا معاملہ تھا جس کے سہارے ہی اسرائیل کی نیو پڑی تھی، لہٰذا اِسرائیلی جلد اپنے وعدوں سے پھر گئے۔

کرایہ ادا کرو
۱۹۷۲ء میں اسرائیلی حکومت نے شیخ جراح کا علاقہ دو یہودی ٹرسٹ تنظیموں، سفہار ڈیک کمیٹی اور کنسیسٹ یسرائیل کمیٹی کے مابین تقسیم کر دیا۔ اُن ٹرسٹوں کے وکلا نے شیخ جراح پر قابض ہونے کی خاطر یہ چال چلی کہ دعویٰ کر دیا کہ علاقے کی زمین ترک عثمانی حکومت نے یہود کو فروخت کر دی تھی۔ اُن وکلا نے فروخت کی جعلی دستاویزات بھی بنا لیں۔ اُنھی جعلی کاغذات کی بنیاد پر ٹرسٹ فلسطینی خاندانوں سے مطالبہ کرنے لگے کہ اُنھیں زمین کا کرایہ ادا کیا جائے۔
فلسطینی خاندانوں کا کہنا تھا کہ وہ زمین کے مالک ہیں، لہٰذا کرایہ کیوں ادا کریں؟ یہودی ٹرسٹ معاملے کو عدالت میں لے گئے۔ ٹرسٹوں کے وکلا یہی چاہتے تھے اور یوں فلسطینی خاندانوں کے خلاف اُن کی سازش کامیاب ہو گئی۔ وکلا یہودی تھے اور جج بھی، یعنی ظلم کرنے والے ظالموں ہی نے مظلوموں کے ساتھ انصاف کرنا تھا۔ جو نتیجہ نکلنا تھا، وہی نکلا۔ ۱۹۸۲ء میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے جعلی دستاویزات کی بنا پر فیصلہ دیا کہ شیخ جراح کی زمینیں یہودی ٹرسٹ کی ملکیت ہیں۔ یوں یہود نے قانون کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں پر نیا ظلم ڈھا دیا۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں ٹرسٹوں نے جعل سازی سے ہتھیائی شیخ جراح کی زمینیں ایک انتہاپسند یہودی تنظیم کو فروخت کر دیں۔ یہ تنظیم بیرون ممالک سے یہودی خاندان اسرائیل لا کر اُنھیں بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں بساتی ہے۔ اُس تنظیم کی اصل پشت پناہ اسرائیلی حکومت اور اَمریکی یہودی سرمایہ دار ہیں۔ وہی نئے آبادکاروں کو قدم جمانے کی خاطر ہر ممکن امداد دَیتے ہیں۔ اِس مہم کا مقصد واضح ہے۔ مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں اتنے زیادہ یہودی آباد کر دیے جائیں کہ وہاں مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنا مشکل مرحلہ بن جائے۔ مودی حکومت بھی مقبوضہ جموںوکشمیر میں اِسی اسرائیلی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ وہ خصوصاً وادیٔ کشمیر میں غریب ہندو خاندان بسانا چاہتی ہے تاکہ وہاں مسلم آبادی کا تناسب کم سے کم کیا جا سکے۔

ریاستی دہشت گردی
یہ واضح رہے، اسرائیلی قوانین کے مطابق کوئی بھی یہودی پورے فلسطین میں ایسی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے جو ۱۹۴۸ء سے قبل اُس کے تصرف میں تھی، مگر فلسطینی مسلمانوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جنگِ ۱۹۴۸ء سے قبل کی اپنی زمینوں اور گھربار پر دعویِٰ ملکیت کر سکیں۔ غرض اسرائیلی ریاست نے فلسطینی مسلمانوں کو قانونی طریق کار سے بھی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
پچھلے چار عشروں سے صورتِ حال یہ ہے کہ جن زمینوں پر خصوصاً غریب فلسطینی رہائش پزیر ہیں، اُن کی جعلی دستاویزات تیار کرا کر بااثر یہودی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ عدالتوں میں بھی یہودی جج بیٹھے ہیں۔ وہ جعلی کاغذات کی روشنی میں یہود کو اُن زمینوں کا مالک بنا دیتے ہیں۔ اِس طریقِ واردات سے یہودی بےیارومددگار فلسطینیوں سے ہزارہا ایکڑ زمین ہتھیا چکے۔ یہ مجبورومقہور فلسطینی کس سے فریاد کریں؟
عدالتوں کے ذریعے ہی انتہاپسند یہودی تنظیم شیخ جراح میں آباد فلسطینی خاندانوں کو بےدخل کرنے لگی۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۷ء تک سینکڑوں فلسطینی خاندان اپنے ہی گھروں سے نکال دیے گئے۔ وہ اب کسمپرسی کی زندگی گزار رَہے ہیں۔ مئی ۲۰۲۱ء کے اوائل میں آٹھ مزید فلسطینی خاندانوں کی قسمت کا فیصلہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے سنانا تھا اور اِنھی میں نبیل الکرد کا خاندان بھی شامل تھا۔ یہ خاندان بھی پچھلے بیس برس سے اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

مکان پر قبضہ
۲۰۰۱ء تک مکان سعید الکرد کی آل اولاد سے بھر چکا تھا، چنانچہ نبیل الکرد نے متصل خالی زمین پر نیا مکان تعمیر کر لیا، مگر اسرائیلی حکومت نے اس پر قبضہ کر کے وہاں تالا لگا دیا۔ ۲۰۰۹ء میں تالے کھول کر وہاں یہودی آبادکار بسا دیے۔ یہ یہودی پڑوسی نبیل الکرد کے اہلِ خانہ کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنے لگے۔ کبھی راہ میں کوڑا پھینک دیتے، کبھی اُن کے کتوں کا فضلہ گھر کے سامنے بکھرا ملتا۔ کبھی اونچی آواز میں ہلّہ گلّہ کیا جاتا۔ اِسی دوران یہودی انتہاپسند تنظیم نے نبیل الکرد کو بےدخل کرنے کی خاطر مقدمہ کھڑا کر دیا۔
دورانِ مقدمہ نبیل الکرد کو پیش کش کی گئی کہ اگر وہ یہ لکھ کر دے دیں، اُن کی موت کے بعد گھر یہودی تنظیم کو مل جائے گا، تو وہ بدستور مقیم رہیں، مگر نبیل الکرد نے یہ تحریر دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن پوری ریاستی مشینری یہودی تنظیم کی مددگار ہے۔ اِسی لیے نبیل کو یقین تھا کہ ریاست اُنھیں گھربار سے محروم کر کے ہی چھوڑے گی۔

’’سیوشیخ جراح‘‘
یہ تھی صورتِ حال جب ۲۳ سالہ منی الکرد نے سرگرم ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں کی نئی پود سے تعلق رکھتی ہے جو سوشل میڈیا میں متحرک ہے۔ مزیدبراں اُس نے یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری لے رکھی ہے، لہٰذا منی کو علم ہے کہ میڈیا کو کیسے بروئےکار لایا جاتا ہے۔ دو ماہ قبل اُس نے انسٹاگرام، ٹوئیٹر اور فیس بک پر ’’سیو شیخ جراح‘‘ (#Save Sheikh Jarrah) کے نام سے ایک مہم کا آغاز کر دیا۔ دونوں بھائی اُس کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
منی الکرد کی سہیلیوں نے اُسے خبردار کیا تھا کہ وہ آگ کے الاؤ میں کود رَہی ہے۔ وجہ یہ کہ اسرائیل عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی طاقت بن چکا۔ وہ خصوصاً اپنی سکیورٹی سائنسی خطوط پر استوار رکھتا ہے۔ مثلاً اسرائیلی حکومت موبائل فون کے ذریعے ہر شہری کی سُن گُن لے سکتی ہے۔ اُس کے پاس ہزارہا ڈرون موجود ہیں جن پر نصب طاقتور کیمرے ہر شہری کی سرگرمی سے اُسے باخبر رکھتے ہیں۔ پھر اُس نے خصوصاً مشرقی یروشلم میں ہزارہا کیمرے لگا رکھے ہیں۔ یہی نہیں خلا میں دوڑتے مصنوعی سیارے بھی اسرائیلی حکومت کی آنکھیں ہیں۔ غرض اسرائیلی حکومت سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ قدرت پا چکی کہ اپنے شہریوں کے ہر لمحے پر نظر رکھ سکے۔
منی الکرد بھی اِن تلخ حقائق سے آگاہ تھی، مگر اُس کا گھر اور مستقبل خطرے میں تھا۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ ماں باپ کا دکھ اور بےبسی اُس سے دیکھی نہ جاتی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ فلسطینی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ساتھ ملا کر کم از کم احتجاج تو کرے۔ وہ دشمن کو دکھانا چاہتی تھی کہ فلسطینی مسلمان بزدل نہیں، بلکہ وقت آنے پر پتھروں اور غلیلوں سے بھی مشین گنوں اور ٹینکوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مظالم سہہ سہہ کر منی اتنی دلیر ہو گئی تھی کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ جذبۂ ایمانی نے بھی اُس کے ارادے کو فولاد کی صورت دے ڈالی۔

نئی نسل نے لبیک کہا
قدرتی طور پہ مشرقی یروشلم میں آباد اَور سوشل میڈیا پر متحرک فلسطینی نوجوانوں نے پہلے پہل منی الکرد کی آواز پر لبیک کہا۔ یہ سوشل میڈیا کا مثبت پہلو ہے کہ وہ دُنیا بھر میں بستے لوگوں کو ایک مقصد کے گرد جمع کر دیتا ہے، چنانچہ آغاز میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں شیخ جراح پہنچ کر مظلوم فلسطینی خاندانوں کی حمایت میں پُرامن مظاہرے کرنے لگے۔ (یاد رہے، مشرقی بیت المقدس میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس آباد ہیں۔ اِن میں ساڑھے تین لاکھ (۶۰ فی صد) مسلمان ہیں اور سوا دَو لاکھ (۴۰ فی صد) یہودی۔) یہ لڑکے لڑکیاں پلے کارڈ اٹھائے ہوتے جن پر حکومت مخالف نعرے درج ہوتے۔
منی الکرد اُن مظاہروں کی وڈیو بناتی اور اُنھیں سوشل میڈیا میں پھیلا دیتی۔ اس کی ایک ویڈیو بہت مقبول ہوئی۔ اُس میں منی اور اُن کے بھائی پڑوسی یہودی آبادکاروں سے مصروفِ گفتگو ہیں۔ منال ایک شخص کو کہتی ہے ’’یعقوب! تم جانتے ہو کہ یہ تمہارا گھر نہیں۔ تم پھر اِسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘
یہودی پڑوسی کہتا ہے: ’’اگر مَیں نے اِس (گھر) پر قبضہ نہیں کیا، تو کوئی دوسرا (یہودی) اِسے چوری کر لے گا۔‘‘

پولیس سے تصادم
منی کی ویڈیوز اَور پوسٹیں ہزارہا لوگ شیئر کرنے لگے۔ ساتھ ساتھ شیخ جراح آنے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ نوجوان فلسطینی اکھٹے ہو کر قومی نغمے گاتے اور اپنا لہو گرماتے اِن مظاہرین کے سامنے یہودی آبادکار اسلحہ لیے گھومنے لگے جیسے اُنھیں خوف زدہ کر رہے ہوں۔ یہ دیکھ کر فلسطینی خاندانوں نے پولیس بلوا لی، مگر پولیس بھی یہود کی ساتھی بن گئی۔ وہ فلسطینیوں پر زور ڈالنے لگی کہ وہ اپنا احتجاج بند کر دیں۔ اُنھوں نے انکار کر دیا۔ اِس طرح معاملہ بگڑتا چلا گیا۔
اِسی دوران رمضان آ پہنچا۔ دورانِ رمضان کئی فلسطینی لڑکے لڑکیاں بابِ عامود (دمشق گیٹ) پر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ یہ دروازہ مشرقی بیت المقدس اور مغربی بیت المقدس کو آپس میں ملاتا ہے۔ مغربی بیت المقدس کے مکین اِسی سے گزر کر مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ فلسطینی تراویح پڑھنے کے بعد بابِ عامود کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور وَہاں احتجاجی مظاہرہ کرتے۔ یہ دیکھ کر اسرائیلی پولیس نے سیڑھیوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ نیز یہ پابندی لگا دی کہ مغربی بیت المقدس سے روزانہ صرف دس ہزار فلسطینی ہی مسجدِ اقصیٰ آ سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے مظاہرے دیکھ کر انتہاپسند یہودی بھی جلوس نکالنے لگے۔ وہ جلوس میں فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے۔ اِس امر نے بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔
منی الکرد نے اپنا گھربار بچانے کے لیے جو مہم شروع کی تھی، وہ رفتہ رفتہ اسرائیلی ظلم و تشدد اور دَہشت گردی کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کے احتجاج میں ڈھل گئی۔ اِس احتجاج کو پروان چڑھانے میں فلسطینی نوجوان نسل نے بنیادی کردار اَدا کیا۔ ستر سالہ شیخ عبدالفتاح سخفی بھی شیخ جراح میں مقیم ہیں۔ اُن کا خاندان بھی بےدخلی کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’آج کے فلسطینی نوجوان بےخوف اور دَلیر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اِنھیں یہود سے مقابلہ کر کے اپنا مستقبل سنوارنا ہو گا۔ یہ نوجوان یہود کے پاس ملازمت کرنے جائیں، تو اِن سے ذلت بھرا سلوک ہوتا ہے۔ پھر یہ دیکھیے، اگر مجھے چھے بچوں سمیت گھر سے نکال دیا جائے، تو میرے بچے کیا کریں گے؟ کیا وہ اپنے اوپر ہوا ظلم بھول جائیں گے؟‘‘

القدس شریف کی بے حرمتی
اوائل مئی میں ہزارہا فلسطینی مسلمان شیخ جراح کے خاندان کی جبری بےدخلی روکنے کی خاطر احتجاج کرنے لگے۔ جلد ہی اسرائیلی پولیس سے اُن کی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی سپاہی طاقت کے نشے میں مست تھے۔ وہ اُن پر ربڑ کی گولیاں برساتے اور آنسو گیس پھینکتے۔ ایک دن مظاہرین کا پیچھا کرتے مسجدِ اقصیٰ میں جا گھسے اور قبلۂ اوّل کی بےحرمتی کر دی۔ اُنھوں نے نمازیوں کو مارا پیٹا اور کئی فلسطینی زخمی کر دیے۔ یوں احتجاج نے متششدانہ روپ اختیار کر لیا۔
مسجدِ اقصیٰ کی بےحرمتی اور فلسطینیوں پہ ظلم پر اسلامی ممالک کے حکمران اسرائیل کی زبانی کلامی مذمت کر کے خاموش ہو گئے اور سمجھ لیا کہ ان کی ذمے داری پوری ہو گئی۔ عام مسلمان پیچ و تاب کھا کر سوشل میڈیا میں اپنا غم و غصّہ نکالتے رہے۔ اسرائیلی ریاست کی بےپناہ طاقت کے خلاف عملی اقدام مگر فلسطینی تنظیموں حماس اور اِسلامی جہاد ہی نے اٹھایا۔
فلسطینی تنظیموں نے اسرائیلی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ ۱۰ مئی شام چھے بجے تک اپنے سپاہیوں کو مسجدِ اقصیٰ سے دور لے جائے۔ جب اسرائیلی حکومت نے ایسا نہ کیا، تو دونوں تنظیموں کے مجاہد غزہ سے اسرائیل پر راکٹ پھینکنے لگے۔ جواباً اسرائیلی حکومت نے طیاروں سے غزہ پر میزائل برسا دیے۔ تادمِ تحریر اِس لڑائی میں دو سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے۔ اِن میں کئی بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیل میں بھی دس لوگ راکٹ لگنے سے مارے گئے۔

اسرائیل میں ہنگامے
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین اِس نئی لڑائی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پہلی بار اِسرائیلی ریاست کے مختلف شہروں میں فلسطینیوں اور یہود کے مابین خونریز تصادم ہوا۔ یہ تصادم اُن اسرائیلی شہروں میں دیکھنے کو ملا جہاں فلسطینی بڑی تعداد میں آباد ہیں جسے لُد، نصیریہ، بیئرالسبع، رھط، رملہ، حیفہ، عکا اور طبریا۔ اِن شہروں میں مسلمانوں اور یہود نے ایک دوسرے کی تنصیبات پر حملے کیے۔ نیز ہجوم کے ذریعے فردِ وَاحد کو مارنے پیٹنے (Lynching) کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ اِن شہروں میں ہنگامے روکنے کی خاطر اسرائیلی حکومت کو کرفیو لگانا پڑا۔ مزید براں مغربی کنارے میں بھی زبردست اسرائیل مخالف مظاہرے ہوئے۔ وہاں اسرائیلی فوجوں نے فائرنگ کر کے آٹھ فلسطینی شہید کر ڈالے۔
غرض ماہِ مارچ میں منی الکرد نے شیخ جراح کے فلسطینی خاندانوں کو بچانے کی خاطر جس احتجاجی مہم کا آغاز کیا تھا، وہ اسرائیل اور مسلمانانِ فلسطین کے مابین نئی جنگ یا انتقاضہ میں ڈھل گئی۔ اسرائیل نے خصوصاً غزہ پر بموں اور میزائلوں کی بارش کر کے وہاں سیکڑوں عمارتیں تباہ کر ڈالیں۔

برطانیہ و امریکا کی پشت پناہی
عالمی ماہرین مسلمانانِ فلسطین اور اِسرائیل کے معاملے کو پیچیدہ قرار دَیتے ہیں، مگر حقیقتاً یہ کافی سادہ ہے۔ پچھلے دو ڈھائی سو برس سے برطانیہ اور اَمریکا اسرائیلی ریاست کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں مغربی ممالک ہی اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اِنھی کے بھرپور تعاون سے یہودی ریاست سائنس و ٹیکنالوجی میں عالمی قوت بن چکی۔ ہر بین الاقوامی فورم میں امریکا و برطانیہ اسرائیل کا دفاع کرتے ہیں۔ حالیہ نزاع میں بھی امریکا نے کئی دن سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش نہ ہونے دی۔
دنیا میں یہودی جہاں بھی آباد ہوں، وہ اِسرائیلی ریاست کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ مٹھی بھر یہودی بھی فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی حکومت کے مظالم کی مذمت کرتے ہیں، مگر وہ صورتِ حال بدل نہیں پاتے۔ دوسری جانب ایک ارب بیس کروڑ مسلمان فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر تقسیم ہو چکے۔ عدم اتحاد کی وجہ سے وہ مسلمانانِ فلسطین کی کوئی عملی مدد نہیں کر سکے۔ البتہ سوشل میڈیا پر بلند و بالا دعویٰ والی پوسٹیں جتنی مرضی لگوا لیجیے۔
۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۸ء تک عرب ممالک اسرائیل سے برسرِپیکار رَہے۔ اُسی سال امریکی ڈالروں کے لالچ میں مصری صدر، انور السادات نے اپنا دین ایمان بیچ دیا۔ مسلمانانِ فلسطین کو اسرائیلی درندوں کے سپرد کر کے اُس نے مصر میں نام نہاد امن قائم کر ڈالا۔ تب سے ایک ایک کر کے بیشتر عرب ممالک اسرائیل کے دوست بن چکے۔ اِسی دوستی کے باعث اب اسرائیلی حکومت کو ہمت ہوئی کہ وہ دِن دیہاڑے القدس شریف کی بےحرمتی کر سکے۔
دنیاوی آسائشوں اور معاشی و ذاتی مفادات نے عرب حکمرانوں کی غیرت و حمیت مردہ کر دی ہے۔ اُن کی بےحسی و خاموشی کا یہی شرمناک عالم رہا، تو مستقبل میں اسرائیل کسی طریقے سے القدس شریف کو آگ لگا کر مسجدِ اقصیٰ، گنبدِ صخرہ اور دِیگر اسلامی مقدس مقامات خدانخواستہ نابود کر سکتا ہے۔ عملی طور پہ صرف ایران فلسطینی مجاہدین کی مدد کر رہا ہے۔ وہ اُنھیں راکٹ بنانے کی ٹیکنالوجی منتقل کر چکا۔ نیز خفیہ طریقوں سے چھوٹا موٹا اسلحہ بھی غزہ اسمگل کر دیتا ہے۔ دیگر اسلامی ملکوں کے حکمران زبانی کلامی مذمت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔

آئرش پارلیمنٹ میں احتجاج
مسلم حکمرانوں سے زیادہ دلیری و حمیت کا مظاہرہ تو آئرلینڈ کے ارکانِ اسمبلی نے کیا۔ اُنھوں نے آئرش پارلیمنٹ میں جوشیلی تقریریں کرتے ہوئے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ ارکانِ اسمبلی نے اسرائیل کو ظالم، نسل پرست اور ’’اپارتھیڈ‘‘ (apartheid) ریاست قرار دِیا۔
قصہ مختصر، ۱۹۶۷ء سے اسرائیل مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ میں مختلف ہتھکنڈوں سے مسلمانانِ فلسطین کی زمینوں پر قبضے کر رہا ہے۔ یہ فلسطینی مسلمانوں کی کھلم کھلا نسل کشی ہے، مگر عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اِسی بےعملی کی بنا پر اسرائیل حکمران طبقے کی جرأت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہ عیاں ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو ظالم و طاقتور اِسرائیل سے لڑائی اپنے بل بوتے پر لڑنا ہو گی۔ اِس ضمن میں سب سے پہلے اُنھیں متحد ہونا ہو گا۔ فی الوقت فلسطینی مختلف تنظیموں کی صورت تقسیم ہیں۔ اگر وہ متحد ہو جائیں، تو اسرائیل کا زیادہ عمدگی سے مقابلہ کر سکیں گے۔
فی الوقت اسرائیل اور مغربی کنارے کی بستیوں میں تقریباً ستر لاکھ یہودی آباد ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کی تعداد بھی ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ تیس لاکھ مغربی کنارے، بیس لاکھ غزہ اور بیس لاکھ بیت المقدس میں بستے ہیں۔ گویا ارضِ فلسطین میں عددی لحاظ سے مسلمان اور یہودی ہم پلّہ ہیں، مگر عسکری سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت تاہم یہود کو فوقیت دے ڈالتی ہے۔ حقیقتاً دونوں کے مابین یہی بنیادی فرق ہے۔
مسلمانانِ فلسطین اور اِسرائیل کا عسکری لحاظ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ فلسطینی مسلمان فوج نہیں رکھتے اور نہ ایٹم بم۔ جبکہ اسرائیلی فوج ہائی ٹیک اسلحے سے لیس ہے۔ پھر بھی فلسطینی مسلمانوں کو سلام کہ وہ معمولی راکٹوں اور پتھروں سے انتہائی طاقتور دُشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، مگر فلسطینیوں نے راکٹوں کی یلغار سے یہ دیومالا پارہ پارہ کر دی۔
لُد، بئیر التبع، رملہ وغیرہ میں فلسطینی مسلمانوں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں سے یہ بھی عیاں ہے کہ خصوصاً مسلمانانِ فلسطین کی نئی نسل بیدار ہو چکی۔ اب وہ اِسرائیلی حکمران طبقے کے مظالم خاموشی سے سہنے کو تیار نہیں اور منہ توڑ جواب دینا چاہتی ہے۔ چاہے اُسے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑے۔ گویا آنے والا وقت اسرائیل میں خانہ جنگی جیسی صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے۔

حرف آخر
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ینجمن نیتن یاہو پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ اس نے انہی مقدمات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے غزہ میں جنگ کرائی۔ مگر اس جنگ کے بطن سے ایک امید افزا تبدیلی بھی آ گئی۔ پچھلے کئی برس سے اسلامی ممالک مثلاً لیبیا، چاڈ، مالی، یمن، شام، عراق، افغانستان، پاکستان، ترکی وغیرہ خانہ جنگی میں مبتلا ہیں۔ وہاں فرقہ وارانہ فسادات بھی جنم لے چکے۔ لیکن غزہ کی حالیہ جنگ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو خاصی حد تک متحد کر دیا۔ ہر اسلامی ملک میں اسرائیل کے خلاف مظٓہرے ہوئے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت کے حامی عرب ممالک کو بھی اس کی مذمت کرنا پڑی۔ گویا مسلمانوں کو احساس ہوا ہے کہ انھیں باہمی اختلافات بھول کر اسلام دشمن طاقتوں مثلاً اسرائیل اور بھارت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ امریکا و برطانیہ میں شوبز، سپورٹس اور سیاست سے تعلق رکھنے والی کئی مشہور غیر مسلم شخصیات نے گویٹر پر اسرائیل مخالف ٹویٹس کیں۔ انھوں نے اسرائیل کو جارح اور ظالم ریاست قرار دیا۔ اس رجحان سے بھی عیاں ہے کہ دنیائے مغرب میں اسرائیل کے خلاف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں اور بہت سے مغربی اب فلسطینی مسلمانوں کو مظلوم سمجھتے ہیں۔
مسلمانانِ فلسطین نے افغانستان میں امریکا بہادر کی عبرت ناک شکست سے بھی دو اَہم سبق پائے ہیں۔ اوّل یہ کہ اگر کوئی ملک عسکری لحاظ سے سپرپاور بھی ہے، تو اُس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ناقابلِ شکست ہے۔ دوسرا سبق یہ کہ اگر مقامی آبادی غاصبوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگے، تو دنیا کی کوئی طاقت بزور اُسے اپنا مطیع نہیں بنا سکتی چاہے وہ کیسی ہی جدید عسکری ٹیکنالوجی اور ہتھیار رَکھتی ہو۔ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ دو سبق ضرور یاد کر لینے چاہئیں۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest