fbpx

بھارت نفرت و تعصب کا گڑھ بن گیا

Urdu Digest September 2023 - A Nest of Hatred and Prejudice – Modi's Draconian Policies Risk the World's Largest Nation's Fragmentation

مودی ڈکرائن جاری رہی تو دنیا میں سب سے بڑی مملکت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے

 

یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے۔ شہر ہے احمد آباد، بھارتی ریاست گجرات کا سب سے بڑا نگر۔ اِس کے درمیان ایک بڑے سے میدان میں ہندوؤں کا مذہبی جلسہ جاری ہے۔ ہزارہا حاضرین سے تب ایک اٹھائیس برس کا جوان بڑے جوش و خروش سے خطاب کرنے لگتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے:

 

’’مسلمانوں نے آٹھ سو برس تک ہم ہندوؤں پر حکومت کی ہے۔ اُنھوں نے ہم پر ظلم ڈھائےہیں۔ ہمیں غلام بنا کر رکھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو بتایا جائے، ہندوستان پر ہم ہندئوں کی حکومت ہے۔ اب اِنھیں ہمارا غلام بن کر رہنا چاہیے۔‘‘

 

تقریر سے واضح ہے کہ یہ ایک مذہبی جنونی خطاب کر رہا ہے۔ تقریر میں مسلمانوں کو گالی و دَشنام کا نشانہ بناتا ہے۔ ہندو حاضرین کو اُبھارتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر کسی قسم کا رحم نہ کھائیں اور اُن سے آقاؤں جیسا سلوک کریں۔ اس کٹر مسلم دشمن جوان کا نام نریندر مودی ہے جسے ۱۹۷۸ء میں صرف احمد آباد شہر کی حد تک کچھ مقبولیت حاصل تھی۔ مگر آج وہ بین الاقوامی شہرت رکھتا اور وَزیرِاعظم بھارت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

 

شخصی پس منظر

 

نریندر مودی کا تعلق ایک نچلے متوسط گھرانے سے ہے۔ بچپن میں آوارہ ہو گیا۔ پڑھائی کے بجائے کھیل کود میں اُس کا دل لگتا تھا۔ اِس لیے وہ اِنتہاپسند ہندو تنظیم، آر ایس ایس کے اسکول میں داخل ہوا جہاں بچوں کو مختلف کھیل بھی کھلائے جاتے۔ اُس نے میٹرک بہ مشکل تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ پھر خط کتابت کے ذریعے تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں سے بی اے اور اَیم اے کی ڈگریاں لیں، تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس کی دونوں ڈگریاں جعلی ہیں۔

 

۱۹۷۵ء میں جعل ساز اور فراڈیا پچیس سالہ مودی آر ایس ایس کا مستقل رکن (پرچارک) بن گیا۔ مسلمانوں سے لڑنا جھگڑنا اور غنڈہ گردی کرنا مودی کا محبوب مشغلہ تھا۔ ساتھ ساتھ ایک اچھا منتظم بھی تھا۔ اِنہی خصوصیات کے باعث اُسے آر ایس ایس میں ترقی ملی۔ بعدازاں تنظیم نے اُسے اپنے سیاسی دھڑے، بی جے پی سے نتھی کر دیا۔
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کرنے میں مودی اور اُس کے موالی و بدمعاش ساتھیوں نے اہم کردار اَدا کیا۔ اِس کامیابی کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنماؤں کو احساس ہوا کہ مودی کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے اپنے پرائے سبھی خوف کھاتے ہیں۔ یہ خاصیت اُنھیں اتنی بھائی کہ ۲۰۰۱ء میں اُسے وزیرِاعلیٰ گجرات کا عہدہ سونپ دیا۔ ریاست میں بی جے پی خانہ جنگی کی کیفیت میں مبتلا تھی۔

 

وزیرِاعلیٰ بننے کے کچھ عرصے بعد گجرات میں گودھرا رَیلوے اسٹیشن پر ہندو مسلم فساد ہو گیا۔ اِس فساد کے بعد مودی نے ہندو غنڈوں کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا اشارہ دَے دیا۔ اِس غنڈے کی زیرِقیادت انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر جو خوفناک ظلم و ستم ڈھائے، اُنھیں دیکھ کر شیطان بھی تھرّا اُٹھا ہو گا۔

 

مسلمانوں کے خلاف سفاکی بلکہ دہشت گردی دکھانے پر مگر وہ ہندو قوم پرست اور اِنتہاپسند رہنماؤں کا من پسند لیڈر بن گیا۔ اِن رہنماؤں کی ۱۹۸۰ء سے یہ پالیسی چلی آ رہی تھی کہ عام ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ دَنگا فساد کرایا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر دنگے فساد کے بعد عام ہندوؤں کی بڑی تعداد اُن کی سیاسی جماعت، بی جے پی کو قبول کر لیتی تھی۔

 

اقتدار میں آمد

 

۲۰۰۰ء میں اٹل بہاری واجپائی بی جے پی کے سرکردہ رہنما اور وَزیرِاعظم بھارت تھے۔ وہ مگر ایک ادیب و شاعر تھے۔ پھر اُن کے مسلم رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے۔ اِسی لیے انتہاپسند ہندو اُن کی زیرِ قیادت مسلمانوں کے خلاف تیز و تند اَور قتل و غارت سے بھرپور مہم نہ چلا سکے۔ بھارتی عوام کو بھی نفرت و تعصب سے بھرپور بی جے پی کا دورِ حکومت پسند نہ آیا اور اِلیکشن ۲۰۰۴ء میں وہ کانگریس اور اُس کی ہم نوا جماعتوں کو دوبارہ اِقتدار میں لے آئے۔

 

حکومت میں پہنچ کے کانگریس کے وزیروں، مشیروں اور رَہنماؤں نے مگر کرپشن کی انتہا کر دی۔ سرکاری ٹھیکوں میں خوب کک بیکس (kickbacks) لیے۔ کمیشن کھائے اور رَاتوں رات ارب پتی ہو گئے۔ کانگریس ۲۰۱۳ء تک حکومت کرتی رہی۔ اُس کی کرپشن نے بھارتی عوام کا دل اُس سے کھٹا کر دیا۔ اب الیکشن ۲۰۱۴ء میں ہندو قوم پرست تنظیموں نے نریندر مودی کو متفقہ امیدوار بنا لیا۔ مودی نے دو نکات پر انتخابی مہم چلائی:

 

اوّل یہ کہ وہ ہندو قوم کو دُنیا کی معزز و طاقتور قوم بنائے گا۔

 

دوم یہ کہ وہ بھارت کو کرپشن سے پاک کر کے معاشی سپرپاور بنا دے گا۔

 

مسلمانوں پہ چڑھائی

 

کانگریسی حکومت سے متنفر ہندو عوام نے مودی کو جوق در جوق ووٹ دیے اور اُسے کامیاب کرا دِیا۔ مودی نے حکومت سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ یوں وہ دِکھانا چاہتا تھا کہ بھارت میں اصل حکمران ہندو ہیں اور اِنہی کے پاس طاقت بھی ہے۔ گائیں لے جانے والے اور اِسلامی لباس میں ملبوس مسلمانوں پر انتہاپسند ہندو غنڈے حملے کرنے لگے۔ اسلامی شعائر اور عبادات کا مذاق اڑایا جانے لگا۔

 

یہ تو جب خلیجی ممالک اور یورپ و اَمریکا میں مودی حکومت کے خلاف مہم چلی اور اُس پر تنقید ہونے لگی، تو مودی اینڈ کو (Modi & Co.) کو معاشی مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ چنانچہ اپنے لیڈروں کی ہدایت پر ہندو غنڈوں نے مسلمانوں پر حملے کرنا بند کر دیے اور ٹھنڈے پڑ گئے۔

 

اِس دوران مگر مودی حکومت نے اپنے اقدامات سے ہندو عوام کو باور کرا دِیا کہ بھارت کے اصل مالک وہ ہیں…. اور یہ کہ وہ جب چاہیں، مسلمانوں کو چیونٹی کی طرح مسل سکتے ہیں۔ گویا انتہاپسند ہندو لیڈروں نے اپنی حکمتِ عملی کے تحت عام ہندو میں یہ احساس پیدا کر ڈالا کہ وہ مسلمان سے برتر ہے۔ اِسی جذبے نے اُسے فخر و غرور دَے دیااور وُہ اِحساسِ برتری میں مبتلا ہو گیا۔ عام ہندواَب مسلمانوں کو اِنسان نہیں سمجھتا، اُنھیں کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ اِسی لیے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہندو اَب مسلمانوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔

 

اب تو مودی حکومت کے زیرِ اہتمام یہ رِیت چل پڑی ہے کہ کوئی بھی فساد ہو، تو مسلمانوں کے گھربار، دفتر اور دُکانیں جلا دی جاتی ہیں۔ کوئی ہندو اِن سے لین دین نہیں کرتا۔ فساد سے جو کچھ بچ جاتا ہے، انتظامیہ بلڈوزر لا کر اُسے ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ غرض مودی حکومت کی شکل میں بھارتی مسلمانوں پر جو عذاب نازل ہوا ، وہ دِن بہ دن خوفناک صورت اختیار کر رہا ہے۔

 

جھوٹا احساس برتری

 

نریندر مودی اور اِنتہاپسند لیڈروں نے مگر ہندو عوام میں جو جھوٹا اور گمراہ کُن احساسِ برتری پیدا کر دیا ہے، وہ مستقبل میں بھارت کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ منظر پچھلے چند ماہ کے دوران شمال مشرقی بھارت میں نمایاں ہو چکا۔ جب شاید پانی سر سے گزر جائے ، تو ہندو قوم پرست رہنماؤں کو اِحساس ہو گا کہ اُنھوں نے اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی ہے۔

 

ہندو قوم پرستی کے نام لیواؤں نے پہلے مسلمانانِ بھارت کا جینا حرام کیا۔ پھر وہ جنوبی بھارت اور دِیگر بھارتی ریاستوں میں آباد قبائل کو ہندومت کی آغوش میں لانے کی سعی کرنے لگے۔ یہ قبائل عیسائی ہیں یا مقامی مذاہب پر عمل کرتے ہیں۔ جب ہندو غنڈوں نے زور زبردستی کی، تو فریقین کا تصادم ہو گیا۔ اِسی لیے جنوبی بھارت میں انتہاپسند ہندو لیڈروں کو نفرت و ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اِس کے بعد سکھ مودی حکومت کا شکار بنے اور اُنھوں نے حکومتی زرعی قوانین کے خلاف زوردار مہم چلائی۔ سکھ اب بی جے پی کے سخت مخالف بن چکے۔

 

علیحدگی کی تحریک

 

شمال مشرقی بھارت اِن ہندو اِنتہاپسندوں کا تازہ شکار بنا ہے۔ یہ علاقہ آٹھ ریاستوں …… آسام، میگھالایہ، تری پورہ، ناگالینڈ، سکم، اروناچل پردیش، منی پور اور میزو رَام پر مشتمل ہے۔ بنگال میں واقع ایک چھوٹی سی جغرافیائی پٹی اِس علاقے کو بھارت سے ملاتی ہے۔

 

۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق اِس علاقے کی آبادی تقریباً ساڑھے چار کروڑ تھی۔ پچھلے بارہ سال میں آبادی ساڑھے پانچ کروڑ سے بڑھ چکی۔ اِس آبادی میں ۵۰ فی صد سے کم ہندو ہیں۔ ۲۵ فی صد رہائشی مسلمان ہیں۔ ۲۲ فی صد عیسائی، ۲ فی صد بدھی اور ۱.۵ فی صد مختلف مقامی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور بدھی غریب ہیں۔ دیہی علاقوں میں رہتے اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ شہروں میں آباد بیشتر مسلمان و عیسائی بھی معمولی ملازمتیں کرتے ہیں۔ علاقے کی سیاست، تجارت، کاروبار اَور اِنتظامیہ میں ہندو چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا وُہ طاقتور اَور بارُسوخ ہیں۔ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہر ممکن جائز ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

 

یہ ہندو اَب دیہی علاقوں اور جنگلات پر قابض ہونا چاہتے ہیں جہاں عیسائی اور قبائلی رہتے ہیں۔ منی پور میں حالیہ تصادم کی یہی وجہ ہے کہ وہاں عدلیہ کے ہندو ججوں نے ہندو اِنتظامیہ کو جنگلوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دی۔ جب عیسائی و دِیگر قبائل نے احتجاج کیا، تو منی پور کے ہندوؤں نے دنگا فساد شروع کر دیا۔ عیسائیوں پر بےانتہا مظالم ڈھائے گئے۔ اُن کے گھربار نذرِ آتش کر دیے اور خواتین کی بےحرمتی کی گئی۔

 

پچھلے چند ماہ سے مسلمانانِ بھارت پر ہندو اِنتہاپسند دوبارہ حملے کرنے لگے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگلے سال پارلیمانی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔ مزیدبراں بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے خلاف محاذ بنا لیا ہے، اِس لیے ہندو انتہاپسندوں نے روایتی حکمتِ عملی اختیار کر لی ….. یہی کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فساد کرائے جائیں۔ یوں عام ہندوؤں کی بڑی تعداد میں مذہبی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور وُہ مشتعل ہو کر بی جے پی کے پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں۔

 

یہ درست ہے کہ مودی دورِ حکومت میں کرپشن کا کوئی بڑا اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ نیز بھارت نے معاشی ترقی بھی کی ہے، مگر بیشتر ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ ترقی مخصوص طبقے تک محدود ہے۔ بھارت کا دیہی اور غریب طبقہ ترقی کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکا۔ اب بھی کروڑوں بھارتی غربت، بیماری، بےروزگاری اور جہالت کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ اِس قسم کی ترقی سے یقیناً بھارت ویسی معاشی طاقت نہیں بن سکتا جس کا خواب نریندر مودی دیکھ رہا ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ مودی اور دِیگر ہندو اِنتہاپسندوں نے نفرت، دشمن اور تعصب پر مبنی اپنی پالیسیاں جاری رکھیں، تو بھارت مذہبی فسادات کا مرکز بن جائے گا۔ غریب اور اَمیر کے مابین بڑھتا فرق بھی غریبوں کو بغاوت کرنے یا انقلاب لانے پر اُکسا سکتا ہے۔ لہٰذا بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو مودی ڈکٹرائن ختم کرنے کے کے لیے سرگرم ہونا پڑے گا، ورنہ بھارت رفتہ رفتہ ٹوٹ پھوٹ کا نشانہ بن سکتا ہے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest