fbpx

ابّا کی دکان – ایک یادگار سبق آموز قصّہ

’’یہ بھی کمال کہی آپ نے کہ ابّا کی دکان کا سودا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسا قضیہ ہے جو اَب تک حل نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں امّاں؟ مانا کہ جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے، تو تب سے محلے میں یہ دکان چل رہی ہے۔ ہم سب کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں بھی اِس دکان کا بہت ہاتھ ہے۔ ابّا کی محنت اپنی جگہ، اب جب مَیں اچھا خاصا کماتا ہوں، ڈاکٹر بن گیا ہوں، اپنا کلینک بھی ہے، فاریہ اور آنسہ بھی اپنے گھر کی ہیں، تو ابّا کو یوں دکان پر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
بلال نے اتنی لمبی تقریر کر لی تھی لیکن لگتا تھا کہ امّاں پر چنداں اثر نہ ہوا تھا۔ وہ بےنیازی سے مارننگ شو دیکھتی رہیں۔ وہ غصّے سے باہر جانے لگا، تو مسرّت بیگم نے مسکراتے ہوئے پیچھے سے آواز لگائی:
’’اسپتال جلدی پہنچ جائو، تو فون کر دینا اور میری مانو تو پہنچتے ہی اپنا فشارِ خون بھی چیک کروا لینا، بڑھا ہوا لگتا ہے۔‘‘
’’کیا ہوا، آپ صبح صبح بلال کے فشارِ خون کی کیا بات کر رہی تھیں۔ سب خیریت تو ہے؟ اُس کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ مشتاق صاحب نے مسرّت بیگم سے دریافت کیا۔
’’ہاں! آپ کے صاحب زادے کی وہی ضد کہ ابّا کی دکان کیوں نہیں بیچ دیتے؟ اور یہ کہ اب وہ بھی برسرِ روزگار ہو گئے ہیں، تو آپ کو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’تمہیں پتا ہے مسرّت! یہ دکان میرا کل سرمایہ ہے۔ میری ذات سے جڑا گویا ایک حصّہ، کیا اپنے وجود کو اَپنے ہاتھوں ہی کاٹ ڈالوں؟ یہ علاقہ کون سا برا ہے اور پھر سب ہمیں جانتے ہیں۔ ساری زندگی یہیں گزر گئی۔ مکان بنایا، اُسے ڈاکٹر بنایا، بیٹیاں بیاہیں صرف اِس دکان کے سر پر اور یہ ہے کہ باپ کی دکان کا دشمن بنا ہوا ہے، حد ہے۔‘‘ مشتاق صاحب کے چہرے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔
’’اف بھئی بس بھی کریں، آپ دونوں باپ بیٹا برابر ہیں۔ دونوں کا جو جی چاہے کریں بس میرے دماغ کی دہی مت کریں۔ مجھے ابھی کھانا بھی پکانا ہے۔‘‘ مسرّت بیگم ناراضی سے پیر پٹخ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔
٭٭
مشتاق صاحب پرانے وقتوں کے بی اے پاس تھے۔ پہلے کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی اور بعد از بچت کے سرمائے سے دکان ڈال لی۔ پھر اِسی دکان کے آسرے پر روزی روٹی چلتی رہی اور اَب جوان بیٹا ہٹ دھرمی سے صرف اِس لیے اُسے بیچنا چاہتا تھا کہ کوئی یہ نہ کہے، اتنے بڑے ڈاکٹر کا باپ دکان دار ہے۔
سوچ سوچ کر مشتاق صاحب کا دماغ جیسے پھٹنے لگا تھا۔ مسرّت بھی اُن کا دکھ سمجھتی تھیں لیکن گویا وہ آتش فشاں کے درمیان تھیں۔ ایک طرف بیٹا ایک طرف شوہر، کس کی مانیں کس کی سنیں عجیب مصیبت تھی۔
بلال شام کو کلینک میں تھا، تو ابّا کے دوست صفدر صاحب آ گئے۔ بلال اُن کی بہت عزت کرتا تھا۔ اُن کا بیٹا شاہ زین اُس کا بچپن کا دوست تھا۔
’’آئیے انکل کیسے آنا ہوا، آپ نے مجھے بلوا لیا ہوتا۔ خود کیوں تکلیف کی؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ بلال تشویش سے بولا۔
’’بات پریشانی کی تھی اور وُہ بھی میرے جگری یار کی، تو بس پھر مجھ سے رہا نہیں گیا بیٹا! مشتاق کی اپنی دکان سے بہت گہری وابستگی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ آج کل کی نسل کیا سوچتی ہے۔ مَیں بھی جوان بچے کا باپ ہوں۔ لیکن بیٹے کیا تمہارے باپ کا اتنا بھی حق نہیں کہ اُس کی زندگی میں اُس کی چیزیں اُسی کے پاس رہیں۔ خاکم بدہن اُس کے انتقال پر سب تمہارا ہی ہے۔ چاہے دکان رکھنا یا بیچنا ….. شاید تمہیں معلوم نہ ہو کہ تمہارے باپ کے پاس سب سرمایہ تمہاری بہنوں کی شادی میں ختم ہو گیا اور پھر وہ اِسی دکان کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے باوجود بھی نجی دفتر میں نوکری کرتا رہا۔ تم مجھے اکثر دکان پر دیکھا کرتے تھے نا، دراصل وہ میرے آسرے پر ساری چیزیں چھوڑ کر جاتا تھا اور مَیں نے بھی میاں ایک پائی کی ڈنڈی نہ ماری اور تم ہو کہ اپنے سائبان کو خود اپنے ہاتھوں مٹانے چلے ہو۔
’’یاد رَکھو بلال! ماں تو بچوں کو نو مہینے پیٹ میں رکھ کر جنم دیتی ہے اور اُس کے پائوں تلے جنت ہے لیکن باپ عمر بھر اولاد کے طعنے سنتا ہے اور بچوں کی روزی کے لیے سب سہتا بھی ہے۔ اگر ماں کے قدموں تلے جنت ہے، تو باپ کی ناراضی بھی اللہ کی ناراضی کے مترادف ہے۔ اچھا مَیں چلتا ہوں۔‘‘
صفدر صاحب کے جانے کے بعد بلال گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اُس نے دانستہ اپنے ابّا کا کتنا دل دکھایا تھا۔ وہ کلینک سے ایک نیا فیصلہ کر کے اٹھا۔
صبح ناشتے کی میز پر چند کاغذات بلال نے ابّا کے سامنے رکھ دیے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:
’’بلال! مجھ سے دکان کی بات مت کرنا۔ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے، تو تم یہاں سے جا سکتے ہو۔ کہہ دینا کہ مَیں تمہارا باپ نہیں ہوں تاکہ تمہیں شرمندگی نہ ہو۔‘‘
’’نہیں ابا! آپ پہلے دیکھ تو لیں۔ یہ تو دکان کے ساتھ والے دو پلاٹ مَیں نے آپ کی ملکیت سے خریدے ہیں۔ ہم دکان کی توسیع کریں گے اور اِسے بڑے مال میں تبدیل کریں گے۔ کیا آپ کو اَپنے بیٹے پر اعتبار نہیں؟ مَیں نے اپنی حق حلال کی کمائی سے پلاٹ خریدے ہیں۔ اللہ آپ کو لمبی عمر دے، مَیں بھی آپ کا ہوں اور میری دولت بھی آپ کی ہی ہے۔
’’ابّا! مجھے معاف کر دیں۔ آئیے دکان پر چلتے ہیں۔‘‘ ابّا نے اُس کے ہاتھ اپنی نم آنکھوں سے لگا لیے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest