وطنِ عزیز کی قومی زبان، اردو ڈھائی کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی مادری بولی ہے،۔ اِس لحاظ سے یہ دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت میں اسے بولنے والوں کا شمار کیا جائے ، تو یہ اسّی کروڑ سے زائد افراد کی زبان بن جاتی ہے۔ تب اِسے انگریزی اور مینڈرین چینی کے بعد دنیا کی تیسری بڑی زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہو گا۔
اردو زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد چون(۵۴) ہے جو مختلف آوازوں سے بولے جا سکتے ہیں۔ ( بہ حوالہ ادارہ ٔ فروغ ِ قومی زبان )جب کمپیوٹر ایجاد ہوا، تو اُردو کی بورڈ بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ چونکہ پہلے انگریزی کی بورڈ وجود میں آیا، اِس لیے شعوری طور پر ماہرین اُس کی بنیاد پر اُردو کی بورڈ بھی بنانے کی سعی کرتے رہے۔
اِس وقت دنیائے اردو میں ’’فونٹک’’ کی بورڈ مقبول ہے جو دراصل انگریزی حروف پر مبنی ہے۔ یعنی اُس کی بورڈ کے لےآؤٹ یا نمونے میں انگریزی ’’اے‘‘ ٹائپ کرنے پر الف لکھا جاتا ہے۔ ’’بی‘‘ ٹائپ کریں، تو ب کمپوز ہو گا۔ اِسی طرح ’’پی‘‘ پ، ’’ٹی‘‘ ت اور شفٹ کے ساتھ ’’سی‘‘ ث ٹائپ کرتے ہیں۔
اِس اردو کی بورڈ سیٹنگ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اردو حروفِ تہجی کی ترتیب بکھر گئی۔ الف کہیں ہے، تو ب کہیں اور۔ لہٰذا عام آدمی اِسے استعمال کرتے ہوئے خاصی دشواری محسوس کرتا ہے۔ جب اِس کی بورڈ پر ٹائپنگ کی طویل عرصے مشق ہو جائے، تبھی انسان کچھ مہارت اور کام میں آسانی محسوس کرتا ہے۔
انگریزی نمونے یا ورژن پر بنے اردو کی بورڈ کی اِسی خامی اور دِیگر خامیوں کو زیرک احمد نے جانچ لیا۔ آپ سافٹ ویئر انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیزائن انجینئر بھی ہیں۔ ڈیزائن انجینئر ایک منصوبے کی ڈیزائننگ پر تحقیق و تجربے کرتا اور اَپنی جدت و محنت سے اُسے خوب سے خوب تر بناتا ہے۔
زیرک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ امریکا کے ممتاز تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس اور پبلک پالیسی میں گریجویشن کی۔ پھر ہارورڈ یونیورسٹی کے اسکول آف ڈیزائن سے ڈیزائن انجینئرنگ میں ماسٹر کیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے اپنے پیشے کے کورس کیے۔تعلیم مکمل کر کے زیرک مختلف اہم امریکی کمپنیوں مثلاً مائیکروسافٹ سے وابستہ رہے۔ آج کل دنیا کی بڑی کمپنی، ایمیزن میں کام کر رہے ہیں۔ اُس کی مصنوعات کو خوبصورت اور پُرکشش بناتے ہیں۔
۲۰۱۷ء سے زیرک ایک نیا اردو کی بورڈ بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ اِس منصوبے کے پسِ پشت مادی فائدے سے زیادہ جذبہ حب الوطنی کارفرما تھا۔ آپ ہم وطنوں کو استعمال میں آسان کی بورڈ عطا کر کے اُن کے کام میں آسانی لانا چاہتے تھے۔ یہ کی بورڈ ایجاد کرنے کے لیے زیرک نے بڑی تحقیق و جستجو کی۔ ماہرینِ اردو لغت سے رہنمائی لی۔ مختلف اردو کی بورڈوں کا مطالعہ کیا۔ آخر محنت رنگ لائی اور کچھ عرصہ قبل وہ ایک معیاری اردو کی بورڈ ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے ’’متن ساز‘‘ کا نام ملا۔
اِس نئے اردو کی بورڈ کی خوبیاں جاننے کے لیے ہم نے زیرک احمد سے ایک آن لائن انٹرویو کیا۔ یہ ورچوئل ملاقات دلچسپ اور فکرانگیز ثابت ہوئی۔ اُس نے سوچ کے نئے در وَا کیے۔ آئیے آپ بھی ایک پاکستانی کے خیالات جانیے جو اَپنی صلاحیتوں اور سعی سے بیرونِ ملک پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔
سوال: آپ کو متن ساز ایجاد کرنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب: پاکستان میں جو نئی نسل کمپیوٹر کے دور میں پیدا ہوئی ہے، وہ عام طور پر اردو میں ٹائپنگ نہیں کرتی۔ بیشتر نوجوان انگریزی یا پھر رومن اردو سے کام چلاتے ہیں۔ مگر آپ یورپ یا لاطینی امریکا جائیں، تو آپ کو علم ہو گا کہ ہر ملک کے باشندے مقامی یا قومی زبان میں ٹائپنگ آسانی سے کر لیتے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کی قومی زبان کے ایسے کی بورڈ لےآؤٹ ایجاد ہو چکے جو اِستعمال میں آسان ہیں۔ کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ غرض فرانسیسی، چینی، جاپانی حتیٰ کہ ہندی اور بنگالی کے آسان استعمال والے کی بورڈ ایجاد ہو چکے۔
اردو کا شمار اُن چند عالمی زبانوں میں ہوتا ہے جن کے آسان فہم کی بورڈ ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکے۔ چند سال قبل جب مَیں ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈیزائن انجینئرنگ کر رہا تھا، تو مَیں نے فیصلہ کیا کہ ایسے تھیسس پر کام کروں گا جس سے میرے احباب اور ہم وطنوں کو عملی فائدہ پہنچ سکے۔ یوں اِسی سوچ کے بطن سے متن ساز کے منصوبے نے جنم لیا۔
یہ نیا منصوبہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ایسا سافٹ ویئر، انفراسٹرکچر اور اَیسا ڈیٹا تخلیق کیا جائے جو ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مثلاً محقق، تاجر، صنعت کار، طالبِ علم، عام آدمی، غرض ہر ایک کو فائدہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے، متن ساز محض کی بورڈ کا لے آؤٹ نہیں، وہ پورا ڈیٹا سیٹ ہے جسے سافٹ ویئر یا ایپلی کیشنز بنانے والے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ گویا اِس ڈیٹا سیٹ کی مدد سے اردو کے دیگر مفید و بامقصد سافٹ ویئر بنانا بھی ممکن ہے۔
سوال: متن ساز کیا اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم میں کارآمد ہے؟
جواب: ابھی یہ آئی ایس او آپریٹنگ سسٹم کے لیے ریلیز کیا گیا ہے۔ وجہ یہ کہ ایپل کمپیوٹر، آئی پیڈ اور موبائل استعمال کرنے والے پاکستانیوں کو غیرمعیاری اردو کی بورڈ میسّر ہیں۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے اُن ہم وطنوں کو سہولت فراہم کی جائے۔ اُنھیں آسانی دی جائے۔ مستقبل میں دیگر آپریٹنگ سسٹمز کے لیے بھی متن ساز ریلیز کیا جائے گا۔
سوال: متن ساز دیگر اردو کی بورڈوں سے کیونکر مختلف ہے؟
جواب: اِس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ دیکھنے میں چھوٹا ہے۔ نیز اِس میں ایک آٹوکوریکٹ سسٹم یا غلطیاں خود بخود دُرست کرنے والا نظام موجود ہے جو درست ٹائپنگ یقینی و سہل بناتا ہے۔ یہ نظام ایک اوپن سورس ڈیٹابیس پر مبنی ہے۔ یعنی اِس سے کوئی بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ آٹو کوریکٹ سسٹم لکھتے ہوئے اگلے الفاظ بھی تجویز کرتا ہے تاکہ لکھنے والے کو آسانی ہو۔
سوال: آپ کسی اور سافٹ ویئر پر بھی کام کر رہے ہیں؟
جواب: فی الحال تو میری توجہ و توانائی کا مرکز متن ساز ہی ہے۔ ساتھ ساتھ ایمیزن میں ملازمت جاری ہے۔ وہاں میں ایک ڈیزائن ٹیم کا سربراہ ہوں۔ پاکستانی
موسیقی سے مجھے شغف ہے۔ لہٰذا اِس موضوع پر مضامین لکھتا ہوں جو ’’ہم نوا‘‘ رسالے میں شائع ہوتے ہیں۔
مَیں متن ساز کے ڈیٹاسیٹ کا ذکر کر چکا۔ اِسے ہم نے ــ’’مخزن‘‘ کا نام دیا ہے۔ اِس ڈیٹاسیٹ کو بہتر سے بہتر بنانا بھی میرا مشن ہے۔ یہ دراصل لکھی اردو تحریروں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور اِس میں اضافہ جاری ہے۔ اِس کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی اور اُردو سافٹ ویئر بنانے والا مصنوعی ذہانت کا ماہر یا محقق ’’مخزن‘‘ سے مستفید ہو سکتا ہے۔
مستقبل میں امید ہے کہ مَیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مزید ایسے نئے سافٹ ویئر تخلیق کروں گا جن کی مدد سے اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے میں آسانی جنم لے اور وُہ ہم وطنوں کے کام آئے۔
سوال: پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی صورتِ حال پر روشنی ڈالیے۔
جواب: ہمارا وَطن بہ لحاظِ آبادی دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری فروغ پذیر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلے بیشتر پاکستانی کمپیوٹر یا موبائل استعمال نہیں کرتے تھے۔ مگر اب ڈیٹا سستا ہونے کی وجہ سے کروڑوں پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کرنے لگے ہیں۔ لہٰذا آئی ٹی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
پاکستان اب بیس سال پہلے کے امریکا والے مقام پر کھڑا ہے۔ تب بہت کم امریکیوں کو اندازہ تھا کہ انٹرنیٹ معاشرے میں کس قسم کی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ آج بیس سال بعد انٹرنیٹ نے امریکی معاشرہ بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور وَہاں انقلابی تبدیلیاں آ چکیں۔
گویا پاکستان ایک ایسی اَن چھوئی اور بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی، بڑھوتری کے بہت زیادہ اِمکانات ہیں۔ وہ اَپنے لوگوں میں اور بیرون ممالک بھی نت نئی مصنوعات متعارف کرا سکتی ہے۔ لہٰذا انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور سمارٹ فونوں کے پھیلاؤ سے پاکستانی معاشرے میں بھی کئی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ مَیں سمجھتا ہوں، پاکستانی آئی ٹی انجینئروں اور ڈیزائنروں کو خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان میں بہت کچھ کرنا ممکن ہے۔ یہاں ترقی کے بہت مواقع ہیں۔
امریکا و یورپ میں ہمہ اقسام کے سافٹ ویئر ایجاد ہو چکے۔ پاکستانی ماہرین کو چاہیے کہ اُنہی سافٹ ویئرز میں مقامی ضروریات سامنے رکھ کر تبدیلیاں کریں اور اُنھیں پاکستان میں پیش کر دیں۔ مَیں نے متن ساز اِسی لیے تخلیق کیا کہ وہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کو ترقی و بڑھاوا دَینے میں معاون ثابت ہو۔ اِسی طرح کئی اور سافٹ ویئرز بن سکتے ہیں جو پاکستانی باشندوں کو فائدہ پہنچائیں۔
یہ مگر ضروری ہے کہ سافٹ ویئرز بنانے والے اپنے ہم وطنوں کی مشکلات اور ضروریات سے واقف ہوں۔ اُن کے مسائل کی بابت جانتے ہوں۔ لہٰذا وُہ اُنھیں سامنے رکھ کر ایسے کمپیوٹر پروگرام تشکیل دیں جو مسائل بخوبی حل کر سکیں۔ اِس کے لیے نئی نظر سے دیکھنا، جدت پسندی اور محنت درکار ہے۔
اِس طریقِ کار پر کام کرنے سے ہمیں ترقی و بڑھوتری کے مواقع ملتے ہیں۔ ہم اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک نئی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات و اختراعات کرنے سے ہم اپنے دیس کو معاشی طور پر بھی ترقی دے سکتے ہیں۔ یوں مملکت میں مجموعی طور پر ہر شعبہ ہائے زندگی میںبہتری آئے گی۔
چند سال قبل جب پاکستان کے معاشی حالات اچھے تھے، تو ابھرتی پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں (سٹارٹ اپس) میں اندرون و بیرون ممالک سے خاطرخواہ سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ وجہ یہی ہے کہ دنیا والے جانتے ہیں، پاکستان ایک بڑی ابھرتی مارکیٹ ہے۔ یہاں کروڑوں انسان آباد ہیں جو بتدریج دنیائے نیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا مجھے یقین ہے کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کا مستقبل روشن ہے اور پاکستانی آئی ٹی ماہرین کام کرتے رہیں گے۔
سوال: آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔
جواب: مَیں لاہور میں پیدا ہوا۔ وہیں پلا بڑھا۔ گرامر اسکول میں تعلیم پائی۔ اے لیول کرنے کے بعد امریکا اعلیٰ تعلیم پانے چلا گیا۔ گریجویشن کے بعد کئی سال بطور پروڈکٹ مینیجر مائیکروسافٹ میں کام کیا۔ پھر ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا
سوال: پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کی خاطر کس قسم کے اقدامات ہونے چاہئیں؟
جواب: وطنِ عزیز میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ و ترقی میں حکومت اور اِداروں سے لے کر عام لوگوں، سبھی کو اَپنا کردار اَدا کرنا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ایک اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ عام آدمی تک سائنسی علوم کی رسائی دی جائے۔ یعنی وہ سہولت سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون خرید سکے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب سبھی اشیا سستے داموں دستیاب ہوں۔
اِس کا فائدہ یہ ہے کہ عام آدمی بھی دنیائے انٹرنیٹ میں گھوم پھر سکے گا۔ اب انٹرنیٹ کی دنیا میں نت نئے علوم اور ہنر سیکھنے کے سنہری مواقع موجود ہیں۔ اگر اِس ٹیکنالوجی سے فائدہ نہ اٹھایا گیا، تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ چھوٹے قصبوں اور دیہات تک لوگوں کو بھی انٹرنیٹ تک بہ سہولت رسائی دی جائے۔
اب بات علم یا ہنر کی تربیت کی آتی ہے۔ مَیں نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان میں لوگ تربیت کے سلسلے میں مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مختلف سافٹ ویئر مثلاً ورڈ، آفس وغیرہ چلانا آ جائے، تو یہ کافی ہے۔ یہ تو آسانی سے سیکھی جانے والے صلاحیتیں ہیں۔
ہمیں اب یہ تربیت پانی ہے کہ کمپیوٹر اور سافٹ ویئر بنانا سیکھ لیں۔ ہمیں پروگرامنگ، کوڈنگ، ڈیزائننگ وغیرہ کے ہنر سیکھنے چاہئیں۔ دنیا میں اِنہی ہنروں کی مانگ ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کمپیوٹر سائنس اور اِس سے وابستہ علوم و ہنروں کی تربیت عام پاکستانیوں کو دی جائے۔ یہ دیکھیے کہ ملائیشیا، سنگاپور، بھارت، مصر میں نوجوان نسل یہی تربیت پا کر آج معاشی طور پر بہت ترقی کر رہی ہے۔ وہاں سائنس و ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کی تعلیم و تربیت کا معیار بھی اعلیٰ ہے۔
درج بالا ممالک کو سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور تعلیم و تربیت عام آدمی تک پہنچنے سے یہ بڑا فائدہ ملا کہ وہاں بہت جلد نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اُنھیں جلد روزگار مل جاتا ہے۔ ہم بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کروڑوں پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل سنوار اَور رَوشن کر سکتے ہیں۔ ہمیں خصوصاً اپنے طلبہ و طالبات کو ایسی سائنسی تعلیم و تربیت دینی چاہیے کہ وہ پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر بہترین کارکردگی دکھا سکیں۔
سوال: بیرون ملک اپنے وطن کی ترقی کے لیے آپ کس طرح متحرک ہیں؟
جواب: مَیں پاکستان آتا جاتا رہتا ہوں۔ پھر میری زندگی کا بہت بڑا حصّہ یہیں گزرا ہے۔ لہٰذا میری دیرینہ خواہش ہے کہ میری صلاحیتیں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے بھی استعمال ہوں۔ یہ صرف میری تمنا نہیں، دنیا میں جہاں بھی پاکستانی آباد ہیں، وہ دَرمے، سخنے، ہر ممکن طریقے سے اپنے وطن کے کام آتے ہیں۔ اہلِ پاکستان کی مدد کرتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ جو پاکستانی باہر جائے، اُس کے دل کا کچھ حصّہ پاکستان رہ جاتا ہے۔ انسان کہیں بھی چلا جائے، جس جگہ وہ پیدا ہوا اَور جہاں وہ پلا بڑھا، اُسے تاعمر نہیں بھول سکتا۔ اِس لیے بیرون ملک مقیم تمام پاکستانی کسی نہ کسی طرح اپنے وطن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے دل کی دنیا کا کچھ حصّہ یہاں بسا رکھا ہے۔
مَیں نے امریکی سائنس و ٹیکنالوجی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ لہٰذا میری سعی ہوتی ہے کہ اپنے علم سے اہلِ پاکستان کو بھی فائدہ پہنچاؤں۔ متن ساز اِسی سوچ کی ایک کڑی ہے۔ اِن شاء اللہ مستقبل میں مزید منصوبے انجام پائیں گے۔ بیرون ملک کے پاکستانی سائنس دانوں اور ماہرینِ علوم کو چاہیے کہ وہ نوجوان پاکستانیوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ اِس طرح اُنھیں بھی ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع میسّر آئیں گے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ جب مَیں کوئی منصوبہ شروع کروں، تو اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ وجہ یہی ہے کہ ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اور ہم ایک دوسرے کو مسائل بخوبی سمجھا سکتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ سبھی پاکستانیوں کا یہی وتیرہ ہونا چاہیے۔ اِس طرح شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا نیٹ ورک بن رہا ہے۔ اِس نیٹ ورک سے پاکستان کی نئی نسل کے انجینئروں اور ڈیزائنروں کو بھی فائدہ ہو گا۔
سوال: متن ساز کی خوبیاں اجاگر کیجیے۔
جواب: متن ساز کی دو نمایاں خوبیاں ہیں۔ اُنھیں نئی تبدیلیاں کہہ لیجیے۔ عام اردو کی بورڈ میں بنیادی انتالیس حروف کے لیے انتالیس ہی بٹن ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ اردو کی بورڈ انگریزی نمونے پر بنا ہے، جو اِتنے زیادہ بٹن نہیں رکھتا، لہٰذا ہم شفٹ کی استعمال کر کے دوسری تہہ میں موجود اَلفاظ ٹائپ کرتے ہیں۔ ایسا کی بورڈ مگر سیکھنے اور اِستعمال کرنے میں کافی مشکل ہے۔
پاکستان میں اب لاکھوں لوگ پہلی دفعہ کمپیوٹر اور سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مروجہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اُن کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے ہم نے متن ساز میں دو نئی اختراعات متعارف کرائیں تاکہ آسانی سے استعمال کے قابل اردو کی بورڈ بن سکے۔
پہلی تبدیلی یہ کی کہ انتالیس بٹنوں کے بجائے ہم نے متن ساز میں صرف اکیس بٹن رکھے ہیں۔ یہ کام ہم نے اِس طرح انجام دیا کہ یکساں شکل کے حروف ایک ہی بٹن میں جمع کر دیے۔ جیسے ب، ت، ٹ، ث کا ایک ہی بٹن ہے۔ آپ وہ بٹن دبائیے، ٹائپ شدہ لفظ کی ضرورت کے مطابق نقطے خود ہی کمپوز ہو جائیں گے۔
جب ٹائپ رائٹر کا رواج تھا، تو ہم اِس قسم کا جادو نہیں کر سکتے تھے۔ اب سمارٹ فون میں ٹچ اسکرین کے ساتھ ایسے کمالات دکھانا اور نئے طریقے اختیار کرنا آسان ہو چکا۔ متن ساز بھی ایک نئے ڈیزائن کو استعمال کر کے کام کرتا ہے۔
متن ساز کی دوسری اختراع یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں، عربی رسم الخط میں جب ہم کوئی لفظ لکھتے ہیں، تو اُس کے حروف جڑ جاتے ہیں۔ جڑنے کے بعد وہ اَپنی شکل بھی بدل لیتے ہیں۔ مثلاً اگر حرف ب لفظ کے شروع، درمیان یا آخر میں آئے، تو اُس کی شکل بدل جاتی ہے۔
متن ساز کی جدت یہ ہے کہ آپ لکھتے ہوئے ہر حروف کی بدلتی شکل دیکھ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر آپ نے ب چُن لیا، تو یہ وہی شکل اختیار کرے گا جو لفظ میں آ رہی ہے۔ بجائے اِس کے کہ وہ رَوایتی کی بورڈ کی طرح اپنی اصل شکل (ب) دکھائے۔
اِس طریقِ کار کا فائدہ یہ ہے کہ اردو لکھتے ہوئے املا کے مسائل جنم نہیں لیں گے۔ مثلاً بچوں اور بڑوں کو بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ لفظ میں چھوٹی ی آئے گی یا بڑی ے۔ لفظ کے مطابق حروف کی بدلتی شکل سے یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اِس خوبی کی وجہ سے متن ساز بچوں کو اُردو لکھنا سکھانے کے لیے بہت کارآمد ہے۔
اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا، متن ساز لکھتے ہوئے انجام پائی غلطیاں درست کرنے کا خودکار طریقہ بھی رکھتا ہے۔ اینڈرائیڈ کے بعض اردو کی بورڈز میں تو یہ نظام موجود ہے، آئی ایس او میں موجود نہیں تھا۔ متن ساز کے باعث یہ کمی دور ہو گئی۔
فون پر غلطیاں درست کرنے کا نظام ضروری ہے۔ وجہ یہ کہ چھوٹے سے کی بورڈ پر غلطیاں درست کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ہر کی بورڈ کی بنیادی خوبی ہے کہ اُس میں غلطیاں ٹھیک کرنے کا خودکار نظام موجود ہو، تاکہ ٹائپنگ آسانی سے اور رَواں دواں انداز میں انجام پا سکے۔ متن ساز اِس طریقے سے اردو صحیح طرح لکھنا بھی سکھا دیتا ہے۔