fbpx

ایڈیٹر نوٹ -سوڈان میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟

urdu digest editor note. sudan

عالمِ اسلام میں بہ لحاظِ آبادی آٹھواں بڑا ملک، سوڈان ایک بار پھر وسط اپریل۲۰۲۳ء سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ وجہ دو جرنیلوں کا لالچ اور اَپنے مفادات پورے کرنے کی ہوس ہے۔ اُن کی مفاداتی سیاست اور پھر باہمی لڑائی نے پورے سوڈان کو آگ و خون کے شعلوں میں دھکیل دیا۔ تاحال اِن جرنیلوں کی لڑائی میںساڑھے چار سو سوڈانی ہلاک،چار ہزار سے زائد زخمی اورہزارہا شہری بے گھر ہو چکے۔دارالحکومت خرطوم اس لڑائی کا مرکز ہے جہاں سے اہل پاکستان کے علاوہ دیگر اقوام کے ہزاروں غیرملکیوں کو اپنی جانیں بچا کر بے سروسامان فرار ہونا پڑا۔ یوں تاریخ ِانساں کا ایک اور المیہ ظہور پذیر ہو گیا۔
ماضی میں سوڈان انگریزوں کی نوآبادی رہا ہے۔ مصر پر قابض برطانوی وہاں سے سوڈان کے وسائل بھی لُوٹ کر برطانیہ لے جاتے رہے۔ پہلی اور دُوسری جنگِ عظیموں نے سلطنتِ انگلشیہ کے بخیے ادھیڑے، تو انگریز کو اَپنی نوآبادیاں آزاد کرنا پڑیں جن میں سوڈان بھی شامل تھا۔ یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔اُس وقت مملکت میں سیاست داں متحرک و سرگرم تھے اور اُنھوں نے ہی نوزائیدہ ملک کا نظامِ حکومت سنبھالا۔ مگر جلد مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک سیاست داں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جوڑتوڑ کی سیاست شروع ہو گئی تاکہ اقتدار حاصل کیا جا سکے۔ سرکاری منصوبے من پسند بااثر وطاقتور لوگوں کو دیے جانے لگے کہ اُن کی حمایت مل سکے۔ بیوروکریسی اور عدلیہ بھی مجبور ہو گئی کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی مددگار بن جائے۔ سرکاری افسروں و ججوں کی حمایت پانے کی خاطر اُنھیں رشوت بھی دی گئی۔
غرض سوڈان کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے تین اہم عناصر مملکت آزاد ہوتے ہی اقتدار ’’بچانے یا پانے‘‘ کے مفاداتی کھیل میں مصروف ہو گئے۔ اُنھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ حکومت کو جو آمدن ہوتی، اُس کا بیشتر حصّہ حکمران طبقے المعروف بہ اشرافیہ میں تقسیم ہو جاتا یا پھر دفاع پر خرچ ہو تا۔سیاست دانوں کی سازشوں، کرپشن اور جوڑتوڑ سے نوزائیدہ ریاست میں ملکی نظامِ حکومت مضبوط تو کیا ہوتا الٹا متاثر ہونے لگا۔ قانون کی رِٹ کمزور پڑنے لگی۔ اِس صورتِ حال میں سوڈانی فوج کے جرنیلوں نے یہی مناسب جانا کہ اقتدار خود سنبھال لیا جائے۔ جرنیل سمجھتے تھے کہ وہ نظامِ حکومت زیادہ نظم و ضبط اور کرپشن کے بغیر چلا سکتے ہیں۔ یوں آزادی کے صرف دو سال بعد ۱۹۵۸ء میں سوڈان پر جرنیلوں کی حکومت قائم ہو گئی۔
فوجی حکومت نے ابتداً عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے۔ اسکول و اسپتال بنائے۔ ڈیم تعمیر کرائے۔ شاہراہیں بنائیں۔ مگر رفتہ رفتہ فوجی افسروں کو حکمرانی کا چسکا لگ گیا۔ وہ عیش و آرام کے عادی ہو گئے اور بیرکوں میں جانے سے گھبرانے لگے جہاں سخت زندگی اُن کی منتظر تھی۔ یہ جرنیل ڈالر اور اَسلحہ حاصل کرنے کی خاطر کبھی امریکا کے ساتھی بن جاتے، تو کبھی سوویت یونین اُن کا دوست قرار پاتا۔
دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ جرنیلوں نے کاروبار، صنعت اور تجارت میں اپنی کمپنیاں کھول لیں۔ اِنھیں قائم کرنے کا مقصد نیک تھا کہ سوڈان معاشی ترقی کر سکے۔ اور اِن کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اِن کمپنیوں کے منافع سے بنیادی طور پر جرنیل و اشرافیہ کے دیگر ارکان مستفید ہونے لگے۔ عوام کو ملازمتیں مل گئیں اور بس! آج سوڈانی معیشت میں افواج سے تعلق رکھنے والی ’’۲۵۰‘‘ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ قومی معیشت کا ’’پچھتر فی صد حصّہ‘‘ انہی کمپنیوں کے قبضے میں ہے۔
افواج کی اِن کمپنیوں کو کئی اقسام کی مراعات میسّر رہیں۔ نیز ٹیکسوں میں بھی چھوٹ دی جاتی ہے۔ معنی یہ کہ عسکری کمپنیاں بہت کم ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ سوڈانی ماہرینِ معاشیات کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ اِن فوجی کمپنیوں سے پورا ٹیکس لیا جائے مگر جب حکومت میں ہی جرنیل بیٹھے ہوں، تو یہ مطالبہ کیونکر پورا ہو سکتا ہے؟ سوڈان میں پچھلے پینسٹھ سال کے دوران کچھ برس سیاست دانوں نے بھی حکومت کی مگر بیشتر عرصہ جرنیل ہی اقتدار پر قابض رہے۔ سیاسی حکومتیں آئیں، تب بھی پسِ پردہ جرنیل ہی سیاست دانوں کو کٹھ پتلیاں بنا کر ان کی ڈوریاں ہلاتے رہے ۔ تمام حکومتی فیصلے اُنہی کی ہدایت پر کیے جاتے۔ اب بھی مملکت پر فوجی افسروں کی حکومت ہے جن کا قائد کمانڈر اِن چیف سوڈانی فوج، جنرل عبدالفتاح البرہان ہے۔
جنرل عبدالفتاح اکتوبر ۲۰۲۰ء سے سوڈان کا سربراہ چلا آ رہا ہے۔ اُس کا نائب جنرل محمد حمدان دقلو تھا۔ جنرل محمد حمدان ایک پیرا ملٹری (نیم فوجی) فورس’’قوات الدعم السریع‘‘ (Rapid Support Forces) کا سربراہ ہے۔ یہ نیم عسکری فوج اگست۲۰۱۳ء میں تشکیل دی گئی تھی تاکہ وہ ملک دشمن عناصر سے لڑائی میں باقاعدہ فوج کی مدد کر سکے۔ تب سے جنرل محمد حمدان اِس کا قائد ہے۔
یہ دونوں جرنیل باہمی اشتراک سے حکومت کرنے لگے۔ اِس کے تحت سونے کی کانیں جنرل محمد حمدان کے حوالے کر دی گئیں تاکہ اُس کی فورس کانوں کی کمائی سے مستفید ہو سکے۔ یہ کانیں جنرل محمد کے بھائیوں نے سنبھال لیں۔ مزید براں جنرل کے رشتے داروں نے امپورٹ ایکسپورٹ کی کمپنیاں بھی کھولیں اور دِیگر کاروباری شعبوں میں بھی پَر پھیلانے لگے۔
جنرل عبدالفتاح فوجی کمپنیوں کے معاملات کا نگران تھا جبکہ جنرل محمد حمدان اپنی فورس کے تحت کام کرتی کمپنیوں کا کرتا دھرتا بن گیا۔ یہ دونوں جرنیل ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے تاکہ کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں خیروخوبی سے جاری رہیں۔ اور دونوں افواج کو جو آمدن ہو رہی ہے، اس میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔کہتے ہیں کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ ہوا یہ کہ دونوں جرنیلوں میں اپنے اپنے اختیارات اور اَثرورسوخ بڑھانے کی خاطر کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ جنرل عبدالفتاح نوات الدعم السریع کو خودمختار رَکھنا چاہتا تھا۔ مگر اس کی خواہش تھی کہ وہ فورس کا کمانڈر اِن چیف بن جائے۔ مگر جنرل محمد حمدان کو یہ منظور نہ تھا۔ موصوف نے دیکھا کہ جنرل عبدالفتاح اِس کے اختیارات کم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، تو وہ اَپنے چیف کا مخالف بن گیا۔ آخرکار دونوں جرنیلوں کا تصادم رنگ لایا اور ۱۵اپریل ۲۰۲۳سے ان کی فورسز کے مابین لڑائی چھڑ گئی۔
سوڈان کی برّی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزارفوجی ہیں۔ جنرل محمد حمدان کی پیراملٹری فورس بھی لاکھ سے زائد فوجیوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔گویا مقابلہ ٹکر کا تھا، اِسی لیے لڑائی دارالحکومت، خرطوم کے علاوہ مضافاتی علاقوں تک پھیل گئی۔ اِس لڑائی نے متاثرہ علاقوں میں روزمرہ زندگی مفلوج کر دی۔ شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اُنھیں بے پناہ مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
مغربی دانش وروں کا دعویٰ ہے کہ جنرل عبدالفتاح مغرب پرست اور اَمریکا کا حامی ہے۔ جبکہ جنرل محمد حمدان روس و چین کا حمایتی بتایا جاتا ہے۔اس کے ایک روسی اسلحہ ساز کمپنی سے بھی تعلقات ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دعویٰ درست ہو مگر حقائق سے واضح ہے، سوڈان میں حالیہ خانہ جنگی کے پسِ پشت بنیادی طور پہ لالچ و ہوس اور زیادہ سے زیادہ اِختیار و اَثر و رسوخ پانے کی تمنا کارفرما ہے۔ دونوں جرنیل سوڈان کا بلاشرکتِ غیرے حکمران بن کر اقتدار کے مزے لُوٹنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف سوڈان کی اسٹیبلشمنٹ یا ایلیٹ طبقے کے گروہ آپس میں برسرپیکار ہیں تو دوسری سمت سوڈانی عوام کا بُرا حال ہے جن کی زندگیاں بہتر بنانا ہر حکومت کی ذمے داری ہے۔ سوڈانی سماجی تنظیموں کی رپورٹیں افشا کرتی ہیں کہ ساڑھے چار کروڑ آبادی والے دیس کے ’’۶۰ فی صد‘‘ شہری غربت میں گرفتار ہیں۔ مہنگائی ’’۱۰۰ فی صد‘‘ سے زائد ہے۔ پاکستانی ۴۰ فی صد مہنگائی کے باعث بلبلا رہے ہیں، تو ذرا سوچیے، سوڈان میں اس نے کیسی قیامت برپا کر رکھی ہو گی۔ کئی سوڈانی بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھا کر جسم و جاں کا بندھن بحال رکھے ہوئے ہیں۔لیکن حکمران طبقے کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں اور وُہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر آپس میں سرپھٹول کر رہا ہے۔ صد افسوس اور شرمناک!
سوڈان کی صورتِ حال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب حکمران طبقہ عوام کی بھلائی کرنے کے بجائے اپنے مفادات پورے کرنے لگے، تو ریاست میں کبھی مضبوط نظامِ حکومت تشکیل نہیں ہو پاتا۔ رفتہ رفتہ معاشرے سے قانون اور اِنصاف رخصت ہو جاتا ہے اور اخلاقی اقدار بھی زوال پذیر ہونے لگتی ہیں۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں مختلف گروہ اَور مافیاز آپس میں لڑنے لگتے ہیں اور مملکت معاشی، سیاسی و معاشرتی طور پر کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ دورِ جدید میں ایسی ریاست شاید عالمی نقشے سے نہ مٹ سکے مگر تباہی و بربادی ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر بن سکتی ہے۔

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest