fbpx

محسن انسانیت ﷺ

محسن سے مراد ہے احسان کرنے والا اور انسانیت سے مراد وہ تمام لوگ ہیں، جو حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں یعنی اس دنیا میں آنے والا ہر انسان۔ محسن انسانیت سے مراد ایسی کامل شخصیت ہے جس کا احسان مکمل انسانیت پر ہے۔ تاریخ ہمارے سامنے تین قسم کی شخصیات پیش کرتی ہے، پہلی وہ جو دنیا میں بغیر کوئی تبدیلی کیے اپنی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں، دوسرے وہ جو اس دنیا میں آتے ہیں اپنی کامیابی اور کامرانی کے لیے ایک ہو کر محنت کرتے ہیں اور کامیاب زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، تیسرے وہ ہیں جو نہ صرف خود منزل تک پہنچنےکی محنت کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ تمام انسانیت کو بھی منزل تک پہنچانے کی مدد کرتے ہیں اور ان کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔ اللہ کے تمام نبی اور رسول اس میں شامل ہیں۔ مگر وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے اس دنیا میں اپنے پیغام کی تکمیل کے لئے بھیجا اور ان کی ذات میں تمام خوبیاں جمع کردیں اور امت کے لئے خیر ہی خیر بنا کر بھیجا وہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے جنہوں نے انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگایا اور ان پر اتنے احسان کئے کہ تمام گرتی پڑتی انسانیت کو سہارا ملا اور وہ سنبھل گئی۔

“ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا “

اس آیت قرآنی میں بھی اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اپنے جوہر و کیفیت کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں سیرت النبی رہنما نہ بنے۔

؎ سخن کے نور سے کردار کے اجالے سے
یہ کائنات بنی ہے تیرے حوالے سے

اللہ تعالی نے ہر قوم میں نبی یا رسول بنا کر بھیجا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی کریں اور ان کو اچھا برا بتائیں اور ان کو یہ بتائیں کہ اطاعت صرف اللہ کے لئے ہے کیونکہ وہی ہمارا رب ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور اس کی عبادت ہمارے پر فرض ہے۔ تمام انبیاء نے لوگوں کو جینے اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا اور ان کو خدا تعالی کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کیں۔

“اور ہم نے ہر قوم کے لئے رسول بھیجا”

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو روشنی کی طرف دھکیلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جدوجہد میں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا۔ قریشِ مکہ نے ان سے شدید دشمنی مول لی اور ان کو ان کے مقصد سے ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انکو جھوٹا، دیوانہ، جادوگر جیسے القابات سے پکارا۔ طائف کے لوگوں نے ان کو لہو لہان کر دیا، جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو وہ گانے بجاتے، ان کو حرم میں نماز نہ پڑھنے دیتے اور اپنے آپ کو ہی خانہ کعبہ کا متولی کہتے۔ مگر ان تمام حالات اور واقعات کے باوجود رسول نے ان کے لیے ان کی ہدایت کی دعا کرنی نہ چھوڑی اور اپنے اعلی اخلاق کو نہ چھوڑا۔

؎ اس کی رحمت کی بھلا حد کیا ہوگی
دوست کی طرح جو دشمن کو بھی دعا دیتا ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمر میں اپنی نبوت کا اعلان کیا اور تمام اہل عرب کو خدا واحد کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ قریشِ مکہ نے جب اپنے مظالم کی انتہا کردی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا، جہاں انہوں نے ایک اسلامی ریاست قائم کی۔ اپنی ہجرت کی رات بھی انھوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ تمام اہل مکہ کو ان کی امانتیں واپس پہنچ جائیں۔ اسی وجہ سے قریش اور تمام اہل مکہ ان کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ وہ ان کی صداقت اور ایمانداری سے اچھی طرح واقف تھے۔ یہاں تک کہ ابو جہل جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا، اس نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں کہ پیچھے سے لشکر حملہ کرنے کے لئے آ رہا ہے تو میں مان جاؤں گا کیوں کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔

؎کردار کا یہ حال صداقت ہی صداقت
اخلاق کا یہ رنگ کہ قرآں ہی قرآں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہستی ہیں جن میں تمام خوبیاں جو پہلے انبیاء میں الگ الگ پائی جاتی تھیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عیسی کی طرح نرم خو بھی تھے، حضرت موسی کی طرح پرجوش بھی اور ان میں حضرت یوسف جیسی خوبصورتی بھی تھی۔

؎عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے احسانوں میں سے ایک احسان یہ ہے کہ انہوں نے انسانوں کو دنیاوی بتوں کی قید سے نکال کر خدا کا نائب بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےجس طریقے سے خانہ کعبہ میں رکھے گئے 360 بتوں کو توڑ دیا اس بات کا واضح اعلان تھا کہ انسان آزاد ہے اور دنیا کا سب سے بڑا اور اہم کردار انسان ہے بت نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی اور ایمانداری کا چرچا پورے مکہ میں تھا۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹا نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ ان کے کہ کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں۔ اسی اعلیٰ اخلاق، سچائی اور ایمانداری کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام کے گرویدہ ہوگئے اور اسلام قبول کر لیا۔

“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار، کردار کی انتہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد، ارشاد کی انتہا ہے۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی چھوٹی عادات ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایک کامل نمونہ بنتی ہے۔ مثلاً دوسروں سے ادب سے بات کرنا، سلام کرنے میں پہل کرنا، بچوں سے محبت سے پیش آنا، دوسروں کو دیکھ کر مسکرانا، دوسروں کے بعد مکمل توجہ سے سننا، بات کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہونا نہ زیادہ تیز، کسی کی طرف بلائے جانا تو پورا رخ ان کی طرف کر کے بات کرنا یہ وہ چند باتیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو انسانوں کے لئے ایک ایسا نمونہ بناتی ہیں جس سے ایک انسان کندن بن جائے۔

“جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔”

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف سچ بولنا، شفقت اور باہمی محبت سکھائی بلکہ جھوٹ، کینہ، بغض اور حسد جیسی کل بیماریوں سے بھی ہماری جان چھڑوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے متعلق اپنے دل صاف رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا،

“حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو۔”

مگر افسوس صد افسوس، اگر ہم آج کی امت مسلمہ پر نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآسلم کی تمام ہدایات اور احکامات کو بھلا دیا ہے۔ بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ، فریب اور جہالت سب اس قوم میں پائی جاتی ہیں، جس طرح دور جہالت میں پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے امت مسلمہ بدترین زوال کا شکار ہے۔ نہ ان کی اب کوئی عزت ہے نہ کوئی عقیدت۔ نہ ان کی کوئی عزت کرتا ہے، نہ اسلام کی دنیا کے سامنے کوئی عزت رہ گئی ہے۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں قتل کیا جاتا ہے، ان کو ہر جگہ مجرم کہا جاتا ہے۔ یہ سب صرف اسی بات کا سبب ہے کہ ہم مسلمانوں نے دنیا کو دین پر فوقیت دے دی۔ ہم نے دنیا کی راحتوں اور سکون کے لیے اپنے دین کو بیچ ڈالا۔

؎کیا نام ہے شامل ہے جو تکبیر واذاں میں
اسلام کے عظمت کے ہیں قرباں دل و جاں

مگر آج بھی اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور عزت چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآسلم کے دیئے ہوئے پیغام اور احکامات پر عمل ہے۔ تاکہ ہم پھر سے اس دنیا میں عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کو واپس پا سکیں۔

“اگر ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآسلم) کو اس دنیا میں نہ بھیجنا ہوتا، تو ہم اس کائینات کو نہ تخلیق کرتے۔”

الغرض رسول صلی اللہ علیہ وآسلم کی ذات ،اخلاق و سیرت کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے جس میں حسن کا ہر رنگ ہے۔

“نہ آپ صلی اللہ علیہ وآسلم جیسا دنیا میں کبھی آیا، نہ تا قیامت آئے گا۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی چھوٹی عادات ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایک کامل نمونہ بنتی ہے۔ مثلاً دوسروں سے ادب سے بات کرنا، سلام کرنے میں پہل کرنا، بچوں سے محبت سے پیش آنا، دوسروں کو دیکھ کر مسکرانا، دوسروں کے بعد مکمل توجہ سے سننا، بات کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہونا نہ زیادہ تیز، کسی کی طرف بلائے جانا تو پورا رخ ان کی طرف کر کے بات کرنا یہ وہ چند باتیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو انسانوں کے لئے ایک ایسا نمونہ بناتی ہیں جس سے ایک انسان کندن بن جائے۔

“جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔”

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف سچ بولنا، شفقت اور باہمی محبت سکھائی بلکہ جھوٹ، کینہ، بغض اور حسد جیسی کل بیماریوں سے بھی ہماری جان چھڑوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے متعلق اپنے دل صاف رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا،

“حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو۔”

مگر افسوس صد افسوس، اگر ہم آج کی امت مسلمہ پر نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآسلم کی تمام ہدایات اور احکامات کو بھلا دیا ہے۔ بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ، فریب اور جہالت سب اس قوم میں پائی جاتی ہیں، جس طرح دور جہالت میں پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے امت مسلمہ بدترین زوال کا شکار ہے۔ نہ ان کی اب کوئی عزت ہے نہ کوئی عقیدت۔ نہ ان کی کوئی عزت کرتا ہے، نہ اسلام کی دنیا کے سامنے کوئی عزت رہ گئی ہے۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں قتل کیا جاتا ہے، ان کو ہر جگہ مجرم کہا جاتا ہے۔ یہ سب صرف اسی بات کا سبب ہے کہ ہم مسلمانوں نے دنیا کو دین پر فوقیت دے دی۔ ہم نے دنیا کی راحتوں اور سکون کے لیے اپنے دین کو بیچ ڈالا۔

؎کیا نام ہے شامل ہے جو تکبیر واذاں میں
اسلام کے عظمت کے ہیں قرباں دل و جاں

مگر آج بھی اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور عزت چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآسلم کے دیئے ہوئے پیغام اور احکامات پر عمل ہے۔ تاکہ ہم پھر سے اس دنیا میں عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کو واپس پا سکیں۔

“اگر ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآسلم) کو اس دنیا میں نہ بھیجنا ہوتا، تو ہم اس کائینات کو نہ تخلیق کرتے۔”

الغرض رسول صلی اللہ علیہ وآسلم کی ذات ،اخلاق و سیرت کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے جس میں حسن کا ہر رنگ ہے۔

“نہ آپ صلی اللہ علیہ وآسلم جیسا دنیا میں کبھی آیا، نہ تا قیامت آئے گا۔”

-Ameer Hamza Youth Correspondent Urdu Digest

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest