fbpx

پاکستان کا مستقبل روشن ہے

Urdu Digest August 2023 Chinese Consul General Interview

چین کے قونصل جنرل، جناب ژائو شرین کا اُمید و مسّرت کے چراغ منور کرتا دلچسپ و یادگار انٹرویو

ماہ جولائی کے وسط میں صبح دس بجے جب ہم عازمِ سفر ہوئے، تو ٹھنڈی ہوا چل پڑی تھی۔ اِس قدرتی نعمت نے حبس کو ماند کر ڈالا اور ماحول خوشگوار بنا دیا۔ ہماری منزل داتا کی نگری، لاہور میں واقع چین کا قونصل خانہ تھا۔ وہاں قونصل جنرل، جناب ژائو شرین (Zhao Shiren) سے ہماری ملاقات طے تھی۔ برادر عزیز، ذکی اعجاز قریشی اور بیٹی رِجا طیب میرے شریکِ سفر تھے۔ابراہیم ذکی کا ساتھ بھی شامل حال رہا جو دوران انٹرویو نکات لکھتے رہے۔
مَیں دورانِ راہ سوچنے لگا کہ ۷۶ سال قبل جب اِسی ماہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تومتعصب بھارتی لیڈروں کو یقین تھا کہ یہ نوزائیدہ مملکت معاشی مسائل کا شکار ہو کے جلد دم توڑ دے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دشمن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور ہم ۱۹۴۷ء کی نسبت آج عسکری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر کہیں زیادہ مضبوط و مستحکم ملک کا روپ دھار چکے۔ بے شک مسائل موجود ہیں مگر اُنھیں حل کرنے کی تڑپ بھی پاکستانی قوم میں ملتی ہے اور یہ ربِ کریم کی عنایت ہے کہ اُس نے ہمیں چین جیسا طاقتور پڑوسی عطا فرمایا۔ چین نے نت نیا اسلحہ مثلاً ایٹم بم، جنگی طیارے، میزائل، آبدوزیں اور ٹینک بنانے میں ہماری ہر ممکن مدد کی ہے اور آج بھی پاکستان مخالف بھارتی سازشیں ناکام بنانے میں پیش پیش رہتا ہے۔

جناب ژائو شرین مئی ۲۰۲۲ء میں بحثیت قونصل جنرل لاہور تشریف لائے تھے۔ ملاقات ہوئی، تو اُنھیں ایک سنجیدہ، متین اور مہذب شخصیت کا مالک پایا۔ پھر اُنھوں نے اپنے حالات زندگی سنائے اور افشا ہوا کہ وہ ایک خودپروردہ(سیلف میڈ)شخصیت ہیں، تو ہمارے دلوں میں اُن کی قدر و منزلت بڑھ گئی۔ جناب ژائو شرین اگست ۱۹۷۰ء میں جنوب مشرقی چین میں واقع صوبہ ژیاجیانگ(Zhejiang) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ متوسط حال گھرانا تھا۔ والد چھوٹے سے تاجر تھے جنہوں نے دیگر دیہاتیوں کی طرح بھیڑ بکریاں اور بطخیں پال رکھی تھیں۔ گویا وہ زراعت پیشہ بھی تھے۔

جناب ژائو شرین اسکول سے واپسی کے بعد بھیڑ بکریاں چراتے اور بطخوں کو دانہ دنکا ڈالتے۔ بچپن سے آپ کو انگریزی اور دِیگر غیرملکی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ آپ دوسرے ممالک کے حالات جاننے میں بھی دلچسپی لیتے۔ آپ نے ذوق و شوق سے تعلیم پائی اور ہائی اسکول میں بہت اچھے نمبر لیے۔اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کے باعث آپ کو بیجنگ کے فارن افیئر کالج میں داخلہ مل گیا۔ یہ بڑا معیاری کالج اور وَزارتِ خارجہ چین سے منسلک ہے۔ اِس میں صرف ذہین و فطین اور جوہرِ قابل طلبہ و طالبات کو داخلہ ملتا ۔جناب ژائو شرین کویہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ آپ اپنی کاؤنٹی (ضلع)

 

سے اِس ایلیٹ کالج میں جانے والے پہلے طالبِ علم تھے۔

کالج میں تعلیم مکمل کرتے ہی آپ وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہو گئے۔ امریکا، گھانا اور ڈنمارک میں سفارتی ذمے داریاں فرض شناسی سے ادا کیں۔ انڈونیشیا کی فارن سروس اکادمی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی، امریکا سے سفارت کاری کے اعلیٰ کورس کامیابی سے مکمل کیے۔ اِس کے بعد بہترین صلاحیتوں کے حامل ژائو شرین ٔ کا تقرر آخرکار شہر لاہور میں ہو گیا۔چین کے نئے قونصل جنرل کو لاہور پسند آیا ۔ لاہوریوں کی زندہ دِلی نے آپ کا دل موہ لیا۔ کہتے ہیں کہ پاکستانی چین کو قریبی دوست سمجھتے ہیں۔ اِسی طرح چینی بھی پاکستان کو عزیز رکھتے ہیں۔ بلکہ اُنھوں نے اپنی قومی (مینڈرین)زبان میں اہلِ پاکستان کے لیے ایک خصوصی اصطلاح ایجاد کر لی یعنی ’’باتائی‘‘ (Ba Tie) جس کے معنی ہیں:فولادی بھائی۔ جناب ژائو شرین اِس دوستی کو مضبوط تر کرنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں۔

\ Urdu Digest Interview Panel Zhao Shi ren پچھلے چالیس برس کے دوران حکومتِ چین انقلابی اصلاحات کے ذریعے ’’۸۰ کروڑ‘‘ چینیوں کو غربت و جہالت کے پنجوں سے نجات دلانے میں کامیاب رہی ہے۔یہ تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جو چینی حکمران طبقے نے انجام دیا مَیں نے اِسی تناظر میں جناب ژائو شرین سے سوال کیا کہ کیا پچھلے چار عشروں کے دوران آپ کے گاؤں میں کس قسم کی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں؟
جنابژائو شرین ماضی میں جھانکتے ہوئے پُرخیال لہجے میں گویا ہوئے ’’جب مَیں ایک نوخیز لڑکے کی حیثیت سے پل بڑھ رہا تھا، تو میرے گاؤں میں وہ سہولیات میسّر نہ تھیں جو آج دستیاب ہیں۔ غربت کا دور دَورہ تھا۔ اِسی لیے بچے ہوش سنبھالتے ہی ماں باپ کا ہاتھ بٹانے لگتے، جیسے مَیں مویشی چرانے لگا تھا۔ ساتھ ساتھ مَیں نے تعلیم پر بھی توجہ دئیے رکھی تاکہ اپنا مستقبل روشن کر لوں۔ مجھے نت نئی باتیں سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ تعلیم پانے اور نئی باتیں سیکھنے تمنا ہی نے مجھے اِس قابل بنا دیا کہ مَیں ایک چھوٹے گاؤں سے نکل کر بیجنگ جیسے بڑے شہر میں پہنچ سکا اور اَب مَیں دنیا بھر میں گھوم رہا ہوں۔ علم کا میرا سفر جاری ہے۔

’’مَیں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۷۹ء کے بعد چین کے حکمران طبقے نے تدبر و شعور سے عمدہ پالیسیاں تشکیل دیں۔ اُن پالیسیوںکے ذریعے عام آدمی کو موقع ملا کہ وہ معاشی طور پر ترقی کرے اور اَپنی غربت سے نجات پا لے۔ اِنہی کے باعث ہی میرے جیسے دیہاتی نوجوانوں کو بھی یہ سنہرا موقع مل گیا کہ وہ پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اَپنی صلاحیت و قابلیت کے بل بوتے پر ترقی و کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائیں۔ میرے والدین بہت محنتی تھے۔ اُنھوں نے بھی ہم بچوں کو ہر طرح سے بھرپور سہارا دِیا تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں کارہائے نمایاں انجام دے سکیں اور خوشحالی کی نعمت پا لیں۔
’’یہ یاد رَہے کہ اُس زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کا تصوّر عنقا تھا۔ اِس لیے ہمارا خاندان سات افراد پر مشتمل تھا،والدین، دو بھائی اور تین بہنیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں حکومت نے ’ایک خاندان، ایک بچہ‘ کی پالیسی متعارف کرا دِی۔ مقصد یہ تھا کہ معاشی ترقی پر سے بڑھتی آبادی کا دباؤ ہٹ سکے۔ یہ پالیسی حال ہی میں معطل کی گئی ہے کیونکہ چین میں بچوں کی تعداد بہت کم ہو چکی۔اور یہ عمل معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
’’دراصل ماضی میں زیادہ بچوں کو معاشی طور پر بوجھ نہیں بلکہ ’دولت‘ سمجھا جاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ والدین کو اُن کی صورت میں افرادی قوت مل جاتی جو کئی روزمرہ کام نمٹانے میں کام آتی تھی۔ یاد رَہے، میرے سبھی اہلِ خانہ بہت محنتی تھے۔ وہ دِن رات کام کرتے، تبھی ہمارا گزارہ ہو پاتا۔ مَیں اِس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ والدین نے مجھے پڑھنے لکھنے دیا اور غیرضروری کاموں سے دور رَکھا۔ پس مَیں تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کے قابل ہو گیا۔ میرے والد نو سال قبل دنیا سے رخصت ہو ئے۔ والدہ حیات ہیں اور گاؤں کے اُسی مکان میں رہتی ہیں۔ جب بھی موقع ملے، مَیں اُن کی خدمت میں حاضری دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں، مشرق ہو یا مغرب، اپنا گھر سب سے بہتر۔‘‘

تاریخ افشا کرتی ہے کہ ۱۸۵۰ء کے بعد چین میں غیرملکی زبانیں جاننے والے دانشور اَور مدبر خصوصاً انگریزی کی کتب کا ترجمہ چینی زبان میں کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ اہلِ چین بھی سائنس و ٹیکنالوجی، فنونِ لطیفہ اور دِیگر جدید علوم کے نظریات اور معلومات سے آگاہ ہو سکیں۔ اِس طرح چین میں احیائے علوم کا آغاز ہوا جس نے چینی قوم کو جہالت و غربت سے چھٹکارا دِلانے میں اہم کردار اَدا کیا۔ اردو میں بھی غیرملکی کتب کے تراجم ہوئے مگر اُن میں سے بیشتر ادبی نوعیت کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی جدید کتب کے اردو تراجم خال خال ملتے ہیں۔ یہ پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے مَیں نے جناب ژائو شرین سے دریافت کیا، جب غیرملکی کتب کے چینی تراجم ہونے لگے، تو آپ کے معاشرے میں کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں؟

جناب قونصل جنرل مسکرا کر بولے ’’آپ نے اچھا سوال کیا۔ چین میں ہمیشہ ہر گھرانے میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ وجہ یہی کہ تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے ایک انسان ترقی و خوشحالی پا سکتا ہے۔ تراجم کے ذریعے جدید علوم چین میں پھیلنے سے اِس تصوّر کو زیادہ وُسعت ملی اور چینی گھرانوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر مزید توجہ دی جانے لگی۔ آج سبھی چینی والدین جانتے ہیں کہ تعلیم ہی بچوں کو کامیاب و کامران بناتی ہے۔ اِسی لیے وہ بچوں کو پڑھاتے ہوئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ وہ اِس ضمن میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ان کی بھرپور سعی ہوتی ہے کہ بچے پڑھ لکھ کر امریکا یا یورپ کی کسی یونیورسٹی میں چلے جائیں تاکہ وہاں انھیں اعلی و معیاری تعلیم مل سکے۔

’’یہ مگر درست ہے کہ میرے لڑکپن میں چین اتنا آزاد نہیں تھا جتنا آج ہے۔تب مختلف اقسام کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی پابندیوں کا دور دورہ تھا۔ دیگر ممالک سے تعلقات محدود تھے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اہلِ چین الگ تھلگ زندگی گزار رَہے تھے۔ پھر غربت کے باعث عوام ذرائع معلومات مثلاً ٹیلی ویژن حتیٰ کہ مہنگی کتب تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے، مَیں نے زندگی میں پہلی بار ۱۹۸۴ء میں ٹی وی دیکھا جو بلیک اینڈ وائٹ اور چھوٹا سا تھا۔
’’اُس زمانے میں چین میں ٹی وی نہیں بنتے تھے، اِسی لیے وہ جاپان سے درآمد کیے جاتے۔ چینی نوجوانوں کے لیے معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ نصابی کتب تھیں۔ چین میں پرائمری تک ہر نصابی کتاب چینی زبان میں پڑھائی جاتی ہے۔ سیکنڈری اسکول سے طلبہ انگریزی بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ تاہم تب بھی انگریزی کے علاوہ بقیہ نصابی کتب چینی زبان میں ہی تحریر ہوتی ہیں۔ اُس زمانے میں نصابی کتب کا وہ اَعلیٰ معیار نہ تھا جو آج ہے۔
’’ہمارے اساتذہ مگر مخلص و محنتی تھے۔ وہ ہم بچوں کو بہت چاہت و توجہ سے پڑھاتے۔ یہی وجہ ہے، مَیں تعلیم میں دلچسپی لینے لگا۔ انگریزی کی میری استانی بہت اچھی تھیں۔ اُن کی کوشش و سعی سے مجھے اِس غیرملکی زبان پر دسترس حاصل ہو گئی۔ انگریزی سے شناسائی نے مجھے اپنا کیرئیر آگے بڑھنے میں مدد دِی۔۱۹۸۰ء کے بعد جب حکومتِ چین نے پابندیاں ہٹا لیں اور مملکت کو آزاد کرنا شروع کیا، تو حالات ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو گئے۔ اِس کے بعد انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور جاپانی کی سیکڑوں کتب کے چینی تراجم ہوئے۔ چین میں نئے سرے سےجدید علوم پھیلنے لگے۔ ایک نئی تحریک احیائے علوم کا آغاز ہو گیا۔

’’یہ بتاتا چلوں کہ اُس وقت دیہی چین میں پری اسکولنگ یعنی نرسری، کنڈر گارٹن وغیرہ کا رواج نہیں تھا۔وہاں ہت کم والدین اتنی مہنگی تعلیم کا خرچ اٹھا پاتے تھے۔ بچہ عموماً سات سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخل ہوتا۔ وہ پھرکُل گیارہ برس اسکول میں پڑھتا اور اِس کے بعد کالج پہنچ جاتا۔ تب صرف بیجنگ اور دیگر چند بڑے شہروں کے اسکولوں میں پری اسکولنگ ہوتی تھی۔‘‘ جناب قونصل جنرل نے پھر بتایا کہ ان کی اکلوتی بیٹی بھی اعلی تعلیم پا رہی ہیں۔میری بیٹی،

رجا نے دریافت کیا کہ وہ کہاں زیر تعلیم ہیں؟

جناب ژائو شرین نے بتایا ’’ وہ امریکا میں پڑھ رہی ہیں۔رائس یونیورسٹی ، ہیوسٹن میں پہلے اپنی مرضی سے الیکٹریکل انجیئنرئنگ میں داخلہ لیا مگر وہ بہت کٹھن موضوع ثابت ہوا۔ اب ڈبل میجر کر رہی ہیں، ایک میجر میتھیمٹیکل اکنامک اینالائسیز(Mathematical Economic Analysis) میں اور دوسرا شماریات میں۔‘‘یہ جان کر ہمیں خوشی ہوئی کہ قونصل جنرل اپنی دختر کو اعلی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ رائس یونیورسٹی ایک اعلی درسگاہ ہے ۔ خواتین نے بھی چین کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اب ایک نیا منظرنامہ سامنے تھا۔چین اور پاکستان تقریباً ساتھ ساتھ آزاد ہوئے۔ آج مگر چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی سرِفہرست ہے۔ مَیں نے جناب ژائو شرین سے دریافت کیا کہ آخر وہ کون سے بنیادی عناصر ہیں جن کی بدولت چین ایک ترقی پذیر اور غریب ملک سے بدل کر جدت پسند اور خوشحال مملکت بن گیا۔یہ سوال کرنے کا مدعا یہ تھا کہ اُن عناصر یا وُجوہ کی بابت جان کر اہلِ پاکستان بھی چینی قوم کے نقشِ قدم پر چلتے ترقی و خوشحالی کا ہما پا لیں۔

مَیں نے قونصل جنرل سے یہ تذکرہ بھی کیا کہ (۱۹۷۱ء میں) ایک وہ زمانہ تھا جب اہلِ پاکستان نے چین کو مغربی دنیا کا دوست بننے میں مدد دِی تھی۔ اور اَب یہ حال ہے کہ بیشتر پاکستانی نوجوان اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں، لہٰذا اُن نکات کے بارے میں بتائیے جن پر عمل پیرا ہو کر اہلِ چین نے غربت، پسماندگی اور دِیگر اَن گنت مسائل سے نجات پا لی۔ایک دوست کی جانب سے ملے یہ مشورے اہلِ پاکستان کے لیے اُمید کی کرن اور سیکھنے کا بہترین موقع ثابت ہو سکتے ہیں۔ مَیں پہلی مرتبہ ۱۹۹۴ء میں چین گیا تھا۔ اِس کے بعد بارہا چین جانا ہوا۔ لہٰذا مَیں نے چین کی ترقی و خوشحالی کے سفر کا بچشمِ خود مشاہدہ کیا ۔ اس بنا پر اَہلِ پاکستان چینی قوم کے تجربات و مشاہدات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

جناب ژائو شرین گویا ہوئے ’’آپ کا شکریہ کہ اہلِ چین کی تعریف فرمائی۔ مگر ہم نے اہلِ پاکستان سے بھی بہت کچھ سیکھا ۔ سیکھنے کا عمل ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ ہم نے کئی اقدامات کیے جن کی بنا پر اِس قابل ہو سکے کہ غربت کم کر سکیں، معاشی ترقی کا پہیہ چلے،چین میں سیاسی طور پر استحکام آئے اور عام لوگ خوشحال ہو جائیں۔سب سے پہلے سخت محنت کرنے کی روایت ہمارے کام آئی۔ پھر اہلِ چین نظم و ضبط (ڈسپلن) سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ اِس خاصیت نے بھی ہماری مدد کی۔ تیسرے ہم نے لڑائی بھڑائی سے پرہیز کیا اور اَمن کو ترجیح دی۔ چوتھے حکمران طبقے نے معاشی ترقی کرنے اور اِنقلابی اصلاحات انجام دینے کے لیے جو پالیسیاں بنائیں، اُن پر پوری طرح عمل ہوا۔ اِن عوامل کی بنا پر چین ترقی کرنے لگا اور عوام کا معیارِ زندگی بھی بلند ہوتا گیا۔

’’ہم کامیاب اِس لیے بھی ہوئے کہ خوش قسمتی سے ہمیں اہل قیادت میسّر آئی جس نے مضبوط و مستحکم مرکزی حکومت کی بنیاد رَکھی۔ لہٰذا اُس نے عمدہ حکومتی انتظام (گڈ گورننس) کو اَپنایا اور تمام سرکاری منصوبے بروقت انجام پائے۔ بہترین قیادت اور گڈگورنس کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے تحت مرکزی حکومت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ چین کی ترقی و خوشحالی کا بنیادی راز و نکتہ یہ ہے کہ اُسے طاقتور وَ مضبوط قیادت میسّر ہے۔
’’ایک اور اَہم نکتہ یہ ہے کہ ہر عام چینی بھی غربت و پس ماندگی سے چھٹکارا پانے کی تمنا رکھتا تھا۔ اِس باعث حکومت نے چینی عوام کو ترقی کے مواقع عطا کیے، تو اُنھوں نے اُس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھایا، اپنی صلاحیتیں بروئےکار لائے اور خوشحالی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ گویا حکومت اور عوام، دونوں معاشی، معاشرتی اور سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے شانہ بشانہ سرگرمِ عمل رہے۔‘‘

مَیں نے جناب قونصل جنرل سے اگلا سوال یہ کیا کہ ۱۹۷۹ء میں چین کی مرکزی حکومت اتنی زیادہ مضبوط نہیں تھی جتنی اب ہے۔ اِس کے باوجود تب کی قیادت نے اصلاحات کا پروگرام شروع کیا اور اُسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر یہ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ ہوا؟
جناب ژائو شرین سوچتے ہوئے گویا ہوئے ’’آپ نے خیال افروز سوال کیا۔ چالیس سال قبل اہلِ چین کئی سنگین نوعیت کے مسائل میں گرفتار تھے۔ ہمارے سامنے ان گنت کٹھن چیلنج موجود تھے جن سے ہمیں نبردآزما ہونا تھا۔ بلکہ مَیں کہوں گا کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ معیشت زوال پذیر تھی۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی۔ تہذیبی و ثقافتی روایات بھی پستی کی جانب جا رہی تھیں۔ سیلابوں اور طوفانوں نے تباہی مچا رکھی تھی۔ مَیں تو یہ کہوں گا کہ آج جو پاکستان کے حالات ہیں، چالیس سال قبل کم وبیش ویسی ہی صورت حال نے اہلِ چین کو اَپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔

’’چین کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ نہ صرف اصلاحات کا جامع پروگرام شروع ہوان چاہیے بلکہ اِس امر کو یقینی بنایا جائے کہ وہ سو فی صد کامیابی سے انجام پائے۔ گویا تلخ زمینی حقائق نے اہلِ چین کو مجبور کر دیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنے حالات تبدیل کر لیں۔ دورانِ راہ ہمیں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگر آخر میں محنت کا میٹھا پھل بھی ملا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اہلِ پاکستان کا معیارِ زندگی چینی قوم سے بلند تھا۔ یہاں خوشحالی زیادہ تھی۔ لیکن ۱۹۸۰ء کے بعد اصلاحات کی وجہ سے اہلِ چین کا معیارِ زندگی ڈرامائی طور پر بلند ہونے لگا۔ اب دونوں ممالک کے شہریوں کے معیارِ زندگی میں کافی فرق آ چکا۔

’’چین کو زوال سے نکالنے میں بیرونی اثرات نے بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ۱۹۷۹ء تک امریکا، یورپ، جاپان، جنوبی کوریا وغیرہ معاشی طاقتیں بن چکی تھیں۔ اُن کی معیشتیں خوب ترقی کر رہی تھیں۔ ہمارے رہنما اُن ممالک میں آتے جاتے رہتے تھے۔ وہ پھر چینی عوام سے رابطہ بھی رکھتے ۔ اُنھیں بخوبی علم تھا کہ معاشی و معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے چین اپنے معاصرین سے بہت پیچھے ہے۔ اِس بیرونی تقابل نے بھی اُنھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ چین کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر چلانےکے لیے انقلابی و جامع اصلاحات فوری طور پر اپنانا ہوں گی۔ اُنھوں نے پھر بنیادی پالیسیاں تبدیل کیں اور یوں اہلِ چین کی قسمت بھی بدل ڈالی۔اہلِ چین ہمیشہ مل جل کر کام کرتے ہیں۔ وہ اِنفرادی نہیں، قومی نوعیت کی سوچ رکھتے ہیں۔ اپنی ذات کو دوسروں پر ترجیح نہیں دیتے۔ اِس نظریے کی وجہ سے بھی اہلِ چین کو کامیابیاں ملیں اور وُہ اَپنی تقدیر بدلنے میں کامیاب رہے۔ ہم نے اپنی اقدار و رَوایات کو تھامے رکھا اور ساتھ ساتھ جدیدیت کی مثبت باتوں کو بھی اپنا لیا۔‘‘

اِس موقع پر برادرم ذکی اعجاز نے دریافت کیا کہ وہ کون سے پہلے چینی رہنما تھے جنہیں اصلاحات شروع کرنے کا خیال آیا۔ جنابژائو شرین نے بتایا کہ وہ ڈینگ زیاؤ پنگ تھے، چین کے سینئر لیڈر جنہوں نے ۱۹۷۹ء میں اقتدار سنبھالا۔ وہ ایک کرشمہ ساز، ذہین اور مدبر شخصیت تھے۔ دورِ حاضر میں موجودہ چینی صدر بھی کرشماتی اور پُرکشش شخصیت کے حامل ہیں۔

جناب قونصل جنرل بڑی محبت سے ہر سوال کا تفصیلی جواب دے رہے تھے۔انھیں یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ جلدی میں ہیں۔ انداز بیان بھی دل نشیں تھا۔اس باعث دوران ملاقات کہیں بھی بوریت محسوس نہیں ہوئی ۔ایسا لگتا تھا کہ برسوں سے شناسائی ہے۔مَیں نے اگلا سوال یہ کیا کہ حکومتِ چین نے اپنی مملکت سے رشوت ستانی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ اِس معاملے پر روشنی ڈالیے۔
جناب ژائو شرین ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے گویا ہوئے ’’۱۸۴۰ء سے قبل چین دنیا کی بڑی معاشی قوت تھا۔ دنیا کا ’’ساٹھ فی صد‘‘ جی ڈی پی چین فراہم کرتا تھا۔ لیکن پھر انگریز آ پہنچے اور اُنھوں نے افیون کی جنگیں چھیڑ دیں۔ اُن کی سازشوں کے باعث چین میں بادشاہی حکومتی نظام تتربتر ہو گیا۔ معاشرتی نظام کو بھی ضعف پہنچا۔ یوں چین میں رشوت ستانی، برے انتظامِ حکومت، نااہلی، کام چوری، بدامنی اور دِیگر مسائل زور پکڑ گئے۔انگریزوں کی آمد نے غرض چین کا نظامِ زندگی درہم برہم کر ڈالا۔

’’کہاں اہلِ چین ہر لحاظ سے بامِ عروج پر تھے اور کہاں اب ذلت و خواری کی زندگی بسر کرنے لگے۔ غیروں نے ایک طرح سے اُنھیں غلام بنا لیا اور اُن کا استحصال کیا۔ بیسویں صدی میں آخر کمیونسٹ پارٹی معرض وجود میں آئی ۔ چیئرمین ماؤ کی زیرِقیادت اُس نے چین کو مزید زوال پذیر ہونے سے بچایا، بادشاہی اور جاگیردارانہ نظام ملیامیٹ کیا اور چینی قوم کو آزادی و خودمختاری کا تحفہ بخش دیا۔ اہلِ چین کا فخر بھی سربلند کیا اور اُنھیں احساس دلایا کہ وہ ایک عظیم تہذیب کے بانی ہیں۔انہی لیڈروں نے رشوت ستانی کا قلع قمع بھی کیا اور معاشرے میں اس کا چلن کم ہو گیا۔موجودہ صدر شی جن پنگ اقتدار میں آئے تو انھوں نے رشوت ستانی کے خلاف زبردست مہم چلائی اور اس کی تقریباً بیک کنی کر ڈالی۔۔‘‘

مَیں نے لقمہ دیا کہ یہی وجہ ہے، عام چینی کمیونسٹ پارٹی سے محبت کرتے اور اُس کے رہنماؤں کو تعظیم دیتے ہیں۔ جناب ژائو شرین نےاِس امر سے اتفاق کیا اور بولے:’’پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ چین میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ سات سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں۔ گو اَکثر لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے۔ چین میں یک جماعتی نظام رائج نہیں، البتہ ایک جماعت (کمیونسٹ پارٹی) سب سے بڑی اور بااثر ہے۔ اُس نے دیگر پارٹیوں کو بھی حکومت میں شریک کر رکھا ہے۔ گویا چین میں بھی تمام سرکاری پالیسیاں سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے بنتی ہیں۔‘‘
اگلا سوال کرتے ہوئے مَیں نے جناب ژائو شرین کو بتایا کہ پاکستان بھی ماضی کے چین کی طرح اَن گنت معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔ آپ اپنی مملکت کا شاندار و کامیاب سفر مدِنظر رکھتے ہوئے بحیثیت دوست پاکستانی قوم کو یہ بتائیے کہ کون سے ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں، پاکستان بھی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے؟

جناب ژائو شرین کچھ دیر غور و فکر کرتے رہے، پھر بڑے اخلاص سے بولے:’’مَیں سمجھتا ہوں کہ اہلِ پاکستان کو اَپنا مستقبل خود بنانا ہو گا۔ اپنی تقدیر کو صرف وہی بدل سکتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ پاکستانی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں سبھی اسٹیک ہولڈرز کو اِعتماد میں لیں اور اَیسی پالیسیاں تشکیل دیں جو معاشی استحکام لائیں اور ترقی کے امکانات کو جنم دیں۔ چین دوسرے ممالک کو احکام دینے سے پرہیز کرتا ہے۔ اِسی لیے چینی حکومت اِس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے کوئی روڈ میپ یا لائحہ عمل دے سکے۔ پاکستان ایک آزاد وَ خودمختار مملکت ہے اور اِس کے مستقبل کو صرف اِسی کے باشندے ہی سنوار سکتے ہیں۔

’’چین مگر پاکستانی بھائیوں کے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات شیئر کر سکتا ہے۔ پہلا مشورہ یہ ہے کہ جو بھی جماعت حکومت میں آئے، وہ اِس امر کو مقدم رکھے کہ ملک میں امن و امان رہے، قومی اتحاد جنم لے اور معاشی استحکام آئے۔ اپنے تجربے کی بنا پر مَیں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ امن و امان اور اِستحکام جنم لینے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ یوں معیشت ترقی کرے گی جس سے عوام کو براہِ راست فوائد ملیں گے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری دور ہو گی۔

’’دوسرے مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی بیوروکریسی کو زیادہ موثر، متحرک اور باعمل ہونا چاہیے۔ وہ تندہی و فرض شناسی سے عوام کو خدمات فراہم کرے اور اُن کے مسائل سے آگاہ رَہے تاکہ وہ بروقت حل ہو سکیں۔ وہ خاص طور پر غریبوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ چین میں ہماری حکومت ہمیشہ عام آدمی کو سب سے زیادہ اَہمیت دیتی ہے۔جب کوویڈ۔۱۹ وَبا آئی، تو ہماری حکومتی پالیسی یہی تھی کہ عوام اور اِنسانی زندگی سب سے اہم و مقدم ہیں۔ معاشی ترقی اپنی جگہ مگر انسانوں کی زندگیاں بچانا زیادہ اَہم ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس سے ہمیں اور آپ کو بھی حکومت کرنے کا طریقِ کار سمجھ میں آنا چاہیے۔
’’تیسرے اہلِ پاکستان کو طاقتور وَ مضبوط قیادت تشکیل دینا ہو گی۔ ایک مملکت کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر صرف باصلاحیت لیڈر ہی گامزن کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے بھی اِس عنصر کا ہونا لازمی ہے۔سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ملک اپنی جگہ قائم و دائم رہتا ہے۔ آخر میں عوام کی اہمیت ہی نمایاں ہوتی ہے اور ہر حکومت کو چاہیے کہ وہ اِنہی کو ترجیح اوّل پر رکھے۔ اِنہی کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور یہ خاصیت مضبوط لیڈروں ہی میں ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو باصلاحیت و طاقتور لیڈرشپ درکار ہے جو گڈ گورننس سے ملک کی تقدیر بدل سکے۔
’’چوتھے پاکستانی حکومت اور اَہلِ پاکستان کو سی پیک کی اہمیت کا زیادہ اِحساس ہونا چاہیے۔یہ ضروری ہے کہ وہ اس کو قومی و اِجتماعی منصوبے کی نظر سے دیکھنے لگیں۔ یہ ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جو چینی حکومت کے ’ون بیلٹ ون روڈ اِنیشی ایٹو‘ (One Belt and One Road Initiative) میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ چینی پروجیکٹ ۲۰۱۳ء سے جاری ہے۔ پاکستان اِس منصوبے سے کئی فوائد حاصل کر سکتا ہے جو اِس کی معاشی و معاشرتی ترقی و خوشحالی میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

’’سی پیک اب دوسرے مرحلے (فیز) میں داخل ہو رہا ہے۔ اِسے مزید وسعت دی جائے گی تاکہ اہلِ پاکستان کو زیادہ فوائد میسّر آ سکیں۔ اِس منصوبے کی کامیاب تکمیل سے پاکستان اور چین، دونوں برادر ممالک کو بھرپور فائدے مل سکیں گے۔ یہ لازم ہے کہ پاکستان اِس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے زیادہ سنجیدگی و تدبر کا مظاہرہ کرے۔ نیز سی پیک کے خلاف جو منفی پروپیگنڈا ہوتا ہے، اِس کے تدارک کی خاطر عملی اقدامات انجام دے۔
’’بعض ممالک سی پیک منصوبے سے خوش نہیں۔ لہٰذا چین اور پاکستان کو مل کر بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی کہ مخالفین کی سازشیں ناکام ثابت ہوں اور سی پیک کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ اِس طرح پاکستانی عوام کو زبردست فوائد حاصل ہوں گے۔ یاد رَہے کہ یہ ’ون بیلٹ ون روڈ اِنیشی ایٹو‘ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ نیز یہ حکومتِ چین کی جانب سے عوام کی بہتری و خوشحالی کے لیے بنایا جانے والا سب سے بڑا بین الاقوامی منصوبہ بھی ہے۔ ہمارا فلسفہ یہ ہے کہ باغ میں ایک پھول بھی مرجھانے نہ پائے بلکہ سبھی پھولوں کو کِھلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ چین اپنے دوست پاکستان کو مستحکم، ترقی یافتہ اور خوش حال مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اِس ضمن میں ہمارے لیے جو ممکن ہوا، وہ ہم انجام دیں گے تاکہ ہماری دوستی اور شراکت مزید گہری و دیرپا ہو سکے۔‘‘
مَیں نے اِس موقع پر یہ امر نمایاں کیا کہ حکومتی سطح پر تو چین اور پاکستان مشترکہ طور پر کئی منصوبے بنا رہے ہیں جن پر کام بھی جاری ہے۔ مگر انفرادی سطح پر چینی اور پاکستانی صنعت کاروں، کاروباریوں، انٹرپرینور وَغیرہ کے درمیان رابطہ کم ہے۔ وہ مل کر شاذ ونادر ہی مشترکہ منصوبے بناتے ہیں۔ شاید اِس خرابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستانی افسرشاہی سست گام ہے اور وَہاں سرخ فیتے کا رواج ہے۔ جبکہ چینی سرمایہ کار تیزی سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی لیے اُنھوں نے تھائی لینڈ، ویت نام حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں کئی جوائنٹ وینچر شروع کر رکھے ہیں مگر پاکستان میں اُن کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ اگر چین اور پاکستان کے صنعت کاروں نے مشترکہ منصوبے شروع نہ کیے، تو شاید سی پیک منصوبے کے تمام فوائد حاصل نہیں ہو سکیں۔ کیا دونوں ممالک کی حکومتیں اِس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں؟

میں نے جناب ژائو شرین کو یہ بھی یاد دلایا کہ چینی سرمایہ کار اَیشیائی و اَفریقی ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں مگر پاکستان خاصی حد تک اُن کی رسائی سے دور ہے۔ یہاں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ رہا ہے لیکن دونوں ممالک کی حکومتیں مل کر یہ رکاوٹیں دور کر سکتی ہیں۔ چینی اور پاکستانی بزنس مینوں کو مل کر وسیع پیمانے پر منصوبے شروع کر نے چاہیں۔ اب تو بذریعہ سڑک بھی رابطہ ہو چکا۔ گوادر بندرگار بھی تجارت کے لیے درکار سہولیات سے لیس ہو رہی ہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کو زراعت، مینوفیکچرنگ اور کئی دوسرے شعبوں میں شراکت داری کرنا چاہیے۔
جناب قونصل جنرل نے میری باتوں سے اتفاق کیا اور کہا ’’پاکستان اور چین کے بزنس مینوں کو باہمی تعلقات بڑھانے اور مزید گہرے کرنے چاہیں۔ میری بھرپور کوشش رہے گی کہ اِس شراکت داری کو یقینی بنایا جائے۔ یہ واضح رہے کہ سی پیک منصوبے سے قبل بھی چین اور پاکستان کئی شعبوں میں باہمی ترقی کر رہے تھے۔ سی پیک آنے سے بس تعلقات میں مزید وسعت و گہرائی آ گئی۔

’’یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان اور چین جن امراض سے دوچار ہیں، سی پیک منصوبہ اُن سبھی کی دوا نہیں۔ لہٰذا خصوصاً اہلِ پاکستان کو اِس منصوبے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنا چاہیں۔ ساتھ ساتھ نہ ہی اِس منصوبے کو معمولی سمجھیں۔ یہ منصوبہ اِس لیے بنایا گیا کہ پاکستان اور چین، دونوں کو معاشی فوائد حاصل ہو سکیں۔ اُن کے مابین تعلقات میں مزید گہرائی آئے۔ اِس کی نوعیت جنگی یا تزویراتی نہیں۔

’’سی پیک کے ذریعے پاکستان میں انفراسٹرکچر کو بنانا مقصود تھا۔ گوادر بندرگاہ کی ترقی اور بجلی گھروں کی تعمیر بھی منصوبے کا حصّہ بن گئی۔ چینی اور پاکستانی عوام کے تعلقات میں بڑھوتری کا عنصر بھی منصوبے میں شامل کیا گیا۔ اب تک چینی حکومت سی پیک پر تقریباً۲۵؍ارب ڈالر خرچ کر چکی جو زرِ کثیر ہے۔ اِس کے منصوبوں میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد مقامی اور غیرمقامی افراد کو ملازمتیں دی گئیں۔سی پیک کے توانائی منصوبوں کے ذریعے اب تک آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر تعمیر ہو چکے۔ گوادر کسی زمانے میں چھوٹا سا قصبہ تھا، اب وہ جدید شہر میں بدل رہا ہے۔ وہاں شہریوں کو جدید سہولیات فراہم کری جا رہی ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۳ء میں ہوائی اڈہ بھی کھل جائے گا۔ ایم ایل ون پروجیکٹ پر بھی کام جاری ہے۔ مگر اُس کا خرچ پانچ ارب ڈالر سے بڑھ کر دس ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ لہٰذا اِسے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ ٹریک کراچی سے کاشغر تک جائے گا۔

’’سی پیک کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا، اب دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ زیادہ کٹھن مرحلہ ہے۔ ہمارے سامنے چیلنج بھی زیادہ ہیں۔ اِس مرحلے میں اسپیشل اکنامک زون تیار ہوں گے۔ صنعتی ٹیکنالوجی کا تبادلہ انجام پائے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبے بنیں گے۔ کان کنی کے پروجیکٹ شروع ہوں گے۔ غرض دوسرا مرحلہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہو گا۔ لیکن اِس کے لیے زیادہ سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔ پھر اِسے انجام پاہوئے بھی کئی برس لگ جائیں گے۔
’’سی پیک کے تحت نواسپیشل اکنامک زون قائم ہونے ہیں، ہر صوبے میں دو اور گلگت بلتستان میں ایک زون ۔ ان میں سے چار پر کام شروع ہوچکاجن میں ٹھٹھہ،سندھ میں ۱۵۳۰ایکڑ پر محیط دھابیجی اسپیشل اکنامک زون نمایاں ہے۔یہ زون پورٹ قاسم سے صرف ۸کلومیٹر دور ہے۔ منصوبے کی ماسٹر پلاننگ اور فزیبلٹی رپورٹ بن چکی ۔ سرمایہ کاروں کو دس سال کے لیے ٹیکس چھوٹ اور پلانٹ مشینری کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی سہولت حاصل ہوگی۔یہ واضح رہے، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں صرف ایکسپورٹ کرنے والی صنعتیں لگتی ہیں جبکہ آخر الذکر میں مختلف نوعیت کی صنعتیں قائم کی جاسکتی ہیں۔

’’ہماری سعی ہے کہ چینی اور پاکستانی اقوام کے درمیان بزنس ٹو بزنس یعنی نجی و اِنفرادی طور پر صنعت کاروں اور کاروباریوں کے مابین زیادہ سے زیادہ اِشتراک ہو۔ رفتہ رفتہ چین کی چھوٹی اور بڑی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں جیسے زونگ اور علی بابا۔ چینی حکومت مسلسل اپنے سرمایہ کاروں کو تاکید کرتی ہے کہ وہ پاکستان جا کر سرمایہ کاری کریں۔ مَیں پاکستان بالخصوص پنجاب میں وزرا اَور بیوروکریسی کو کہتا رہتا ہوں کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کو جو مسائل درپیش ہوتے ہیں، اُنھیں مناسب وقت میں حل کیا جائے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بھی صحیح معنوں میں اپنایا جائے۔

’’پاکستان میں پھر سیکورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک چینی سرمایہ کار کئی شہروں مثلاً ملتان وغیرہ نہیں جا سکتے تھے۔ پھر وہ کڑے پہرے میں سفر کرتے تھے۔ امن و امان کی حالت خراب ہو، تب بھی سرمایہ کار نہیں آتے۔‘‘اس موقع پر یہ ذکر آیا کہ چین کی مشہور کاروباری شخصیت، جیک ما حال ہی میں پاکستان آئے تھے۔یہ ایک اچھی خبر تھی۔جناب قونصل جنرل نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کا نجی دورہ تھا۔
اِس موقع پر قونصل جنرل کو آگاہ کیا گیا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت ’’ون ونڈو سروس‘‘ شروع کرنا چاہتی ہے تاکہ غیرملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات میسّر آ جائیں۔ نیز وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیکورٹی کے مسائل حل کرنے کی خاطر بھی بہت سرگرم ہیں۔امید ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال میں بہتری آئے گی۔

اگلا سوال کرتے ہوئےجناب ژائو شرین کو بتایا کہ چین نے دو برادر اِسلامی ممالک، سعودی عرب اور اِیران کے مابین اختلافات دور کر کے اُنھیں دوبارہ یک جان کر دیا۔ اِس عمل سے اہلِ پاکستان اور تمام مسلمان بہت خوش ہوئے اور چین سے اظہارِ عقیدت کیا۔ اِس صورتِ حال میں پاکستان، چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان پُل کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ اِن سیاسی و معاشی اور جغرافیائی تبدیلیوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اِن کی وجہ سے بھارت سی پیک کا حصّہ بن جائے۔

جناب ژائو شرین مسکراتے ہوئے گویا ہوئے:’’چین کو ہدیۂ تبریک پیش کرنے پر شکریہ۔ آپ نے جو منظرنامہ پیش کیا، وہ اُمید افز ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ وہاں معاشی ترقی ہو رہی ہے اور سیاسی استحکام بھی آ رہا ہے۔ اِن تبدیلیوں کو جنم دینے میں چین کا بھی اہم کردار ہے۔ یوں مغرب اور اَمریکا کو پیغام گیا کہ چین عالمی سطح پر ابھر رہا ہے۔ نیز مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کا اثر و رسوخ زوال پذیر ہے۔ہماری کوشش ہے کہ اسرائیل اور اہلِ فلسطین کے مابین امن معاہدہ انجام پا جائے تاکہ یہ عالمی مسئلہ حل ہو سکے۔ ہم روس اور یوکرین کے درمیان بھی اختلافات ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن کی جنگ نے کرۂ ارض کو معاشی طور پرنقصان پہنچایا ہے۔ عالمی مسائل حل ہونے سے چین ہی نہیں سبھی ملکوں کو فائدہ ہو گا۔ نیز اُن کے مابین تجارت و کاروبار بڑھنے سے ترقی و خوشحالی کے ادوار جنم لیں گے۔

’’ایران اور سعودی عرب کے ملاپ سے یقیناً پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔ ایران آپ کا پڑوسی ہے جبکہ پاکستان سعودیہ سے بھی گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ یہ صورتِ حال چین، افغانستان اور شاید بھارت کے لیے بھی مفید ہے۔ گو بھارت کا معاملہ ذرا کٹھن ہے۔ پاکستان اور چین، دونوں کے بھارت سے تنازعات چل رہے ہیں۔ بھارت سی پیک کا بھی شدید مخالف ہے حالانکہ اُسے ایسا نہیںکرنا چاہیے تھا۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے، ہم پاکستان کے موقف سے کامل اتفاق کرتے ہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسئلہ گفت و شنید سے حل کیا جائے۔ اِس ضمن میں سیکورٹی کونسل کی قراردادیں مدِنظر رکھی جائیں۔ تاہم ہم نے کبھی پاکستان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ بھارت سے دوستی نہ کرے اور اُس سے تعلقات نہ رکھے۔ چین کی تو کوشش ہے کہ مقامی طور پر اشتراک و دوستی جنم لے اور بھارت بھی سی پیک میں شامل ہو جائے۔ اِس طرح خِطے کے سبھی ممالک کو بیش بہا فوائد حاصل ہوں گے۔

’’حقیقت یہ ہے کہ چین، بھارت، پاکستان اور اِیران معاشی و عسکری لحاظ سے بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر مستقبل میں کسی وقت اِن کا اتحاد جنم لیتا ہے، تو وہ عالمی معاملات و تنازعات میں ایک توانا آواز بن جائے گا۔ یہ اتحاد برِاعظم ایشیا کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں سعی و کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اتحاد وُجود میں آ جائے۔ گو مستقبل قریب میں اِس کا امکان نہیں مگر ہمیں پُرامید رہنا چاہیے۔ نیک نیتی سے کام کرنے کے باعث ہی میٹھا پھل ملتا ہے۔ محنت سے ہی سرنگ کے آخر میں روشنی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

مَیں نے آخر میں جنابژائو شرین سے گزارش کی کہ مسئلۂ فلسطین حل کرنے کے سلسلے میں چین کو اپنا کردار اَدا کرنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کی طرح فلسطین میں بھی فلسطینی عرصہ دراز سے اسرائیل کا ظلم و ستم سہ رہے ہیں۔ وہ جن مصائب و آلام سے نبردآزما ہیں، ہم ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ قونصل جنرل نے یقین دلایا کہ حکومتِ چین اِس ضمن میں بھرپور کوششیں کرے گی۔

جب ہم رخصت ہونے لگے تو جنابژائو شرین گویا ہوئے:’’میں نے بطور قونصل جنرل لاہور ایسا معلومات افروز انٹرویو پہلی بار دیا ہے۔مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کی اشاعت آپ کے بزرگوں نے شروع کی تھی۔اور آپ نے اپنی اس خاندانی روایت کو خوش اسلوبی سے برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

قونصل خانے میں سیکورٹی سخت تھی مگر تمام اقدامات بالائے طاق رکھ کر جنابژائو شرین ہمیں رخصت کرنے باہر تشریف لائے۔ہم نے انھیں منع کیا کہ گرمی خاصی ہے، آپ اندر ہی رہیے لیکن وہ کہنے لگے:’’چینی مہمان نوازی کی ریت ہے کہ مہمانوں کو باہر جا کر رخصت کیا جائے۔‘‘ان کے لطف وکرم نے بہت متاثر کیا۔

ہماری گاڑی نہر پر رواں دواں ہوئی تو چاروں طرف سرسبز درخت اور پھول پودے دیکھ کر دماغ معطر ہو گیا۔اللہ تعالی نے ہمیں قدرتی وسائل کے خزینے فرمائے ہیں۔افسوس کہ ہم بحثیت قوم ان سے فائدےنہیں اٹھا سکے۔قران پاک میں فرمان الہی ہے کہ ایک قوم کی (بُری )حالت اسی وقت بدلتی ہے جب وہ خود بدلنا چاہے۔خوش قسمتی سے اس بدلائو کے کچھ آثار ہویدا ہیں۔

جنابژائو شرین کا یہ مشورہ صائب و بروقت ہے کہ پاکستان کی تمام مقتدر قوتوں کو متحد ہو کر کام کرنا ہو گا تبھی اس مملکت کی قسمت بدل سکے گی۔اس ضمن میں ’‘پاکستان گرین انشیٹیو ‘‘مبارک منصوبہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف قومی زراعت کو ترقی دینا مقصود ہے تاکہ وطن عزیز خوراک میں خودکفیل ہو جائے بلکہ غذائیں درآمد کرنے سے زرمبادلہ کمانا بھی مطمع نطر ہے۔یہ منصوبہ سیاسی رہنمائوں اور فوج کی مشترکہ تخلیق ہے ۔یہ کوئی عجوبہ امر نہیں ، دنیا بھر میں یہ رجحان فر وغ پذیر ہے کہ سبھی سرکاری و غیرسرکاری طاقتیں مل جل کر ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنائیں۔پاکستان میں بھی ایسے مذید عوام دوست منصوبے وجود میں آنے چاہیں جو ہمارے وطن کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پہ مضبوط، مستحکم اور خوشحال مملکت میں ڈھال دیں۔یہ کوئی خواب نہیں،ہم سب کی ٹھوس فکروعمل اسے باآسانی حقیقت کا روپ دےسکتے ہیں۔بقول شاعر:اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

Share:

More Posts

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest