fbpx

پاکستان، اردو اور میں

patriotism and urdu

بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا 1948 میں جلسہ عام میں خطاب:

“میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہی ہوگی۔ جو شخص آپ کو اس سلسلے میں غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کرے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحدہ رہ سکتی ہے اور نہ ترقی کر سکتی ہے۔”

میں جس ملک میں رہ رہا ہوں اس ملک کو تو ہمارے آباواجداد نے آزاد ہی “اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط” کی بنیاد پہ کیا تھا۔ لیکن کیا آج پم اس مقولے، اس نظریے پر قائم ہیں؟ نہیں۔ اس نظریے کی جڑ ہلانے میں سب سے بڑا کردار ہمارے نظامِ تعلیم نے کیا ہے۔ نظامِ تعلیم جس کا مقصد جوان نسل کے جذبات کو صحیح سمت میں تربیت دینا، اخوت جیسے جذبات کو فروغ دینا، اور ملک کے لوگوں کو ایک مربوط قوم بنانا ہے، آج جب یہ نظامِ تعلیم ہی دو  حصوں میں بٹ چکا ہے تو قوم کیسے یکجا اور متحد رہ سکتی ہے۔ تعلیم کےاس دو دھارے والے نظام میں ایک لسانی تقسیم واضح ہے, جسے بنیادی طور پر اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کہا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام میں اس تفاوت نے قوم کو اپنی اور دوسروں کی شناخت کے بحران میں ڈال دیا ہے جس کی توثیق حکومتی پالیسیوں  اور متعلقہ طرز عمل نے کی ہے۔

  میں پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں ایسے بہت کم افراد ہیں جنہیں حقیقی طور پر معلوم ہے کہ قومی ترقی کے صحیح ذرائع کیا ہیں اور تعلیمِ ملت میں قومی زبان کی کیا اہمیت ہے۔ اردو انگریزی تفرقے نے ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان ایسی لکیر کھینچ دی ہے جسے مٹانا وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اس فرق کا آغاذ سکول سے ہوتا ہے جب غریب کا بچہ اردو میڈیم سکول میں جاتا ہے اور انگریزی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہتا، اور دوسری طرف امیر کا بچہ انگلش میڈیم سکول میں جاتا ہے جدھر وہ دنیا کی ہر زبان سیکھتا ہے مگر اپنی قومی زبان نہیں۔ قسمت کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ اردو کو غریبوں کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اور انگریزی کو امیر طبقے کے ساتھ۔ قابلیت اور عزت کی شناخت انگریزی اور دولت کی بنیاد پر ہونے لگ گئی ہے۔ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری جیسے جذبات عام ہو گئے ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے جو شخص غریب پیدا ہوتا ہے، وہ غریب ہی مرتا ہے چاہے کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو۔کیونکہ جب اسے انگریزی سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تو وہ اچھے عہدوں پر فائز ہو کر اچھی تنخواہ بھی نہیں حاصل کر سکتا۔ امیر طبقہ اگرچہ بہت آزادخیال ہوتا لیکن ان کی کند ذہنیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ ان کے نزدیک جن کو انگریزی نہیں آتی وہ لوگ جاہل تصور کئے جاتے ہیں۔

دراصل یہ ان دو صدیوں کی غلامی کا نتیجہ ہے جو برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کے دور میں برداشت کی۔ 1947 میں ملک تو انگریزوں اور ہندوون کے تسلط سے آزاد ہوگیا لیکن آج بھی ہمارا دماغ لاشعوری طور پر انگریزوں کا غلام ہے۔ پاکستان کے ہر امیر فرد کو وہ چیز مرغوب کرتی ہے جو انگریز کی پیداوار ہو، چاہے وہ کوئی عقیدہ ہو، سوچ ہو یا لباس ہو۔ پیسے کی فراوانی کے سبب سب سے پہلا عمل جو ہر امیر طبقے کا فرد کرتا ہے وہ انگریزوں کے ہاں تعلیم حاصل کرنا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے ہاں بہترین تعلیم مہیا کی جاتی ہے لیکن یہ صرف ہمیں تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ اپنا نظریہ، اپنی ثقافت ہمارے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں جو ہماری دینی اور قومی ترقی کے لئے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ یہ لوگ پھر وہیں بسنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی نسلیں آبائی ملک کی خدمت کرنے کے بجائے ایک بار پھر سے انگریزوں کی غلامی کو خوشی سے قبول کر لیتی ہیں۔

 ؎ کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں

     مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

ملک کے بہترین سکولوں میں سے ایک میں پڑھنے کے باوجود میرے سکول کے طلبہ کی اکثریت اردو  بولنے سے قاصر ہے۔ ہاں اردو اور پنجابی میں گالیاں ضرور دے سکتے ہیں لیکن اردو ادب سے کوئی انسیت نہیں۔ حالات یہ ہیں کہ سکول کی اردو سوسائیٹی کا صدر بھی Alevels میں اردو کو اپنے نصاب میں شامل نہیں کرتا۔ ہمارے حکومتی نظام اور عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان طلبہ کو بڑے بڑے عہدوں کا حقدار سمجھتے ہیں جو روانی سے برطانوی یا امریکی لہجے میں انگریزی بول سکیں۔ ہاں شاید ان طلبہ کے پاس زیادہ علم اور بہتر تجربہ ہو مگر یہ لوگ محبِ وطن نہیں ہو سکتے۔ وطن سے وفاداری و محبت کی پہلی شرط اس کی زبان سے محبت کرنا ہوتی ہے۔ ہمارے سابقہ وزیرِاعظم امران خان اور موجودہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو ایسی دو مشہور شخصیات ہیں جن سے اردو کے پیروکار سخت مایوس ہیں۔ اتنے بڑے عہدوں پہ فائز ہونے کے باوجود وہ اس بات کو مدنطر نہیں رکھتے کہ ان کا ہر عمل، ہر لفظ پاکستان کی نمائیندگی کرتا ہے اور جب انہیں اردو بولنے میں دشواری ہوتی ہے تو پوری دنیا کے سامنے ہمارے ملک کی بےعزتی ہوتی ہے اور یہ ہم سب کے لئے شرمندگی کی بات ہے۔ خوددار اور باوقار قومیں ہمیشہ اپنی تہزیب و ثقافت اور قومی زبان کی قدر کرتی ہیں اور اس پر فخر کرتی ہیں۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں، سب ہی نےہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی۔

 حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اردو میڈیم سکولوں میں تعلیم کا معیار بلند کریں، ہر طالبِ علم پر اردو سیکھنا لازم کیا جائے، بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے لئے اردو زبان و ادب میں کمال حاصل ہونا ضروری قرار دیا جائے، احساسِ کمتری اور احساسِ ابتری جیسے جذبات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ہر طلبہ کو اسکی قابلیت کی بنا پر مواقع فراہم کئے جائیں نہ کہ انکے خاندانی پسِ منظر کی بنا پر۔ اس سے امیر اور غریب طبقے کے درمیان فاصلے کم ہوں گے اور دونوں طبقے اسی ملک میں اکٹھے رہتے ہوئے قومی ترقی کے لئے محنت کر سکیں گے۔

؎ اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو

    سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے\

-Ameer Hamza, Youth Correspondent Urdu Digest

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest