تحریر:ـ محمد ایاز خان
جب دوسری جنگ عظیم اختتام کو پہنچی تو مجھے بطور حوالدار ترقی دےکر بمبئ نمبر ۱ٹی ٹی سی انجینئرز کور ہیڈکوارٹر میں تعینات کر کے رائل انجینئرز کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہیں میری ملاقات نائیک سیف علی جنجوعہ شہید’’ نشان حیدر‘‘ سے ہوئی۔ وہ اس وقت بطور سپاہی رائل انجیینرز میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کشمیری نوجوان سے میری اچھی دوستی رہی۔ مجھے اس وقت اندازہ نہ تھا کہ ہمار ا ساتھ زندگی بھر رہے گا۔ جلد ہی مجھے پونا ڈپو بھیج دیا گیا۔ اس دوران اس سے میرا کوئی رابطہ نہ رہا۔ قیام پاکستان کااعلان ہوتے ہی مجھے اپنے گاؤں کی تباہی، گھر کے جل اور لُٹ جانے کی خبر ملی پھر ساتھ ہی پورے خاندان اور بیوی بچوں کی شہادت کے المیہ کا علم ہوا تو میں نے فوج چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ’’نہ جائےماندن نہ پائےرفتن‘‘ کے مصداق سوچ سوچ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اک آگ سی سینے میں لگی تھی اور اپنی بے بسی پر رونا آتا تھا۔ مجبور اور اکیلا، اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بھائی بہنوں کو یاد کرتا تھا۔ اُوپر سے افغانی خون انتقام کے لیے جوش مارتا مگر کچھ کر نہ پاتا۔ اسی دوران پتا چلا کہ کیپٹن افضل صاحب انجینئرز کی ایک سپیشل ٹرین سیالکوٹ لے کر جانے والے ہیں۔ میں نے ان سے استدعا کی اور ان کے ساتھ ریل گاڑی میں سوار ہو کر پاکستان کے لیے روانہ ہوا مگر ٹرین کو آگرہ اسٹیشن پر روک لیا گیا کیونکہ فسادات کی وجہ سے آگے تمام علاقوں میں قتل وغارت عروج پر تھی۔ ہمیں کئی ماہ تک وہاں رُکنا پڑا۔ جو جمع پونجی تھی، خرچ ہو گئی۔ فوج تو چھوڑ چکا تھا لہٰذا تنخواہ بھی بند تھی۔ لاہور پہنچا تو خالی ہاتھ اور خالی جیب تھا۔ لاہور میں صرف تحریک تجدید عہد کے بانی مولانا غلام نبی انصاری سے بہت پرانی شناسائی تھی۔ چونکہ ان کے ساتھ تحریکِ آزادیٔ پاکستان کے لیے کام کر چکا تھا لہٰذا مجھے انھی کا آسرا نظر آیا۔ انھوں نے بڑی محبت کا اظہار کیا، تسلی دی، گھر میں اپنے بچوں کی طرح رکھا اور اپنے اخبار میں کام کرنے کی پیشکش فرمائی۔
اس کے بعد اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کی تلاش شروع کر دی کہ شاید کوئی بچ گیا ہو۔ جذبہ ٔجہاد سے میں بچپن ہی سے سرشار تھا اور شوق شہادت پہلے سے ہی دل میں مؤجزن تھا۔ بیوی بچوں کی شہادت اس پر ایک اور تازیانہ ثابت ہوئی۔ اب جہاد کی خواہش کے ساتھ ساتھ افغانی انتقام کا جذبہ بھی اُبھر آیا تھا۔ جوں ہی میں نے زمیندار اخبار لاہور میں یہ خبر پڑھی کہ سردار محمد ابراہیم خان صاحب نے ابراہیم بریگیڈ کے نام سے آزادیٔ کشمیر کے لیے ایک لڑاکا فوج تشکیل دینے اور سابق فوجیوں کو شامل کرنے کا ارادہ کیا ہے، میں نے دل میں مصمم تہیہ کر لیا کہ میں جہاد کشمیر پر ضرور جاؤں گا۔ مولانا انصاری صاحب اس جہاد کے حق میں نہ تھے، اس لیے ان کو بتائے بغیر میں راولپنڈی پہنچ کر سردار محمد ابراہیم خان صاحب سے ملا اور اپنی خوہش کا اظہار کیا۔
سردار صاحب بہت خوش ہوئے اور اس فورس کی تشکیل میں میری خدمات سراہتے ہوئے مجھے تراڑکھل میں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ حکومتِ آزاد کشمیر اس وقت ہم چند لوگوں پر مشتمل تھی۔ سردار صاحب، میں اور میرا ٹائپ رائٹر دن رات کام کر کے ایک بڑی فورس تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے۔ جب ہم منظم ہو گئے تو سردار صاحب نے مجھے کرنل احمد علی شاہ صاحب وزیر دفاع کشمیر کا پرسنل سکریٹری اور پھر سپرنٹنڈنٹ محکمۂ دفاع کشمیربنا دیا۔ مجھے نائب صوبیدار کا عہدہ دیا گیا اور میں وزیر دفاع کے ساتھ منسلک ہو گیا مگر میرا جذبۂ جہاد مجھے چین نہ لینے دیتا۔ بیوی بچوں کے چہرے بار بار سامنے آتے اور جہاد میں عملی حصہ لینے کی خواہش منڈلاتی رہتی۔
ایک دن کرنل شیر محمد خان سلواہ سے وزارت میں ملاقات ہو گئی۔ وہ میرے کام اور تجربے سے بہت متاثر ہوئے اور مجھے جہاد کے لیے اپنی حیدری بٹالین میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میں تو گویا انتظار میں تھا لہٰذا فوراً ہاں کر دی اور بطور صوبیدار حیدری بٹالین کا حصہ بن گیا جو شیر ریاست بٹالین بھی کہلاتی ہے۔
کرنل احمد علی صاحب وزیرِ دفاع کشمیر نے میرے جذبے کو دیکھتے ہوئے بڑی مشکل سے مجھے اجازت دی۔ میں نے ۱۱ جون۸ ۱۹۴ء کو شیر ریاست بٹالین میں جوائن کیا اور مجھے بٹالین بی کمپنی میں کمپنی ٹوآئی سی ( کمپنی سنیر جے سی او) اسی دن تعینات کر دیا گیا۔ یہاں میرے پرانے دوست نائیک سیف علی جنجوعہ شہید ’’نشان حیدر‘‘ مجھ سے آن ملے۔ وہ بھی رائل انجینئرز سے فارغ ہو کر حیدری بٹالین جوائن کر چکے تھے اور بطور نائیک میری ہی کمپنی میں تعینات تھے:
آملے تھے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔
شوق شہادت انھیں شاید مجھ سے بھی زیادہ تھا۔ ہر محاذ پر اپنی خدمات پیش کرتے۔ یہ نوکری ہم دس ماہ تک بلا تنخواہ انجام دیتے رہے۔ کشمیر میں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ بے شمار مجاہدین اور رضاکار جوق در جوق مختلف محاذوں پر بلا تنخواہ جہاد کر رہے تھے۔ پاکستانی افواج اور آزاد کشمیر کی افواج بڑی تیزی سے کشمیر میں داخل ہو چکی تھیں۔ روز کوئی نہ کوئی فتح کی خبر ملتی۔ مقامی کشمیریوں کا جذبہ مزید بلند ہو گیا تھا۔ ہندوستان سے مکمل آزادی کا خواب اَب پورا ہونے کے قریب تھا۔ اس دوران مجھے خوشخبری ملی کہ میرے والد، بھائی اور چند عزیز واقارب زندہ اور کوٹ اد و ضلع مظفرگڑھ میں رہ رہے ہیں۔ چونکہ یہ فسادات سے پہلے ہی سونی پت آ چکے تھے، اس لیے محفوظ رہے البتہ بیوی بچوں اور دیگر رشتہ داروں کی شہادت کی تصدیق ہو گئی۔ جلد ہی والد صاحب سے رابطہ ہو گیا اور دیگر عزیزوں سے روابط بحال ہونے لگے۔ والد صاحب سابقہ آرمی جے سی آو تھے اور قومی رضاکاران کے کمانڈر تھے۔ ہمیں مجاہدین کی بہت ضرورت تھی۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے تربیت یافتہ مجاہدین کا ایک دستہ میرے بھائی غازی حوالدار میجر محمد بیاض خان (تمغۂ خدمت پاکستان) کی قیادت میں میری مد د کے لیے کشمیر روانہ کیا۔ ان میں میرے بھائی نائیک نباض خان اور نیاز خان بھی شامل تھے۔
تقریباً دس افراد کے اضافے سے ہماری پوزیشن بہتر ہو گئی۔ وزیر دفاع کے ہمراہ میں تمام محاذوں اور سرحدوں کا دورہ کر چکا تھا۔ مجھے کشمیر کا جغرافیہ خوب معلوم تھا، اس لیے ہماری پیش قدمی دشمن روک نہ سکا اور اس طرح ہم کشمیر کا ایک بڑا حصہ آزاد کرانے میں کامیاب رہے۔ اب ہم نے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد تیز کر دی۔ اس دوران دو بڑی تاریخی اور زبردست خونی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ جس میں ہم نے بھارت کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ ان میں مشہور لڑائی رتیہالی کنکھڑی سیکٹر اور تاریخی وادی پیر کلیہوہ محاذ پر دشمن کا حملہ۔ ان دونوں میں میرا اور میری بٹالین کا کلیدی اور بہادرانہ کردار تحریک ِآزادیٔ کشمیر کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ آج کی لائن آف کنٹرول ہماری جرأت اور بہادری کا نشان ہے۔ بہادری کے سب سے زیادہ اعزازت ان دو جنگوں کے شہداء اور غازیوںکو ملے۔
ریتہالی کنکھڑی وادی میں خونیں معرکہ:
۲۸ جون ۱۹۴۸ء کو ۳ بجے رات دشمن نے ہماری کن کھڑی پوسٹ کی پلاٹون پر شدید حملہ کر دیا۔ اس پوسٹ کو میری بٹالین کے پلاٹون کمانڈر جمعدار (نائب صوبیدار) دین محمد سنبھالے ہوئے تھے۔ یہ ایک دلیر جے سی او اَور بے پناہ جنگی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ یہ پوسٹ دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم تھی اور یہاں پاکستان کا قبضہ بے حد ضروری تھا۔
میں اس وقت بٹالین ہیڈ کوارٹر میں تھا جب وائرلیس پر جمعدار دین محمد نے اطلاع دی کہ اس زبردست دفاعی جنگ میں ہمارے پاس ایمونیشن ختم ہونے کے قریب ہے اور سوائے بندوق یا برین گن کے، کوئی جدید اسلحہ بھی نہ ہے اور دشمن لگاتار جدید ترین اسلحہ سے گولہ باری کر تے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں نے اُسے حوصلہ دیا اور پوری طاقت اور ہمت سے حملہ روکنے کا حکم دیتے ہوئے بتایا کہ ہم کمک کے ساتھ تھوڑی دیر میں اس تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت بٹالین ہیڈکوارٹر میں اتفاق سے صرف میں اور میرا چھوٹا بھائی حوالدار بیاض خان موجود تھے۔ ہم نے تیزی سے اسلحے کے ڈبے اور مارٹر ۱/۲ اُٹھائے اور محاذ کی جانب دَوڑ پڑے۔ ایک ریکروٹ نیک محمد نے اس عظیم مشن میں میری معاونت اور مدد کی۔ اس طرح مشکل ترین پہاڑی راستوں سے گولیوں اور آگ کی بوچھار میں کمک اور مدد پہنچانے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ بار بار درختوں، جھاڑیوں اور چٹانوں کی آڑ لیتے ہوئے ہم آگے بڑھے۔
دشمن کی گولیاں ہمارے پاس سے گزرتیں تو بیٹھ جاتے اور رینگنا شروع کر دیتے۔ اس سے پہلے ہماری بٹالین کے پاس مارٹر نہ تھے۔ دشمن کو ہماری اس کمزوری اور کمی کا پتا چل چکا تھا۔ ہم اس بھاری بھر کم اسلحے کو اپنے کندھوں، سروں اور کمر پر اُٹھائے مشین گنوں اور مارٹر گولوں سے بچتے اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں تقریباً دوڑتے اور ہانپتے اپنے مجاہدین کے پاس پہنچے تو انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور اپنے کمانڈر کو دیکھ کر ان کا حوصلہ مزید بڑھ گیا۔ جیسے ہی یہ اسلحہ اور مارٹر جمعدار دین محمد کو ملے، اس نے فوری طور ۲ مارٹر بڑھتے ہوئے دشمن پر داغ دیے۔ دو زبردست دھماکے ہوئے اور ان کے مورچوں کے پرخچے اُڑ گئے۔
ہم بھی فائرنگ کرنے میں شریک ہو گئے۔ جس سے دشمنوں میں کھلبلی اور افراتفری مچ گئی۔ انھیں کمک پہنچنے کا احساس اس وقت ہوا جب جدید اسلحے سے ہمارے حملے میں شدت آ گئی۔ رات بھر گھمسان کی شدید جنگ جاری رہی اور ہم انھیں پیچھے دھکیلتے چلے گئے۔ صبح تک دشمن اپنی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو چکا تھا اور ہم کنکھڑی ٹاپ پر آزادی کا جھنڈا گاڑ چکے تھے۔ وہاں درجنوں بھارتیوں کی لاشیں اور اسلحہ پڑا تھا۔ اس بہادرانہ اور دلیرانہ ہمت دکھانے اور جان ہتھیلی پر رکھ کنکھڑی ٹاپ فتح کرنے کے اعتراف میں مجھے امتیازی سند (ایم۔ڈی) سے نوازا گیا اور حوالدار محمد بیاض خان کو حوالدار میجر بنا دیا گیا۔
معرکہ پیر کلیہوا راجوڑی
بھارتی فوج سے پیر کلیہوا محاذ پر کئی دن سے جھڑپیں جاری تھیں۔ ہماری یونٹ پہلے ہی حملے میں دریائے پونچھ عبور کر کے پیش قدمی کرتے ہوے پیر کلیہوو ا پوسٹ پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکی تھی کیونکہ دفاعی لحاظ سے یہ بہت اہم پوسٹ تھی۔ یہا ں سے ہم دشمن پر بآسانی نظررکھے ہوئےتھے۔ اُس کی تمام سرگرمیاں ہمارے ریڈار پر تھیں۔ یہی راستہ تھا جو ہمیں بآسانی سرینگر پہنچا سکتا تھا۔ ہمارا ٹارگٹ سرینگر ہی تھا۔ اس پر دوبارہ قبضے کے لیے دشمن بار بار حملہ آور ہوتا اور منہ کی کھاتا۔ ہماری حیدری بٹالین بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہی تھی۔
۲۶ دسمبر ۱۹۴۸ء کو دشمن نے اپنے ایک انفنٹری بریگیڈ کے ذریعے، جسے بھاری توپ خانے ٹینکوں کے علاوہ ائیر فورس کی مدد بھی حاصل تھی، پیر کلیہوا پوسٹ پر قبضہ کے لیے حملہ کر دیا۔ اسے میر ی بٹالین کی بی کمپنی نے سنبھالا ہوا تھا۔ یہاں گھمسان کی جنگ سارا دن جاری رہی۔ دشمن کا مقابلہ ہماری جس بہادر پلاٹون سے تھا، اس پلاٹون کا تعلق میری بی کمپنی سے تھا کیونکہ کوئی سینئر آفیسر جے سی ا و یا این سی او وہاں موجود نہ تھا، اس لیے میری اس پلاٹون کی قیادت نمبر ۶۸۲۷۵ نائیک سیف علی جنجوعہ کمان کر رہے تھے جن سے میری انڈین آرمی کے زمانے کی دوستی بھی تھی۔
یہ نوجوان کھندر تحصیل مہندر ضلع پونچھ کا رہائشی تھا۔ ہم رائل انجینئرز میں اکٹھے خدمات انجام دے چکے تھے۔ بدقسمتی سے میری یہ پلاٹون اس جنگ کے دوران میری کمپنی سے بچھڑ چکی تھی اور بٹالین ہیڈ کوارٹر سے رابطے میں نہ رہ سکی تھی۔ میں بطور کمپنی کمانڈر پلاٹون سے رابطہ کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اس بات کا نائیک سیف علی جنجوعہ کو بھی احساس تھا کہ اُس نے ایک اہم مورچہ سنبھالا ہوا ہے۔ وہ گھمسان کی جنگ کے باوجود یونٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اپنی بٹالین سے بچھڑ چکا پھر بھی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا رہا۔ تعداد اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی برین گن سے ایک بھارتی طیارہ مار گرانے میں کامیاب ہو کر دشمن فضائیہ کو دہشت زدہ کر چکا تھا۔ فضائی بمباری اور شیلنگ کے سبب نائیک سیف علی جنجوعہ کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی تھیں مگر اس نے اپنی برین گن سے فائرنگ جاری رکھی۔ زخموں سے چور ہونے کے باوجود اپنی پلاٹون کی راہنمائی جاری رکھی اور ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ سہ پہر ۳ بجے اس کا رابطہ مجھ سے بحا ل ہوا۔ بٹالین ہیڈ کوارٹر سے میں اور لفٹیننٹ رحمت علی جو اس وقت بٹالین ایڈجوٹیننٹ تھے فوری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمک لے کر مختلف راستوں سے محاذ پر روانہ ہوئے کیونکہ چوکی پر موجود اسلحہ و گولہ بارود تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ نائیک سیف علی نے ہمت نہ ہاری اسی زخمی حالت میں گھسٹ گھسٹ کرلاشوں اور زخمیوں تک پہنچے اور ان کا اسلحہ اکٹھا کر کے اپنے زندہ بچ جانے والے ساتھیوں تک پہنچایا۔
دشمن کے تازہ حملےکا سامنا کرنےکی غرض سے باقی ساتھیوں کو پھر سے منظم کیا۔ انھیں یہ احساس تھا کہ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے آخری گولی نہیں بلکہ آخری سانس تک لڑنا ہے۔ وہ نئے حملے کی مناسبت سے پوزیشن تبدیل کرنے لگے اور مٹھی بھر مجاہدین کے ساتھ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ بھارتی توپوں کی جانب سے گولہ باری میں شدت آ گئی تھی جب میں چوکی پر پہنچا تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دشمن کی توپ کا ایک گولہ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کے سینے پر لگا۔ اس کے جسم کے چیتھڑے فضا میں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئے۔ میرا دوست، میرا ساتھی میرے سامنے شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گیا۔ مجھے فخر ہے میری بٹالین کا یہ فرزند شہید ہو گیا مگر ہمارے پہنچنے تک دشمن کو پیر کلہیوا کی پوسٹ فتح نہ کرنے دی۔
ہم نے شام ۶بجے اپنی اس پلاٹون کو جوائن کر لیا اور شام تک دشمن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ د یں۔ دشمن رات گئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس جنگ میں دشمن کے ۳۰۰ فوجی مارے گئے جبکہ ہمارے صرف ۱۵ مجاہدین نے شرف شہادت حاصل کیا۔ یہاں ہم اس وقت تک رہے جب تک سیز فائر کا اعلان نہ ہو گیا۔ اس دوران کئی مرتبہ دشمن نے دوبارہ یہ پوسٹ حاصل کر نے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا بلکہ ہمیشہ بھاری جانی نقصان اُٹھا کر پسپا ہوا۔ یہاں تک کہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے بریگیڈیر محمد اعظم خان (جو بعد میں لفٹیننٹ جنرل رہے) کے احکامات بذریعہ میجر ظفر اقبال قریشی صاحب موصول ہوئے جس میں ہمیں یہ پوسٹ چھوڑ کر واپس کوٹلی ایریا میں دریائے پونچھ کے پیچھے لائن آف کنٹرول لوٹ جانے کا حکم دیا گیا۔
ہم ایک بڑا ایریا فتح کر چکے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر ہم نے اس پوزیشن کو چھوڑ دیا تو شاید پھر دوبارہ کبھی حاصل نہ کر سکیں۔ ہمارےاس وقت کمانڈنگ آفیسر میجر محمد نواز خان کیانی تھے۔ وہ ایک بہادر اور محب وطن سپاہی تھے۔ انھیں اس پر شدید اختلاف بھی تھا مگر فوج میں ذاتی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ حکم ماننا ضروری ہوتا ہے۔ انھوں نے واپسی کے آرڈر ہم سب کے سامنے پڑھ کر سنائے۔ اس وقت ہماری کل تعداد ۳۰ مجاہدین پر مشتمل تھی۔ ہم تمام نے روتے ہوئے نہایت دُکھی دل کے ساتھ پیر کلیہوا کو خداحافظ کہا اور دریائے پونچھ کے دوسری جانب اپنی سرحدو ں پر پوزیشن سنبھال لیں۔ ہم بڑی دیر تک روتے اور افسردگی کے عالم میں رہے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ دوبارہ ہم شاید کبھی بھی اس پوسٹ کو فتح نہ کر سکیں گے۔
ان بہادرانہ اور دلیرانہ کارنامو ں کا اعتراف کرتے ہوئے ۱۴ مارچ ۱۹۴۹ میں نائیک سیف علی جنجوعہ کو پہلا اور آخری، کشمیر کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہلال کشمیر دیا گیا جو وکٹوریہ کراس کے برابر تھا۔( بعد میں کیونکہ آزاد کشمیر ریگولر فورس پا کستانی فوج کا حصہ بن گئی تو اس کے لیے مجھے ۳۰ سال تک ایک طویل جدوجہد اور خط وکتابت کرنی پڑی اور وزارتِ دفاع نے میری کوششوں کو سراہتے ہوئے ۱۹۹۵ میں ہلالِ کشمیر کو نشان حیدر کا درجہ دے دیا)
لفٹیننٹ رحمت علی کو ان بہادری کی وجہ سے ترقی دے کر کیپٹن کا رینک دیا گیا اور انھیں یونٹ میں ٹو آئی سی تعینات کر دیا گیا۔ مجھے ریگولر کمیشن اور سیکنڈلفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دے کر ۱۸ آزاد کشمیر بٹالین کا ایڈجوٹننٹ مقرر کر دیا گیا۔ یہ حکومت کی جانب سے آزاد کشمیر کا پہلا اور آخری ہلال کشمیر تھا۔
سیز فائر کے باوجود لائن آف کنٹرول پر دشمن سے جھڑپیں جاری رہیں۔ سیز فائر کے بعد ہیڈ کوارٹر ۷، آزاد کشمیر، بریگیڈ اور ۱۸ آزاد کشمیر بٹالین سمیت تمام آزاد کشمیر بٹالین ری اورگنائزیشن کے لیے جاتلی، میر پور میں تعینات رہیں اور مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ میں ہیڈکوارٹر ۳ سیکٹر میں بطور ڈپٹی کوارٹر ماسٹر جناب لفٹیننٹ کرنل ( جو بعد میں لفٹیننٹ جنرل بنے) محمد اکبر خان آف کلیری کے زیر کمان خدمات انجام دیتے ہوئے آزاد کشمیر رجمنٹ کی ری اورگنائزیشن تنظیم نو میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔
اسی ری اوگنائزیشن کے تحت بطور لیفٹیننٹ بٹالین ایڈ جوٹینٹ/کوارٹر ماسٹر ۱۲ آزاد کشمیر رجمنٹ میں تعینات ہوا اور اسی دوران فرسٹ او ٹی ایس منگلا (جو آرمی کمیشنڈ آفیسرز ٹرنینگ کا پہلا کورس تھا) سے کر کے پورے پاکستان میں دوسری پوزیشن لینے کا اعزازحاصل کیا۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جنگ اور جہاد کا مقصد مکمل ہو چکا تھا، اس لیے فوج سے ریٹائیرمنٹ کی درخواست دی تاکہ گھریلو معاملات اور بوڑھے ماںباپ کی خدمت کر سکوں اور اپنے ۱۹۴۷ کے بچھڑے بچوں کو تلاش کر سکوں جو قبول کر لی گئی اور ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ میں فوجی خدمت سے بڑے اعزاز سے رخصت ہو کر اپنے والدین کی خدمت میں حاضر ہوا۔
۶ ستمبر ۱۹۶۵ء میں دشمن نے پھر بزدلانہ حملہ کیا تو شوق جہاد اور شوق شہادت زندہ تھا۔ مجھے جنگی خدمات کے لیے بذریعہ ٹیلی گرام دوبارہ طلب کر لیا گیا مگر یہ جنگ دشمن ۱۷ دن بھی برداشت نہ کر سکا۔ دو ماہ بعد مجھے بہترین خدمات انجام دینے پر وار ایمرجنسی اسپیشل سرٹیفیکیٹ ۱۹۶۵ اور گورنرز فرسٹ کلاس سند ۱۹۶۵ سے نوازا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں اپنی خدمات پھر ملک اور قوم کو پیش کر دیں اور مشرقی پاکستان میں جیسور سیکٹر میں خدمات انجام دیں۔ شدید زخمی حالت میں گرفتار ہو کر دو سال تک میرٹھ کیمپ انڈیا میں جنگی قیدی رہا اور تمغۂ جنگ سے نوازا گیا۔
٭٭٭