fbpx

رزقِ حلال جو پاک نہیں

تحریر:ڈاکٹر محمد سلیم

’’ہر خاص وعام بازار کے کھانوں کا شوقین نظر آتا ہے۔ جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ قائم ہو چکی ہیں۔ ان میں طرح طرح کے کھانے دستیاب ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر باہر جا کر کھانا کھانا سب سے مقبول تفریح بن چکی۔ باہر کے کھانے دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے لیکن اکثریت ان کی تیاری کے مراحل سے نا واقف ہے۔ ہم اپنا کھانا خود تیار کرتے وقت اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس میں استعمال ہونے والی ہر چیز صاف ستھری اور خالص ہو۔ اس کی تیاری میں کوئی مضر صحت چیز شامل نہ ہو۔ جب ہم یہی چیز باہر کھاتے ہیں تو وہ اچھی تو بہت لگتی ہے لیکن اس کے صاف ستھرا ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ فوڈ اسٹریٹ اور ریستورانوں میں تیار شدہ یہ کھانے صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہیں جو انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔‘‘
یہ باتیں آپ نے ہر جگہ سنی اور پڑھی ہوں گی لیکن کیا آپ نے یہ پڑھا؟ کہ کھانا صرف صاف ستھرا یا حلال ہی نہیں، پاک بھی ہو۔ وطنِ عزیز میں ہم کوئی بھی کھانے کی چیز بازار سے لینے جائیں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ حلال رزق ہے اور بیرونِ ملک بھی ہم صرف حلال کھانا ڈھونڈتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا؟ کہ وہ حلال ہونے کے ساتھ ساتھ پاک ہے یا نہیں؟ جی ہاں! ضروری نہیں کہ ہر حلال کھانا پاک بھی ہو۔ اس بارے میں دینِ اسلام سے راہنمائی لینا ازحد ضروری ہے۔
قرآنِ عظیم کے مطابق کھانا پانچ طرح کا ہوتا ہے:
حلال، طیب، ازکیٰ، حرام اَور خبیث۔ یہ ضروری ہے کہ پہلے ہم حلال اور حرام کے فرق کو سمجھ لیں۔ حرام کھانے اجمالاً چار اور تفصیلاً دس ہیں۔ اجمالاً چار محرمات درج ذیل ہیں:
’’اِس (اللہ) نے تمہارے لیے مردار اَور خون اَور سور کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام کر دیا ہے۔ ہاں اگر کوئی انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو (اور اِن چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اِس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اَور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اِس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقیناً اللہ بخشنے والا اور رَحم کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ ۲:۱۷۳)
اِن چار چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں ٹھہرایا۔ ارشاد ہے:
’(اے پیغمبر! اِن سے) کہو کہ جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے، اِس میں سے تو مَیں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو بجز اِس کے کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا ایسا گناہ کا جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں جو شخص (اِن چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہو جائے جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو اَور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بےشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الانعام ۶:۱۴۵)
اِن آیات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اِن محرمات کے علاوہ باقی ہر چیز حلال ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ باقی تمام چیزوں میں سے کون کون سی چیزیں حلال ہیں، اِس کے لیے سورہ المائدہ میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے:
’’آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اِن کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔‘‘ (المائدہ ۵:۴)
’’آج تمہارے لیے تمام طیب چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ (المائدہ ۵:۵)
اِن آیات سے واضح ہے کہ طیب چیزیں حلال اور تمام خبیث چیزیں حرام ہیں۔ قرآنِ عظیم میں طیب اور خبیث چیزوں کی فہرست بیان نہیں ہوئی بلکہ اِس کو کھلا چھوڑ دِیا گیا ہے۔ طیب اور خبیث کے مفہوم اور فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔


طیب کی تعریف

ہر وہ چیز جو ظاہری نجاستوں سے مکمل پاک صاف ہو۔ ایسی عمدہ، صاف ستھری اور خوشگوار کہ دیکھنے سے دل خوش ہو جائے۔ قرآنِ عظیم میں پاک یا پاکیزہ(معنی طیب) لفظ متعدد جگہ استعمال ہوا ہے۔
نجاست سے پاک مٹی (النسا ۴:۵)، پاکیزہ ہوا (کشتی کے لیے نرم اور موافق ہوا) (یونس ۱۰:۲۲) سخت ہوا (ناموافق ہوا جو کشتی کو الٹ دے) (یونس ۱۰:۲۲) پاکیزہ کلمہ، پاکیزہ درخت (ابراہیم ۱۴:۲۴) پاکیزہ زندگی (شرک، نفاق اور فِسق سے پاک) (النحل ۱۶:۹۷) سلام ….. بابرکت پاکیزہ تحفہ (النور ۲۴:۱۶) پاکیزہ شہر (صاف ستھرا، فرحت بخش) (سبا: ۱۵) جنت کے پاکیزہ مکانات (صف: ۱۲) اپنے پاس سے پاکیزہ اَولاد (آلِ عمران ۳:۳۸)
اِن تمام آیات سے اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں کے لیے طیب کا مفہوم اخذ کرنا چاہیں، تو کچھ اِس طرح بنتا ہے کہ طیب کھانا ایسا ہے جو دیکھنے میں صاف ستھرا ہو، اس کی بُو ٹھیک ہو، ذائقہ بھی درست ہو، صحت کے لیے موافق ہو، صحت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو اور جس برتن میں کھانا ہو وہ برتن بھی صاف ستھرا ہو۔ کسی بھی لفظ کا مفہوم اُس وقت زیادہ نکھر کر سامنے آتا ہے جب اِس کے مخالف لفظ کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔ طیب کا مخالف لفظ خبیث ہے۔
خبیث کی تعریف
یہ لفظ مادی اَور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی لحاظ سے ہر گندی، غلیظ، ردّی، ناکارہ گلی سڑی، بدبودار یا باسی چیز خبیث ہوتی ہے۔ ایسی چیز جو خراب یا عیب دار ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے خبیث چیزوں کو اپنی راہ میں صدقہ کرنے سے منع فرمایا ہے:
’اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اَور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو، اِن چیزوں کا طیب حصّہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اَور یہ نیت نہ رکھو کہ بس خبیث قسم کی چیزیں (اللہ کی راہ میں) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے، تو نفرت کے مارے) تم اِسے آنکھیں بند کیے بغیر نہ لے سکو۔‘‘ (البقرہ ۲:۲۶۷)
کھانے کا طیب ہونا فرض ہے
ہر وہ بات فرض کے درجے میں ہے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا ہے۔ یہ حکم تو قرآنِ عظیم میں کئی مقامات پر ہے کہ صرف طیب چیزیں کھاؤ:
’’اے ایمان والو! اِن طیب چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں اور اَللہ کا شکر ادا کرو، اگر تم صرف اِسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ (البقرہ ۲:۱۷۲)
اِس آیت سے واضح ہے کہ طیب کھانا کھانا ایک مستقل عبادت ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کو اِلٰہ ماننے کی ایک نشانی بھی ہے۔ اگر ہم کھانے کے طیب ہونے کی پروا نہیں کرتے، تو پھر یہ بات ’اگر تم صرف اِسی کی عبادت کرتے ہو‘ کی نفی ہے۔ یہ اِس لیے کہ خبیث کھانا کھانے سے شیطان کی عبادت ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اِس حکم سے تجاوز کرنے سے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔
انبیاء ؊ کو طیب چیزیں کھانے کا حکم
’’اے پیغمبرو! طیب چیزوں میں سے کھایا کرو اَور نیک عمل کرتے رہو۔‘‘ (المومنون ۲۳:۵۱)
اِس آیت سے واضح ہے کہ طیب چیزوں اَور اَعمالِ صالحہ کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ حلال اور طیب خوراک انسان کو اعمالِ صالح کی طرف کھینچتی ہے، تو اعمالِ صالح اِسے حرام اَور خبائث سے روکتے ہیں۔ طیبات اور خبائث کے اپنے اپنے اثرات و نتائج ہیں۔ طیب خوراک کے بغیر اعمالِ صالح ممکن نہیں اور اعمالِ صالحہ کے بغیر حیاتِ طیبہ ممکن نہیں۔
’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو، تو ہم اِسے طیب (پاکیزہ) زندگی عطا فرمائیں گے۔‘‘ (النحل ۱۶:۹۷)


کھانے کا طیب ہونا، مطلب حلال ہونا:
کمزور سے کمزور اِیمان والا مسلمان بھی کھانے کے حلال ہونے کے بارے میں بڑا فکرمند رہتا ہے، مگر ’’مضبوط ایمان‘‘ والا مسلمان بھی کھانے کے طیب ہونے کے بارے میں فکرمند نہیں ہوتا، اِس طرف دھیان ہی نہیں جاتا! اِلا ماشاء اللہ۔ مغربی ملکوں کی دیکھا دیکھی اب مسلمان ملکوں کی بھی اکثر ڈبہ بند کھانے کی چیزوں یا مسالا جات وغیرہ پر ’’حلال‘‘ کا لفظ لکھا ہوتا ہے، مگر کیا آج تک کہیں ساتھ ’’طیب‘‘ بھی لکھا ہوا دَیکھا ہے؟ جبکہ قرآنِ عظیم کی ہدایت کے مطابق کھانا حلال ہونے کے ساتھ طیب بھی ہونا چاہیے۔
حلال طیب کھانا کھانا خالص اللہ کی عبادت کی نشانی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اللہ کی ہدایت نہیں، بلکہ شیطان کے قدموں کی پیروی ہوتی ہے۔ ارشادِ باری ہے:
’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال طیب چیزیں ہیں، اِنھیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ ۲:۱۶۸)
غور طلب بات ہے کہ اِس آیت میں مخاطب صرف ایمان والے نہیں، بلکہ تمام انسان ہیں۔ جیسے ہر ایک انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اِس کی عبادت کرے، ایسے ہی حلال طیب کھانا کھانا بھی فطرتِ انسانی میں ہے۔

کھانے کا حلال و طیب اہم کیوں؟
اِس کا سادہ جواب تو یہی ہے کہ کھانے کا حلال ہونا انسان کے ایمان کی حفاظت کے لیے اور کھانے کا طیب ہونا انسان کی صحت کی حفاظت کے لیے ہے۔ دنیا کی زیادہ تر آبادی غیرمسلم ہے۔ وہ کھانے کے صاف ستھرا (طیب) ہونے کا تو بہت خیال رکھتے ہیں، مگر اِنھیں حلال حرام کا شعور نہیں۔ اگر کسی جانور کو ویسے ہی ذبح کر دیا جائے، تو جانور کی غذائیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے گوشت کو اگر صاف ستھرے طریقے سے پکا کر کھا لیا جائے، تو بھی حلال ہونے کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ ایسا گوشت مسلمان کو کھانے کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ فِسق اور شیطان کی عبادت ہے۔
’’اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم (مسلمانوں) سے بحث کریں اور اَگر تم نے اُن کی بات مان لی، تو تم یقیناً مشرک ہو جاؤ گے۔‘‘ (الانعام ۶:۱۲۱)
حلال کی شرط پوری نہ ہونے سے انسان کا اللہ سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ ایمان کا تقاضا ہی یہی ہے کہ انسان اللہ کے ہر حکم کے آگے سر جھکا دے۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں: توحید کا تحفظ، انسان کا اللہ سے تعلق، شرک و بُت پرستی کی مخالفت، شیطان کی چاہت کی نفی۔ بلند آواز میں اللہ کا نام لینا اس بات کا اظہار ہے کہ ایک جاندار مخلوق کو ذبح کرنے کا کام اللہ ہی کے حکم اور اِسی کی اجازت سے کیا جا رہا ہے اور اِس سے اللہ کا شکر بھی ادا ہو جاتا ہے کہ اِسی نے یہ جانور اِنسان کے فائدے کے لیے پیدا کیے اور اِس نے اِنھیں انسان کے لیے مسخر کیا۔
شکر سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذبح کرتے وقت تکبیر کہنے میں بہت سے روحانی فائدے رکھ دیے گئے ہیں۔ غیر مسلم اِن تمام روحانی فوائد سے محروم رہتا ہے۔

اب رہی بات مسلمانوں کی، تو اِنھیں حلال حرام کا مسئلہ تو معلوم ہے، مگر بےشمار ایسے صرف نام کے مسلمان ہیں جو کھانے کے طیب ہونے کے حکم سے لاعلم ہیں۔ کھانا اگر طیب نہیں، تو صحت تو جاتی ہی ہے، مگر ساتھ ایمان بھی جاتا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ صرف صحت کا نہیں، بلکہ اللہ کے حکم کا ہے جو اتنا ہی اہم ہے جتنا کھانے کا حلال ہونا۔ اِس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ طیب ہے اور طیب چیزوں کو ہی قبول فرماتا ہے۔ اہلِ ایمان کو اِس نے اِس بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اِس نے اپنے رسولوں کو دیا۔‘‘
چنانچہ قرآن میں فرمایا:
’اے رسولو! طیب چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اِس کا مجھے علم ہے۔‘‘ (المومنون :۱۵)
اور فرمایا ’’اے ایمان والو! جو طیب چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں، اِنھیں کھاؤ۔‘‘ (البقرہ: ۱۷۲) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ایک شخص طویل سفر طے کرتا ہے۔ اُس کا حال یہ ہے کہ بال پریشان ہیں، پاؤں غبار آلود ہیں اور اَپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر دعا کرتا ہے، ’اے رب، اے رب!‘ لیکن اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور حرام کھا کر ہی وہ پلا ہے، تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہو گی۔‘‘ (مسلم باب الزکاۃ: ۲۳۴۶، ترمذی: ۲۹۸۹) جب حرام اور خبیث کھانا جسم میں جائے گا، تو دعائیں قبول کیسے ہوں گی؟
طیب کھانا کیسا ہو؟
کھانے پینے کی چیزوں کا طیب ہونے کے لیے ظاہری طور پر متعدد باتوں کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ کھانا یا پانی دیکھنے میں، سونگھنے اور ذائقہ میں درست ہونا چاہیے۔
۲۔ جس برتن میں کھانا یا پانی ڈالا جائے، وہ صاف ستھرا ہو۔
۳۔ جہاں کھانا پکایا جائے، وہاں کا ماحول صاف ستھرا ہونا چاہیے۔
۴۔ برتن دھونے اور آٹا گوندھنے کے لیے طیب پانی استعمال کیا گیا ہو۔
۵۔ جس کپڑے یا کاغذ میں روٹیاں لپیٹی جائیں، وہ طیب ہو۔
۶۔ کھانا پکانے اور تقسیم کرنے والے افراد صاف ستھرے ہوں، ناخن بڑھے ہوئے نہ ہوں، کھانستے یا چھینکیں نہ مارتے پھرتے ہوں، ہاتھوں پر کوئی زخم نہ ہو۔
۷۔ اگر ایک سے زیادہ اَفراد مل کر کھا رہے ہیں، تو کھانے میں جانے والے تمام ہاتھ صاف ہوں، کوئی شخص کھانے کے اُوپر ہو کر نہ کھائے (بعض لوگ لقمہ منہ میں ڈالتے وقت پلیٹ یا تھال کے اُوپر جھک جاتے ہیں جس سے کچھ کھانا اِن کے منہ سے واپس پلیٹ یا تھال میں گر جاتا ہے۔)
کھانا خبیث کیسے ہوتا ہے؟
۱۔ جو کھانا دیکھنے یا سونگھنے سے ٹھیک نہ لگے یا ذائقہ خراب ہو۔ فریج میں رکھے کھانے بھی جلد خراب ہو جاتے ہیں، خصوصاً جب باربار کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہو۔ ڈبا یا پیکٹ بند چیزیں آخری تاریخ سے پہلے بھی خراب ہو سکتی ہیں، خصوصاً جہاں درجۂ حرارت زیادہ ہو یا پھر برسات کے موسم میں۔
۲۔ کھانا یا پانی تو طیب ہو، مگر برتن گندا ہو یا برتن خراب پانی سے دھوئے گئے ہوں یا برتنوں کو دھونے کے بعد گندے کپڑے سے صاف کیا گیا ہو۔ بعض لوگ گلاس یا کپ اِس طرح اُٹھاتے ہیں کہ چار اُنگلیاں گلاس کے اندر ہوتی ہیں اور انگوٹھا باہر۔ ایسا کرنے سے بھی برتن گندا ہو جاتا ہے۔
۳۔ روٹیاں لپیٹنے والا کپڑا یا اخباری کاغذ میلا یا بدبودار ہو۔
۴۔ کھانا پکانے یا تقسیم کرنے والے لوگ بیت الخلا استعمال کر کے ہاتھ نہ دھوئیں۔
۵۔ کھانا تو طیب ہو، مگر ڈھانپ کر نہ رکھا گیا ہو۔ کھانے پر مکھیاں بیٹھ رہی ہوں یا گرد و غبار اُڑ اُڑ کر اُس میں آ رہا ہو۔ اجتماعی کھانے کے وقت کوئی شخص چھینکیں مار رَہا ہو یا کھانس رہا ہو۔
۶۔ گھر میں کام کرنے والی عورتیں اپنے ہاتھ بار بار اَپنے پہنے ہوئے میلے کپڑوں سے خشک کرتی ہیں اور اِنھی ہاتھوں سے باورچی خانے میں کام کرتی ہیں۔
۷۔ جو چیزیں تلی جاتی ہیں، اُن کے لیے استعمال ہونے والا تیل، دو دَفعہ سے زیادہ استعمال کرنے سے خراب ہو جاتا ہے۔ اِس سے زہریلے مادے پیدا ہو جاتے ہیں جو خون کی نالیوں کو بند کرنے یا سرطان کا مؤجب بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں سموسے، پکوڑے اور فاسٹ فوڈ کے لیے استعمال ہونے والا تیل کئی دن تک سینکڑوں بار اِستعمال ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ یہ جلا ہوا تیل پھر ایسی فیکٹریوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صاف ہو کر واپس بازار میں دوبارہ استعمال ہونے کے لیے آ جاتا ہے۔
۸۔ سڑک کنارے یا پُرہجوم مقامات پر کھانے پینے کے ٹھیلوں کی چیزیں بھی کئی وجوہات سے خبیث کے درجے میں آتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر برتن دھونے کے لیے کھلا پانی ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ پلیٹوں کو کپڑے سے صاف کر کے یا گندے پانی میں بار بار ڈبکیاں دینے سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔

بظاہر طیب مگر حقیقت میں خبیث:
کھانے پینے کی ایسی چیزوں سے بازار بھرے پڑے ہیں جو بظاہر تو بڑی نفیس اور لذیذ مگر طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ شرعی لحاظ سے یہ کھانے بھی خبیث کھانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
۱۔ ملک میں شادی ہالوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ رش اِتنا کہ چھے چھے ماہ پہلے بکنگ کروانی پڑتی ہے۔ بریانی کی ڈش تقریباً ہر جگہ فہرستِ طعام میں شامل ہوتی ہے۔ کھانا کھایا کم اور ضائع زیادہ کیا جاتا ہے، لہٰذا بہت سارا کھانا پلیٹوں میں بچا رہتا ہے۔ اِس بچی ہوئی بریانی کو اُٹھانے کے ٹھیکے ہوتے ہیں۔ ٹھیکیدار بچی ہوئی بریانی اُٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لاتے ہیں۔ کارندے اِس بریانی میں سے ہڈیاں اور ٹشو پیپر وغیرہ نکال کر الگ کر دیتے ہیں (ہو سکتا ہے کئی لوگوں نے اپنا زکام صاف کر کے ٹشو پیپر وہاں پھینکا ہو)۔ موٹا موٹا گند صاف کرنے کے بعد یہ بریانی بظاہر اب صاف دکھتی ہے۔ پھر یہی بریانی سڑک کنارے، کالجوں، عدالتوں، بس اسٹاپوں کے باہر کھڑے ٹھیلوں کو سپلائی کر دی جاتی ہے۔ وہ اِسے صاف تھال میں ڈال کر دوبارہ گرم کر کے مختلف ناموں سے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔
۲۔ مصنوعی دودھ: پانی کے اندر خشک دُودھ، یوریا کھاد، شیمپو، ویجیٹیبل آئل اور سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ وغیرہ ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ اِس دُودھ کی بالکل اصلی دُودھ جیسی ہوتی ہے۔ اِس پر بالائی بھی آتی اور دہی بھی بنتا ہے۔ یعنی اس کی اصل دُودھ سے پہچان کرنا نہایت مشکل ہے۔ یہ سخت مضرِ صحت ہے۔
۳۔ حلیم بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اسے مختلف دالوں، گوشت اور مسالاجات کو یک جان کر کے بنایا جاتا ہے۔ بہت عرصے سے حلیم میں گدھوں اور کتوں کا گوشت یک جان کر کے لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے۔
۴۔ شادی ہالوں میں گدھوں کا گوشت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک باورچی نے بتایا کہ گدھے کے گوشت میں خشک دھنیہ، اَنار دَانہ، الائچی، لونگ اور لہسن کا تڑکا لگانے سے گدھے کے گوشت کی مخصوص مہک ختم ہو جاتی اور وَہ بکرے کے گوشت سے بہتر ذائقہ دینے لگتا ہے۔ اِس کے علاوہ گدھے کے گوشت سے بنی قیمے والی ٹکیاں، قیمے بھرے نان، کوفتے اور تکہ بوٹیاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔
۵۔ ۲۰۱۳ء سے قبل پاکستان سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں۔ پھر جنوری ۲۰۱۳ء سے اپریل ۲۰۱۵ء تک گدھوں کی ۹۶ ہزار ۸ سو کھالیں کراچی پورٹ جبکہ قاسم پورٹ سے ۸۹ ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں۔ باقی تیرہ ڈرائی پورٹس سے برآمد ہونے والی کھالیں اِس کے علاوہ ہیں۔
۵۔ ۲۶؍اگست ۲۰۱۵ء کو ہربنس پورہ لاہور میں مردہ جانوروں کا گوشت بیچنے والا گروہ گرفتار ہوا۔ اُنھوں نے محکمہ لائیو اسٹاک کے افسروں کو بتایا کہ وہ مختلف ہوٹلوں اور رِیستورانوں کو ۱۴۰؍روپے فی کلو کے حساب سے مردہ گوشت فراہم کرتے ہیں۔
۶۔ ۶؍اپریل ۲۰۱۵ء کو شیخوپورہ میں محکمہ لائیو اسٹاک کے عملے نے چھاپہ مار کر ۴۵۰۰ مردہ مرغیوں کا گوشت برآمد کیا جو مرغ چنے فروخت کرنے والوں کو فراہم کیا جانا تھا۔
۷۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کے دَوران جو مرغیاں مر جاتی ہیں، وہ بروسٹ کی دُکانوں پر ۲۵ روپے فی مرغی کے حساب سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔ اِن مردہ مرغیوں کی سجی آگے مہنگے داموں فروخت کر دی جاتی ہے۔
۸۔ جس تیل میں سموسے، پکوڑے، مچھلی، چپس اور دُوسری چیزیں تلی جاتی ہیں، وہ چار طرح کا ہوتا ہے۔ اوّل، تیل بالکل خالص اور تازہ ہو۔ دوم، تیل بار بار کے استعمال سے خراب ہو چکا ہو، مگر پھر بھی استعمال کیا جا رہا ہو۔ سوم، صاف شدہ تیل استعمال کیا گیا ہو اَور چہارم یہ کہ تیل مغربی ملکوں سے درآمد شدہ ہو۔ درآمد شدہ تیل بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو استعمال شدہ تیل کو صاف کر کے ہمارے ملک میں بیچا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ سؤر کی چربی کا تیل ہو۔
کچھ عرصہ قبل ’ایکسپریس ٹرائبون‘ پاکستان میں باہر کے کھانوں کے متعلق ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا۔ اِس مضمون کا اُردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
’’جب ہم باہر سے کھانا کھاتے ہیں، ہم اپنی صحت کی قسمت دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ استعمال کیا گیا تیل سرطان کرنے والا نہ ہو، مرغی کو اچھی طرح دھویا گیا ہو یا بریانی میں خطرناک فوڈ کلر استعمال نہ کیے گئے ہوں اور جن برتنوں میں کھانا تیار کیا گیا ہو، وہ صاف طریقے سے دھوئے گئے ہوں۔ کچھ لوگ گندے ماحول میں تیار کیے گئے کھانے اور کھانے میں استعمال ہونے والے ناخالص اجزا کی وجہ سے اپنی صحت کے حوالے سے بھاری قیمت چکاتے ہیں۔
بازار میں ۷۰ فی صد خوراک ملاوٹ شدہ اور ۵۲ فی صد منرل واٹر غیرمحفوظ ہے۔ کھانوں میں غیر معیاری فوڈ کلر، تیل اور فلیور اِستعمال کیے جاتے ہیں۔
مسئلہ صرف گندے اجزا کا نہیں، بلکہ کھانے تیار کرنے والے افراد کا بھی ہے جو دستانے پہنتے نہ سر ڈھانپتے ہیں بلکہ ِان کے جسم سے پسینہ بہ رہا ہوتا اور وہ گندے باورچی خانے میں کھانے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔


کراچی کے کئی ریستوران اِس حالت میں پائے گئے کہ وہاں کھانا بنانے والے برتن زنگ آلود تھے اور وَہ خراب جمے ہوئے گوشت استعمال کرتے ہوئے پائے گئے۔ لاہور میں باہر کے کھانوں کی حالت قدرے بہتر ہے۔ یہاں تقریباً چار ہزار رِجسٹرڈ رِیستوران ہیں۔ پنجاب فوڈ اَتھارٹی نے چھاپوں کے دوران دریافت کیا کہ زیادہ تر جگہوں پر ریستوران میں کارکُنان کے لیے کھانا بنانے سے پہلے ہاتھ دھونے والا صابن ہی موجود نہ تھا۔

عالمی ادارۂ صحت نے ریستورانوں کے لیے پانچ معیار مقرر کیے ہیں:
۱۔ کھانا بنانے اور تقسیم کرنے والے صاف ستھرے ہوں۔
۲۔ باورچی خانہ صاف ستھرا ہو۔
۳۔ پانی اور کھانے کے اجزا خالص ہوں۔
۴۔ کھانا ٹھیک طرح پکایا (تیار کیا) گیا ہو۔
۵۔ کھانا مناسب درجۂ حرارت پر رکھا کیا گیا ہو۔
سوچا جائے تو یہ سب اصُول اسلامی احکامات کے عین مطابق ہیں جن پر بحیثیت مسلمان سب سے پہلے ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ ایک فوڈ اِنسپکٹر ڈاکٹر نے بتایا کہ لوگ اگر بیکری کے گندے کچن کو دیکھ لیں جہاں بیکری کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں، تو وہ یہ چیزیں استعمال کرنے سے توبہ کر لیں۔
فوڈ اَتھارٹی کے چھاپوں کے دوران یہ بات دیکھی گئی کہ زیادہ تر ٹھیلے والوں پر بکنے والے کھانے غیرصحتمند تھے۔ وہاں صفائی نہ ہونے کے برابر اور گندا پانی استعمال ہوتا جبکہ اجزا انتہائی ناقص ہوتے ہیں۔
صحت کو سب سے زیادہ خطرہ اُنھی کھانوں سے ہے جو سڑک کنارے فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ بیچنے والے خود صاف ستھرے ہوتے ہیں اور نہ ہی اُن کا ماحول، صاف ستھرائی کے معاملے میں اِن کا شعور صفر کے درجے پر ہوتا ہے۔ اِنھیںیہ بھی معلوم نہیں کہ کس کھانے کی کس چیز کو ٹھنڈا رکھنا ہے اور کسے گرم۔
قرآنِ عظیم میں طیب کھانا کھانے اور خبیث کھانوں سے بچنے کے جو احکامات ہیں، اِنھیں پنجاب فوڈ اَتھارٹی کے چھاپوں کی روشنی میں سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ خبیث کھانے پینے کی چیزوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو پنجاب فوڈ اَتھارٹی کے چھاپوں کی وجہ سے سامنے آئی ہے۔ اگر کسی کے پاس وقت ہو تو، وہ اِنٹرنیٹ پر یہ تمام ویڈیوز دیکھ سکتا ہے۔

یہاں نمونے کے طور پر صرف چند باتیں شیئر کرنا مناسب ہو گا۔
۱۔ لاہور مانگامنڈی کے قریب انڈوں کو پروسیس کرنے والی فیکٹری پر چھاپا پڑا۔ یہاں انڈوں سے زردی اَور سفیدی کو الگ کر کے پاؤڈر تیار کیا جاتا تھا۔ انڈوں کا یہ پاؤڈر پاکستان کی تمام بسکٹ بنانے والی فیکٹریوں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ یہ پاکستان کا واحد ہے جہاں سے سارے ملک میں بسکٹ بنانے والی فیکٹریوں کو انڈوں کا سفوف مہیا کیا جاتا تھا۔ ڈیڑھ کروڑ رُوپے کے گیارہ لاکھ گندے انڈے برآمد ہوئے، بعض انڈے اتنے گندے تھے کہ اِن میں سے چوزے بھی نکل چکے تھے۔
۲۔ فیصل آباد اَور اَکبری منڈی لاہور میں نقلی بیسن تیار کرنے والی کئی فیکٹریاں پکڑی گئیں۔ یہ بیسن رمضان کے مہینے میں مختلف چیزوں کی تیاری میں استعمال کرنے کے لیے تیار کیا جاتا تھا کیونکہ رمضان میں بیسن کی کھپت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جعلی بیسن تیار کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ فیکٹری مالکان سارا سال ردی (Rejected) اور کیڑہ زدہ دَالیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔ پھر اِس میں مکئی کے دانے، کچرا دَال اَور تھوڑا سا رنگ ڈال کر بیسن تیار کیا جاتا ہے۔ یہ بیسن ٹنوں کے حساب سے تیار کیا جاتا ہے، جس کو رمضان کے مہینے میں سموسے، پکوڑے، پکوڑیاں اور دُوسری چیزیں تیار کرنے کے لیے سپلائی کیا جاتا ہے۔
۳۔ فوڈ اَتھارٹی نے کئی ایسی جگہوں پر چھاپہ مارا جہاں مشہور برانڈ والی دکانوں کے لیے مٹھائی تیار کی جاتی ہے۔ وہاں اِنھیں گندے انڈے ملے جو مٹھائیوں میں استعمال ہونے تھے۔ اِس کے علاوہ وَہاں عام غلاظت کے ساتھ ساتھ چوہوں کی بھرمار تھی۔
۴۔ سُوپ کو گاڑھا کرنے کے لیے وہ کلف ڈالا جا رہا ہے جو کپڑوں کو مائع لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے Gelatin بھی ڈالی جاتی ہے۔ Gelatin ہڈیوں سے حاصل ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر چین سے درآمد کی جا رہی ہے۔ چین میں حرام حلال کا کوئی تصور نہیں۔ پاکستان کی مارکیٹ میں زیادہ تر Gelatin حرام جانوروں سے حاصل شدہ ہوتی ہے۔
۵۔ فوڈ اَتھارٹی نے مزنگ چونگی لاہور میں تلی ہوئی مچھلی بیچنے والی ایک دکان پر چھاپہ مارا۔ اِن کی روزانہ کی بِکری (sale) کئی لاکھ روپے میں ہے۔ دکان والوں نے اندر مسالا لگی مچھلی بڑی مقدار میں اسٹاک کی ہوئی تھی۔ یہ مچھلی اُس واش روم میں بھی اسٹاک تھی جو ملازمین کے زیرِاستعمال تھا۔ صفائی کا نام و نشان نہ تھا اور وَہاں عام غلاظت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے گندے کیڑے اور کاکروچ رینگ رہے تھے۔
۶۔ گائے؍بھینس کے دودھ سے کریم نکالنے کے بعد اِس کی چکنائی کی مقدار (Fat Percentage level) برقرار رَکھنے کے لیے اِس میں درآمد شدہ تیل ملایا جاتا ہے جو زیادہ تر سؤر کی چربی کا ہوتا ہے۔ دُودھ کی زندگی (shelf life) بڑھانے کے لیے اِس میں فارملین (formaline) قطرے ڈالے جاتے ہیں۔ یہ فارملین مردوں کو حنوط کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مصنوعی اور گندے دودھ کی مٹھاس برقرار رَکھنے کے لیے گنے کا رس ملایا جاتا ہے۔ دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے گائے؍بھینس کو جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں، اِس سے بھینس کے تھنوں میں انفیکشن ہو جاتا ہے اور یہ پیپ دودھ میں شامل ہوتی رہتی ہے۔
۷۔ سوفٹ ڈرنکس میں پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد اِستعمال کی جاتی ہے۔ حکومتِ پنجاب نے ۱۴؍اگست ۲۰۱۷ء کو پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں انرجی ڈرنکس پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ حکومت کے مطابق کابونیٹڈ اور اِنرجی ڈرنکس میں فاسفورک ایسڈ اور کیفین بچوں کی ہڈیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
۸۔ کھوکھوں پر چائے بنانے والے، استعمال شدہ چائے کی پتی ضائع نہیں کرتے، بلکہ اِسے ایک ڈبے میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ بعد ازاں یہ استعمال شدہ پتی فروخت کی جاتی ہے۔ اسے خریدنے والے سارے شہر سے استعمال شدہ پتی خرید کر اکٹھی کر تے پھر اِس میں پَھک (چاولوں کے چھلکے کا بھوسا) ملایا جاتا اور اِس سارے گند کو رنگ دیا جاتا ہے۔ فوڈ گریڈ کلر کی بجائے انڈسٹریل رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِس مرکب کے ۷۰ فی صد حصّے میں ۳۰ فی صد اصلی پتی ملائی جاتی ہے۔ یہ نقلی پتی پھر نئے سرے سے پیک کر کے مارکیٹ میں فراہم کر دی جاتی ہے۔ اِس کی پہچان کرنی ہو تو شیشے کے گلاس میں ٹھنڈا یخ پانی لیں۔ اِس میں ایک چمچ پتی ڈال دیں، اگر اِس پانی میں پتی اپنا رنگ چھوڑ دے، تو یہ پتی نقلی ہے۔ اصل پتی ٹھنڈے پانی میں رنگ نہیں چھوڑتی۔


۹۔ لاہور میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار ٹرک مرغیاں لے کر داخل ہوتے ہیں۔ ہر ٹرک میں تقریباً پندرہ، بیس مرغیاں مر جاتی ہیں۔ اِس طرح تقریباً ۷۵ ہزار سے ایک لاکھ مردہ مرغیاں لاہور میں داخل ہوتی ہیں۔ اِن مردہ مرغیوں کو مری ہوئی مرغی نہیں، بلکہ خفیہ الفاظ میں ٹھنڈی مرغی کہا جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈی مرغیاں روسٹ؍بروسٹ وغیرہ کی دکانوں پر انتہائی معمولی قیمت پر فروخت کر دی جاتی ہیں۔
۱۰۔ بوتل کا پانی (منرل واٹر) بھی صحت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا۔ سب سے اچھا پانی ۳۵۰ ٹی ڈی ایس کا ہوتا ہے۔ ۲۵۰ سے ۱۰۰۰ ٹی ڈی ایس کا پانی بھی ٹھیک ہے مگر جیسے جیسے پانی کا ٹی ڈی ایس لیول نیچے کی طرف آتا جاتا ہے، وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک سو سے کم ٹی ڈی ایس کا پانی ذائقہ میں میٹھا ہوتا ہے، مگر دل اَور گردوں وغیرہ کے لیے سخت نقصان دہ، کیونکہ یہ جسم کے لیے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ بوتل کا پانی جراثیموں سے کتنا پاک ہوتا ہے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
٭٭٭
انسانوں میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد بیماریاں یا تو خبیث خوراک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا پھر ناخالص خوراک کی وجہ سے۔ ۲۰۱۷ء تک پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعداد ڈھائی کروڑ، سرطان کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ ۶۰ لاکھ، ہپاٹائٹس میں مبتلا دو کروڑ اور دل کی بیماریوں میں مبتلا چار کروڑ ہیں۔ اِس کے علاوہ ذیابیطس، فشارِ خون اور دُوسری تکالیف کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ یاد رَکھیں! زیادہ خوراک اور موٹاپا بذاتِ خود ایک بیماری ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۲، سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر ۸۱ اَور سورۃ المومنون کی آیت نمبر ۵۱ میں طیب چیزیں کھانے کا حکم ہے۔ جیسے چیز کا حلال ہونا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ایسے ہی چیز کا طیب ہونا بھی اللہ کا حکم اور فرض کے درجے میں ہے۔ نیز چیز کے حلال اور طیب ہونے کا اکٹھا حکم البقرہ ۱۶۸، المائدہ ۸۸ اَور النحل ۱۱۴ آیات میں ہے:

البقرہ کی آیت نمبر ۱۶۸ سے واضح ہے کہ کھانے کے حلال اور طیب نہ ہونے سے انسان شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا کھانے کا کسی بھی لحاظ سے خبیث ہونا، نہ صرف انسان کو ایمان سے محروم کر دیتا بلکہ صحت بھی جاتی رہتی ہے۔
مسلمانوں کا عمومی المیہ یہ ہے کہ وہ حلال حرام کے مسئلے میں تو بہت شدت اختیار کرتے ہیں، مگر چیزوں کے طیب اور ازکیٰ ہونے کی شرعی شرائط کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ یہ محض قرآنِ عظیم کی آیات میں غوروفکر کی کمی کی وجہ سے ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی یاد رَکھنے کی ہے کہ چیزیں اگر طیب اور خالص بھی ہوں، تب بھی اِنھیں پیٹ میں ٹھوس ٹھوس بھر کر کھانے کی اجازت نہیں کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک اور حکم ہے:
’’کھاؤ اور پیو اَور حد سے تجاوز نہ کرو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف ۷:۳۱)
کھانا اگر طیب اور اَزکیٰ کی صفات سے خالی ہو، تو انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل کرنے سے انسان کی صحت کی حفاظت ہوتی ہے۔ کھانے پینے کے معاملے میں اگر ہم طیب اور اَزکیٰ کے اصولوں کو ہمیشہ مدِنظر رکھیں تو اِس سے صحت کی حفاظت بھی ہو گی اور شیطان کی خواہش (خطوٰتِ الشیطان) کی نفی بھی۔

All Rights Reserved
Urdu Digest January 2021

جملہ حقوق محفوظ

اردو ڈائجسٹ ۲۰۲۱

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest