fbpx

تعلیم نسواں، اسلام اور جدید دنیا

education for women in islam

لفظ نسواں ’’نساء‘‘سے لیا گیا ہے جس کے معنی ’’عورت‘‘ کے ہیں۔ تعلیم نسواں سے مراد عورت کی تعلیم ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک نسل اپنا معلوماتی تہذیبی اور تمدنی ورثہ اگلی نسل کو منتقل کرتی ہے۔نبی اخر الزماں ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘ عورت اس کائنات کا ایسا شاہکارہے جس کے دم سے زندگی کی رونقیں قائم ہیں۔ عورت کے بغیر نسل انسانی کا استحکام اور نشونما ناممکن ہے۔ حقیقت میں اس کائنات کی ساری رعنائی اور خوبصورتی عورت کے دم سے ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں ساری نعمتوں کے باوجود کچھ کمی محسوس ہوئی تو اللہ پاک نے اماں حوا کو پیدا فرمایا۔ گویا یہ کائنات عورت کے وجود کے بغیر نا مکمل اور ادھوری ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
تعلیم نسواں کی آج کے دور میں بہت اہمیت ہے۔ عام کہاوت ہے کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں میں یکسانیت اور برابری لازمی ہے۔ اگر علم مرد کی عقل کو روشن کرتا ہے تو عورت کی عقل کو بھی علم سے جلا ملتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین نے کہا تھا : ’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘
عورت کی معاشرتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے تمام قدیم اور جدید معاشروں کی ترقی میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک رہی ہیں۔دنیا کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ خواتین پر مشتمل
ہے اورمعاشرے میںان کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی اور یہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
کسی بھی مہذب معاشرے کی اساس عورت سے وجود میں آتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عورت تعلیم یافتہ ہو۔یوں تو ہر انسان کا پڑھا لکھا ہونا بے حد لازمی ہے لیکن ماں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ اس پر اقوام کی زندگی کا انحصار ہے۔ باپ اگر تعلیم یافتہ ہوگا تو اپنے خاندان کی کفالت بہترین انداز میں کر سکتا ہے لیکن ماں اگر تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ پورے خاندن کو بلکہ آنے والی نسلوں کو تعلیم و ترتیب کے ذریعے مہذب بنا سکتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ عورت گھر کا نظام خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہے۔ اس کے لیےاپنے بچوں کو تعلیم دینا، ان کے تعلیمی معاملات پر نظر رکھنا اور ان کی مدد کرنا مشکل نہیں رہتا۔ وہ اچھی طرح ان کی خامیوں کو خوبیوں میں بدل سکتی ہے۔ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت واضح ہے۔ بچہ سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بچے اپنے گھر سے جو بنیادی اخلاقی اقدار سیکھتے ہیں،وہ عمر بھر ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ بقول اقبال،؎ مکالماتِ فلاطُوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
یہ بات بالکل درست ہے کہ صرف وہی قومی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے جس کی عورت تعلیم یافتہ ہو۔ تاریخ بھی ہمارے سامنے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انھی قوموں نے کامیابیاں سمیٹیں جن کی عورتیں سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ تھیں۔ یہی عورتیں قوم کا اصل سرمایہ ہوتی ہیں۔
قدیم تہذیبوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس سے غلاموں کی طرح برتاؤ کیا جاتا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں تو بیسویں صدی تک عورتوں کو بنیادی حقوق تک حاصل نہ تھے۔ مرد ہی تمام حقوق کا مالک تھا اور عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا جاتا تھا۔ اہل یونان اسے سانپ سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے، اسے جھوٹ کی بیٹی اور امن کی دشمن کہا جاتا تھا۔
؎ وہ قوم کسی شان کی حقدار نہیں ہے
جس قوم کی عورت ابھی بیدار نہیں ہے
اسلام کے آمد سے عورت کا مقام اور حقوق متعین ہوئے اسے انسان سمجھا گیا اور جینے کا حق دیا گیا۔ دوسرے حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی ایک لازمی فریضہ قرار پایا۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسانی تہذیب اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی۔ بقول الطاف حسین حالی:
؎ اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا، رضیہ سلطانہ، حبہ خاتون اور فاطمہ جناح جیسی بلند کردار عورتیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں جنہوں نے علم و دانش کی بنا پر انسانیت کی فلاح کے لئے بےانتہا خدمات انجام دیں۔
عورت کی تعلیم کا مقصد یہ نہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح فیکٹریوں میں ملازمت کرے۔ مرد اور عورت کے لیے آزادانہ ماحول معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا کر سکتا ہے۔ تعلیم نسواں کا بنیادی مقصد عورت میں تعلیمی قابلیت پیدا کرنا اور اسے قابل بنانا ہے تاکہ وہ گھریلو زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرے۔ تعلیم کا مقصد اسے چراغ خانہ بنانا ہے نہ کہ چراغِ محفل۔ ہماری بیٹیوں کو مغرب کی تہذیب کی بجائے اسلامی روایات کو اپنانا چاہیے۔
؎ جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ “تعلیم نسواں” کی کمی بھی ہے۔ پڑھی لکھی خواتین کے مقابلے میں ان پڑھ عورتیں توہم پرستی اور رسم و رواج کے نام پر جاری جہالت کی دلدادہ ہیں۔
؎ علم کی دھن جسے لگی ہی نہیں
سچ تو یہ ہے کہ وہ آدمی ہی نہیں
تعلیم نسواں سے متعلق تمام پہلوؤں پر غور کرنے سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عورت کا اصل زیور تعلیم ہے۔ لیکن یہ تعلیم صرف دنیاوی نہیں بلکہ دینی بھی ہونی چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح ہم لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہیں اسی طرح لڑکیوں کو بھی تعلیم دلوائی جائے تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو، شعور بیدار ہو اور ان کی صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آ سکیں۔
؎ تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

-Ameer Hamza, Youth Correspondent, Urdu Digest Publications

Share:

More Posts

Buy Urdu Digest