fbpx

شبِ برات

shabe-barat

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” custom_padding=”15px|||||”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” custom_margin=”-3px|auto||auto||”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_blurb title=”(شبِ برات کی حقیقت پرمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ایک چشم کشا تحریر۔۔یہ تحریر جنوری 1963ء میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔ )” content_max_width=”850px” _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” header_level=”h2″ header_font=”noori-nastaleq||||||||” header_text_align=”center” header_font_size=”24px” body_font=”noori-nastaleq||||||||” body_font_size=”22px” body_line_height=”1.5em” custom_padding=”19px|||||”]

شبِ برات کو عموماً مسلمانوں کا ایک تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کچھ مراسم بھی مقرر کر لیے گئے ہیں جس کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ دھوم دھام کےلحاظ سے تو گویا محرم کے بعد اسی کا نمبر ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کا بناوٹی تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کی کوئی اصلیت ہے، نہ حدیث میں، نہ صحابہ کرام کے دور کی تاریخ ہی میں اس کا کوئی پتہ نشان ملتا ہے اور نہ ہی ابتدائی زمانے کے بزرگانِ دین ہی میں کسی نے اس کو اسلام کا تہوار قرار دیا ہے۔
دراصل اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے یہی نہیں یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو انسان کو رسموں کی جکڑ بندیوں سے، کھیل تماشے کی بے فائدہ مشغولیتوں سے اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوںکی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح اور بہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ دو سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کر دے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقبل طور پر ہر سال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔ اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبیﷺ کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقیناً اس کو حکماً روک دیا جاتا اور جو ایسی رسمیں اس زمانے میں موجود تھی، ان کو روکا ہی گیا۔
حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھُلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں کہہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ مگر جب ہم تلاش کرتے ہیں کہ شعبان کے مہینے میں اس خاص دن کے ساتھ کوئی مستند مذہبی عقیدہ وابستہ ہے یا کوئی لازمی عبادت مقررہ ہے تَو ہم کو اس کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرات عائشہؓ نے آنحضرتﷺ کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہؓ تک نہیں پہنچتی۔ بعض دوسری روایات میں جو کم درجے کی کتبِ حدیث میں ملتی ہیں اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیں۔ ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ تاہم اگر ان کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور خدا سے مغفرت کی دُعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیز ان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب کو اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔
حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسولﷺ پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینے میں ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپ کی لَو خدا سے لگ جاتی تھی۔
حضرت عائشہؓ اور حضرت امِ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سِوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے، بلکہ تقریباً پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے گزر جاتا تھا۔ لیکن آپ کا یہ طرز ِ عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا جو نزولِ قرآن کے مہینے سے آپ کو تھا۔ رہے عام مسلمان، تو ان کو آپ نے ہدایت فرما دی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندہر دنوں میں روزے نہ رکھا کریں کیونکہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادۃ لوگ اس مہینے کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔
اسلام میں خاص طورپر یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جو کچھ خدا نے اپنے بندوں کے لیے لازم کیا ہے، اس کے سِوا کوئی دوسری چیز بندے خود اپنے اوپر لازم نہ کر لیں۔ کوئی خود ساختہ رسم، کوئی مصنوعی قاعدہ، کوئی اجتماعی عمل ایسا نہ ہو جس کی پابندی لوگوں کے لیے فرض کی طرح بنا جائے۔ خدا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کی بھلائی کن چیزوں میں ہے اور کس چیز کی کتنی پابندی میں ہے۔ اس کی قائم کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر کے اگر بندے بطور خود کچھ رسمیں مقرر کر لیں گے اور فرض کی طرح ان کی پابندی کریں گے تو اپنی زندگی کو آپ تنگ کر لیں گے۔ پچھلی قوموں نے یہی غلطی کی تھی کہ نئی نئی رسمیں ایجاد کر کے اپنے اوپر فرائض اور واجبات کے ردّے چڑھاتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ رسمیات کا ایک ایسا تانا بانا اپنے گردن بُن ڈالا جس کے جال نے آخرکار ان کے ہاتھ پاؤں جکڑ کر رکھ دیے۔ قرآن رسموں کو زنجیروں سے تشبیہ دیتا ہے اور حضرت محمدﷺ کے مشن کا ایک بڑا کام یہ بتاتا ہے کہ ان زنجیروں کو کاٹ پھینکیں جن میں انسان نے اپنے آپ کو خود کَس رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمدیؐ میں فرائض کا ایک نہایت ہلکا اور سادہ ضابطہ تجویز کر کے باقی تمام رسموں کا خاتمہ کر دیا گیا، عید اور بقر عید کے سِوا کوئی تہوار نہ رکھا گیا، حج کے سِوا کوئی جاترا نہ رکھی گئی، زکوٰۃ کے سِوا کسی نذر نیاز یا ان پر پُن کو فرض نہ کیا گیا اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر لیا گیا کہ انسان کو جس طرح خدائی فرض میں کوئی چیز کم کرنے کا حق نہیں ہے، اسی طرح کوئی چیز بڑھانے کا حق بھی نہیں ہے۔
ابتدائی زمانے میں جو لوگ شریعتِ محمدیؐ کی روح کو سمجھتے تھے وہ سختی کے ساتھاس اصول کے پابند رہے۔ انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض اور آخرکار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی برائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں اور اس قسم کی رسمیں جمع ہو کر کس طرح انسانی زندگی کے لیے ایک وبال اور انسانی ترقی کی راہ میں ایک بھاری رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی دَور کے علمااور امام اس بات کی سخت احتیاط رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خود ساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام کے دائرے میں داخل ہوئیں ان کو صحیح اسلامی تعلیم و تربیت نہ مل سکی۔ وہ اپنےساتھ پرانے جاہلیت کے بہت سے خیالات اور بہت سے طور طریقے لیے ہوئے اسلام میں آ گئیں۔ ان کو صدہا برس سے رسمیات اور تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جاتراؤں کی عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے بغیر ان کے لیے مذہبی زندگی میں گویا کوئی لطف ہی نہ تھا۔ اسلام کی سادہ شریعت کے دائرے میں آ کر بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسموں کا بوجھ اترنے اور پرانی زنجیروں کے بندھن کٹنے سے اطمینان محسوس کرتیں، انھیں یہاں آتے ہی یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کس طرح وہی بوجھ پھر اپنے اُوپر لاد لیںجنہیں اسلام نے اتارا تھا اور وہی بیڑیاں پھر پہن لیں جنہیں اسلام نے کاٹا تھا۔ چنانچہ انھوں نے کچھ تو پرانی جاہلیت کی رسمیں ذرا اسی ظاہر صورت بدل کر باقی رکھیں، کچھ نئی رسمیں خود ایجاد کیں، یہاں تک کہ اسلام کو بھی ویسا ہی رسموں اور تہواروں کا مذہب بنا کر رکھ دیا جیسے ان کے پرانے مذاہب بنا کر رکھ دیا جیسے ان کے پرانے مذاہب تھے۔ ان نئی رسموں کی ایجاد میں خاصی باریک بینی سے کام لیا گیا۔ قرآن اور حدیث کو اس غرض کے لیے تو نہ چھانا گیا کہ اسلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام نامہ مرتب کیا ہے، اس کے اصول معلوم کیے جاتے، بلکہ ساری چھان بین اسی لیے کی گئی کہ کہاں ایک نئی رسم ایجاد کرنے کے لیے یا پرانی جاہلانہ رسموں کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بہانہ مل سکتا ہے۔ پھر اگر کوئی جگہ ایک بال کی نوک کے برابر بھی کوئی اشارہ مل گیا تو اس پر ایک پہاڑ برابر عمارت تعمیر کر ڈالی گئی۔ لوگ اپنی جگہ خوش ہیں کہ اسلام میں تہواروں اور رسموں کی جو کمی تھی اس کو انھوں نے پورا کر لیا ہے۔ حالانکہ دراصل انھوں نے اپنی جہالت سے وہ ساری بیڑیاں پہن لی ہیں جو اللہ نے اپنے نبیؐ کے ہاتھوں سے کٹوا دی تھیں اور اپنے آپ کوپھر اس جال میں پھانس لیا ہے جس میں پھنس کر دنیا کی کوئی قوم کبھی نہ اُبھر سکی۔
٭٭٭

[/et_pb_blurb][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest