fbpx

سحر پھوٹی تاریکی کے بعد

sehar-photi

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”20px”]

رات کے تین بجے سے صبح گیارہ بجے تک جن تین دھماکوں کا اس نے پے در پے سامنا کیا انھوں نے اس کی ساری زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔
کہانی نے وقت کا دریچہ کھولا اور اکتوبر ۲۰۰۷ء کی ایک شب کے آخری پہر کی دبیز تاریکی میں جھانکی۔ بڑا گھپ اندھیرا کمرے میں پھیلا ہوا تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کی چادر میں لپٹی اُنتالیس سالہ عورت نے تین چار کروٹیں بدلیں۔ اُس کی ہر کروٹ میں نیند کے باوجود ایک مضمحل سے انداز کی جھلک بڑی نمایاں محسوس ہوتی تھی۔
پھر جیسے اُس کی آنکھیں کھلیں۔ چند بار انھیں پٹپٹاتے ہوئے اس کے ذہن نے صورت حال سمجھنے میں بس چند لمحے ہی لگائے۔ ذہنی اسکرین پر چلتے مناظر نے کچھ تصویریں دکھانا شروع کیں۔ ایسی تصویریں جنہوں نے فی الفور آنکھوں کو پھاڑنے کی حد تک کھول دیا تھا۔ اس نے خود سے کہا تھا۔
’’تو گویا میں خواب دیکھ رہی تھی۔‘‘ اوردیکھے ہوئے مناظر کی تفصیلات دھیرے دھیرے اُجاگر ہونے لگیں۔ ایک کے بعد ایک منظر سامنے آ کر اس کا اضطراب بڑھانے کا سبب بن رہے تھے اور جب سارا خواب تفصیلی جزئیات کے ساتھ سامنے آگیا تو وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھی۔
اس نے دائیں اور بائیں جانب نظریں دوڑائیں۔ کمرے میں وہ دونوں میاں بیوی اور چھوٹا بیٹا ارسلان ہی تھا۔ اگر اُن کے اُٹھنے کا خوف نہ ہوتا تو وہ بتی جلاکر خود کو شیشے میں دیکھ کر جان جاتی کہ حیرت، خوف، اضطراب اور بے چینی کے عجیب سے احساسات کے مشترکہ رنگوں کا پھیلا ہوا عکس اُس چہرے کو کیسی خوفناک سی صورت دے رہا ہے؟
وہ سر جھکا کر ایک بار پھر دیکھے گئے خواب میں کھو گئی۔
امّاں خواب میں آئی تھیں۔ خوبصورت نین نقش اور چنبیلی کی سی رنگت والی اُس کی دلاری ماں جو اُس کی ماں کم اور سہیلی زیادہ تھی۔
جیسے بڑا روشن سا دن ہو۔ کمرا دھوپ سے بھرا ہوا تھا۔ سفید چادر کی بکّل مارے حسب معمول ہنستے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ اُنھیں دیکھتے ہی جیسے اس کے سارے جسم میں خوشی کی ایک لہر دوڑی تھی۔ خواب کی کیفیت میں یہ احساس کہیں نہیں تھا کہ اس کی ماں فوت ہوچکی ہے۔
وہ چلتے چلتے کتابوں کے اس ریک تک آئیں جس کے پانچوں شیلف اس کے پسندیدہ لکھاریوں کی کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دفعتاً انھوں نے اُس کی طرف چہرہ کیا اور پوچھا۔
’’تم نے کوئی انعامی بانڈ خریدا تھا؟‘‘
’’ہاں امّاں پچیس ہزار کا ایک بانڈ خریدنے کی غلطی کر بیٹھی تھی۔ وہ جوآپ کی طرف کا       سیٹ  تھا نا؟ اُسے بیچ کر یہ پرائز بانڈ لیا تھا مگر امّاں قسمت ہی بڑی ڈھیلی ہے۔ انعام تو کیا نکلتا، بانڈ ہی جانے کہاں رکھ بیٹھی ہوں؟ ہر جگہ دیکھ لیا مگر نہ ملا۔ پھر جیسے اس کے لہجے میں درد سا گُھل گیا۔
’’اماّں ہمیشہ تم مجھے نورجہاں کہتی تھیں۔ کاش قسمت بھی نورجہاں جیسی ہوتی۔ یادہے مجھے سب۔ میری منگنی کے بعد تمہارا پائوں زمین پر نہ ٹکتا تھا۔ تمہارا خیال تھا تم بیٹی کے لیے آسمان کا تارا توڑ لائی ہو۔ اپنی اکلوتی نورجہاں کے لیے جہانگیر ڈھونڈ لیا ہے۔ کھاتا پیتا امیر گھرانہ نصیب ہوا ہے تمہاری نورچشم کو۔ خوش شکل ،دلبر اور پڑھا لکھا افسر تم نے اس کا جیون ساتھی بنایا۔
’’اف اماّں سچ بتائوں بڑا ہی فضول انسان ہے۔ نرا نرگسیت کا مارا ہوا۔ کنجوس، ناپ تول کر خرچ دینے والا، اس پر بھی ہمہ وقت یہ شک کہ پچھلوں کو دے آتی ہے۔ میں نے کیا دینا ہے؟ ہے ہی کیامیرے پاس؟ مسائل اور دُکھ یا پھر اکلوتے غریب سے بھائی کے لیے دعائیں۔‘‘
پھر اس کی آنکھوں سے زار زار آنسو بہنے لگے۔
’’اماّں میکہ غریب ہو تو طعنہ بن جاتا ہے۔ ایسے طعنے سُننا بھی اب تو معمولات میں شامل ہو چکا۔ نوکری کی بھی اجازت نہیں کہ وہ مجھے خود مختار نہیں دیکھنا چاہتا۔ بچوں کا تویونہی بہانہ ہے۔‘‘
اس کا منہ اور ماتھا چُومتے اس کے آنسو اپنی چادر سے صاف کرتے جب وہ بولیں اُسے محسوس ہوا کہ ان کے لہجے میں محبت کی بارش کی رم جھم تھی اور چہرہ بھی گویا اسی احساس کی تفسیر تھا۔
’’گھبراتے نہیں ہیں۔ صبر کا پھل میٹھاہوتا ہے۔ ہاں تم نے اِن کتابوں میں دیکھا ہے کیا؟‘‘
اماں کے پھیلے ہوئے ہاتھ نے ریک کی سب سے آخری لائن کی طرف اشارہ کیا۔
’’اِن میں دیکھنا تھا۔‘‘ اُن کا بازو جس طرف اشارہ کرتا تھا وہ بڑا واضح تھا اور پھر جیسے دفعتاً اس کی آنکھ کھل گئی۔
جب خواب اپنی ساری جزئیات کے ساتھ عیاں ہو گیا تو وہ مضطرب سی بالکونی میں آ گئی۔ کرسی پر بیٹھ کراس نے اپنے سامنے پھیلے آسمان کی ملگجی سیاہی کو دیکھا۔ صبح کاذب کی اُن ساعتوں میں یہ پہلا دھماکا تھا جس نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ قریبی مسجد سے اذان کی آواز نے جیسے ایک پیغام دیا۔ صبح کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ امّاں کا خواب میں آنا میری کسی سوچ یا خیال کا عکس نہیں۔ ضرور کچھ ہے۔ پھر جیسے مایوسی اور نااُمیدی نے گھیر لیا۔ اس ریک میں دھری کون سی کتاب ہے جس کے ورق ورق کی پھولا پھرولی میں نے نہیں کی۔
بہرحال نماز کے لیے وہ اُٹھ گئی بغیر کھٹکا کیے۔ نماز میں بھی دھیان اسی اُدھیڑ بن میں اُلجھا رہا۔ کبھی اُمید دلاسا دیتی اور کبھی نااُمیدی غالب آ جاتی۔
بچوں کو اسکول اور شوہر کو دفتر بھیج کر اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور دھڑکتے دل سے امّاں کے بازو کا پھیلائو اور ہاتھ کے اشارے کی سمت والا منظر دوبارہ یاد کیا۔ بسم اللہ پڑھتے ہوئے عین اُس قطار کی کتابوں کی پھولا پھرولی شروع کی جدھر اُن کے ہاتھ نے اشارہ کیا تھا۔ فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھے ہوئے جب اس نے چھٹی کتاب کو پکڑا اور اُمید و بیم میں ڈولتے ڈوبتے ہوئے اس کے بارہ صفحات پلٹے تو تیرھویں صفحے پر پرائز بانڈ جگمگا رہا تھا۔
اسے محسوس ہوا جیسے کلیجہ اندر سے نکل کر باہر آ گیا ہے۔ بے اختیار اضطرابی حالت میں کتاب اُس نے اپنے سینے سے لگا لی اورجیسے اس کے وجدان نے کہا۔
’’تمہارا انعام نکلا ہے۔‘‘ اور یہ دوسرا دھماکا تھا۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں بے قابو تھیں۔ بے اختیار اُس نے خود کلامی کی۔
’’مجھے خود پر قابو پانا ہو گا۔ مشترکہ گھر ہے جس کی بے تکی اور اندھی تقسیم جہاں حصّوں کی بانٹ میں پردہ داری اور حد بندی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ کوئی بھی کسی بھی وقت چار سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر آ سکتا ہے اور کسی بھی معاملے کی رازداری کا فوراً بھانڈا پھوٹ سکتا ہے۔‘‘
کتاب اسی طرح شیلف میں واپس رکھتے ہوئے وہ اٹھی، پانی سے بھرے دو گلاس پیے اور اللہ کے حضور کھڑی ہو گئی کہ وہ اس کڑے اور مشکل وقت میں اس کی مدد کرے۔ اس یقین پر تو جیسے سکّہ بند مہر لگی ہوئی اُسے محسوس ہوئی تھی کہ انعام تو ضرور نکلا ہے مگر کتنے کا اور کب نکلا؟ یہ جاننا ضروری تھا۔ بازار میں کتابوں، اخبارات اور رسائل کی بڑی دکان سے اُسے دو دن پہلے ہونے والی قرعہ اندازی کا پتہ چل گیا۔ پمفلٹ بھی خرید لیا تھا۔ سبزی اور پھل کے لفافے کچن میں رکھ کر وہ کمرے میں آئی۔ اُسے لاک کیا۔ بانڈ اور پیپرنکال کر دیکھنے لگی۔ یکلخت اس نے ایک جھٹکا کھایا۔ آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچے۔ یہ وہ تیسرا اور زبردست دھماکا تھا جس نے اُسے ہلا کر رکھ دیا۔
پانچ کروڑ کا پہلا انعام۔ کلیجہ لگتا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔
’’رحم پروردگار رحم۔ مجھ عاجز بے بس پر رحم۔‘‘ دوبارہ دیکھا، سہ بار دیکھا۔ قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی تھی۔ وہ لاکھ مظبوط اعصاب والی سہی مگر دل قابو میں ہی نہ تھا۔ بار بار دیکھنے، ہندسوں کا موازنہ کرنے اور ہر بار سچ ثابت ہونے کی اِس کشمکش نے اُسے بہت ہی مضطرب کر دیا تھا۔ خود کو نارمل کرنے کے لیے اس نے پریشانی میں پڑھی جانے والی آیات کا ورد شروع کر دیا۔ دیر تک آنکھیں بند کر کے اس ذات پاک کے حضور حاضر رہی۔ جب تھوڑا سا نارمل ہوئی، اُٹھی، سب کچھ سلیقے سے سنبھالنے کے بعد اُس نے وضو کیا اور خدا کے حضور جُھک گئی۔ سجدے میں دھرا سر جیسے اُٹھنا بھول گیا۔ آنکھیں برسات کی پھوار میں بھیگنے لگیں۔ پورے پونے گھنٹے بعد اُس نے سراُٹھایا، آنسو پونچھے اور ایک میٹھی سی شکریے، عبودیت اور عجز کے شیرینی میں لُتھڑی نگاہ کھڑکی سے باہر نیلگوں آسمان پر ڈال کر کچھ دیر بے خودی سے تکتے رہنے کے بعد اپنے آپ سے سرگوشی کی۔
’’میں نے بھاپ نہیں نکالنی منہ سے۔ مجھے اُس راٹھ زنانی کا سا کردار ادا کرنا ہے جو بندہ مار کر گھر میں ہی دفن کر دیتی ہے اور واقعے کی ہوا تک لگنے نہیں دیتی۔ خدا میرا مددگار ہو گا۔‘‘
اگلے دو دن اس نے دعائیں مانگنے اور یہ سوچنے میں گزارے کہ اس کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ بار بار دل ڈوبتا کہ کہیں کوئی دھوکا یا فراڈ نہ ہو جائے۔ اکیلی عورت، زمانہ خراب، قدم قدم پر انسان کے بھیس میں ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہیں۔ ایسی ہزار ہا سوچیں اور وہ بھی اِس درجہ ظالمانہ کہ اپنے کٹیلے واروں سے اُسے نڈھال کیے دیتی تھیں۔
اسٹیٹ بینک سے ادائیگی اور پھر اِس پیسے کی کِسی دوسرے بینک میں بحفاظت منتقلی۔ کہیں کوئی ہیرا پھیری نہ ہو جائے؟ خدشات کے کتنے زہریلے سنپولیے تھے جو کاٹ کاٹ کر ہلکان کیے دیتے تھے۔ ہر قدم جیسے پھونک پھونک کر اُٹھانا تھا۔ کسی کو بھنک نہ پڑ جائے، کوئی شک نہ گزرے۔ اِدھر اُدھر سے معلومات، بہت سی اندر کی باتیں، دلاّلوں، اُن کے چکروں اور منی لانڈرنگ کی کہانیاں، سب یاد آ رہی تھیں۔
بالآخر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔ رحم میرے مولا اگر اتنی بڑی عنایت اِس عاجز مسکین پر ہو گئی ہے۔ تونے اس ٹٹ پونجی عورت کو فاخرانہ خلعت پہنا دی ہے، تو اب اِسے پہننا بھی نصیب کر۔ میرے اور میرے غریب خاندان پر تیرا کرم ہو۔ دس دن اس کی زبان نے نہیں، اس کے دل نے:
’’میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے اور میں اسی پر بھروسا کرتی ہوں،کا ورد کیا۔‘‘
اور کرم کچھ اِس انداز میں ہوا کہ اس کا ہر کام حددرجہ سہولت اور آرام سے ہوتا گیا کہ قسمت کی اس عنایت پر اس کا لُو لُو سجدہ زیر ہو گیا۔ اپنے طور پر اس نے کوئی ہفتہ بھر اپنی گہری دو دوستوں کے بینکار شوہروں سے ایسے ہی باتوں باتوں میں معلومات لیں۔
ایک دن دعائوں کے پلندے جھولی میں ڈالے وہ اسٹیٹ بینک کی عظیم الشان عمارت میں داخل ہوئی تو گویا جیسے اللہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ چیئرمین نے اُسے سُنا اور اس کی مشکل سمجھی اَور پھر جیسے وہ      پل صراط جیسا سفر جس کا تصّور ہی اسے ہولائے دیتا تھا بخیر و عافیت طے ہو گیا اَور جس دِن وہ اَپنے گھر سے خاصی دُور قومی بچت کے ایک ادارے میں اُسے جمع کروا کے اُٹھی، طمانیت و سرشاری اَور شکرگزاری کی موسلادھار بارش میں جیسے نہا رہی تھی۔ سب کام مکمل راز داری سے انجام پا گیا۔
٭٭٭
پہلا مرحلہ اپنے بھائی کی مدد کا تھا۔ کریانے کی چھوٹی سی دُکان اس کے منافع سے بڑی ہوتی ہوئی پرچون سے جنرل اسٹور میں بدل گئی۔ گھر اور طرزِ زندگی میں تبدیلی آئی۔ شوہر نے سالے کی خوشحالی کی اِس تبدیلی کو محسوس کیا اَور طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’تمہارے بھائی کی کوئی لاٹری نکلی ہے یا کہیں کوئی چکر چلایا ہے؟ کچھ تو ہے۔ اس کے گھر تو جیسے ہُن برسنے لگا ہے۔‘‘
اس نے ایسے زہر بھرے جملے سُنے اور متانت سے کہا۔
’’یہ تو میرے اللہ کی شان ہے کہ وہ جسے چاہے اَور جب چاہے نواز دے یا اُجاڑ دے۔‘‘
’’یاد رکھنا اگر کوئی ایسی ویسی بات نکلی۔ کسی دھوکا دَہی، فراڈ یا ہیراپھیری کا کوئی سین سامنے آیا تو تمہارے اَور میرے راستے اَلگ ہو جائیں گے۔ طلاق دے دوں گا۔ بچوں کو بھی نہیں دیکھوں گا۔ میری والدہ اَور آدھے سے زیادہ ننھیالی خاندان تو تمہارے اِس غریب فقرے خاندان میں رشتے کے لیے تیار ہی نہیں تھا، پر کہتے ہیں نا مقدر زور آور تھا۔
اس کے اندر بھانبڑھ مچا۔ آنکھیں گیلی ہوئیں مگر ہونٹ نہیں کُھلے۔ ایک تو فضول کی چیخم دھاڑ سے اس کی جان جاتی تھی۔ دوسرے اس کے اَندر اب طمانیت و سکون کی ٹھنڈ ہمہ وقت اُتری رہتی تھی۔
اَگلے مرحلے پر اس کے پھوپھی زاد اَور ماموں زاد بھائی اس فہرست میں تھے۔ ایک مشترکہ گھر میں رہنے کی وجہ سے دُکھ سکھ بانٹنے میں وہ سگے رشتوں سے کم نہ تھے۔ محبت اَور پیار میں فراغ دل، غربت میں بھی ساتھ نبھانے والے۔ اس کی مدد نے اُن کے راستے کھول دیے۔ چھے سال اس کے بھائی اور کزنز نے رازداری، اِیمانداری اَور خلوص سے اِس راز کی حفاظت کی اَور اَپنے اَپنے کاروباروں کو فروغ دیا۔
اَب تک اس رقم کے منافع کا اَیک پیسہ اس نے خود پر حرام کیے رکھا، سوائے اُن تحائف کے جو اس کے بھائی اور کزنز اُس کے لیے عیدوں اور شب راتوں پر اس کے لیے لاتے تھے۔
پانچویں سال میں اس نے کسی پوش ایریا میں گھر لینے، وہاں شفٹ ہونے اور اِس ڈرامے کو اَنجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ڈیفنس میں تین کنال کا گھر خریدا گیا۔ اس کے بھائی، بھتیجوں نے اُسے آراستہ بھی کروا دیا۔
٭٭٭
یہ منگل کا دن تھا۔ جب اُس نے اپنے تینوں بچوں کو کالج جانے سے روکا۔ وہ کچھ حیران تھے کہ ماں کو آخر کیا کام ہے؟ وہ انھیں کہاں اور کیوں لے جانا چاہتی ہے؟ کون سی بات ایسی ہے جس کی گھر میں پردہ داری ہے۔ رازاُس آراستہ پیراستہ گھر میں آ کر کھلا۔ ماں نے متانت اَور بردباری سے الف تا ے تک سب کچھ ان کے گوش گزار کر دیا۔ وہ کہانی جو عمروعیار کی زنبیل سے زیادہ پراسرار تھی اَور لطف کی بات یہ کہ سچی بھی تھی۔
بچے، باپ اور ماں دونوں کے مزاج آشنا تھے۔ ماں سے گہری محبت کرتے تھے۔ بس فیصلہ ہوا کہ اَپنی کتابیں اَور چند جوڑے کپڑوں کے اُٹھائیں اَور خاموشی سے اُس گھر کی سیڑھیاں اُتر آئیں۔ باپ کو ماں جیسے مرضی سنبھالے۔ اس کا فیصلہ اسے کرنا ہے۔
دفتر سے آنے، پورچ میں گاڑی کھڑی کرنے اَور لان میں بیٹھی اپنی بڑی بھاوج سے سلام و دُعا کے بعد سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ اُوپر اَپنے حصّے میں آیا تو گھر میں بڑی خاموشی تھی۔ تینوں کمروں کے دَروازے کھلے تھے۔ بتیاں گل اور سناٹا پورے گھر پر محیط تھا۔ اُسے غصہ آیا۔ نچلے حصّے میں اس کے دونوں بڑے بھائی رہتے تھے۔
اُس نے بتی جلائی۔ تبھی اس کے بڑے بھائی کا بیٹا ایک سربند لفافہ لے کر آیا اور اُسے پکڑاتے ہوئے بولا کہ جنید ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے آیا اور اُسے دینے کا کہہ کر چلا گیا۔ حیرت سے اُس نے اسے پکڑا، کھولا اور نگاہیں اس پر جما دیں۔
’’فیصلے کا اختیار تو صرف آپ کے پاس ہے۔ مجھے تو بس دو کام کرنے ہیں۔ پہلا، آپ کو صورت حال کے پس منظر سے آگاہ کرنا، دوسرے نتائج پر اپنی شرائط بتانا۔ پہلی بات کچھ یوں ہے کہ پچیس ہزار کا ایک پرائز بانڈ خریدا تھا، خالصتاً سونے کے اس سیٹ کوبیچ کر جو میرے والدین نے مجھے شادی پر دان کیا تھا۔ آپ کی طرف سے جو چھوٹے موٹے مندی چھلّے عارضی طور پر عنایت ہوئے تھے وہ بمعہ چوڑیوں کے واپس لے لیے گئے تھے۔ یاد تو ہو گا ہی آپ کو؟ نظریں تو اس سیٹ پر بھی تھیں جب آپ گاڑی خرید رہے تھے مگر کیا کرتی؟ گمشدگی کا ڈرامہ رَچا کر آپ سے اپنی سات پشتیں پنوائی تھیں۔
اب اِسے میرے مقدر کی خوش بختی کہہ لیں یا میرے صبر کا انعام، پانچ سال پہلے اس پر پانچ کروڑ کا انعام نکل آیا تھا۔ اب میں اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر آ گئی ہوں۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ آپ جانیں۔ طلاق کا اختیار آپ کے پاس ہے۔ ہاں اگر مجھ جیسی فقری کے گھر رہنا چاہیں تو میری شرائط پر رہنا ہو گا۔ اس کا بھی آپشن آپ کے پاس ہے۔ مجھے تو آپ کا ہر فیصلہ قبول ہو گا۔ خط کے نیچے نام اور گھر کا پتا درج تھا۔
پہلی بار پڑھنے پر تو اُسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا۔ حروف پر آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جیسے وہ گڑبڑا سا گیا کہ یہ معمہ ہے کیا؟ دوسری، تیسری، چوتھی حتیٰ کہ دس گیا رہ بار پڑھنے کے بعد جو پلّے پڑا، اس پر حیرت سے زیادہ گم سم ہونے والی بات تھی اور وہ ہوا بھی۔ رات تو لکن میٹی جیسی کیفیت میں گزری۔ اشتعال، غصّے، مایوسی اور شکست خوردگی جیسے جذبات کی یورش رہی۔
اگلے سات دن خط اس کی جیب میں رہا۔ پانچ، چھے بار آفس میں پڑھتا اور اتنی ہی بار گھر آ کر۔ اب تو خط کا ایک ایک لفظ اُسے ازبر ہو چکا تھا۔ ایک دن گاڑی میں بیٹھ کر رات کی تاریکی میں گھر بھی دیکھ آیا تھا۔ کارنر کا شاندار دو منزلہ گھر جو یقینا تین کنا ل سے کم نہ ہو گا۔ اندازہ بھی لگا بیٹھا تھا اَور دَسویں دن جب اس نے اطلاعی گھنٹی پر انگلی رکھی تو خود سے کہا تھا۔
’’اب میرے پاس سرنڈر کرنے کے سوا کوئی اور رَاستہ تو بچا ہی نہیں۔‘‘

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest