fbpx

کائیں کائیں

kai-kai

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”20px”]

علامہ اقبالؒ عظمت و سربلندی کا تاج یوں تو ’’شاہین‘‘ کے سر پر سجا گئے تھے مگر ہماری نظر میں پرندوں کی دنیا میں کوّا بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی بعض خصوصیات تو ایسی ہیں کہ اگر ہم دنیا کے سارے چراغ لے کر بھی نکلیں توکسی دوسرے پرندے میں ایسی خوبیاں نہ پا سکیں گے۔ کوّے کو حضرت انسان کا اُستاد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اُستادی اس نے قتل کی ایک واردات میں لاش کو ٹھکانے لگانے کے عمل میں دکھائی تھی۔ وہ بھی اس زمانے میں جب انٹرنیٹ گوگل جیسے راہنما دستیاب نہ تھے اَور انسان اَبھی اِس عالم رنگ و بو میں نئے نئے آئے تھے۔
جی ہاں! دنیا میں تشریف لاتے ہی حضرت انسان نے قتل کرنا شروع کر دیے تھے اور اَربوں کھربوں سال گزرنے کے باوجود یہ فرسودہ رسم آج بھی پورے زو ر وشور سے جاری ہے جسے کوئی بھی فیشن تبدیل نہ کر سکا۔ بات ہو رہی تھی اُستاد کوّے میاں کی اُستادی کی، تو جناب تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تو وہ اس کی لاش کی وجہ سے پریشان تھا۔ شدت جذبات میں قتل تو کر بیٹھا تھا مگر اب رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ایک طرف والد صاحب کا خوف اور دوسری طرف لاش سے جان چھڑانے کی مصیبت۔ نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔ اب کرے تو کیا کرے! نہ جائے ماندن نی پائے رفتن والا معاملہ درپیش تھا۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا قتل تھا اس لیے واردات کر کے بچ نکلنے کا کوئی طریقہ نسل انسانی ابھی دریافت نہ کر پائی تھی۔
ایسے میں ’’اُستاد کوّے میاں‘‘ کسی غیبی امداد کی طرح آ وارد ہوئے۔ انھوں نے پہلے تو اپنے ساتھ آنے والے کوّے کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا اور پھر لگے زمین کھودنے…ٍ
قابیل بڑے غور سے یہ ساری کارروائی بچشم خود ملاحظہ کر رہاتھا۔ جونہی گڑھا تیار ہوا، کوّے میاں نے مردہ کوّے کو اس میں ڈال کر اُوپر سے مٹی ڈال دی اَور پنجے جھاڑ یہ جا وہ جا۔
قابیل یہ تماشا دیکھ کر اپنی کم عقلی پر بہت سٹپٹایا اَور دل ہی دل میں کوّے کی دانائی کا اعتراف کرتے ہوئے اسی طریقے سے ہابیل کی میت کو دفن کر دیا اَور ’’جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ کے مصداق سکھ کا سانس لیا۔ چونکہ اس وقت سے اب تک فوت شدگان کو زمین کھود کر دفن کرنے کادستور رائج ہے۔
اس طرح جناب کوّے میاں نے جہاں اشرف المخلوقات کی اُستادی کی سند حاصل کر لی وہیں دنیا کی سب سے پہلی قبر کھودنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی اپنے نام کروا لیا۔ اگر یہ واقعہ موجودہ دور میں وقوع پزیر ہوتا تو کوّے میاں کو ’’سہولت کار‘‘ ہونے کے الزام میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت با آسانی دھر لیا جاتا۔ یہ الگ بات کہ کوّے کو پکڑنا آسمان سے تارے توڑ لانے کی طرح دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ اتنا چالاک اَور پھرتیلا ہے کہ کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ اس لیے اس کی گرفتاری کے لیے ’’فضائیہ‘‘ کے خصوصی طیارے منگوانا پڑتے۔
سنا ہے کسی زمانے میں کوّے میاں نے ہنس کی چال چلنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن نتیجے میں موصوف اَپنی چال بھی بھول بیٹھے تھے کیونکہ نقل کے لیے عقل کی موجودگی لازمی خیال کی جاتی ہے۔ جہاں نقل کے موقع پر عقل ساتھ چھوڑ جائے تو اُلٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے کوّے میاں اَب کسی دوسرے پرندے کی چال کو خاطر میں ہی نہیں لاتے کیونکہ انھیں انگوروں کی ترشی کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔
کوّے میاں کی خصوصیات کی فہرست کافی طویل ہے۔ چھین کر بھاگ جانے کےفن میں تو موصوف اپنی مثال آپ ہیں اَور اس فن میں تو اُنھوں نے انسانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اِدھر آپ کا دھیان ذرا سا بھٹکا اُدھر یہ حضرت ’’سیاہ حسن‘‘ کی نمائش کرتے کہیں سے نمودار ہوئے اور تشریف آوری کا مقصد آپ کو تب سمجھ میں آیا جب آپ کے سامنے رکھی کوئی کھانے کی چیز اُٹھائے موصوف چشم زدن میں یہ جا وہ جا۔ آپ لاکھ پیچھے بھاگتے رہیں، اچھلتے کودتے رہیں مگر یہ سعی لاحاصل کبھی بھی کوّے سے کچھ واپس لینے میں معاون ثابت نہیں ہو سکتی۔ بھئی آخر جان ہتھیلی پر رکھ کروہ یہ سب لوٹ مار اس لیے تو نہیں کرتا کہ آپ کو لوٹا ہوامال واپس لوٹا دے۔ اس کے بھی تو بیوی بچے ہیں جن کا پیٹ پالنا اُس کے لیے آپ کا دل رکھنے سے بہر حال زیادہ اہم ہے۔
ایک شاعر صاحب نے جب اس واردات کا مشاہدہ کیا تو بے اختیار پکار اُٹھے۔
آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پھرتی کاگا
پرندوں میں سب سے زیادہ حریص ہونے کا سہرا بھی کوے کے سر ہی سجتا ہے۔ ہروقت کسی نہ کسی کھانے کی چیز کی تاک میں رہتا ہے اور جب تک کچھ نہ کچھ اڑا نہ لے اسے چین ہی نہیں پڑتا۔ ہمارے سیاستدانوں کو کوّے میاں کی یہ اَدا اتنی پسند ہے کہ اس کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نہ جانے عوام ان کی اس ظالم ادا کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟
کوا اگرچہ بہت زیادہ پیٹو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے حد مہمان نواز بھی ہے۔ جونہی کچھ کھانے کو ملا، اگرچہ یہ روٹی کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو فوراً ساری ’’کوا برادری‘‘ کو اس ’’دعوت طعام‘‘ میں مدعو کرنا شروع کر دیتا ہے اور تب تک کائیں کائیں کر کے آسمان سر پر اُٹھائے رکھتا ہے جب تک کثیر تعداد میں ’’مہمان کوّے‘‘ جمع نہیں ہو جاتے۔
ایسی ہی کائیں کائیں اس وقت بھی برپا ہوتی ہے جب کسی ’’محترم‘‘ کوّے کے انتقال پر ملال کی خبر چاردانگ عالم میں پہنچانا مقصود ہو، تب تو وہ ہاہاکار مچتی ہےکہ الامان والحفیظ اَور جب حد سماعت تک رہائش پزیر تمام تر کوّے اپنی بیگمات سمیت اس ’’محفل سوگ‘‘ میں تشریف فرما ہو جاتے ہیں تو پھر یہ بے ہنگم شور ایک نئے آہنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سارے کوّے ایک ہی وقت میں مرنے والے کو خراج تحسین پیش کر رہے ہوں۔
جب یہ تعزیتی نشست اختتام پزیر ہوتی ہے توکوّا برادری کے یہ ’’معززین‘‘ جاتے جاتے ’’ مرحوم‘‘ کی لاش پورے اعزاز کے ساتھ لے جانا نہیں بھولتے۔ یہ منظر دُور سے دیکھنے پر اتنا دلفریب لگتا ہے جیسے کسی بہت بڑی عوامی شخصیت کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ لے جایا جا رہا ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جانے والی شخصیات کے ساتھ ہجوم میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو میڈیا کوریج کی ’’برکت‘‘ سے وہاں پائے جاتے ہیں لیکن مرحوم کوّے میاں کی لاش کے ساتھ جانے والے ہجوم میں شامل تمام تر کوّے مرحوم سے جدائی کی وجہ سے سوگوار نظر آتے ہیں۔کچھ بعید نہیں کہ ترقی کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر مستقبل قریب میں کوّے میاں بھی سوار ہو جائیں اور اس محفل میں صرف تصویریں بنوانے ہی آیا کریں۔
تان سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ گاتے تھے تو بارش ہونے لگتی تھی لیکن کوّے میاں جب کسی گھر کی منڈیر پر بیٹھ کر نغمہ سرا ہوتے ہیں تو گھر والے مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں جو اس جادوئی اثر آواز کے طلسم میں جکڑے نہ جانے کہاں کہاں سے بھاگے چلے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر سست الوجود خواتین جو عام طور پر مہمانوں سے بیزار رہتی ہیں کوّے کو منڈیر پر بیٹھنے ہی نہیں دیتیں۔ جیسے ہی یہ منحوس آواز آئے فورا چھڑی لے کر کوّے میاں کو بھگانے کے درپے ہو جاتی ہیں تاکہ یہ آواز کسی مہمان تک نہ پہنچ جائے۔
کوّےمیاں کی نیک سیرتی کا یہ عالم ہے کہ باوجود اس کے کہ کاٹنا ان کی سرشت میں شامل نہیں مگر کسی کو جھوٹ بولتے ہوئے سن لیں توکاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ اس لیے لوگ ایک دوسرے کو ان کی درندگی سے ڈرانے کے لیے تنبیہہ کرتے رہتے ہیں کہ ’’جھوٹ بولے کوّا کاٹے۔‘‘
ویسے تواُونٹ کی طرح کوّے میاں کی بھی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی مگر ہمارا حسن نظر اس مخلوق میں جو عمدہ اَوصاف کھوج پایا ہے ان کی چکاچوند روشنی میں کوّا اپنی تمام تر چالاکی، دہشت گردی اور حشر سامانی کے باوجود ایک باکمال اور بے مثال پرندہ قرار پاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آنے والا مؤرخ اس نٹ کھٹ اَور شریر پرندے کا نام نمایاں حروف میں لکھے گا۔ ظالموں کا ظلم، حاسدوں کا حسد اَور دشمنوں کی دشمنی اس کا کچھ نہ بگاڑ پائے گی اَور وہ یونہی لپکتے، جھپکتے، مٹکتے ہوئے لہو گرم رکھنے کے چکر میں ہمارا جینا حرام کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Buy Urdu Digest