fbpx

ہاں! میں پاکستانی ہوں

main-pakistani-hoon

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”20px”]

وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے کہ پیچھے پلٹ کر دیکھو تو بندہ سوچ میں پڑ جائے کیا واقعی ہم زندگی کا اتنا سفر طے کر آئے لیکن وہ بھی بات ہے کہ سفر طے کرنے والا مسافر اپنی منزل پر پہنچے بنا کہیں نہیں ٹھہرتا البتہ راستہ میں چند پڑاؤ ضرور آتے ہیں جہاں کچھ لمحے سستا کر پھر آگے کی جانب محو سفر ہو جاتا ہے۔
ایسے ہی آج جب میں نے ایک جگہ رُک کر، سستاتے ہوئے چند لمحے پلٹ کر دُور کہیں نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ زندگی تو دبے پاؤں ہی گزر گئی۔ جانے کتنے ماہ و سال ریت کی مانند ہمارے ہاتھوں سے پھسل گئے۔ اس میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ یہ ایک الگ بحث ہے، البتہ بہت ساری عزیز ہستیاں راہ میں چھوڑ کر اپنی منزل پر جا پہنچیں اور اِن ہی منزل پر پہنچنے والوں میں ایک نام مہ جبیں پھپھو، کا بھی ہے۔ رشتے میں تو وہ ہماری پھپھو نہ تھیں مگر جس زمانے کی میں، بات کر رَہی ہوں، وہ بڑا رکھ رکھاؤ اور محبت کا زمانہ تھا۔ گلی محلے میں رہنے والے تمام لوگ ایک دوسرے سے بالکل ایسے محبت کرتے تھے جیسے آج اس زمانہ میں وہ محبت اپنوں کے درمیان بھی تقریباً ناپید ہو چکی۔
آہ… کیا زمانہ تھا وہ… تو میں بات کر رہی تھی مہ جبیں پھپھو کی، جو ہم بچوں کے لیے ایک چلتی پھرتی تاریخ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ دبلی پتلی مردانہ وارقد و قامت کی حامل پھپھو مہ جبیں ہمارے گھر کے بالکل سامنے والے گھر میں تن تنہا رہتی تھیں۔شادی کو کوئی پندرہ سال ہو چکے تھے مگر اَولاد سے محروم تھیں۔ سسرال کے نام پر بس ایک نند تھی جو کراچی کے دُور پار علاقے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی تھی اَور بہت کم ہی پھپھو کے گھر آیا کرتی۔ پھپھو کے میاں عرب امارات کے کسی شہر میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے اور ان کا کام وہاں بیٹھ کر صرف بیوی کی فرمائشیں پوری کرنا تھا جبکہ وہ خود سالوں سال پلٹ کر نہ آتے۔ ایسے میں اکثر لوگ قیاس آرائی کرتے کہ پھُپھا نے ضرور وَہاں دوسری شادی کر رَکھی ہے مگر یہ بات اپنی زندگی تک کبھی مہ جبیں پھپھو نے مان کر نہ دی۔ جب تک زندہ رہی، اپنے شوہر کی وفادار اَور اِسی کی محبت کا دَم بھرتی دکھائی دی۔
بات ہو رہی تھی مہ جبیں پھپھو کی تاریخ ساز شخصیت کی اور میں جانے کہاں چلی گئی… تو میں بتا رہی تھی کہ ہم بچے اَکثر ہی دوپہر کے بعد پھپھو کے گھر چلے جایا کرتے۔ وہ چونکہ خود اولاد سے محروم تھیں لہٰذا ہماری خوب خدمت کرتیں اور یہ ان کی طرف سے کی جانے والی خدمت ہی تو تھی جو ہمیں مجبور کرتی کہ بار بار پھپھو کی طرف جایا جائے۔ وہ پھوپھا کی جانب سے بھیجی گئی چاکلیٹیں ہمیں دیتیں، مٹھائی سے ہماری تواضع ہوتی جو ہر وقت ان کے گھر پائی جاتی تھی۔ پھُپھا کی تعریفیں اور اُن کی طرف سے بھیجا جانے والا قیمتی سامان خوب نکال کر دکھایا جاتا جس سے ہم بچوں کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی مگر پھپھو کی محبت میں ہم یہ سب دیکھتے بھی اور سراہتے بھی۔
وہ بلاشبہ بہت اچھی خاتون تھیں مگر اُس کم عمری کے زمانہ میں بھی مجھے ان کی ایک عادت بالکل پسند نہ تھی اَور وہ تھی ان کا بات بات پر ہندوستان کی تعریف کرنا۔ میں شاید آپ کو بتانا بھول گئی کہ پھپھو کا تعلق ہندوستان کے شہر بمبئی سے تھا، جہاں ان کا اکلوتا بھائی کوئی نامی گرامی ڈاکٹر تھا۔ دو بہنیں مقامی کالج لیکچرار تھیں اور ایک بہنوئی پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز اَور پھپھو شادی کے بعد پاکستان منتقل ہونے والی تنہا خاتون تھیں۔ ان کے دل سے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ ابھی تک اپنے دیس کی محبت بھی نہ نکلی تھی۔ وہ’’ہندوستان‘‘ جہاں سے آئے انھیں پندرہ سال گزر چکے تھے مگر آج بھی اُس وطن کی محبت ان کے لہجے میں خوشبو کی طرح محسوس ہوتی۔
’’انڈیا‘‘ کا نام وہ اتنے پیار سے لیتی کہ لگتا منہ میں مصری کی ڈلی ہو جیسے کہ مٹھاس ہی مٹھاس ہر طرف گھُل گئی ہو۔ بس ان کی یہ حب الوطنی مجھے اپنے وطن سے دشمنی دکھائی دیتی۔ اس بات کا ذکر میں گھر جاتے ہی اپنی ماں سے کرتی تو وہ مسکرا کر مجھے دیکھتیں اور اپنی کم تعلیم کے باوجود اتنا ضرور سمجھا دیتیں کہ پتر ہر بندہ اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اَور وَطن وہی ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتا اَور زندگی کی پہلی سانس لیتا، جہاں اس کا بچپن گزرا… وہ ان ہی گلیوں کا شیدائی ہوتا ہے۔ جہاں اس کے اپنے بستے ہیں وہ دیس اُسے جی جان سے پیارا ہوتا ہے۔
مجھے اماں کی یہ بات بھی کبھی کبھی اچھی نہ لگتی اور میں کہہ اُٹھتی:
’’مسلمانوں کا وطن تو پاکستان ہے جو اتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، پھر ہم کیوں انڈیا کے گیت گائیں؟ جو وہاں بیٹھے ہیں وہ مجبور ہیں مگر جو یہاں آ گئے ان کی کیا مجبوری؟‘‘
میری جذباتیت اماں کو بھی خاموش کروا دیتی لیکن ان تمام نظریاتی اختلافات کے باوجود مجھے پھپھو کے پاس جانا اور ان گلیوں کا ذکر سننا اچھا لگتا جہاں پھپھو کا بچپن گزرا تھا۔ اکثر تو ایسا ہوتا کہ میں ان کی باتوں میں اس قدر کھو جاتی کہ سمجھو انڈیا ہی کے محلے جا پہنچتی اور پھپھو کی تو انڈیا سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ہر سال ایک ماہ کے لیے انڈیا ضرور جاتیں اور جب جاتیں تو تحفہ تحائف کی خریداری بھی ایک ماہ قبل ہی شروع ہو جاتی جس میں ان کے اپنوں کے لیے تو تحائف کے ساتھ ساتھ پورے محلے کے تحفے ہوتے۔
ان کی دوست شانتی جو ہندو تھی اور اب تک پھپھو کی ایک جان دو قالب سمجھی جاتی۔ پھپھو اس کے علاوہ اس کے بچوں کے بھی خوب تحائف لیتیں۔ مجھے اس وقت بہت غصہ آتا جب وہ پاکستان واپس آتیں۔ ایسے میں بلاشبہ وہ ہمارے لیے بھی خوب مزے مزے کےہندوستانی کھانوں کے علاوہ تحفے تحائف بھی لاتیں لیکن ہمیشہ یہ ضرور کہتیں کہ شانتی کو میرا تحفہ پسند نہیں آیا۔ انڈیا کی ململ تو ایسی ہے کہ مٹھی میں آ جائے اور میرے ململ کے ڈوپٹے دھل کر موٹے ہو گئے۔ جواباً میں چِڑ سے کہتی: ’’جو سوغات آپ ہمارے لیے وہاں سے لائی ہیں، ویسی تو یہاں ریڑھیوں پر بکتی ہے۔‘‘ جواباً پھپھو مسکرا دیتیں اور شانتی کا ذکر گول کرتے ہوئے گھما پھرا کر بات پاکستان کی مہنگائی پر آ جاتی اور پھپھو ایک سرد آہ کے ساتھ بتاتیں کہ وہاں روٹی ابھی بھی آٹھ آنے کی ہے او رہماری روٹی سے کہیں بڑی۔ پھر کہتیں پاؤ بھاجی ایک روپے میں اتنا آتا ہے کہ دو لوگ مل کر کھا لیں، پھر کہتیں کاش ہم سب مل جل کر ہندوستان میں رہنے جاتے۔ کیوں ہمارے لیڈروں نے ہمیں الگ کر دیا؟ بھلا ہندو اتنا بھی بُرا ہوتا تو کاہے اب تک یہ محبت بھرا برتاؤ وہاں کے رہائشی مسلمانوں سے کر رہا ہوتا؟
’’کون سا محبت بھرا برتاؤ؟‘‘ میں ان کی باتوں پر قدرے حیران ہو کر سوال کرتی۔ ’’آپ شاید جانتی نہیں، ابھی بھی وہاں مسلمان بقر عید پر گائے کی قربانی نہیں کر سکتا اور کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔‘‘
یہ میری عمر کے حساب سے وہ معلومات تھیں جو اخبار پڑھنے کے بعد میاں جی ہم سب بچوں کو بتاتے۔
’’دیکھو بیٹا! گائے ہندوؤں کے لیے مقدس مانی جاتی ہے۔ اپنی ماں سمجھتے ہیں وہ اُسے، تو پھر کیوں ان کی دل آزاری کے لیے سرِعام گائے ذبح کی جائے؟ وہ کام ہی نہ کرو جس سے تمہارے پڑوسی کی دل آزاری ہو۔ جس بات میں فتنہ فساد ہو اُسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اب ہمارے گھر کو ہی دیکھ لو۔ بھائی ہمیشہ بکرے لاتا ہے۔ کسی بہن کے گھر بھی گائے ذبح نہیں ہوتی۔ اس طرح ہم ان کے مذہبی عقائد کی پاسداری کرتے ہیں تو جواباً وہ بھی ہماری مسجدوں کی عزت کرتے ہیں۔ کسی اَور علاقے کا تو مجھے نہیں پتا، مگر میرے شہر اَور محلے میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جو تمہارے میاں جی اَخبار سے پڑھ کر تمہیں سناتے ہیں۔ سمجھو سب وہ جھوٹی باتیں ہیں، جو یہ اَخبار والے یہاں وہاں کرتے رہتے ہیں۔‘‘
میں ہکا بکا ان کا منہ دیکھے جاتی۔ مجھے حیرت ہوتی کہ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی پھپھو کپڑا انڈیا کا پہنتی ہیں، کھانا ہندوستانی انداز میں پکتا اور اسٹیل کی تھالیوں میں کھایا جاتا۔ دال چاول پکتے تو پاپڑ بھی انڈین ہوتا، اچار انڈیا سے آتا، مسالے سارے ہندوستان کے استعمال ہوتے۔ آم کے پاپڑ وں کا ڈھیر وہ انڈیا سے لے کر آتیں۔ ایک پھل اور سبزی ہی تھا جو شاید پھپھو پاکستانی استعمال کرتی تھیں، ورنہ ان کا اگر بس چلتا تو یہ بھی انڈیا سے بھی منگوایا جاتا۔
خیر ذکر ہو رہا تھا پھپھو کے انڈیا جانے کا۔ اس بار ان کی تیاری پہلے سے زیادہ زوروں پر تھی کیونکہ وہاں ان کی بھانجی کی شادی تھی۔ پھپھو کی دوسری نسل میں یہ پہلی خوشی تھی تو تیاری کا حق تو بنتا ہی تھا۔ ہم سب روز پھپھو کی خریدی ہوئی اشیاء دیکھتے جو وہ بڑی محبت سے لاتیں اَور پھر بڑی بڑی پوریوں میں ڈالے جاتیں۔ وہ بمبئی ٹرین سے جاتی تھیں جس کی وجہ سے وہ اٹیچی اَور بیگ دو یا تین رکھتیں تاکہ واپسی میں مشکل نہ ہو۔ باقی سامان بوریوں میں بھرا جاتا جس میں بیڈ شیٹیں، تولیے، پلاسٹک کے برتن اَور جانے کیا کیا اَلم غلم ہوتا جو پاکستان کی برائی کرنے کے باوجود اپنے ساتھ لے جاتیں۔ یہاں تک کہ بچوں کے لیے فٹ بال اَور کرکٹ کا بلّا بھی کراچی سے ہی خریدا جاتا۔ واپس آ کر ہم سے شکایت کی جاتی کہ دو دن میں ہی خراب ہو گئے، سارا مال ہی دو نمبر تھا۔
مجھے حیرت ہوتی کہ ایک اکیلی عورت پہلے کراچی سے لاہور جاتی ہے، پھر وہاں سے انڈیا کا سفر تن تنہا کرتی ہے اَور ساتھ اتنا سامان بھی لے جاتی ہے۔ میں اکثر اُن سے کہا کرتی کہ آپ کو جہاز سے جانا چاہیے۔ حسب عادت وہ جواب میں مسکراتیں اور کہتیں:
’’بھلا جہاز میں اتنا سامان کیسے جائے گا؟ ٹرین میں تو کوئی پوچھتا نہیں۔ جہاز میں تو ایک آدمی کے وزن سے زیادہ اجازت نہیں۔‘‘
میں سوچتی اچھا ہی ہے جو جہاز میں فی آدمی وزن طے ہے، ورنہ پھپھو جیسے لوگوں کا وزنی سامان تو جہاز بھی گرا دیتا۔
اٹھائیس نومبر ۱۹۹۲ء پھپھو مہ جبیں کی بھانجی کی شادی تھی اور بیس نومبر کا ان کا ٹکٹ تھا۔ کراچی سے انھیں اٹھارہ نومبر کو لاہور کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اپنوں سے ملنے کی خوشی نے انھیں سرشار کر رکھا تھا۔
ابھی اٹھارہ نومبر میں پورے دس دن باقی تھے جب ہندوستان میں بابری مسجد کے خلاف بھارتیا جنتا پارٹی نے ایک مہم شروع کر دی۔ وہ مہم تو شاید کئی سالوں سے شروع تھی لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ زور پکڑ چکی تھی۔ ۱۹۹۲ء پرنٹ میڈیا کا دور تھا۔ لوگ اخبار خریدتے اور پڑھتے۔ زیادہ سے زیادہ پی ٹی وی کی نو بجے والی خبریں بڑے غور وخوص کے ساتھ سنی جاتیں جس کی بدولت انڈیا کے حالات کا علم بچے بڑے سب کو ہو جاتا۔ ایسے میں میرا دل چاہتا کہ مہ جبیں پھپھو کو جانے سے روک دوں، مگرمیں جانتی تھی کہ وہ کبھی نہ رکیں گی۔ لہٰذا بہتر تھا کہ خاموش ہی رہا جائے کیونکہ بقول ان کے، یہ قصہ کئی سالوں سے چل رہا ہے اور آج تک کچھ نہ ہوا تو آئندہ بھی کچھ نہیں ہونے والا۔ اسی وجہ سے وہ جانے کی تیاری کرتی رہیں۔
ہمیں ہمارے دادا یعنی میاں جی نے بتایا کہ ہندو عقیدے کے مطابق سولہویں صدی سے قبل بابری مسجد کی جگہ ایک مندر تھا جہاں رام کی پیدائش ہوئی اور پھر سولہویں صدی میں یہاں مغل جرنیل میر باقی خاں نے مندر گرا کر مسجد بنا دی اَور اَب اتنے سالوں بعد ہندوؤں کو پتا چلا کہ بابری مسجد ’’رام جنم بھومی‘‘ ہے اور شاید یہ خبر انتہا پسند ہندوؤں نے پھیلائی۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ کسی ہندو انتہا پسند نے یہ سب خواب میں دیکھا کہ رام نے کہا کہ بابری مسجد کو گرا کر مندر بنایا جائے لہٰذا یہ شر آہستہ آہستہ ہندوؤں کے اَندر اُتارا جانے لگا اور وہ بابری مسجد کی شہادت کا مطالبہ کرنے لگے۔
آہستہ آہستہ یہ تحریک زور پکڑ گئی جس کی سربراہی بی جے پی کی ایک سرکردہ خاتون لیڈر کر رہی تھیں۔ مسلمانوں کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ چلاؤ، گھیراؤ، لوٹ مار عام ہو گئی تھی جس نے ہم پاکستانیوں کے دل دہلا دیے مگر پھپھو مطمئن اور شاداں و فرحاں اٹھارہ نومبر کی رات کراچی سے لاہور روانہ ہو گئیں۔ ایسے میں ہم سب گھر والوں نے دل سے ان کی بخیر و عافیت واپسی کی دعا بھی کی جس پر وہ خوش دلی سے ہنستے ہوئے گویا ہوئیں:
’’بات اتنی ہوتی نہیں جتنی یہ میڈیا اُچھال دیتا ہے۔ اخبار اور ٹی وی سب جھوٹی خبریں نشر کرتے ہیں۔ ابھی کل ہی میرے بھائی کا فون آیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ وہاں سب ٹھیک ہے اس لیے تم بے فکر ہو کر آؤ۔‘‘جواباً پورا محلہ خاموش رہا اور پھپھو انڈیا سدھار گئیں۔اس دفعہ تو وہ گئی بھی پورے تین ماہ کے لیے تھیں۔
٭…٭…٭
ء۱۹۹۲ کا دور پی ٹی سی ایل کا دور تھا۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں پی ٹی سی ایل کا بل کتنا زیادہ آتا تھا۔ ملکی کالیں ہی اتنی مہنگی تھیں کہ بیرون ملک کال کا تو تصور ہی محال تھا۔ جب تک کوئی اپنا قریبی عزیز کسی خوشی یا غم کا شکار نہ ہوتا فون کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ موبائل فون آ تو گیا تھا مگر کارڈ کا طریقۂ کار نہ تھا۔ بل والے فون تھے جن کے بل بھی اتنے زیادہ آتے کہ ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی ان پر آج کی طرح سستے پیکج دستیاب تھے کہ بیرون ملک بات کرنا آسان ہوتا۔
یہی وجہ تھی کہ پھپھو مہ جبیں جو اٹھارہ نومبر کی رات کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئیں تو پھر ان کا کوئی اتا پتا نہ ملا اور ملتا بھی کیسے؟ جب تک وہ واپس کراچی نہ پہنچتیں، تب تک ان کے گھر تالا لگا رہتا تھا۔ اگر وہاں کوئی رشتہ دار موجود ہوتا تو شاید کچھ خیر خبر محلے والوں کو بھی مل جاتی مگر میں نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا کہ پھپھو یہاں پاکستان میں تن تنہا تھیں سوائے ایک نند کے اور اس نند کا پتا ٹھکانا بھی محلے میں سے کسی کے پاس نہ تھا لہٰذا اَب ہم سب انتظار کر سکتے تھے کہ کب تین ماہ گزریں اَور پھپھو واپس پاکستان آئیں اَور ان کی زبانی ہمیں بھی بمبئی کے حالات کا علم ہو کیونکہ بقول ان کے پاکستانی اخبار سب جھوٹ لکھتے ہیں۔ پھر سچ کیا تھا؟ یہ تو پھپھو ہی بتا سکتی تھیں جن کا انتظار کم اَز کم مجھے بڑی شدت سے تھا کہ وہ تاریخی المیہ رُونما ہو گیا جس کے نتیجہ میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا آہ…
وہ دن اَور تاریخ آج بھی جب یاد آتی ہے تو یقین جانیں دل کانپ جاتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ یہ چھے دسمبر ۱۹۹۲ء کی بات ہے جب وی ایچ پی اَور بی جے پی نے مل کر مسلمانوں کے خلاف ایک ریلی نکالی جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہندوؤں پر مشتمل تھی۔
شروع شروع میں یہ ریلی پُرامن تھی لیکن آہستہ آہستہ شرپسندوں نے اشتعال انگیزی شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں ریلی میں موجود ہندو قابو سے باہر ہو کر بابری مسجد کے احاطہ میں داخل ہو گئے۔ یہ مسجد جو اس تنازعہ کے سبب کچھ عرصہ سے بند تھی لہٰذا وہاںکوئی بھی نہ تھا۔ یہ ہندو شرپسند اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اَور اپنی مدد آپ کے تحت مسجد شہید کرنا شروع کر دی ایک شخص سیفرون کا جھنڈا لے جا کر مسجد کی چھت پر پہنچ گیا اور دیگر پجاری ہتھوڑے اور دیگر اوزار لے کر مسجد کے اندر داخل ہو گئے اور اس طرح وہ سانحہ رونما ہوا اورتقریباً ایک گھنٹے کے اندر مسجد کو ناقابل نقصان پہنچا دیا گیا۔
ایسا نقصان جو دنیا کے تمام مسلمانوں کا دل چیر گیا اَور صرف یہ ہی نہیں اس کے بعد یہ شرپسند عناصر پورے شہر میں پھیل گئے اور انھوں نے چن چن کر مسلمان شہید کرنا شروع کر دیے۔ سننے میں آیا کہ شہید ہونے والوں میں ان مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی جو پاکستان کے رہائشی تھے اور انڈیا اَپنے پیاروں سے ملنے گئے تھے۔ یہ فساد بمبئی سے نکل کر سارے بھارت میں پھیل گیا لہٰذا پاکستان اور انڈیا کی سرحد عارضی طور پر بند کر دی گئی۔ جو مسلمان انڈیا پھنس گئے تھے فی الحال ان کی واپسی مشکل تھی۔ ایسے میں ہمارا دل ہر وقت پھپھو کے لیے دعا گو تھا کہ وہ خیریت سے اپنے وطن واپس پہنچ جائیں۔ بے شک ان کا دل آج بھی انڈیا کے لیے دھڑکتا تھا مگر ہم ان سب باتوں کو بھلا کر پھپھو کی واپسی کے دل سے خواہش مند تھے۔
٭٭٭
ایک رات بے حال پھپھو مہ جبیں جانے کیسے لاہور پہنچی؟ اور پھر وہاں سے کراچی۔ وہ بھی اس حال میں کہ برقع ندارد، ڈوپٹا زمین پر سرکتا ہوا، پاؤں کی جوتی غائب، بال بکھرے اور پھٹی پھٹی آنکھیں… یہ حلیہ ظلم و ستم کی ایک نئی داستان سنا رہا تھا۔ وہ بالکل خالی ہاتھ تھیں۔ سوغاتیں… جو انڈیا سے واپسی پر ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتیں، جنہیں وہ سینت سینت کر رکھتیں اور اگلے سال اُس وقت تک استعمال کرتیں جب تک دوبارہ جانا نہ ہوتا، آج وہ سوغاتیں نہیں تھیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اب کیسے پھپھو مزے مزے کے پکوان تیار کریں گی کیونکہ وہ تو سارا مسالا ہی انڈیا کا استعمال کرتیں جو بقول ان کے خالص ہوتا۔ انھیں تو پاکستانی مسالا پسند نہ تھا تو پاکستان کا کھانا کیا خاک پسند آتا۔
پاکستان پہنچتے ہی وہ ہوش و حواس سے ایسے بیگانہ ہوئیں کہ اگلے کئی دن اسپتال میں داخل رہیں۔ سب سے زیادہ ہمیں پھپھو کے ہوش میں آنے کا انتظار اس لیے بھی تھا کہ کم از کم معلوم تو ہو کہ وہ کون سے حالات تھے جو وہ اپنے پیارے وطن سے ان حالوں میں نکالی گئیں کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی بے حال تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے جیسے پھپھو کی غائب دماغی اور عالم خوف کی حالت کو زیادہ دن گزر رہے تھے، ویسے ویسے ہماری بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی جبکہ انڈیا کے حالات ہمیں روزانہ اپنے دادا یعنی میاں جی کی زبانی سننے کو مل جاتے جو صبح صبح اخبار پڑھ کر ہم سب کو اپ ڈیٹ کیا کرتے۔
٭٭٭
انتظار ختم ہوا اور بالآخر ایک دن پھپھو مکمل طور پر ہوش میں آ گئیں اور یہ خبر اسپتال سے ان کے میاں نے فون پر ہمارے گھر پہنچائی اَور پھر اگلے دو سے تین گھنٹوں میں وہ پھپھو کو اسپتال سے گھر لے آئے۔ میں اَور اَمی کے علاوہ محلے کے دیگر لوگ بھی وہاں جمع تھے اور پھر ہم سب کے سامنے اپنے گھر واپس آتے ہی پھپھو نے دو نفل شکرانے کے پڑھے اَور ہمیں دیکھ کر بُری طرح رَو دیں۔
اس دوران ان کی زبان پر ایک ہی جملہ رواں تھا جسے سن کر حیرت کے ساتھ ہمیں خوشی بھی ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھیں :
’’یااللہ تیرا شکر میں ’’اپنے وطن‘‘ واپس پہنچی۔‘‘ یہ جملہ بار بار دہراتی پھپھو ہم سب کو گلے لگا لگا کر چوم رہی تھیں لیکن میری دماغی سوئی صرف ’’اپنے وطن‘‘ پر اٹک گئی تھی۔
آج اتنے سالوں بعد پھپھو میں یہ احساس جاگ چکا تھا کہ اب پاکستان ہی ان کا اصل وطن ہے۔ ان کی جڑیں بے شک ہندوستان کا سرزمین میں پیوستہ تھیں مگر ان کا وجود اپنے وطن سے تھا۔ جہاں پہنچ کر وہ خود کو محفوظ تصور کر رہی تھیں۔ جہاں ان پر حملہ کرنے والا محض اس لیے نہ آیا تھا کہ ان کا تعلق پڑوسی ملک سے تھا۔
روتی ہوئی پھپھو نے بتایا کس طرح انتہا پسند پارٹی کے لوگ تھانے سے ملنے والی معلومات کے تحت ایک ایک گھر کی تلاشی لے رہے تھے۔ جہاں بھی کوئی پاکستانی مسلمان ملتا اُسے مار دیا جاتا۔ ان ہی حالات کے پیشِ نظر پھپھو کے گھر والوں نے انھیں پانی کی خالی ٹینکی میں چھپا دیا تھا۔ وہاں سے وہ صرف اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلتیں۔ چونکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان زمینی راستہ منقطع تھا لہٰذا وہ مجبور تھیں کہ کب حالات بہتر ہوں اَور وہ وطن واپس جا سکیں۔ جب اچانک رات وہ واقعہ ہوا کہ شانتی کے بھائی نے بی جے پی کے کسی راہنما تک یہ اطلاع پہنچا دی کہ عبدالشکور (پھپھو کے والد) کے گھر پاکستانی مہمان موجود ہے اور یہ خبر شانتی کے ذریعے جب پھپھو کے گھر تک پہنچی تو ٹینکی سے پھپھو کو نکال کر جانوروں کے باڑے میں چھپا دیا گیا۔ شکر ہے کہ اگلے دن پہلی ریل گاڑی پاکستان کے لیے روانہ ہونے والی تھی جو یہاں پھنسےہوئے لوگوں کو لینے آئی تھی مگر افسوس کہ انتہاپسند ہندوؤں نے انھیں رات بھی اپنے گھر نہ رہنے دیا اور آدھی رات کو جب ان کے گھر حملہ کیا گیا اس سے پہلے ہی وہ جانوروں کے چارے والی گاڑی میں چھپا کر اسٹیشن پہنچا دی گئیں۔ نکلتے وقت جوتی اور برقع کا انھیں بالکل ہوش نہ تھا۔ سوائے اپنی جان بچانے کے وہ باقی سب بھول چکی تھیں اور نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی وجہ سے ان کے وہ پیارے کسی مصیبت کا شکار ہوں جو اس وقت ہندوستان کے رہائشی تھے۔
پھپھو جب اسٹیشن پہنچیں تو اندھیرے میں کھڑی ٹرین کے سارے دَروازے بند تھے اَور اس کی نگرانی فوج کر رہی تھی۔ شناخت کے بعد پھپھو کو اَندر داخل کیا گیا۔ جہاں موجود سارے مسافر ٹرین کی نشستوں کے نیچے خوف زدہ حالت میں دبکے بیٹھے تھے کہ کسی کو علم نہ ہو سکے کہ اندر زِندہ انسان موجود ہیں۔ اسی خوفناک عالم میں جانے کتنے گھنٹے گزر گئے۔
بالآخر رات ہی کے کسی لمحہ ٹرین نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور کچھ دیر بعد رفتار پکڑ لی۔ خوفزدہ لوگ نشستوں کے نیچے سے نکل کر اُوپر آ گئے۔ یہ وہ لمحات تھے کہ کسی کو یقین نہ تھا کہ وہ خونی ہاتھوں سے بخیر و عافیت نکل چکے۔ ہر شخص سجدہ میں جھکا اپنے رب کے حضور آنسو بہا رہا تھا۔ اس کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اُس نے نئی زندگی بخشی اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد جب وہ لٹے پٹے لوگ لاہور پہنچے تو پھپھو کو بُری طرح اس احساس نے گھیر لیا کہ ۱۹۴۷ء کو پاکستان پہنچنے والے مسلمانوں کی کیا حالت ہو گی؟ اس سوچ کے ساتھ ہی وہ سارا راستہ روتی ہوئی کراچی پہنچیں۔
آج انھیں یقین آ گیا تھا کہ پاکستان بنانے کا تاریخ ساز فیصلہ، مسلمانوں کے حق میں بہتر تھا۔ آج انھیں اپنے لیڈر درست لگے…آج انھیں پاکستانی پرنٹ میڈیا کی ہر چیز پر یقین آ گیا… آج ان کے دل میں وطن کی محبت کا احساس جاگ اُٹھا۔
سچ ہے ہر شخص کا وطن وہ ہے جہاں وہ آزاد ہے۔ سیاسی، دینی، سماجی آزادی جو ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ بے شک ہم خوش قسمت ہیں کہ اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Urdu Digest Article

ابّا! میں یورپ جائوں گا

کچی بنیادوں پہ بنے سہانے سپنے دیکھ کر دیار ِ غیر جانے والوں کے لیے ایک عبرت اثر قصہّ ’’بیٹا! ایک بار پھر سوچ لے،

Editor Note Mr. Tayyab Aijaz

پاکستان ٹیک آف کے لیے تیار؟

محمد قوی خان مرحوم ایک نامور اَداکار تھے جنہوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ آپ ایک بڑے انسان بھی

Buy Urdu Digest