fbpx

ایڈیٹر نوٹ اپریل 2021

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_blurb _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” body_font=”noori-nastaleq||||||||” body_font_size=”22px”]

’’مہنگائی تلے بِلبلاتا عام آدمی‘‘

[/et_pb_blurb][/et_pb_column][/et_pb_row][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”22px” text_line_height=”1.5em”]

پی ٹی آئی حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتری۔ پچھلے ڈھائی برس سے خصوصاً اشیائے خورونوش کی مہنگائی ہر کسی کو متاثر کر چکی۔ اس خرابی نے ناقص حکومتی پالیسیوں سے جنم لیا۔ اوّل حکومت نے ڈالر کو شتر بے مہار کی طرح کُھلا چھوڑ دیا اور رُوپے کی قدر مستحکم کرنے کی رَتی بھر کوشش نہیں کی۔ چنانچہ باہر سے آنے والی ہر شے مثلاً پکانے کا تیل، دالیں، مسالے، پولٹری فیلڈ اور دیگر اشیا مہنگی ہو گئیں۔ دوسرے حکومت نے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا اور تیسرے بجلی، پٹرول و گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دیں۔ ان تینوں عوامل نے مل کر مہنگائی دُگنی تِگنی کر ڈالی۔
ڈالر کی قدر، شرح ٹیکس اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں سے قومی زراعت پہ بھی زد پڑی۔ کسان پہلے ہی کھاد، بیج و زرعی آلات مہنگے ہونے، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے اخراجات اور پانی کی کمی سے پریشان تھے۔ اب مزید خرچے سَر پر آن پڑے۔ اس دوران قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور ٹڈیوں کے حملے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایسے مخالفانہ ماحول میں کئی کسانوں نے زراعت کو خیرباد کہا اور کسی دوسرے دھندے میں لگ گئے۔ نتیجتاً منڈیوں میں اجناس و پھل کی قلت نے جنم لیا۔ اس اَنہونی نے بھی اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھا دیں۔ اب حال یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، چینی، سبزیاں، دالیں، مسالے وغیرہ درآمد کر رہا ہے۔
یہ الم ناک خبر زیر گردش ہے کہ ملتان میں ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی خاطر آم کے ہزارہا درخت کاٹے جا چکے۔ پورے وطن میں یہی کیفیت ہے کہ کھیتوں اور باغات کی جگہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ یہ چلن بہت خطرناک ہے۔ جبکہ حکومت کسانوں کو سہولیات و مراعات دینے کے لیے تیار نہیں۔ میں ایک محفل میں موجود تھا۔ وہاں شرکا میں کوئی وزیر زراعت کا نام ہی نہیں بتا سکا۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ زراعت سے حکومتوں کی خوفناک بے اعتنائی اور بے خبری کا یہی عالم رہا تو بتائیے مستقبل میں کروڑوں پاکستانیوں کا پیٹ کیسے بھرے گا؟ بھوکے لوگ تو انتہائی قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اشد ضروری ہے کہ حکومت کسانوں کے لیے بہترین امدادی پیکج کا اعلان کرے تاکہ وہ اپنے زرعی مسائل دُور کر کے خوراک کی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں ’’فوڈ سکیورٹی‘‘ بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ہمارا قومی ٹیکس نظام بھی فوری اوور ہالنگ چاہتا ہے کہ یہ عام آدمی کا جینا حرام کر چُکا۔ ’’لیفرخم‘‘ (Laffer Curve ) ایک جدید معاشی نظریہ ہے۔ اس کے مطابق جب حکومتی ٹیکسوں کی شرح ۳۳ فیصد سے بڑھ جائے تو حکومت کو کم آمدن ہونے لگتی ہے۔ یہ نظریہ تجربات سے درست ثابت ہو چکا۔ اسی لیے امریکا و یورپ میں حکومتیں ٹیکسوں کی شرح ۳۳ فیصد سے کم رکھ رہی ہیں تاکہ آمدن میں اضافہ جاری رہے۔ وہ اندھا دھند شرح بڑھا کر اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں مارتیں۔
پاکستان میں مگر اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی خاطر ٹیکسوں کی شرح مسلسل بڑھا رہی ہے جو ایک اندازے کے مطابق ۵۰ سے ۶۰ فیصد تک پہنچ چکی۔ ہمارے ہاں وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ یہی وجہ ہے، ایک شے ٹیکسوں کا بحر ذخّار عبور کرتے عام آدمی تک پہنچے تو اس کی قیمت دُگنی تِگنی بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت ایک لِٹر پٹرول ۵۰ روپے میں خریدتی ہے مگر تمام ٹیکس لاگو ہونے پر قیمت ایک سو بیس روپے تک جا پہنچتی ہے۔ یہی عالم دیگر روزمرہ اشیا کا بھی ہے جن کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔
حکومت ریاست مدینہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی دعویدار ہے۔ ریاست مدینہ میں صرف تین بنیادی ٹیکس تھے: انکم ٹیکس، تجارت اور زرعی ٹیکس۔ اسی نظام کو آنے والی اسلامی حکومتوں نے بھی اپنا لیا۔ یہی وجہ ہے، زمانہ قدیم میں اسلامی ممالک کے شہری خوشحال، ترقی یافتہ اور مطمئن تھے۔ پاکستانی حکومت کو بھی موجودہ دقیق و پیچیدہ ٹیکس نظام سادہ و سہل بنانا چاہیے تاکہ حکومتی آمدن میں اضافہ ہو سکے اور عام آدمی کو سُکھ کا سانس نصیب ہو۔ حکومت کی بنیادی ذمہ داری عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے۔
نت نئے ٹیکس لگانے اور ایندھنوں کی قیمت بڑھانے کے بجائے پی ٹی آئی حکومت اپنے اخراجات گھٹائے۔ دفاع پر خرچ کرنا مجبوری ہے مگر بیوروکریسی سفید ہاتھی بن چکا۔ صرف اُسے کو پالنے میں ہی سالانہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ ہونے لگی ہے۔ ایسے ہی ہاتھیوں کو پالتے پالتے پاکستان پینتالیس ہزار ارب روپے کا مقروض ہو گیا۔ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پاکستان کو دلدل میں دھنسا رہی ہے۔ یہ بے پناہ قرضہ قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکا۔ اسی شمارے میں مضمون ’’مہنگی روٹی نے لبنان میں ہنگامے کرا دیے‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ آشکارا کرتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ ایک اچھے بھلے مُلک کو کس بُرے حال تک پہنچا سکتا ہے۔
حکومت وقت مگر آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کے لیے اس کے سامنے بچھی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ عالمی ادارہ مغربی استعمار کے مفادات پورے کرتا ہے۔ اسی کی اِیما پر حکومت اسٹیٹ بینک کو حد سے زیادہ خودمختار بنانا چاہتی ہے۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک ایسی صورت میں گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان میں مغربی قوتوں کا ’’وائسرائے‘‘ بن جائے گا۔ لازم ہے کہ صدارتی آرڈینینس سے یہ اقدام اپنانے کے بجائے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش ہو۔ وہاں معاملے پر کھل کر بحث و مباحثہ ہو تاکہ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے سے جو بھی فوائد اور نقصانات ہوں گے، وہ سامنے آ جائیں۔ جلد بازی کام خراب کر دیتی ہے۔

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Buy Urdu Digest