fbpx

لبنان میں انقلاب لاتا عام آدمی

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”3.22″][et_pb_row _builder_version=”3.25″ background_size=”initial” background_position=”top_left” background_repeat=”repeat”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”3.25″ custom_padding=”|||” custom_padding__hover=”|||”][et_pb_text _builder_version=”4.9.3″ background_size=”initial” background_position=”top_left” background_repeat=”repeat” hover_enabled=”0″ text_font=”noori-nastaleq||||||||” sticky_enabled=”0″ text_font_size=”20px” text_line_height=”1.5em”]

یہ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء کی بات ہے، حکومتِ لبنان نے اعلان کیا کہ اب جو شہری واٹس اپ یا فیس بک مسینجر پر کال کرے گا، اُسے ماہانہ ایک ہزار لبنانی پاؤنڈ بطور ٹیکس ادا کرنے ہوں گے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم سعد حریری کےوہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ نیا ٹیکس ان کی حکومت کا بوریا بستر ہی گول کر دے گا۔
واٹس اپ ٹیکس درحقیقت تاریخ لبنان میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر چکا کیونکہ اس نے لاکھوں عام لبنانیوں کو حکمران طبقے کے خلاف یکجا کر ڈالا۔ لبنانی عوام اپنے سیاسی و مذہبی اختلافات پس پشت ڈال کر ایلیٹ طبقے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ اس احتجاج کی خاصیت یہ ہے کہ عوام کا کوئی لیڈر نہیں تھا۔ لبنانی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی گھروں سے نکلے اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک اور منفرد واقعہ ہے۔ عام آدمی کی طاقت ایک بار پھر عیاں ہوئی جب مسلسل احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے سعد حریری نے استعفا دے ڈالا۔

بارش کا پہلا قطرہ
لبنان کے اس عوام انقلاب کو بارش کا پہلا قطرہ کہا جا سکتا ہے اور اُمنڈتے خطرے کی علامت بھی! تیسری اور دوسری دنیا کے اکثر ممالک میں پاکستان سمیت عرصۂ دراز سے عوام کو شکایت ہے کہ مٹھی بھر ایلیٹ طبقے نے قومی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ طبقہ وسائل سے دولت بنا کر خود تو امیر سے امیر تر ہو جاتا ہے مگر عوام بدستور مفلسی و غربت کا شکار رہتے ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث حکمران طبقہ تو عیش و عشرت اور آسائشات بھری زندگی گزارتا ہے جبکہ عام لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ دنیا بھر میں ماہرینِ عمرانیات اور معاشیات خبردار کر رہے ہیں کہ ترقی پزیر ممالک میں اگر دولت کی تقسیم اسی طرح عدم توازن کا شکار رہی، تو ان ممالک کے عوام غم و غصے میں فرانسیسی انقلاب کی طرح حکمران طبقے کو خون میں نہلا سکتے ہیں۔ ان کی پیشین گوئی کسی حد تک لبنان میں پوری ہو گئی۔ اگرچہ لبنانی عوام نے کھلم کھلا خون خرابے سے پرہیز کیا لیکن اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر وہ حکمرانوں کے محلات پر حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں۔

قدیم تہذیبوں کا گہوارہ
لبنان میں عام آدمی کے ہاتھوں برپا ہونے والے منفرد انقلاب کی وجوہ جاننے سے قبل آئیے مغربی ایشیا کے اس اچھوتے دیس کی تاریخ اور دلچسپ حقائق سے آگاہ ہو جائیے۔
لبنان کا پورا نام جمہوریہ لبنانیہ ہے۔ رقبہ چار ہزار چھتیس مربع میل ہے۔ اس کے شمال مشرق میں شام، جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے۔ آبادی اڑسٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ مملکت میں انسانوں کا کافی ہجوم ہے۔ یہ دنیا کا ۲۱ واں گنجان ترین دیس ہے۔
یہ خطہ زمانہ قدیم میں مشہور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ قدیم لبنانی زراعت پیشہ تھے اور آبادیاں بنا کر رہتے۔ مختلف آلات بھی استعمال کرتے۔ تب لبنان ایک وسیع علاقے ’’کفان‘‘ کا حصّہ تھا۔ کفان میں موجودہ اسرائیل، اردن اور شام کا کچھ علاقہ شامل تھا۔ کفانی سامی زبان بولتے اور ان میں عرب سے آئے ہوئے بدو بھی شامل تھے۔ ان کفانیوں نے بنی نوع انسان کے اوّلیں رسم الخط کی بنیاد رکھی جس کے ۲۴ حرف تہجی تھے۔
فونیقی بھی کنعانی ہی تھے جنہوں نے تیس ہزار سال قبل کنعان کے ساحلوں پر جبیل ، بیروت، صیدون، صور اور دیگر شہروں کی بنیاد رکھی۔ فونیقی ماہر جہاز راں تھے اور بہترین تاجر بھی۔ انھوں نے ہی دیگر ساحلوں پر بھی تجارتی مراکز قائم کیے جن میں ہسپانوی شہر قادس اور تیونسی شہر قرطاجنہ (کارتھیج) مشہور ہیں۔
بنی اسرائیل جب مصر سے فلسطین آئے تو ان کی کنعانیوں سے جنگیں ہوئیں۔ ان لڑائیوں کا احوال بائبل میں درج ہے۔ ان کنعانیوں کی اولاد آج بھی لبنان میں آباد ہے۔ ۵۳۹ قبل مسیح میں سائرس اعظم نے اسرائیل کے ساتھ موجودہ لبنان پر بھی قبضہ کر لیا۔ ۳۳۲ ق م میں یونانی جرنیل، اسکندر اعظم نے فارسی حکمران کو شکست دےکر لبنان فتح کیا۔ بعد ازاں اس پر یونانی حکمرانوں کے گورنر حکومت کرتے رہے۔

مارونی اور دروزی سامنے آئے
پہلی صدی عیسوی میں عیسائی سینٹ (بزرگ) لبنان میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے لگے۔ ان کی سعی سے کئی لوگ عیسائی ہو گئے۔ شام، مصر اور ترکی کے ساتھ لبنان بھی آنے والی صدیوں میں عیسائیت کا اہم مرکز بن گیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں لبنان بازطینی سلطنت میں شامل ہوا۔ اسی صدی کے آخر میں وہاں مارون نامی ایک عیسائی بزرگ نے جنم لیا۔ اس کے پیروکار ’’مارونی‘‘ کہلائے۔
مارونی عیسائیوں نے شمالی لبنان کو اپنا مسکن بنایا جو پہاڑوں کی کثرت کے باعث ’’جبل لبنان‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ پہاڑوں کا مکین ہونے کی وجہ سے مارونی فارسی اور یونانی لشکروں کے حملوں سے بھی محفوظ رہے۔ ساتویں صدی میں مسلمان عربوں نے لبنان کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس علاقے میں اسلام کا نور رفتہ رفتہ پھیلا۔ آخر کار کئی مقامی باشندے مسلمان ہو گئے۔ ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت تھی جبکہ جبل لبنان میں مارونی عیسائیوں کا غلبہ رہا۔

گیارہویں صدی میں اسماعیلی شیعہ، غناسطی مت، نو افلاطونیت اور فیثا غورثی نظریات کے ملاپ سے لبنان میں ایک نئے فرقے، دروز کا ظہور ہوا۔ اس فرقے کے پیروکار دروزی کہلاتے ہیں۔ دروزیوں نے جنوبی لبنان کو اپنا مسکن بنایا جبکہ ساحلی شہروں مثلاً بیروت، عکا وغیرہ میں آباد لبنانی عرب تہذیب و ثقافت میں ڈھل گئے۔
جب گیارہویں صدی میں مسلم فوج نے ترکی فتح کیا، تو اٹلی اور فرانس کے حکمران خوفزدہ ہو گئے۔ انھیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ ترکی سے مسلم لشکر یورپ پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ انھوں نے پھر فلسطین پر قبضہ کرنے کی خاطر مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کر دیا۔ فریقین کے مابین کئی لڑائیاں ہوئیں جو تاریخ میں ’’صلیبی جنگیں‘‘ کہلاتی ہیں۔ ۱۱۹۰ء میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی فوج سے بیت المقدس چھین لیا تاہم لبنان پر عیسائیوں کا قبضہ مزید کچھ عرصہ برقرار رہا۔
صلیبی جنگوں کے دوران فرانسیسی فوج اور مارونی عیسائیوں کے مابین قریبی تعلقات پیدا ہو گئے۔ انھوں نے اکٹھے کئی بار اسلامی لشکر کا مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے، فرانسیسی فوج کے واپس جانے پر بھی مارونی لیڈروں نے فرانس کے حکمرانوں سے رابطہ رکھا۔ تیرہویں صدی میں مصر کے مسلمان مملوک حکمران نے لبنان پر اسلامی حکومت بحال کر دی۔ سولہویں صدی میں علاقہ ترک عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔

گورنروں کی حکومتیں
<span”>عثمانی ترک معنیون اور شہابیون خاندانوں کے تعاون سے انیسویں صدی تک لبنان پر حکومت کرتے رہے۔ معنیون کے اجداد یمن سے لبنان آئے تھے۔ یہ عرب قبیلہ پھر دروز فرقے میں شامل ہو گیا۔ شہابیون مارونی عیسائیوں کا معروف خاندان تھا۔ ترک عثمانی دور میں لبنان، اردن، شامل اور فلسطین کا علاقہ ’’سوریا‘‘کہلاتا رہا۔
لبنان میں ۱۱۲۰ء تا ۱۶۹۷ء معنیون کے والیوں کا اثرورسوخ رہا اور وہ طمطراق سے حکومت کرتے رہے۔ ان میں فخرالدین دوم مشہور والی گزرا ہے جس نے ۱۵۹۲ء میں حکومت سنبھالی اور اپریل ۱۶۳۵ء تک تخت نشین رہا۔ یہ لبنان کا پہلا حکمران ہے جس نے اپنی مملکت کو آزاد و خودمختار بنانے کی کوششیں کیں۔ اسی لیے ترک عثمانی حکمران اسے سخت ناپسند کرتے تھے۔
۱۶۱۳ء میں عثمانی حکومت نے اُسے گرفتار کرنے کی خاطر ایک فوج بھجوائی۔ فخرالدین اٹلی فرار ہو گیا اور تین سال وہاں مقیم رہا۔ جب واپس لبنان آیا، تو اطالوی ماہرِ زراعت اور انجینئر اس کے ساتھ تھے۔ انھوں نے لبنان میں نئے زرعی اور تعمیراتی طریق متعارف کرائے۔ فخرالدین اپنے ملک کو معاشی و سیاسی طور پر مضبوط بنانا چاہتا تھا۔ لبنان کے سب فرقے اس کا احترام کرتے تھے کیونکہ وہ شدت پسند نہیں تھا۔
عثمانی ترک حکمرانی، مراد چہارم کو مگر فخرالدین کی آزادانہ روش پسند نہیں آئی۔ اس کے حکم پر والی دمشق نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ اس بار فخرالدین نے مقابلہ کیا مگر میدان جنگ میں گرفتار ہوا۔ اُسے زنجیروں سے باندھ کر استنبول بجھوا دیا گیا۔ وہیں ۱۳ءاپریل ۱۶۳۵ء کو اُسے پھانسی دے دی گئی۔ دور جدید کے لبنانی اُسے اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔

بشیر شہاب کا دور
۱۶۹۷ء کے بعد دروز قبائل دو گرہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ’’قیس‘‘ گروہ میں شہاب، جنبلاط، تغلق اور عماد نامی دروزی قبیلے شامل تھے۔ ’’یمنی‘‘ گروہ عالم الدین، ارسلان اور الصواف قبائل پر مشتمل تھا۔ ۱۷۱۱ء میں دونوں گروہوں کے مابین زبردست جنگ ہوئی جس میں یمنی گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یمنی گروہ کے قبائل پھر شام ہجرت کر گئے۔ جبکہ قیس میں سے شہاب قبیلہ لبنان کا نیا حاکم بن گیا۔
شہاب قبیلہ پہلے سنی تھا پھر دروز ہو گیا۔ ۱۷۷۰ء میں قبیلے سے تعلق رکھنے والے امیر لبنان، یوسف شہاب نے مارونی عیسائیت اختیار کر لی۔ اپنے سربراہ کی دیکھا دیکھی قبیلے کے دیگر مرد و زن بھی مارونی بن گئے۔ شہابیون کے والیوں میں امیر بشیر شہاب دوم سب سے مشہور گزرا ہے جو ۱۷۸۹ء میں لبنان کا والی مقرر ہوا۔
بشیر شہاب دوم چالیس برس تک لبنان میں سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ تاہم اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی خاطر اس نے مارونی عیسائیوں اور دروزیوں کے مابین فرقہ ورانہ اختلافات پید اکر دیے۔ اس کی دروزی فوج سے کئی لڑائیاں بھی ہوئیں۔ یوں لبنان میں اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی جس نے مذہبی چولا پہن لیا۔ مارونی عیسائی شہروں میں آباد تھے۔ دروزی دیہات میں رہتے تھے۔

یورپی استعمار کی آمد
انیسویں صدی میں یورپی طاقتیں عثمانی ترکی کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کرنے لگیں۔ لبنان میں بھی ان کے قدم آ پہنچے۔ اس مملکت میں فرانسیسی مارونیوں کے پشت پناہ بن گئے جبکہ برطانوی دوزی فرقے کی حمایت کرنے لگے۔ دونوں فرقوں کے مابین کئی لڑائیاں ہوئیں۔ آخر مارونی فرقے نے شکست کھائی اور وہ جبل لبنان کے علاقوں تک محدود ہو گیا۔ یہ ۱۸۶۱ء کی بات ہے۔ مارونی فرقہ لبنان سے عثمانی ترکوں کی بالادستی بھی ختم کرنا چاہتا تھا۔
اس دوران بیروت لبنان کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ اس شہر میں مسلمان، دروزی اور مارونی، تینوں بڑے فرقوں کے باشندے آباد تھے۔ تاہم ۱۸۶۱ء کے بعد لبنان میں خانہ جنگی تقریباً ختم ہو گئی۔ ہر فرقہ اپنے آپ کو معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرنے کی خاطر جدوجہد کرنے لگا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس نے لبنان پر قبضہ کر لیا۔ اس تبدیلی نے مارونی عیسائیوں کو یکایک سب سے طاقتور لبنانی گروہ بنا دیا کیونکہ اُسے جدید اسلحے سے لیس فرانسیسی فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اتحادی قوتوں نے شام بھی فرانس کو دے ڈالا۔ اب مارونی عیسائیوں کی خواہش تھی کہ لبنان میں ان کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ فرانسیسی حکومت نے نہ صرف ان کی یہ تمنا پوری کی بلکہ شام کے کئی علاقے مجوزہ ریاست لبنان میں شامل کر دیے۔ یوں فرانسیسی حکمرانوں نے ظالم ہونے کا ثبوت دیا اور ریاست شام کے حصّے بخرے کر ڈالے۔
درج بالا حقیقت سے عیاں ہے کہ لبنان ایک مصنوعی ریاست ہے جس کا قیام فرانسیسی استعمار کی پشت پناہی سے وجود میں آیا۔ فرانس نے شامی مسلمانوں کے علاقے زبردستی چھین کر لبنان میں ضم کر دیے۔ مقصد یہی تھا کہ مارونی عیسائیوں کو ایک وسیع و عریض ریاست مل سکے۔ برطانوی انگریزوں نے یہی ظلم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا۔ انھوں نے فلسطینی مسلمانوں کے علاقے صہیونیوں کو دے ڈالے تاکہ وہ وہاں اسرائیل کا قیام عمل میں لا سکیں۔

مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی
بدی کا انجام مگر اچھا نہیں نکلتا۔ ظالم فرانسیسی حکمرانوں اور مسلم مخالف مارونی عیسائیوں نے اپنی دانست میں جو ترپ کی چال چلی تھی، وہ آخرکار ان کے خلاف ہی گئی۔ ہوا یہ کہ مملکت شام سے چھین کر جو علاقے لبنان میں ملائے گئے، وہاں مسلمانوں اور دروزیوں کی اکثریت تھی۔ اسی لیے یکم ستمبر ۱۹۲۰ء کو جب ریاست لبنان کی بنیاد پڑی، تو مملکت میں مارونی عیسائیوں کی اکثریت بہت کم رہ گئی۔ ریاست میں بمشکل ۵۰ فیصد آبادی مارونی تھی۔ بقیہ آبادی سنی و شیعہ مسلمانوں، دروزیوں اور دیگر غیر عیسائی فرقوں پر مشتمل تھی۔ شامی علاقے شامل ہونے سے لبنان میں سنی مسلمانوں کی آبادی آٹھ گنا جبکہ شیعہ مسلمانوں کی چار گنا بڑھ گئی۔
لبنان میں مسلم آبادی کی طاقت کم کرنے کے لیے فرانس نے آئین تیار کرایا جو مئی ۱۹۲۶ء میں نافذ ہوا۔ اس آئین کے تحت قرار پایا کہ لبنان کا صدر ہمیشہ عیسائی (مارونی) ہو گا۔ نیز اُسے پارلیمنٹ میں بنایا گیا کوئی بھی قانون ویٹو کرنے کی طاقت دی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ ازروئے آئین پارلیمنٹ میں ہر گیارہ ارکان میں سے چھے عیسائی اور پانچ غیر عیسائی ہونے تھے۔ مستقبل میں غیر عیسائی ارکان کی تعداد زیادہ ہو جاتی تو وہ چھے اور پانچ کا درج بالا اصول پارلیمانی قانون بنا کر ختم کر سکتے تھے۔ اسی لیے صدر کو پارلیمان کے بنائے تمام قوانین ختم کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔
مسلمانوں کی تسلی و اطمینان کے لیے آئین میں لکھا گیا کہ وزیراعظم مسلمان ہو گا لیکن وہ عیسائی کے سامنے جوابدہ تھا۔ گویا ازروئے آئین حکومت میں طاقت کا سرچشمہ عہدہ صدر بن گیا۔ فرانسیسی حکمرانوں نے یہ انتظام اسی لیے کیا کہ نئی مملکت میں خصوصاً مارونی عیسائی فرقے کا پلہ بھاری رہے۔

ملک آزاد ہو گیا
دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا تو لبنان پر بھی ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ لبنان دراصل اب تک فرانس کے ماتحت تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو لبنان میں مکمل آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی۔ جنگ عظیم نے فرانس کو بدحال کر دیا تھا۔ اس لیے فرانسیسی حکومت مزید عرصہ لبنان کو اپنے ماتحت نہ رکھ سکی اور ۲۲ دسمبر ۱۹۴۳ء کو ملک مکمل طور پر خودمختار ریاست بن گیا۔ دسمبر ۱۹۴۶ء تک فرانسیسی کے سبھی فوجی لبنان سے رخصت ہو گئے۔
آزادی کے بعد لبنان کی تاریخ نشیب و فراز سے گزری۔ کبھی معاشی ترقی کے ادوار آئے تو کبھی جنگوں نے ملک کو تباہ کر ڈالا۔ ۱۹۵۰ء کے بعد بیروت آزاد تجارتی مرکز کی صورت نمایاں ہوا۔ دنیا کی کئی کاروباری اور مالیاتی کمپنیوں نے وہاں اپنے دفاتر قائم کر لیے۔ سیاح بھی بڑی تعداد میں بیروت آنے لگے جہاں نائٹ کلب اور کسینو بڑی تعداد میں کھل گئے۔ رفتہ رفتہ یہ شہر ’’مشرق کا پیرس‘‘ کہلانے لگا۔ بیروت، ۱۹۷۵ء میں خانہ جنگی چھڑنے تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا۔
۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کی اسرائیل عرب جنگوں کے بعد تقریباً تین لاکھ فلسطین مہاجر لبنان میں آ بسے۔ ۱۹۶۸ء کے بعد جنوبی لبنان میں یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ تنظیم کے ارکان نے وہاں تربیتی مراکز قائم کر لیے جہاں سے تربیت پا کر فلسطینی مجاہدین اسرائیل پر حملے کرتے تھے۔ جولائی ۱۹۶۸ء میں فلسطینی مجاہدین نے ایک اسرائیلی جہاز اغوا کر لیا۔ اسی سال دسمبر میں ایک اسرائیلی ان کے ہاتھوں مارا گیا۔
رفتہ رفتہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد کے ایجنٹ لبنان میں داخل ہو کر فلسطینی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے۔ مارونی عیسائی فلسطینی تنظیموں کے مخالف تھے۔ وہ انھیں لبنان سے بے دخل کرنا چاہتے تھے، مگر لبنانی مسلمان اور دروزی بھی ان تنظیموں کے حامی تھے۔ وہ فلسطینی مجاہدین کی ہر ممکن مدد کرنے لگے۔
۱۹۶۹ء میں مصری لیڈر، جمال عبدالناصر کی کوششوں سے تنظیم آزادی فلسطین سمیت تمام فلسطینی تنظیموں اور مارونی عیسائیوں کے مابین معاہدہ امن انجام پایا۔ معاہدے کے تحت فلسطینی مہاجر کیمپوں کا انتظام تنظیموں کے سپرد کر دیا گیا۔ نیز انھیں شمالی اسرائیل تک رسائی کے راستے بھی دیے گئے۔ جواب میں فلسطینی تنظیموں نے حکومت لبنان کی قیادت و سیادت تسلیم کر لی۔

خانہ جنگی کا آغاز
مارونی عیسائیوں کی اکثریت مگر اس معاہدے سے خوش نہیں تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ فلسطینی تنظیموں کو بہت زیادہ مراعات دے دی گئیں۔ اس باعث مارونی عیسائیوں اور فلسطینی تنظیموں کے مابین اختلافات بڑھنے لگے۔ لبنانی مسلمانوں کے ساتھ بھی مارونیوں کا تصادم بڑھ گیا۔ اس دوران لبنان میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ آئین میں ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ ازروئے آئین بیشتر سرکاری ملازمتیں مارونی اور دیگر عیسائی فرقے لے اُڑتے تھے مگر مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے بعد یہ بندوبست مسلم آبادی کو ظلم کے مترادف لگنے لگا۔
لبنان میں مذہبی، معاشی اور سیاسی اختلافات آہستہ آہستہ اتنے بڑھ گئے کہ ۱۹۷۵ء سے وہاں فرقوں کے مابین خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ یہ باہمی لڑائی وقفے وققے سے ۱۹۸۹ء تک جاری رہی۔ اس دوران ایک لاکھ لبنانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، نو دس لاکھ شہری ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ غرض آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی نے ایک ہنستے بستے ملک کو تباہ کر ڈالا۔
لبنانی مسلمانوں اور فلسطینی تنظیموں کا مطالبہ تھا کہ لبنان میں مردم شماری کرائی جائے۔ ملک میں آخری آدم شماری ۱۹۳۲ء میں ہوئی تھی۔ تب سے مارونی اسٹیبلشمنٹ آدم شماری کرانے کے سلسلے میں بہانے بنا رہی تھی۔ مارونیوں کو دراصل یقین تھا کہ مردم شماری کے نتیجے میں مسلم آبادی کو اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ یوں وہ مملکت میں اقتدار سے محروم ہو جاتے۔ تب آئین بھی نئے حقائق مدنظر رکھ کر تشکیل دینا پڑتا جس سے مارونی اپنی طاقت کھو بیٹھتے۔
۱۹۷۶ء میں لبنانی حکومت کی دعوت پر شامی فوج لبنان میں چلی آئی۔ وہ سرکاری تنصیبات کی حفاظت کرنے لگی۔ اُدھر تنظیم آزادی فلسطین نے جنوبی لبنان میں خودمختار حکومت قائم کر لی۔ فلسطین مجاہدین اور اسرائیل کے مابین جھڑپیں بڑھتی چلی گئیں۔ آخر مارچ ۱۹۷۸ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور دریائے لتانی کے پار بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس علاقے میں آباد ایک لاکھ لبنانیوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ ۱۹۷۸ء کے اواخر میں اسرائیلی فوج بین الاقوامی دباؤ کے باعث اپنی سرحد پر واپس چلی گئی۔

فلسطینیوں کا قتل عام

فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری رہی۔ جون ۱۹۸۲ء میں اسرائیلی فوج نے دوبارہ لبنان پر دھاوا بول دیا۔ اس بار وہ بیروت کے نواح میں آ پہنچی۔ تب یاسر عرفات نے لبنان سے رخصتی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ ستمبر تک پندرہ ہزار سے زیادہ فلسطینی مجاہدین لبنان چھوڑ گئے۔ لبنانی مسلمانوں نے فلسطینی مجاہدین کی شکست کا ذمے دار مارونی صدر، بشیر جمائیل کو قرار دیا جو خفیہ طور پر اسرائیل سے ملا ہوا تھا۔ چنانچہ ستمبر ۱۹۸۲ء میں صدر بشیر جمائیل اپنے پچیس ساتھیوں سمیت ایک بم دھماکے میں مارا گیا۔
دو دن بعد، ۱۶ ستمبر ۱۹۸۲ء کو مارونی فرقے کی مسلح تنظیم، فلانجی کے دہشت گرد بیروت میں واقع فلسطینی مہاجر کیمپوں، صبرا اورشاتیلا میں داخل ہوئے اور دیوانہ وار چاروں طرف گولیاں برسانے لگے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق انھوں نے تین ہزار مرد، خواتین اور بچے شہید کر دیے۔ اس طرح مارونیوں نے بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کو مار کر اپنے سازشی اور اقتدار کے بھوکے لیڈر کی موت کا بدلہ لیا۔ صبرا شاتیلا میں فسطینی مہاجرین کا قتل عام انسانی تاریخ کا ایک بھیانک باب ہے۔ اس قتل عام میں مارونیوں کو اسرائیلی فوج کی بھرپور مدد حاصل تھی۔
مارونی اور مسلم تنظیموں کے مابین جنگ جاری رہی۔ اسی دوران شیعہ مسلمانوں کی نئی تنظیم، حزب اللہ کا ظہور ہوا۔ تب امل شیعہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ ۱۹۸۸ء میں بیروت میں اپنا اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ان دونوں تنظیموں کے مابین بھی تصادم ہوا۔ ستمبر ۱۹۸۸ء میں صدر امین جمائیل نے لبنانی فوج کے ایک جرنیل، مائیکل عون کو عبوری وزیرِاعظم مقرر کر دیا۔ یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی تھی کیونکہ عون مارونی تھا۔ مسلمانوں نے اُسے بطور وزیراعظم تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک سنی مسلمان، سلیم حص وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے۔

امن معاہدہ انجام پایا
فروری ۱۹۸۹ء میں جنرل عون کی زیر قیادت مارونی مسلح تنظیموں نے شامی فوج پر حملہ کر دیا۔ جنرل عون کا دعویٰ تھا کہ وہ لبنان کو ’’آزاد‘‘ کرانا چاہتا ہے، مگر یہ مہم ناکام ثابت ہوئی۔ جنرل عون فرانس فرار ہو گیا۔ اس مہم کی ناکامی کے بعد مارونی لیڈروں کو احساس ہوا کہ خانہ جنگی سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا بلکہ لبنان تباہی و بربادی کی مزید دلدل میں اُتر جائے گا۔ اسی لیے مارونی اور مسلمان مل کر خانہ جنگی ختم کرنے پر متفق ہو گئے۔
۲۲؍اکتوبر کو سعودی عرب کے شہر، طائف میں فریقین کے مابین جنگ بندی معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے ذریعے لبنان میں آئینی تبدیلیاں بھی انجام پائیں۔ اب وزیراعظم صدر نہیں پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بن گیا۔ نیز پارلیمنٹ کی ۱۲۸ نشستیں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں برابر برابر تقسیم ہو گئیں۔ معاہدے کی رو سے لبنان میں تمام مسلح تنظیمیں بھی ختم کر دی گئیں۔ تاہم حزب اللہ کو کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی استعمار سے نبردآزما رہ سکے۔
طائف معاہدے کے بعد مسلمانوں اور مارونی عیسائیوں کی نئی سیاسی قیادت سامنے آئی۔ یہ قیادت پرانی رنجشیں بھول کر ملک میں دوستانہ اور امن پسندانہ ماحول قائم کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے انھوں نے تمام سرکاری ملازمتوں اور حکومتی وسائل کو فرقوں کے مابین تقسیم کر دیا۔ اب ہر فرقے کا کوٹہ مقرر ہو گیا کہ اُسے ملازمتوں اور سرکاری آمدن سے مختص حصّہ ملے گا۔ بظاہر یہ ایک عمدہ بندوبست تھا تاکہ تمام فرقوں میں اتحاد و یکجہتی جنم لے اور وسائل کی تقسیم بھی منصفانہ ہو سکے لیکن اگلے دس برس تک واضح ہو گیا کہ یہ بندوبست صرف فرقوں کے لیڈروں اور ان کے مٹھی بھر حواریوں ہی کو مالی فائدہ پہنچاتا ہے۔ عام لوگوں کی اکثریت بدستور غربت کا شکار رہی۔ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے بھی عوام کو بہت تگ و دو کرنا پڑتی۔

لبنان کے مذہبی فرقے
اس موقع پر مناسب ہے کہ لبنان کے مذہبی فرقوں کی بھی بات ہو جائے۔ لبنان میں سرکاری طور پر ۱۸ منظور شدہ مذہبی فرقے آبادی ہیں۔ ان میں سے بارہ عیسائی، چار اسلامی، ایک دروزی اور ایک یہودی ہے۔ کُل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۵۷.۷ فیصد ہے۔ ان میں سے ۲۸.۷ فیصد سنی اور ۲۸.۴ فیصد ہی شیعہ ہیں۔ بعض عالمی ذرائع مسلمانوں کو تعداد ۶۰ فیصد تک بتاتے ہیں۔ دراصل لبنان میں ابھی تک مردم شماری نہیں کرائی گئی۔ تمام فرقوں کو خدشہ ہے کہ اگر ناپسندیدہ نتائج آئے تو ملک دوبارہ خانہ جنگی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے مردم شماری کرانے سے گریز کیا جاتا ہے۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ماضی کی نسبت لبنان میں مسلمانوں کی تعداد خاصی بڑھ چکی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خانہ جنگی کے دوران پندرہ سولہ لاکھ عیسائی مغربی ممالک ہجرت کر گئے۔ دوم مسلمانوں میں شرح پیدائش غیر مسلموں سے زیادہ ہے۔ اسی لیے لبنان میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ عام طور پر سرکاری معاملات میں دروزیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل کیاجاتا ہے۔ لبنان میں آبادی کا ۵.۶ فیصد حصّہ دروزی ہے۔
عیسائی فرقے آبادی کا ۳۶.۲ فیصد حصّہ ہیں۔ عیسائیوں میں ۲۱ فیصد مارونی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ رومن کیتھولک کلیسا کے تحت آتے ہیں۔ ۸ فیصد عیسائی یونانی کلیسا اور بقیہ دیگر چھوٹے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
سنی مسلمان جنوبی لبنان کے ساحلی مقامات، شمالی لبنان، طرابلس اور مغربی بیروت میں آباد ہیں۔ شیعہ مسلمان جنوبی بیروت، وادی البقاع اور جنوبی لبنان میں بستے ہیں۔ مارونی فرقے کے باشندے مشرقی بیروت اور لبنان کے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں، دیگر عیسائی فرقوں کے لوگ شہری یا دیہی آبادی میں شامل ہیں۔ واضح رہے، لبنان میں ۸۸ فیصد افراد شہروں میں رہتے ہیں۔
اسرائیل اور شام طویل عرصہ لبنانی سیاست میں دخل اندازی کرتے رہے۔ تاہم عالمی دباؤ کی وجہ سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوج لبنان سے رخصت ہو گئی۔ ۲۰۰۵ء میں شامی فوج نے بھی پڑوسی مملکت کو خیر باد کہہ دیا۔ اسی سال وزیراعظم رفیق حراری کو نامعلوم افراد نے قتل کر ڈالا جس پر کافی ہنگامے بھی ہوئے۔
۲۰۰۶ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ چونتیس دن تک لڑائی جاری رہی۔ حزب اللہ نے کامیابی سے دفاع کیا، اسی لیے اسرائیل کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ۲۰۱۲ء میں شام خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین لبنان چلے آئے۔ ان کی وجہ سے لبنانی معیشت پر مزید بوجھ پڑ گیا۔

قرضے لینے کی لت
پاکستان کی طرح لبنان میں بھی عوام کم ٹیکس دیتے ہیں۔ جب لبنانی حکمران سرکاری اخراجات پورے نہ کر سکے، تو وہ بھی پاکستانی حکمرانوں کے مانند مختلف ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے لگے۔ یوں حکومتی ایوانوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ اب ڈالر کی بہتی گنگا سے حکمران طبقہ بلا کھٹکے ہاتھ دھونے لگا۔ سیاست دانوں، جرنیلوں اور سرکاری افسروں نے کرپشن کر کے خوب مال کمایا مگر ملک و قوم کو کنگال کر دیا۔
آج لبنان ۷۵؍ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا۔ یقیناً یہ اس مملکت کے لیے بہت بڑا قرضہ ہے جس کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) ۵۷؍ارب ڈالر ہے۔ گویا لبنان پر چڑھا جی ڈی پی سے بھی چالیس فیصد بڑھ چکا۔ اس خرابی کے باعث آج لبنان جاپان اور یونان کے بعد تیسرا مقروض ترین دیس کہلاتا ہے۔ جاپان اور یونان کی خام قومی پیداوار تو پھر کئی گنا بڑی ہے، اسی لیے وہ بھاری بھرکم قرضوں کا بوجھ سہار گئے لیکن لبنان قرضے کا دباؤ برداشت نہیں کر سکا اور مہنگائی میں مبتلا ہو گیا۔
دراصل حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور عیسائیوں کی وجہ سے لبنانی پاؤنڈ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی رہی۔ ۲۰۱۹ء کے وسط میں آخر ڈالر لبنانی کرنسی مارکیٹوں سے غائب ہو گیا۔ ڈیلر بلیک میں ڈالر بیچنے لگے۔ جلد ہی لبنان میں امریکی کرنسی کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ اسی صورت حال نے عوام کی تکالیف اور مشکلات میں اضافہ کر دیا۔
لبنان کھانے پینے کی اشیا اور تیل سے لے کر مشینری اور کپڑے تک درآمد کرتا ہے۔ اس کی برآمدات بنیادی طور پر بنے بنائے زیورات، کیمیکل، دھاتیں اور پھل ہیں۔ ان برآمدات کی مالیت صرف چار ارب ڈالر ہے۔ جبکہ لبنان انیس ارب ڈالر کی اشیا بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔ اب لبنان میں ڈالر مہنگا اور کامیاب ہونے سے سبھی درآمدات بھی مہنگی ہو گئیں جن میں تیل اور اشیائے خورونوش سرفہرست تھیں۔ جب تیل مہنگا ہوا تو بجلی بھی مہنگی ہو گئی۔ نیز اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ گئیں۔

احتجاج کا آغاز
لبنان میں وزیراعظم سعد حریری کی حکومت تھی۔ اس نے سرکاری آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔ بجلی و گیس بھی مہنگی کر دی گئی۔ عوام نے حکومت کے یہ وار برداشت کر لیے، مگر جب ان پر نئے ٹیکس تھوپے گئے، تو صبر کا بندھن ہاتھ سے چھٹ گیا۔ وسط اکتوبر ۲۰۱۹ء سے پورے لبنان میں حکومت مخالف مظاہرے منعقد ہونے لگے۔ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ پوری حکومت تبدیل کر دی جائے۔ ان کی جگہ غیر جانبدار، دیانتدار اور محب وطن ٹیکنو کریٹس حکومت سنبھال لیں۔
سیاسیات، معاشیات اور عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پزیر اور غریب ممالک میں ایک مخصوص حکمران طبقہ جنم لے چکا۔ اس طبقے میں سیاست داں، سرکاری افسر، فوجی افسر اور امیر ترین صنعت کار شامل ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے دوستی رکھتے اور آپس میں شادیاں کر کے تعلقات مستحکم بناتے ہیں۔ حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار، یہ سبھی پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی جماعت برسراقتدار آئے، یہ جائز و ناجائز طریقوں سے کمائی کرنا جاری رکھتے ہیں۔ گویا ان ملکوں میں ’’حکمران مافیا‘‘ وجود میں آ چکا۔ اس اعجوبے کی ایک مثال لبنان ہے۔
اس اعجوبے کو سمجھنے کے لیے لبنان میں بکھرے کوڑا کرکٹ کو دیکھیے۔ معمولی سے کوڑے کی کہانی بہت سبق آموز ہے۔ آج اس مملکت میں کہیں بھی چلے جائیے، آپ کو کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ یہ کوڑا کرکٹ وہاں پانی اور غذا تک میں شامل ہو چکا اور انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ کوڑے کے ڈھیروں نے اسی لیے جنم لیا کہ حکومت انھیں ٹھکانے لگانے سے قاصر ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بعد لبنانی عوام کے لیے بدبودار کوڑے کرکٹ سے نجات پانا ہی ایک بڑا مسئلہ بن چکا۔ اس خرابی نے حکمران طبقے کی کرپشن سے جنم لیا۔

کوڑا گولڈ بن گیا
تین سال قبل لبنانی شہروں سے کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ جہدالعرب کی کمپنی کو دیا گیا۔ یہ وزیراعظم سعد حریری کے ایک ساتھی کا بھائی ہے۔ ٹھیکے کی مالیت ۲۹ کروڑ ڈالر تھی۔ لیکن کمپنی روزانہ بہت کم کوڑا اُٹھاتی ہے کیونکہ اس کے پاس وافر افرادی قوت اور گاڑیاں ہی موجود نہیں۔ یہ دراصل رقم بچانے کا طریق کار ہے۔ کوڑے کے ڈرموں میں روزانہ پانی بھرا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ وزن پورا ہو جائے۔ کوڑا تولنے والے اس دھوکے بازی سے واقف ہیں مگر کچھ کہہ نہیں سکتے، اگر اعتراض کیا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
دو برس قبل ہی مارونی عیسائیوں کے علاقوں سے کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا ٹھیکہ ڈینی خوری کو ملا۔ یہ مارونی لیڈر، مائیکل عون کا گہرا دوست اور کاروباری ساتھی ہے۔ اس ٹھیکے کی مالیت ۱۵ کروڑ ڈالر تھی۔ ڈینی صاحب کی کمپنی بھی کوڑا اُٹھانے کے سلسلے میں خاص اقدامات نہیں کرتی اور کچھ پاؤنڈ بطور رشوت بلدیہ والوں کو دے کر وزن پورا کرا لیتی ہے۔
لبنان میں کوڑا کرکٹ اٹھانے پر مامور بقیہ کمپنیوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب کسی جگہ حد سے زیادہ کوڑا جمع ہو جائے، تو وہاں سے کچھ کچرا اُٹھا لیا جاتا ہے تاکہ ان کی کمائی کا دھندا چلتا رہے۔ تمام کمپنیوں کے مالکان حکمران طبقے میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مملکت کا کوڑا سونے کا انڈہ دینے ولی مرغی بن چکا۔ اس مرغی نے انھیں ککھ پتی سے ارب پتی بنا دیا۔

وسائل کی بندربانٹ
معاملہ کچرے تک محدود نہیں، وسائل اور ٹھیکوں کی بندر بانٹ لبنانی حکومت کے ہر شعبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ فرقوں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تمام ٹھیکے حکمران طبقے کے لیڈروں میں تقسیم ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے ’’فرنٹ مینوں‘‘ کو ہی یہ ٹھیکے ملتے ہیں۔ پھر کک بیکس، کمیشن اور کرپشن کی بدولت ٹھیکے کی رقم آپس میں بٹ جاتی ہے۔ سرکاری خزانہ لوٹنے کا یہ طریق واردات پچھلے بیس برس سے چلا آ رہا ہے۔ اس طریقے سے حکمران طبقے کے چار پانچ ہزار افراد تو مالامال ہو گئے مگر لاکھوں عوام کی حالت زیادہ نہیں بدل سکی۔
کچھ عرصہ قبل بیروت کے آخری عوامی ساحل سمندر پر ایک متنازع ریسورٹ، ایڈن بے تعمیر ہوا۔ لبنانی عوام کو یہ جان کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ یہ ریسورٹ نبیہ بری کے داماد کا ہے۔ نبیہ بری لبنانی پارلیمنٹ کا اسپیکر ہے۔ واضح رہے، لبنانی آئین کی رو سے اسپیکر پارلیمنٹ صرف شیعہ فرقے ہی سے بن سکتا ہے۔
قبل ازیں بتایا گیا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی لبنان کا ایک بڑا قومی مسئلہ بن چکی۔ شہروں میں کئی کئی گھنٹے بجلی غائب ہونا معمول ہے۔ اس خرابی کی بڑی وجہ جنریٹروں کے کاروبار سے وابستہ مافیا ہے۔ اسی مافیا کے جنریٹر لوڈ شیڈنگ ہونے پر لاکھوں گھروں کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔ انھی جنریٹروں کے دم قدم سے ڈیزل فروخت کرنے والوں کی مافیا بھی وجود میں آ چکی۔ لبنان میں اب ہر سال سوا ایک ارب ڈالر کا ڈیزل جنریٹروں میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈیزل درآمد کرنے والی سب سے بڑی کمپنی، کوگلیلو کا مالک ولید جملاط ہے۔ یہ دروزی فرقے کا اہم لیڈر ہے۔
پانچ سال قبل صدر مائیکل عون کے داماد کو ترکی کی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا ٹھیکہ مل گیا۔ اس موقع پر بعض لبنانی دانشوروں نے مطالبہ کیا کہ ترک کمپنیوں سے بجلی خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ بہتر ہے کہ اپنے ملک میں نئے بجلی گھر تعمیر کیے جائیں۔ تبھی یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس ٹھیکے میں بذریعہ کک بیکس اور کمیشن سیاست دانوں اور سرکاری افسروں نے مل کر لاکھوں ڈالر کمائے ہیں لیکن کرپشن کرنے والوں کے نام نمایاں نہیں ہو سکے۔
کچھ عرصہ قبل لبنان کے وزیر توانائی نے تجویز پیش کی کہ ترک کمپنیوں سے مزید دو ارب ڈالر کی بجلی خریدنی چاہیے۔ اس پر وہاں کافی ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے حکمران طبقے پر الزام لگایا کہ کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے کمائی کا نیا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ لبنانی حکومت بجلی گھر تعمیر کرنے کے بجائے بیرون ملک سے بجلی خریدنے کو ترجیح دیتی ہے تاکہ کمائی کی نئی راہ کھل جائے۔
عام لبنانی سے بات کی جائے تو وہ اپنی قسمت پر ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لبنان میں اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے: ’’ہم بڑے بدقسمت ہیں کہ ہمیں خود غرض، لالچی اور بے ایمان لیڈر ملے۔ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے آج لبنان ایک دیوہیکل کچرا گھر میں تبدیل ہو چکا۔‘‘

ٹھیکے اپنوں میں تقسیم
لبنان میں فرقوں کی آبادی کے لحاظ سے وسائل، ٹھیکوں اور تمام سرکاری منصوبوں کو تقسیم کرنے کی ذمے دار ’’کونسل فار ڈویلپمنٹ اینڈ ری کنسٹرکشن‘‘ ہے۔ یہی ادارہ لبنان میں انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبہ جات کی منظوری دیتا اور انھیں کمپنیوں کے سپرد کرتا ہے۔ پچھلے بیس برس میں لبنان کی تعمیر نو کے لیے ترقی یافتہ ممالک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے حکومت کو اربوں ڈالر بطور امداد وصول ہو چکے۔ یہ قرضوں سے الگ رقم ہے۔ اس رقم کا بیشتر حصّہ بھی حکمران طبقہ مل بانٹ کے چٹ کر گیا۔ اربوں ڈالر میں سے کچھ ہی رقم تعمیر نو کے منصوبوں میں استعمال ہوئی۔
امدادی رقم سے جو منصوبے تیار ہوتے، ان کی تقسیم کا طریق کار یہ تھا کہ صدر، وزیراعظم اور اسپیکر انھیں آپس میں بانٹ لیتے۔ یہ منصوبے پھر ایسے حواریوں کو عطا ہوتے جن سے حکمران طبقے کو سیاسی یا معاشی فائدہ مل جاتا۔ کئی برس تک کونسل کا سربراہ نبیل جسّر رہا۔ یہ حریری خاندان کا فرنٹ مین تھا۔ کونسل کے دیگر ارکان میں ایک عیسائی، ایک شیعہ اور ایک دروزی شامل تھے۔ یہ سبھی ارکان اپنے اپنے فرقوں کے لیڈروں سے قربت رکھتے تھے۔
سڑکیں، اسپتال، اسکول، سرکاری عمارتیں، غرض جتنے بھی منصوبے عمل میں آئے، انھیں فرقوں کے کوٹے کے لحاظ سے من پسند ٹھیکے داروں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اس طرح ہر حکمران طبقے میں شامل ہر فرقے کے لیڈر خوش رہتے۔ ظاہر ہے، ان کی تو پانچوں انگلیاں کڑھائی میں تھیں۔ وہ مِل جل کر خوب گھی شکر کھا رہے تھے۔
لبنان کے غیر جانبدار ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حکمران طبقے نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے مذہب اور فرقہ واریت کو اپنا آلہ کار بنا لیا۔ اکیس سال قبل فرقوں میں وسائل اور ملازمتوں کی تقسیم کا نظام اس لیے اپنایا گیا تھا تاکہ لبنان میں تصادم ختم ہو اور امن و محبت کا ماحول جنم لے لیکن فرقوں کی قیادت نے اس نظام کو آمدن کا ذریعہ بنا لیا۔ اب بیشتر لبنانی ملازمتوں سے لے کر روزمرہ کاموں تک اپنے فرقوں کے قائدین کی حمایت و مدد کے محتاج ہیں۔ یہ لیڈر ایک ایک ڈالر کی خاطر دوسروں سے نبردآزما رہتے ہیں۔

راہنما کوئی نہیں
غرض لبنانی عوام جب مہنگائی سے عاجز آئے ہوئے تھے، تو حکومت نے ان پر مزید ٹیکس تھوپ دیے۔ اس عمل نے عام آدمی کو غصّہ ور بنا دیا۔ ۱۷؍اکتوبر کی رات بیروت میں پہلا عوامی احتجاج ہوا۔ اس میں ایک وزیر کے گارڈ نے لوگوں پر گولیاں چلا دیں۔ اس واقعے نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ اگلے دن مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے منعقد ہوئے۔ احتجاج کا سلسلہ پھر بڑھتا چلا گیا۔ کئی مقامات پر عوام اور پولیس کے مابین لڑائی ہوئی۔ عوامی غم و غصّہ دیکھ کر ۲۹؍اکتوبر کو وزیراعظم سعد حریری نے استعفا دے دیا۔
لبنان میں حکمران طبقے کے خلاف عوامی احتجاج اب بھی جاری ہے۔ اس احتجاج کی خاصیت یہ ہے کہ مظاہرین کسی فرقے یا سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں… وہ اپنے آپ کو محض لبنانی کہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ اور خوشحال بنانے کی خاطر مروجہ ’’سسٹم‘‘ سے جنگ اور اُسے ختم کرنے میدان عمل میں نکلے ہیں۔
لبنان کے عوام پوری حکومت، صدر، وزیراعظم، وزرا اور مشیروں سمیت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ موجودہ حکمران طبقے کی جگہ اہل اور ایماندار راہنماؤں کو اقتدار سونپا جائے۔ انھیں یقین ہے کہ یہی راہنما لبنان کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکال سکیں گے۔ مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ آئندہ غیر فرقہ وارانہ بنیاد پر الیکشن منعقد کیے جائیں لیکن لبنان میں فرقوں کی قیادت صدیوں سے اثرورسوخ کی حامل ہے۔ بیشتر اخبار اور ٹی وی نیٹ ورک بھی ان کی ملکیت ہیں۔ اسی لیے لبنانی میڈیا میں نظام بدلنے کا مطالبہ کرنے والوں کو ’’فسادی‘‘ اور ’’باغی‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔
یہ عیاں ہے کہ لبنان پر حکومت کرنے والے فرقہ وارانہ لیڈر آسانی سے اپنی طاقت اور اثرورسوخ سے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ عوام کو حقوق حاصل کرنے کی خاطر سخت اور طویل لڑائی لڑنا ہو گی۔
لبنان کے مانند پاکستان میں بھی ایک مخصوص حکمران طبقہ کئی عشروں تک اقتدار سے چمٹا رہا ہے۔ آج بھی ان کی اولادیں پاکستانی عوام کے سر پہ سوار ہیں۔ تحریک انصاف نے مفاداتی سیاست کو ضرب لگائی ہے مگر اُسے مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی حکمران طبقے کے رکن شامل ہیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت پاکستانی عوام کی اُمیدوں پر پوری نہیں اتری، تو پاکستان میں بھی مروجہ حکومتی نظام کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج جنم لے سکتا ہے۔

 عوام اور حکومت آمنے سامنے
دنیائے عرب کے دانشوروں نے لبنان میں جاری عوامی انقلاب پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیس سال میں پہلی بار سخت معاشی و مالیاتی بحران اس انقلاب کو کامیاب کرا سکتا ہے۔ سمیع عطا اللہ امریکا میں قائم لبنان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ کہتے ہیں ’’لبنان میں مروجہ حکومتی نظام دم توڑ رہا ہے۔ بیس سال گزر چکے مگر یہ نظام عام آدمی کو بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی فراہم نہیں کر سکا۔ یہ حکمران طبقے کی کرپشن اور نااہلی کا آئینہ دار ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا عوام اس فرسودہ نظام کی جگہ معیاری اور غریب دوست حکومتی نظام لانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟‘‘
عوامی احتجاج سے لبنان میں ایک اور اعجوبہ سامنے آیا۔ اب تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں مسائل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہی ہیں۔ پرانے اتحاد ٹوٹ چکے اور نئے بن رہے ہیں۔ پروفیسر ہلال کِسان بیروت یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’لبنان کی پستی کا ذمے دار پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ ہے جو سرتا پا کرپٹ ہے۔ اب سیاسی راہنما مملکت کے دیوالیہ ہونے کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، مگر تلخ سچائی سامنے آ چکی کہ عوام ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔‘‘
لبنان کا ایک الّمیہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر وفاداریاں تبدیل کرنے اور نئے سیاسی اتحاد بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ وہ نظریات نہیں اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ عوامی انقلاب برپا ہونے کے بعد تو لبنانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ وزیراعظم سعد حریری کے پرانے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ استعفیٰ دینے کے بعد حریری ہی نگران حکومت چلانے لگے۔ وہ بھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے حامی ہیں… مگر ان کی خواہش ہے کہ انھیں ہی وزیراعظم بنایا جائے۔ پروفیسر ہلال کہتے ہیں:
’’سعد حریری موقع پرست راہنما ہے۔ یہ اس کا باپ (رفیق حریری) تھا جس نے قرضے لینے کی لت شروع کی۔ اب یہ حال ہے کہ پرانے قرضے اُتارنے اور سود دینے کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔‘‘
عرب دانشور حزب اللہ کے قائد، حسن نصراللہ پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نصراللہ ماضی کی طرح تمام فرقوں کے ارکان پر مشتمل نئی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن لبنانی عوام اب یہ حکومتی نظام تسلیم کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اس سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔
الیکشن ۲۰۱۸ء میں ایک خاتون امیدوار، پاؤلا یعقوب واحد آزاد امیدوار کی حیثیت سے لبنانی پارلیمان کا حصّہ بنی تھیں۔ وہ کسی سیاسی و مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ کہتی ہیں: ’’عوام اب ایسا سیاسی نظام قبول نہیں کریں گے جس میں سیاست داں صرف اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، چاہے ملک آگ و خون میں جلتا رہے۔ وہ بظاہر ایک دوسرے سے اختلافات رکھتے مگر اندرون خانہ سبھی ملے ہوتے ہیں۔ اب ان کے نقاب اتر چکے۔ انقلاب نے ہم سب کو دکھا دیا کہ ہر لیڈر اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر دوسرے راہنماؤں پر انحصار کرتا ہے۔
پاؤلا یعقوب مزید کہتی ہے:
’’میں سمجھتی ہوں کہ اب عوام کی طرز فکر بدل رہی ہے۔ وہ مختلف انداز میں سوچنے لگے ہیں۔ انھیں احساس ہو چکا کہ اپنے لیڈروں کو پالتے پوستے ہوئے انھیں بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ قیمت یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بنیادی ضروریات زندگی بھی نہیں دے پاتے۔‘‘
لبنان میں یہ سطور قلمبند ہونے تک نئی حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔ سیاسی راہنماؤں کی بھرپور سعی ہے کہ مروجہ حکومتی نظام کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھا جائے، مگر عوام اس میں مکمل تبدیلی چاہتے ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کس فریق کو کامیابی ملتی ہے۔ حکمران ملکوں کی طرح اُسے بھی وسائل میں عوام کو حصّہ دار بنانا پڑے گا۔

جملہ حقوق محفوظ
اُردو ڈائجسٹ جنوری ۲۰۲۰

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Buy Urdu Digest