ہندوستان سے نوزائیدہ وطن آنے والے ایک خاندان کی دکھوں و غموں سے عبارت داستان ِہجرت
میری نانی اماں، اُمِ کلثوم کی شادی صرف تیرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ وہ ہندوستان کے مشہور شہر ’’پانی پت‘‘ کے پڑوس میں واقع قصبے ’’سونی پت‘‘ سے بیاہ کر میرے نانا کے شہر روہتک آئی تھیں۔ نانا جن کا نام گلاب محمد تھا، روہتک کے رئیس تھے۔ میرے پرنانا، عظیم اللہ بڑے متین اور سخی شخص تھے۔ نانی بتایا کرتی تھیں، میرے سسر سردیوں کے موسم میں بڑی اور موٹی چادر اَوڑھے گھر سے باہر نکل جاتے۔ جیسے ہی کوئی شخص بِنا چادر کے ٹھٹھرتا ہوا نظر آتا، فوراً اپنی چادر اُسے پہنا دیتے اور خود کڑکڑاتے جاڑے میں کانپتے ہوئے گھر چلے آتے۔
میرے نانا اپنے ابا کے اکلوتے بیٹے تھے اور میری نانی سے اُن کی دوسری شادی تھی۔ پہلی نانی جن کا نام خاتون تھا، بڑی بھولی اور بھلی مانس عورت تھیں۔ اپنی سوکن یعنی میری نانی کی شادی پر رقص کیا اور ساری رات ڈھولک بجائی۔ میری نانی کو شادی پر ڈھیروں زیور ڈالا گیا۔ اماں بتاتی ہیں، پاؤں کی پازیبیں تک سونے کی تھیں۔ نانا نے میری نانی کے لیے نیا مکان بنوایا، سواری کے لیے ہاتھی رکھا ہوا تھا۔ اِسی وجہ سے نئے گھر کا مرکزی دروازہ لمبائی چوڑائی میں دیوقامت بنوایا تا کہ ہاتھی آسانی سے گزر جائے۔
میری والدہ سے بڑے میرے دو ماموں پیدا ہوئے جو فوت ہو گئے۔ گویا بڑی نانی کا مرض میری نانی میں پیدا ہو گیا۔ تیسرے نمبر پر میری والدہ تھیں جو اَبھی نانی کے بطن میں ہی تھیں اور دُنیا میں نہیں آئی تھیں کہ ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہو گیا۔بس پھر کیا تھا ہر سُو فسادات پھوٹ پڑے۔ روہتک بھی نفرت و عداوت کی آگ میں جلنے لگا۔ میری نانی کا میکہ سونی پت بھی محفوظ نہ رہا۔ وہاں میری نانی کی ایک بہن جن کا نام زبیدہ تھا، چھت سے چھلانگ لگا کر جامِ شہادت نوش کر گئیں۔ نانی بتایا کرتی تھیں، وہ اَبھی غیرشادی شدہ تھیں۔ بلوائیوں نے ہلا بولا اور ہمارے گھر کی جانب رخ کیا ہی تھا کہ وہ چھت پر گئی، بلوائیوں کے سامنے ہی دھڑام سے گلی میں آن گری اور وَہیں دم دے دیا۔ بھائی تو میری نانی کا کوئی تھا نہیں اور بہنوں میں سے صرف ایک پاکستان آئی تھیں، باقی سب ہجرت کی آگ میں ہی جل گئیں۔
اُدھر روہتک میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ چونکہ میرے ننھیال والے نسبتاً دولت مند اور جنگ جُو تھے، اِس لیے دوسرے مسلمانوں کی نسبت محفوظ تھے اور فسادی اُن کے قریب آنے سے ڈرتے۔ میرے نانا نے آخری بار اَپنے مکانوں، دکانوں اور زمینوں پر حسرت بھری نگاہ دَوڑائی اور ہجرت کی تیاری کرنے لگے۔ میری نانی کا سارا زیور پگھلا کر لوہے کی بڑی بڑی نالیوں میں ڈالا اور وُہ نالیاں بیلوں کے گلوں میں ڈال دیں۔ بیلوں کو جوت کر ریڑھوں پر سامان رکھنے لگے۔ کھانے پینے کی چیزیں، کپڑے جوتے، روپیہ پیسا اور مرغیاں مرغے بھی ریڑھوں پر دھر لیے۔ چھریاں اور چاقو سامان میں کسی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر چھپا رکھے تھے۔
ایک ملازم کو اِس سارے سامان کا ذمےدار ٹھہرایا اور کہا جہاں زیادہ خطرہ لاحق ہو، وہاں سامان کو خیرباد کہنا اور اَپنی جان بچا لینا۔ سامان کی بیل گاڑیوں کے ساتھ بھینسیں اور گائیں بھی باندھ لیں۔ ایک دن میری نانی مجھے بتانے لگیں، تمہارے نانا نئے مکان کی دیواروں کو ہاتھ لگاتے جاتے تھے اور کہتے: ’’تجھے مَیں نے ہندوؤں کے لیے بنایا تھا، تجھے مَیں نے ہندوؤں کے لیے بنایا تھا۔‘‘
نانا نے دونوں بیویوں کو ساتھ لیا، چار اُن کی بہنیں بھی جو اپنے اپنے سسرالوں سے روہتک آ گئی تھیں، ہمراہ ہو لیں۔ اپنے باپ دادوں کی قبروں پر فاتحہ کہی اور اَمرتسر کی جانب چل پڑے تاکہ وہاں سےریل پکڑ کر لاہور چلے جائیں۔قافلہ چل پڑا۔ عورتیں بیل گاڑیوں پر بیٹھی تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ یوں تو میری والدہ دُنیا میں نہیں آئی تھیں لیکن میری نانی کے شکم میں وہ بھی ہجرت کی صعوبت اٹھا رہی تھیں۔ نانی کو اِسی حالت میں ہجرت کرنا پڑی تھی۔ چنانچہ سفر کی کلفتیں دوگنا ہو گئیں۔ راہ میں جب بھی بلوائی نظر آتے، میرے نانا عورتوں کو جھاڑیوں میں چھپا دیتے اور خود چاقو بدست ہو جاتے اور اَللہ اکبر کا ورد کرنے لگتے۔ لیکن اللہ کی خیر ہوئی، کہیں تصادم نہ ہوا۔
ڈرتے مرتے امرتسر پہنچ گئے۔ بیل گاڑیوں کے ذمےدار کو حکم دیا کہ کھیتوں اور کچے راستوں سے ہوتا لاہور چلا جائے۔ خطروں میں اپنی جان بچائے اور سامان کی پرواہ نہ کرے۔ اب امرتسر سے لاہور تک ریل کا سفر درپیش تھا۔ ہجوم اِس قدر زیادہ تھا کہ ریل کی چھت بھی انسانوں سے بھری ہوئی تھی۔ نانی بتایا کرتی تھیں:’’ریل کے اندر سے سیٹوں کو اُکھاڑ دیا گیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافر بھرے جا سکیں۔ مجھے تمہارے نانا نے سختی سے کہا تھا کہ ٹوپی والا برقع ہلکا سا بھی اوپر نہیں کرنا اور ریل کی جستی دیوار کے ساتھ لگی رہنا۔ کھڑکی کی جانب منہ کیے رکھنا، پلٹ کر مت دیکھنا کہ ڈبے میں کئی مرد بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘ مَیں نے پوچھا
بولیں:’’امرتسر سے لاہور گاڑی آٹھ دن میں پہنچی تھی اور مَیں آٹھ دن کھڑکی کی جانب منہ کیے کھڑی رہی۔ کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا، تو کھا لیتی ورنہ یونہی کھڑی رہتی۔ میرا گھٹنا جو ہلکورے لگنے سے بار بار گاڑی کی جستی دیوار کے ساتھ ٹکراتا تھا، لاہور پہنچنے تک کالا سیاہ ہو گیا تھا۔ ایک رات مَیں نے اِدھر اُدھر دیکھا، تو سب مسافر گہری نیند میں جا چکے تھے۔ مَیں تھک ہار کر تھوڑی دیر کے لیے گھٹڑی سی بن کر بیٹھ گئی۔ ابھی بیٹھی ہی تھی کہ اچانک ایک مرد آیا۔ اُس نے سمجھا یہ شاید گاڑی کی نشست ہے۔ چنانچہ وہ میرے اوپر بیٹھ گیا۔ تمہاری ماں میرے پیٹ میں تھی۔ مجھے اِس کا خوف کہ کہیں مر ہی نہ جائے اور مَیں ڈر کے مارے آواز بھی نہ نکالوں کہیں اِسے پتا نہ چل جائے کہ یہ جس پر بیٹھا ہے وہ ایک لڑکی ہے۔ پھر تمہارے نانا مجھے ڈھونڈتے آئے، تو اُس شخص کو کھینچ کر اتارا۔‘‘
میرے نانا کی ایک بہن جن کا نام بسم اللہ تھا، اُن کی دو بیٹیاں بہت خوبصورت تھیں۔ نانا نے اُن کے چہروں پر توے کی کالک مل دی تاکہ اُن کی خوبصورتی مشکل کا سبب نہ بن جائے۔امرتسر سے لاہور تک کا یہ چند گھنٹوں کا سفر آٹھ دن میں طے ہوا۔ جگہ جگہ گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔ کبھی پٹڑی لاشوں سے اٹ جاتی۔ ریلوے کے عملے کو نیچے اتر کر لاشیں پیچھے ہٹانا پڑتیں۔اللہ اللہ کرتے لاہور آ گیا۔ پژمردہ چہروں پر رونق آ گئی۔ پاک دھرتی پر قدم رکھتے ہی سبھی سجدہ ریز ہو گئے۔ لاہور سے سب کو جہلم لایا گیا جہاں مہاجر کیمپ لگائے گے تھے۔ جہلم پہنچنے کے اگلے دن ہی میری نانی کے ہاں میری والدہ کی پیدائش ہوئی۔ میرے نانا خوشی سے نہال تھے۔ سب میں سادہ پانی تقسیم کیا گیا کیونکہ اور کوئی انتظام ہو نہیں سکتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ روہتک میں میرے نانا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جو بعد میں مر گیا تھا لیکن اُس کی پیدائش پر دیسی گھی میں بنے لڈو تقسیم ہوئے تھے۔ وہ اِتنے زیادہ تھے کہ بچ جانے کی صورت میں گھوڑوں کو ڈالنا پڑے۔ اور اَب کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ سادہ پانی پر گزر بسر تھی۔
جہلم کے بعد میرا ننھیالی خاندان ملتان چلا گیا جہاں اُنھیں مکانات الاٹ ہوئے۔ کوئی پڑھا لکھا تھا نہیں، اِس لیے زمینوں کا بےشمار نقصان ہو گیا۔ کچھ ملیں اور باقی سب کچھ ختم ہو گیا۔ نانا پاکستان بننے کے پانچ سال بعد وفات پا گئے جبکہ میری نانی کی عمر صرف ۲۲ سال تھی۔میری نانی نے تقریباً ۹۰ سال عمر پائی۔ مَیں نے اُنھیں ہمیشہ اپنے نانا کے لیے دعا کرتے دیکھا۔ ایک دعا وہ ہمیشہ مانگا کرتی تھیںکہ اللہ اُنھیں کسی کا محتاج نہ کرے اور چلتا پھرتا اپنے پاس بلا لے۔ چنانچہ اللہ نے اُن کی ایسی سنی کہ ۲۰۱۵ء میں جب اُن کی وفات ہوئی، تو اپنے لیے چائے تیار کر رہی تھیں۔ دیوار کے ساتھ سر لگائے انتظار کرنے لگیں۔ چائے ابلتی رہی اور وُہ یونہی دیوار سے سر ٹکائے خاموشی سے نیلے آسمانوں میں سما گئیں۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
میرے ددھیال کی داستان ننھیال سے زیادہ خون آشام ہے۔ ننھیال کی کہانی مجھے نانی نے سنائی، تو ددھیال کا قصّہ مَیں نے اپنے ابا سے سنا۔ چونکہ وہ میری والدہ سے بارہ تیرہ سال بڑے ہیں، اِس لیے تقسیمِ ہند کے موقع پر تقریباً تیرہ برس کے تھے اور کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ میرے ددھیال نے گورداسپور کے قریب واقع گاؤں ’’دینا نگر‘‘ سے ہجرت کی تھی۔ دینا نگر کی تحصیل کلانور تھی۔ ہجرت کرنے سے قبل سب کو یہی معلوم تھا کہ یہ علاقہ پاکستان کا حصّہ ہے مگر ’’ریڈ کلف‘‘ کی اداکاریوں کے نتیجے میں جب گورداسپور بھارت کو دے دیا گیا، تو میرے ددھیال کو ننھیال کی طرح ہجرت کی تیاری کا موقع بھی میسّر نہیں آیا۔ یونہی بےسروسامانی کے عالم میں اللہ کا نام لیا اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیاء بھی پاس نہیں تھیں۔
میرے ابا کا خاندان سات بھائی اور ایک بہن پر مشتمل تھا۔ میرے ابا کا نمبر چھٹا تھا۔ ایک بھائی اور ایک بہن اُن سے چھوٹے تھے۔ میرے پردادا جن کا نام علی محمد تھا، بڑے ہنس مکھ شخص تھے۔ ہجرت کا سارا رَاستہ اپنی پوتی کے ساتھ یعنی میری پھوپھی جن کا نام اللہ رکھی تھا، ہنسی مذاق کی باتیں کرتے آئے میرے ددھیال اور پاکستان کے درمیان ’’دریائے بیاس‘‘ بہتا تھا، دریا کے پار پاکستان واقع تھا جو اِن مسافروں کی منزل تھی- میرے دادا جب اپنے والد، تین بھائیوں، دو بہنوں اور بیوی بچوں کے ساتھ دریا کے کنارے پہنچے، تو دریا میں پانی اتنا کم تھا کہ بآسانی پار اُترا جا سکتا تھا مگر جیسے ہی مہاجروں نے دریا میں اترنا چاہا ،یک لخت دریا میں بڑے بڑے پانی کے ریلے بہنے لگے۔ کہتے ہیں، وہ بھارتی حکومت نے مہاجروں کو غرق کرنے کے لیے چھوڑے تھے۔
صورتِ حال کے پیشِ نظر فیصلہ یہ ہوا کہ جو اَفراد تیراکی جانتے ہیں، وہ دَریا کے پار اُتریں اور اَپنے ہمراہ بڑے بڑے رسّے لے جائیں جن کی مدد سے باقی لوگوں کو دوسرے کنارے کی جانب کھینچا جا سکے۔ چنانچہ چند لوگ رسّے لے کر پہنچ گئے۔ دریا کے مشرقی کنارے پر بھارت تھا اور مغربی کنارے پر پاکستان واقع تھا۔ سب سے پہلے رسّے کی مدد سے میرے پردادا نے مغربی کنارے کی جانب جانے کی کوشش کی لیکن چند لمحوں بعد ہی رسا ہاتھ سے نکلا اور میرے ہنس مکھ پردادا علی محمد قہرناک لہروں میں بہہ گئے۔
ابا کہتے ہیں: ’’ہماری ماں یعنی میری دادی جن کا نام محمد بی بی تھا، رسّے کو پکڑ کر دریا پار کرنے لگیں۔ ہم اُنھیں پانی میں اترتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک بڑی لہر آئی اور رَسا اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ہماری ماں نے پانی میں ہاتھ پاؤں مارے، بچنے کی مقدور بھر کوشش کی مگر سب کچھ بےسود رہا، ماں نے آخری بار کنارے پر کھڑے اپنے بچوں کو دیکھا اور ہمیشہ کے لیے دریا کی لہروں میں چھپ گئی۔‘‘
یکے بعد دیگرے اموات ہونے کی وجہ سے سب دکھی تھے اور خوف زدہ بھی کہ جانے ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ پار اُتریں گے یا یونہی بےگور و کفن دریا برد ہو جائیں گے۔ دریا کے دونوں جانب میرے ددھیالی خاندان کے افراد بےبسی کے عالم میں کھڑے تھے۔ ہمت جمع کر کے میرے تایا اسحٰق نے رسا پکڑا اَور اَللہ اللہ کرتے دریا کی دوسری جانب اتر گئے۔ اُن کے بچ جانے سے دوسرے افراد کی بھی ہمت بڑھی، چنانچہ میرے دادا کی ایک بہن جنہیں سب بیگم کہتے تھے، اپنے دو بچوں اشرف اور عبدالصمد کے ہمراہ رَسا تھام کر دریا میں اتر گئیں۔ اُن کے ساتھ میرے تایا رضا محمد بھی تھے۔
عین دریا کے بیچ جب لہروں نے زور مارا، تو دونوں بچے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ تایا رضا محمد نے تیزی سے تیر کر اُنھیں تھام لیا۔ دوسری بار پھر وہ ہاتھ سے نکل گئے۔ تایا نے پھر تھاما، یہ عمل تین بار ہوا۔ بالآخر میرے ابا کی پھوپھی بچوں سمیت دریا کے پار اُتر گئیں اور اَللہ کے آگے سجدہ ریزہوئیں۔ آج وہ دونوں بچے جو دریا میں ڈوبتے ڈوبتے بچ گئے تھے، فیصل آباد میں بڑے کاروباری اور کروڑ پتی ہیں۔ ع
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ابا کےعلاوہ صرف تین بھائی دریا عبور کر پائے۔ دو بڑے رضا محمد اور اِسحٰق اور ایک چھوٹے علی محمد۔ دو بھائی، دادی اور پردادا دَریا میں بہہ گئے۔ میری پھوپھی بھی دریا پار کرنے میں کامیاب رہیں۔ مردوں کے لاچے اور دھوتیاں بھی پانی بہا کر لے گیا۔ پاؤں میں جوتے تک نہ تھے۔ یہ بےحال اور زخموں سے چُور قافلہ پیدل چلتا ہوا پسرور پہنچ گیا۔ وہاں ایک گاؤں میں پناہ لی اور کھیتوں کے بیچوں بیچ پڑاؤ ڈال لیا۔
میری پھوپھی اللہ رکھی نے مجھے بتایا کہ اگلے دن صبح بیدار ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں، تمہارے تایا اسحٰق جو دریا میں ڈوبنے سے بچ گئے تھے، اُنھیں کوئی ظالم قتل کر کے لاش درخت سے لٹکا گیا تھا۔ میرے دادا اَبھی دو جوان بیٹوں کی موت نہیں بھولے تھے کہ تیسرے بیٹے کی لاش بھی سامنے لٹک رہی تھی۔ آنکھوں سے خون کے آنسو بہنے لگے۔ تایا اسحٰق کو اُسی گاؤں میں دفن کیا اور آنسو بہاتا یہ مجبور قافلہ آگے بڑھا اور سیالکوٹ پہنچ گیا جہاں میرے دادا غم و رَنج کی تاب نہ لا کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اب پیچھے تین بھائی اور ایک بہن بچ گئے تھے۔ میرے تایا رضا محمد نے اپنے دونوں بھائیوں اور چھوٹی بہن کو ساتھ لیا اور سیالکوٹ سے بھوپال والہ میں آن بسے۔
ددھیال کی زمینیں جائیدادیں آج تک نہیں مل سکیں۔ آج جو کچھ حاصل ہے، اپنی محنت و کوشش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی تعمیر میں میرے خاندان کا جو حصّہ تھا، وہ مَیں نے کسی قدر آپ کے سامنے رکھ دیا۔
(مصنّف گورنمنٹ کالج سمبڑیال میں اردو لیکچرار ہیں۔)