موبائل فون ایجاد ہوئے 39 برس بیت چکے۔ شروعات میں تو موبائل صرف کسی سے بات چیت کرنے یا پیغام بھیجنے کی حد تک استعمال ہوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس سے کمپیوٹر کے کام بھی کرائے جانے لگے ۔ ایپل نامی کمپنی نے 2007 میں ’’آئی فون ‘‘ نکالا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی کیونکہ وہ کمیونیکیشن کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ استعمال کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ تقریبا 15سال پہلے کی بات ہے اور آج 46فیصد سے زائد لوگوں کے پاس سمارٹ فون ہیں یعنی ایسے فون جو پہلی نسل کے کمپیوٹر سے بڑھ کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
موبائل فون کے بہت سے فوائد ہیں، آپ نہ صرف اپنے سے ہزاروں میل دور کسی سے رابطہ کر سکتے ہیں بلکہ وڈیو کال کے ذریعے اس کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چند بٹن دبانے یا موبائل کی سکرین پر انگلیاں گھسانے سے چند لمحوں ہی میں دنیا جہان کی معلومات آپ کے ہاتھ میں موجود چھوٹے سے فون میں آ جاتی ہیں۔اس سے طالب علموں کو پڑھائی میں مدد ملتی ہے، بڑے اس پر خبریں سنتے ہیں، بچے اس پر گیم کھیل سکتے ہیں اور عورتیں کھانا بنانا سیکھ سکتی ہیں۔ اب کتاب، ٹی وی، خط اور کیلکولیٹر وغیرہ کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہ سارےکام اکیلا سمارٹ فون ہی کر لیتا ہے۔
دوسری طرف بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ موبائل فون ایک رحمت ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ لوگ اپنے موبائل فون پر بہت وقت ضائع کرتے ہیں۔ لوگ اپنے پاس بیٹھے دوستوں یا مہمانوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل فون استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثر اوقات گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے وقت فون استعمال کرنا جان لیوا حادثات کا باعث بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ لوگ بالخصوص نوجوان موبائل فون کا غلط استعمال کر تے ہوئے ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو ان کی سوچ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ موبائل فون دراصل ایک نشہ بن چکا ہے جو ہماری نوجوان نسل کے لیے دیگر منشیات کی طرح ہی مہلک ہے۔ سمارٹ فون پر ایسی ایسی ایپلی کیشنز اورگیمز بآسانی دستیاب ہیں جو بچوں اور نوجوانوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ ایسی گیمز بچوں کے اندر متشدد رویوں کو جنم دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ لائکس حاصل کرنے اور سب سے منفرد دکھنے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ اکثر اوقات نہایت بھیانک نکلتا ہے۔
ایک طرف موبائل فون کے فوائد ہیں تو دوسری طرف نقصانات،لیکن ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ کورونا کی صورتحال میں سمارٹ فون ہی وہ نعمت تھی جس کی بدولت طلبا اپنی تعلیم کا سلسہ جاری رکھ سکے، رشتہ دار آپس میں جڑے رہے اور بہت سے لوگوں کی نوکریاں اس کی بدولت بچ گئیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ اس موبائل فون کے غلط استعمال کی وجہ سے خودکشیاں ہوئیں، معصوموں کو ستایا گیا اوررشتے جوڑے رکھنے کے ساتھ ساتھ موبائل فون کا غلط استعمال کئی رشتے توڑنے کا باعث بھی بنا۔
اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتاہے کہ جس شخص نے موبائل کے مثبت اثرات سے فائدہ اٹھایا، اسے خوب فائدہ ملا لیکن جو اس کا غلط استعمال کرتا رہا وہ نقصان میں رہا۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس کے تمام منفی پہلوں سے بچے کیونکہ موبائل کا درست یا غلط استعمال انسان کےاپنے ہاتھ میں ہے۔ موبائل مکمل طور پر رحمت یا زحمت نہیں البتہ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم اس کا کیسا استعمال کرتے ہیں۔
-Ameer Hamza, Youth Correspondent, Urdu Digest