فلسطینیوں پہ ہوتا ظلم وستم دیکھ کر نہ صرف ارون بوشنل تلملا اٹھا بلکہ خودسوزی
جیسا انتہائی قدم اٹھا کے سبھی امریکیوں کو جھنجوڑ دیا
پچیس شالہ ارون بوشنل سافٹ وئیر انجینرئنگ میں گریجویشن کر رہا تھا۔ساتھ ساتھ وہ امریکی فضائیہ کے سائبرسیکورٹی ڈویژن سے بھی وابستہ تھا۔ایک خوشحال اور خوشیوں بھرا مستقبل اس کا منتظر تھا۔مگر ۲۵ فروری ۲۴ءکی دوپہر اس امریکی جوان رعنا نے خودسوزی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ کیا اس نے یہ انتہائی عمل ذاتی مفاد کے لیے اختیار کیا یا کوئی اور بات تھی؟
ارون امریکی شہر، اورلینز میں پلا بڑھا۔وہ ایک عیسائی فرقے، کمیونٹی آف جیوزیز سے تعلق رکھتا تھا۔تاہم ۲۰۱۹ءمیں ارون نے فرقے کو خیرباد کہہ دیا۔اگلے سال وہ امریکی فضائیہ سے منسلک کر ملازمت کرنے لگا۔اس کے دوست احباب بتاتے ہیں کہ وہ لیفٹسٹ نظریات رکھتا تھا۔اس کی نظر میں جدید انسانوں نے مذہب کو تقسیم و استحصال کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
امریکی فضائیہ میں بھرتی ہو کر ارون سماجی خدمات بھی انجام دینے لگا۔وہ ان تنظیموں میں سرگرم ہوا جو بے یارومددگار انسانوں کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔اس کے احباب بتاتے ہیں کہ شروع میں ارون شرمیلا تھا۔رفتہ رفتہ وہ فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔
اکتوبر ۲۴ءکے پہلے ہفتے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین لڑائی چھڑ گئی۔بعد میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی شہریوں کو جس وحشیانہ اور ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنایا ، اس پہ ارون بہت پریشان ہوا۔اس کا ضمیر اسے کچوکے دینے لگا کہ وہ فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔یوں ارون کے دل ودماغ میں نیکی و بدی اور اچھائی و برائی کی ازلی جنگ چھڑ گئی۔
دنیا کے ہر انسان میں درحقیقت اندرونی طور پہ نیکی وبدی کے مابین کشمکش جاری رہتی ہے۔بیشتر اس جاری لڑائی سے متاثر نہیں ہوتے، مگر حساس انسانوں کے جذبات و احساسات پر یہ دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے۔اور جب وہ خاص طور پہ بدی کا غلبہ برداشت نہ کر پائیں تو اس کے خلاف انتہائی قدم اٹھا کر اپنی طاقت و احتجاج کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ ارون بوشنل کے ساتھ بھی پیش آیا۔
وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا میں دیکھتا اور اخبارات میں پڑھتا تھا کہ اسرائیلی بم ، میزائیل اور راکٹ اسپتالوں، اسکولوں، کیمونٹی سینٹروں، پارکوں اور گلیوں سڑکوں میں شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان تمیز کیے بغیر اہل فلسطین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اور عالمی برادری دم سادھے فلسطینیوں کا یہ قتل عام دیکھ رہی ہے، اسرائیلی حکومت کی راہ روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتی۔ارون نے یہ بھی دیکھا کہ امریکا کا حکمران طبقہ اسرائیل کو بھرپور امداد دیے رہا ہے اور اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔اسی صورت حال نے حساس وباضمیر امریکی نوجوان کو ازحد متوحش و پریشان کر دیا۔
ارون کو آخر امریکی فوج کا حصہ ہونے اور امریکی باشندہ ہونے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ظاہر ہے، وہ تن تنہا اسرائیل اور اپنی ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔تبھی اس نے خودسوزی کرنے کا سوچا تاکہ اس انتہائی عمل سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکے۔
خوسوزی کا عمل
خود کو آگ لگانا انتہائی دل گردے اور دلیری کا کام ہے۔یہ عمل صرف وہی انسان انجام دے سکتے ہیں جن کی دماغی حالت درست نہ ہو یا پھر وہ کوئی آدرش و اعلی نظریہ رکھتے ہوں۔ارون کے سبھی احباب کہتے ہیں کہ وہ نفسیاتی مریض نہیں تھا۔گویا ارون نے خودسوزی کا عمل اس لیے اپنایا تاکہ اپنے انسانیت نواز اعلی نظریات کا بول بال کر سکے اور ان طاقتوں کو آئینہ دکھائے جو اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر اخلاقیات، قانون وانصاف اور انسانی حقوق کو پیروں تلے کچل ڈالتی ہیں۔کوئی ذاتی مفاد امریکی نوجوان کے پیش نظر نہیں تھا۔
ارون اپنے احباب کو بتاتا رہتا تھا کہ اسرائیل ایک ”نوآبادیاتی، استحصالی، آبادکار ریاست“ (settler colonialist apartheid state)ہے۔اور یہ کہ اسرائیل میں تقریباً ہر شہری فلسطینیوں پہ ظلم وستم کرنے میں ملوث ہے۔ارون کے سبھی ملنے جلنے والے جانتے تھے کہ وہ اہل فلسطین سے ہمدردی رکھتا ہے۔
ارون بوشنل نے ۲۵ فروری کو خودسوزی کرنے سے قبل ایک وصیت لکھی کہ اس کی بچتیں فلسطینی بچوں کی مدد کرنے والی تنظیموں کو دی جائے۔نیز اس کی بلی، شوگر کی دیکھ بھال پڑوسی کرتا رہے۔اسی دن صبح گیارہ بجے ارون نے فیس بک پہ یہ میسج پوسٹ کیا:
”بہت سے لوگ (امریکی )خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہم غلامی کے دور میں زندہ ہوتے تو کیا کرتے؟یا اگر وہ (غلاموں کے سوداگروں سے لڑنے والے مشہور سفید فام رہنما)جم کرو کا ساتھی ہوتے؟یا کسی اپارتیھڈ ریاست میں رہ رہے ہوتے؟میرا ملک خودکشی کر رہا ہے تو ایسی صورت میں، میں کیا عمل اختیار کروں؟اس کا جواب یہ ہے جو اب میں کرنے والا ہوں۔“
ارون نے خودسوزی سے قبل بعض میڈیا کمپنیوں سے بھی رابطہ کیا اور انھیں یہ پیغام بھجوایا: آج میں اہل فلسطین کی نسل کشی کے خلاف انتہائی قسم کا احتجاج کرنے والا ہوں۔“
ارون بوشنل امریکی فضائیہ کی مکمل وردی پہنے پچیس فروری کی دوپہر تقریباً ایک بجے اپنے دارالحکومت ، واشنگٹن ڈی سی میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے پہنچ گیا۔وہ اس کے سامنے خود کو آگ لگا کر اہل دنیا کا خوابیدہ ضمیر جھنجوڑ دینا چاہتا تھا۔
سفارت خانے پہنچنے سے قبل ارون نے سوشل میڈیا ویب سائٹ، ٹوئچ پر ”LillyAnarKitty“کے نام سے ایک اکاؤنٹ بنایا تھا۔اس اکاؤنٹ کی پروفائل میں فلسطین کا جھنڈا لگایا جس پہ درج تھا: فلسطین کو آزدی دو۔ارون اس اکاؤنٹ سے سفارت خانے کے سامنے لائیو سٹریمنگ یعنی زندہ نشریات پیش کرنے لگا۔سفارت خانے کے دروازے کی سمت بڑھتے ہوئے اس نے کہا:
”میں امریکی فضائی فوج کا حاضر سپاہی ہوں۔اور میں کسی صورت (اہل فلسطین کی جاری )نسل کشی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔میں اب احتجاج کا انتہائی عمل اپنانے والا ہوں۔لیکن فلسطین میں لوگ نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں جو ظلم وستم سہہ رہے ہیں، اس کے مقابلے میں یہ عمل بالکل بھی انتہائی نہیں۔مگر ہمارے حکمران طبقے نے اسے نارمل بات بنا ڈالا ہے۔“
اسرائیلی سفارت خانے کے مرکزی گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر ارون نے خود پہ کوئی مائع چھڑکا اور پھر اسے آگ لگا دی۔چشم زدن میں وہ شعلوں میں گھر گیا۔آگ میں جلتے ہوئے ارون مسلسل ”فری فلسطین، فری فلسطین “کے نعرے لگاتا رہا۔آخر شدید درد و تکلیف کے مارے وہ بے ہوش ہو کر زمین پہ گر گیا۔
کچھ دیر بعد سیکورٹی افسروں نے آتش فرو آلات کی مدد سے ارون کو لگی آگ بھجا دی۔اسے جلنے والے افراد کے لیے مخصوص اسپتال لے جایا گیا۔تاہم وہ اپنے زخموں سے جانبر نہ ہو سکا اور خودسوزی کے سات گھنٹے بعد فانی دنیا سے رخصت ہو گیا۔
یہ تعجب خیز بات ہے کہ کسی نے ارون کو خود سوزی سے روکنے کی کوشش نہ کی۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ یہ کوئی جذباتی نوجوان ہے۔ تھوڑی بہت آگ لگا اور اپنے دل کی بھڑاس نکال کر چلا جائے گا۔مگر ارون تو نہایت سنجیدہ تھا اور اس نے جو کہا، اس پہ عمل کر دکھایا۔
’’نفسیاتی مریض‘‘
حسب روایت امریکی حکومت نے ارون بوشنل کو ”نفسیاتی مریض “قرار دیا جس کے دماغ میں خلل تھا۔اسی لیے اس نے خودسوزی جیسا غیرمعمولی اقدام کر ڈالا۔مگر ارون کے دوست احباب نے اس امر کی تردید کی کہ وہ ڈپریشن زدہ تھا۔سچ یہ ہے کہ اس امریکی نوجوان نے کامل ہوش وحواس میں خود سوزی کی تاکہ دنیا والوں کو اہل فلسطین کے دکھ درد کا احساس ہو سکے۔ارون نے مجبور و مقہور فلسطینیوں کی تکلیف واذیت محسوس اور ان سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ان کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔
اس واقعے کے ردعمل میں بائیڈن انتظامیہ نے پینٹاگون کی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اور یہ کہ “اسرائیل کے اپنے دفاع کے موروثی حق کے لیے امریکا کی حمایت آہنی ہے۔
خود سوزی کے بعد ارون کو مصری نژاد امریکی سماجی رہنما، آیا حجازی کے ساتھ ساتھ امریکی صدارتی الیکشن میں یونائیٹڈ اسٹیٹس گرین پارٹی کے امیدوار جِل اسٹین اور مشہور امریکی فلسفی، کارنل ویسٹ جیسے اہم لیڈروں نے سراہا تھا۔سوشلسٹ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ” یہ ایک خوفناک سانحہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ امریکا میں بہت سے لوگ غزہ میں جنم لینے والے خوفناک انسانی المیّوں کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں۔ اور میں ان گہرے خدشات میں شریک ہوں۔”
۲۶فروری ۲۰۲۴ کو اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے ارون بوشنل کی یاد میں ایک پُروقار تقریب منعقد کی گئی۔ اس میں ایک سو سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ دیگر امریکی شہروں میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ان کا اہتمام جنگ مخالف گروپ کوڈ پنک نے کیا تھا۔ ۲۸فروری کو پورٹ لینڈ، اوریگون میں وائٹ فیڈرل بلڈنگ کے باہر،امریکی جنگ مخالف تنظیم ،اباؤٹ فیس ( About Face: Veterans Against the War) کے زیراہتمام ایک تعزیتی تقریب ہوئی۔اس میں متعدد سابق فوجیوں نے قطار میں کھڑے ہو کر اپنے فوجی لباس کو ایک بینر کے سامنے جلایا جس پہ درج تھا: “سابق فوجی کہتے ہیں: آزاد فلسطین! ارون بوشنل کو یاد رکھیں”۔
امریکی کو ہلا ڈالا
مجاہدین فلسطین کی تنظیم، حماس نے اس عمل کی تعریف کی اور بوشنل کے دوستوں اور اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں اعلان کیا “ارون نے انسانی اقدار کا محافظ ہونے کی حیثیت سے اپنا نام تاریخ ِ انسانی میں امر کر دیا۔ مرحوم نے اپنی جان دے کر دنیا والوں کے سامنے امریکی حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کو بھی نمایاں کیا جن کے باعث مصائب کا شکار فلسطینی عوام پر ظلم و ستم ہو رہا ہے۔پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین نے بھی بوشنل کے اعزاز میں ایک بیان جاری کیا اور اس کے عمل کو “سب سے بڑی قربانی” قرار دیا ۔ فلسطینی سماجی رہنما محمد الکرد نے کہا:”ارون کی خودسوزی کے بعد دنیا بھر کی ان حکومتوں کو خواب ِغفلت سے جاگ جانا چاہیے جو خاموشی سے اسرائیلی حکومت کو اہل فلسطین کا قتل عام کرتا دیکھ رہی ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے چند گھنٹوں کے بعد پوسٹ کیے گئے دو ٹویٹر بیانات میں بوشنل کے اقدام پر روشنی ڈالی۔ پہلے ٹویٹ میں انھوں نے “غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے مغرب کی توہین آمیز انسانیت دشمن پالیسیوں” کو اجاگر کیا۔ دوسرے میں یہ سچائی بیان کی کہ غزہ میں فلسطینیوں کی ’نسل کشی ‘نے اس امریکی نوجوان کو سر تا پا ہلا ڈالا جس نے مغربی تہذیب و ثقافت میں پرورش پائی تھی۔“
اریحا میں شاہراہ منسوب
ماہ مارچ کے دوسرے ہفتے مغربی کنارے میں واقع فلسطینی شہر، اریحا(Jericho)میں ایک شاہراہ کا نام ارون بوشنل کے نام پہ رکھ دیا گیا۔اس موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں شہر کے معززین شامل تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اریحا کے مئیر، عبدالکریم سدرنے کہا:
”پچیس سالہ امریکی نوجوان نے فلسطینیوں کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ہم اسے نہیں جانتے تھے، اور وہ ہمیں نہیں جانتا تھا۔ ہمارے درمیان کوئی سماجی، معاشی یا سیاسی تعلقات نہیں تھے۔ ہم جو اشتراک رکھتے تھے، وہ آزادی کے لیے محبت اور غزہ پران حملوں کے خلاف کھڑے ہونے کی خواہش تھی۔“
غزہ پر اسرائیلی حملوں سے اب تک اکتیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے۔ان میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ یورپ اور امریکا کی حکومتوں کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔لہذا وہ غزہ میں وسیع پیمانے پر جنگی مہم انجام دینے میں حق بجانب ہے۔لیکن ساتھ ساتھ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے لے کر میڈرڈ اور لندن تک لاکھوں عوام نے فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے کیے جنھوں نے اہل فلسطین کا حوصلہ اور جوش و ولولہ بڑھا دیا اور وہ ازحد متاثر بھی ہوئے۔
اہل فلسطین میںارون کے انتہائی اقدام کو نچلی سطح پر یکجہتی کے سب سے طاقتور اظہار کے طور پر دیکھا گیا ۔ امانی ریان اریحا سٹی کونسل کے رکن ہیں جو غزہ میں پلے بڑھے اور انیس سال کی عمر میں تعلیم حاصل کرنے مقبوضہ مغربی کنارے منتقل ہوئے۔وہ کہتے ہیں”اس نے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کر دی۔ چاہے آپ کے عقائد کچھ بھی ہوں،ارون بوشنل نے غزہ کے بچوں کے لیے اپنی پُرآسائش زندگی، مراعات ، غرض سب کچھ قربان کر دیا۔“
یہ واضح رہے ، امریکا میں حکومت اور اس کے حواری میڈیا نے یہی چرچا کیا : ارون کی خود سوزی کو سیاسی احتجاج کے طور پر یاد کرنے کے بجائے ذہنی بیماری میں مبتلا ایک شخص کا مایوس کن فیصلہ سمجھا جانا چاہیے۔
ریان اس دلیل کو مسترد کرتا اور کہتا ہے: وہ ایک ایسا سپاہی تھا جس نے شدید درد کے باوجود اپنی آخری سانس تک ’آزاد فلسطین‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے وجود کی گہرائیوں میں جانتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔“
ریان کے خاندان کا زیادہ تر حصہ اب بھی غزہ میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے چچا ۲۶ نومبر ۲۰۲۳ کو پچیس دیگر لوگوں کے ساتھ ایک فضائی حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ ماہ فروری میں اس کی بہن اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایک ہسپتال میں بچے کو جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئی۔
ریان نے امریکی فوجی کا موازنہ تیونس کے پھل فروش، محمد بوعزیزی سے کیا۔محمد بوعزیزی ارون سے ایک سال بڑا تھا جب اس نے ۲۰۱۰ ءمیں اسی طرح اپنی جان لے لی۔ اس کی خود سوزی نے پورے مشرق وسطیٰ اور امریکا میں بھی بہت سے انقلابات کو جنم دیا۔اس وقت کے امریکی صدر ،براک اوباما نے اسے خراج تحسین پیش کیا تھا۔ریان کہتا ہے:
“ارون بوشنل ایک بھڑک دار چنگاری روشن کرنا چاہتا تھا، تاکہ ہمارے (اہل فلسطن کے )مقصد کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔”
موت کے وقت ارون بوشنل سول یا شہری زندگی میں واپس آنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس نے امریکی فضائیہ کو جلد چھوڑنے پر بھی غور کیا تاکہ وہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد، خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کے خلاف موقف اختیار کر سکے۔
اریحا نے اس سڑک کا نام ارون بوشنل کی خودسوزی کے صرف پندرہ دن بعد رکھ دیا۔ سدر بتاتے ہیں “ہم نے فوری فیصلہ کیا، اس لیے ہمیں اولیّت مل گئی ۔” مئیر نے شہر میں ایک چوک کا نام بھی ”جنوبی افریقہ“ رکھا ہے۔اسی ملک کی حکومت اسرائیل پہ اہل فلسطین کی نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے اسے بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گئی۔
سدر نے مذید کہا “یہ نام مقامی لوگوں اور زائرین ،دونوں کو ان کے کارنامے یاد دلاتے رہیں گے۔ مئیر کا کہنا تھا کہ وہ اس مثال کی پیروی کر رہے ہیں جوامریکی سماجی کارکن، ریچل کوری(Rachel Corrie) کی موت کے بعد شروع ہوئی۔ ۲۰۰۳ ءمیں غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے گھر تباہ کرنے سے روکنے کی کوشش کے دوران ریچل کوری بلڈوزر کے نیچے کچل کر ہلاک ہو گئی تھی۔بعد ازاں رام اللہ کی ایک گلی کا نام مقتول کے نام پہ رکھا گیا تھا۔
اریحا ایک تاریخی شہر ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے نزدیک یہ دنیا کا پہلا شہر ہے جس کے گرد دفاعی دیوار تعمیر کی گئی۔ اس کو اکثر ’فلسطین کے دروازے‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے رہنما یاسر عرفات جب اوسلو معاہدے کے بعد کئی دہائیوں کی جلاوطنی ختم کر کے فلسطین واپس آئے تو اسی شہر کے ٹاو ¿ن ہال کی بالکونی میں نمودار ہوئے۔
ارون بوشنل کے نام والی سڑک شہر کے جنوب میں ولا اور پارکوں کے ایک مشہور علاقے میں واقع ہے جہاں لوگ گھوڑے کی سواری کرنے اور گاڑی چلانے جاتے ہیں۔ اس کی شاخ محمود درویش اسٹریٹ سے نکلتی ہے جس کا نام فلسطین کے غیر سرکاری قومی شاعر کے نام پر رکھا گیا۔
ریان کہتے ہیں”یہ وہ مقام ہے جہاں ارون بوشنل اور محمود درویش ملتے ہیں۔ دونوں فلسطینی داستان ِ جدوجہد وعزیمت کے طاقتور نام ہیں۔ اریحا میں بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی امید کرتے ہیں کہ بوشنل کا خاندان ان سے ملاقات کرے گا۔ ہم اس کی پرورش کرنے اور اسے بے مثال اخلاقی رویّہ دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
سید عاصم محمود