[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_blurb _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” header_level=”h1″ body_font=”noori-nastaleq||||||||” body_font_size=”22px” hover_enabled=”0″ body_text_align=”right” body_line_height=”1.5em” sticky_enabled=”0″ content_max_width=”823px”]
نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان جناب عمران خان اور مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے قیامِ امن کے حوالے سے اہم نکات بیان کیے ہیں جو پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی دنیا میں بھی موضوعِ گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب میں بڑی وسعت اور جدتِ خیال نظر آئی کہ اُنھوں نے قومی سلامتی کے تصور میں بڑی جامعیت پیدا کر دی ہے جو گہرے تاریخی شعور کی آئینہ دار ہے۔ اُن کے خطاب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب تک ہم اپنا گھر درست نہیں کریں گے، باہر سے بہتری نہیں آئے گی۔ اُنھوں نے اِس اہم حقیقت کی بھی نشان دہی کی کہ پاک، بھارت محاذآرائی اور برسوں پر محیط کشیدگی علاقائی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اِسی کے باعث یہ خطہ معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہے۔ اِس بنا پر ہمیں ماضی کی تلخیاں دفن کر کے امن و آشتی اور باہمی مذاکرات کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اِس مقصد کے لیے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلۂ کشمیر کا آبرومندانہ حل پر اتفاق ضروری ہے۔ پاکستانی سپہ سالار نے اپنے خطاب میں پوری دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان امن کا خواہش مند ہے، بامقصد مذاکرات کے لیے ہر آن تیار ہے اور عالمی برادری پر لازم آتا ہے کہ وہ اِس عمل کی تکمیل میں اپنا کردار اَدا کرے۔
بلاشبہ پاکستان کے آرمی چیف کے اِس مدبرانہ خطاب کو عالمی حلقوں میں خاطر خواہ پزیرائی مل رہی ہے اور اَہم دارالحکومتوں میں اِس کے مندرجات پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لیے بعض ممالک سرگرم بھی ہو گئے ہیں۔ خود بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پہلی بار قدرے اچھا ردِّعمل سامنے آیا ہے۔ بھارتی معروف اخبار ’دی ہندو‘ نے بھارتی وزیرِخارجہ کا عندیہ نقل کیا ہے کہ بھارت پاکستان سے تمام تنازعات پر گفت و شنید کے لیے تیار ہے۔ امریکی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ جنرل باجوہ کے خطاب سے بھارت کی فوجی قیادت کا لب و لہجہ تبدیل ہوا ہے۔ ہمیں بھی اپنے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہونے والا ہے اور اِس بار اِن مذاکرات میں کشمیری قیادت بھی شامل کی جائے گی اور تنازع کا ایک قابلِ قبول حل بھی نکل سکتا ہے۔ اِنھی دنوں خبر آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی سفارتی کوششوں سے کشمیر میں حالیہ سیزفائر کا اعلان ہوا ہے، حالانکہ سالہاسال سے بھارت کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کرتا آ رہا تھا جن سے کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے لگا تھا۔ بھارتی جنگی طیارے پاکستان کی حدود میں گھس آئے تھے جن کو پاکستانی شاہینوں نے مار گرایا تھا۔ اب امارات ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جلد کشمیر کے پائیدار حل کا روڈ میپ تیار ہو جائے گا، پنجاب سرحدوں سے دونوں ملکوں کے مابین تجارت کے دروازے کھل جائیں گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے زیرِاہتمام یہ دونوں ملک انسدادِ دَہشت گردی کی مشقوں میں بھی حصّہ لیں گے۔ پہلی بار مودی نے یومِ پاکستان پر وزیرِ اعظم پاکستان کو مبارک باد بھی دی۔
تمام امن پسند اور جمہوری طاقتیں اِن خوش آئند امکانات کا خیرمقدم کریں گی، مگر اُنھیں خوش فہمی سے زیادہ حقیقت پسندی سے کام لینا ہو گا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ روابط معمول کے مطابق قائم رکھنے اور غیرضروری تصادم سے بچنے کی شعوری کوشش کی جبکہ فوجی حکمران طاقت کے زعم یا کم نگاہی کے باعث وطن کو جنگ کی دلدل میں دھکیلتے رہے ہیں۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگیں فوجی حکومتوں کے زمانے میں لڑی گئیں جن سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ہماری یادداشت میں ۲۰۱۵ء کا سال بھی محفوظ ہے جب عوام کے منتخب وزیرِاعظم جناب نوازشریف نے اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور عمدہ سفارت کاری کے ذریعے نریندر مودی کے ساتھ بظاہر دوستانہ تعلقات بھی قائم کر لیے تھے، لیکن کم نگاہی کی اسیر غیرسیاسی قیادتوں نے اُن مخلصانہ کوششوں پر ملک سے غداری کا لیبل چسپاں کر دیا اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیرِاعظم کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ بعدازاں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر اُمورِحکمرانی سے بےخبر کرکٹ کے کھلاڑی کو مسندِاقتدار پر بٹھا دیا جس نے ڈھائی سال کی قلیل مدت میں قومی معیشت کا جنازہ نکال ڈالا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی عظمت یہ ہے کہ اُنھیں حقیقت حال کا احساس چھے سال بعد ہو گیا ہے اور اُنھوں نے کسی تامل کے بغیر وہی بات پورے یقین کے ساتھ دہرائی ہے جو وزیرِاعظم نوازشریف نے کمال دانائی سے بیان کی تھی کہ پہلے اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وقت پر گھر درست کر لیا جاتا، تو پاکستان بہت ساری بلاؤں سے محفوظ رہ جاتا۔ اب تو آئی ایم ایف نے ہمارا گلا دبا رکھا ہے اور پاکستان کا مرکزی بینک غیروں کے ہاتھ گروی رکھا جا رہا ہے۔ دُکھ یہ ہے کہ اب تعمیر کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ کشمیر بھارت نے ہڑپ کر لیا ہے اور چین کے گرد گھیرا ڈالنے کے لیے وہ امریکی وسائل سے پوری طرح فیض یاب ہو رہا ہے۔ تازہ ترین عالمی رپورٹ کے مطابق اُس کی شرح نمو گیارہ فی صد تک پہنچ گئی ہے جبکہ ہماری شرح نمو ۵.۴ فی صد ہے۔ پاکستان کے اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نےImplosion 2025 (۲۰۲۵ دھماکا) کے عنوان سے کالم لکھا ہے جس میں یہ خوفناک حقیقت بیان کی ہے کہ ۲۰۲۵ء میں فوج کے جملہ اخراجات بیرونی امداد سے پورے کیے جائیں گے، کیونکہ ایف بی آر کے محصولات دفاعی اخراجات کے لیے دستیاب ہی نہیں ہوں گے۔ حکومت کی رِٹ ختم ہو جانے سے کورونا وائرس قابو میں نہیں آ رہا۔ ہمارے وزیرِاعظم اور اُن کی اہلیہ بھی اِس مرض کا شکار ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں جلد سے جلد شفایاب فرمائے
[/et_pb_blurb][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]