[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”20px”]
ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو خود سے بہتر دیکھنے کا حوصلہ کئی مردوں میں نہیں۔ پاکباز، باحیا اور شکرگزار بیوی بھی انھیں پاؤں کی جوتی ہی لگتی ہے… یا اُن کے اندر کا احساسِ کمتری اور جھوٹی انا انھیں سچ قبول کرنے نہیں دیتی۔
’’اب تم تو بند کرو یہ ڈراما… سارا دن ہو گیا۔ پورے خاندان کے سامنے نمونہ بنا بیٹھا ہوں۔ کبھی یہ کپڑے پہنو، پھر سارے خاندان کے سامنے نائی نہلانے کی رسم پوری کرے گا۔ پھر سہرا باندھو…اللہ اللہ کر کے اُن جھمیلوں سے جان چھوٹی تو اب تُو سامنے بندریا بنی بیٹھی ہے۔ چل جا اُٹھ کر منہ دھو۔ ڈھنگ کے کپڑے پہن۔ اتنی گرمی میں اتنے نخرے اور رسمیں۔‘‘
غلام محمد جھلسا دینے والی گرمی میں پھول پتیوں سے سجے کمرے اور سیج پر بیٹھی نسیم کو دیکھ کر بُری طرح چڑ گیا تھا۔
’’اچھا جی‘‘… نسیم جو پچھلے دو گھنٹے سے اِس حبس زدہ کمرے میں لال جوڑا پہنے اور اپنی ساس کی زیرِ ہدایت پورا گھونگھٹ نکالے پسینے میں شرابور بیٹھی تھی، سہم گئی۔ خوف کے مارے اس نے اپنا گھونگھٹ اُٹھا کر پلنگ سے اُترنے کی کوشش کی۔ سامنے ہی غلام محمد ہاروں کے ڈھیر سے لدا، لال گوٹے والا ڈوپٹا کندھوں پر اوڑھے غصّے میں بھرا کھڑا تھا۔ گرمی، تھکن، پسینے اور کوفت نے اُسے چڑچڑا بنا دیا تھا مگر نسیم کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں اَب غصے کے ساتھ ساتھ شدید حیرت بھی اُتر آئی۔ سامنے سنگھار میز کے شیشے میں نسیم نے اپنی صورت دیکھی تو پہلے خود اس کی اپنی چیخ ہی نکل گئی۔ پسینے اور آنسوؤں نے اس کے چہرے کو خوفناک حد تک کالا کر دیا تھا۔ سرخ جوڑے میں سے جھانکتا وہ سیاہ کالا چہرہ واقعی ہیبت ناک لگ رہا تھا۔ رہی سہی کسر نتھ اور ٹیکے کے بڑے اور بے ڈھنگے سائز نے پوری کر دی تھی۔ اِس حیرت کے جھٹکے کے بعد دونوں دلہا دلہن ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر ہنس پڑے۔ دونوں ہی کارٹون لگ رہے تھے۔ ان دونوں کے درمیان موجود تناؤ وقتی طور پر ہی سہی مگر کافی حد تک ختم ہو گیا۔
نسیم اور غلام محمد کی شادی شدید گرمی اور جاتے ساون کے حبس میں دونوں کے بڑوں نے بہت جھگڑوں کے بعد طے کی تھی۔ دونوں آپس میں ماموں پھوپھی زاد تھے۔ غلام محمد نسیم کی پھوپھی امّاں کا اکلوتا سپوت تھا۔ غلام محمد سے بڑی تین بیٹیوں کو بیاہنے کے چکر میں اِس لاڈلے کی عمر پینتیس سال سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔ نسیم کی خوبصورتی کی وجہ سے پھوپھی امّاں نے یہ رشتہ بہت عرصے سے مانگ رکھا تھا۔ نسیم بمشکل سولہ برس کی ہوئی تھی اور اب اس کے آٹھویں جماعت میں فیل ہونے پر یہ شادی ہو رہی تھی۔ اگر نسیم آٹھویں جماعت پاس کر جاتی تو شادی دو سال بعد ہوتی مگر غلام محمد کی ماں اور بہنوں کی دن رات کی دعائیں رنگ لائیں۔ باقی پرچے تو ٹھیک ہوئے مگر وہ صرف حساب میں پانچ نمبروں سے فیل ہو گئی۔ اِس ناکامی کا نتیجہ اِس سڑی حبس زدہ گرمی میں شادی کی صورت نکلا۔
معمولی شکل صورت والے غلام محمد نے پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان گھر کے قریب ہی کھول رکھی تھی۔ ایک ساڑھے تین مرلے کا مکان بھی اُسے باپ کے مرنے کے بعد ملا تھا۔ دکان ہی اس کی آمدن کا واحد ذریعہ تھی۔ سو بہت مشکل سے اُس نے شادی کے دنوں میں دو دن کے لیے اُسے بند کیا تھا۔ اگلے روز ولیمہ تھا۔ دوپہر تک دعوت ولیمہ سے فارغ ہو کر اُس نے دکان پھر سے کھول لی۔
نسیم کو اس کی اوقات کا احساس پہلے ہی روز دلا دیا گیا۔ اس کا حسن، کم عمری اور تعلیم اپنے باپ کے گھر یقیناً اہم ہوں گے مگر یہاں غلام محمد کی ساری محبت، اہمیت اور توجہ اپنی ذات اور پھر کاروبار پر تھی۔ پھوپھی امّاں کا یہ ایک ہی بیٹا تھا۔ لہٰذا بہو گھر پر حاوی ہو جائے، یہ ان سے ہرگز برداشت نہ ہوتا۔ سولہ سترہ سالہ نسیم کو بیک وقت دو محاذوں کا سامنا تھا۔ جہاں اس کی کم عمری، ناتجربہ کاری اور بے تحاشا حسن سب سے بڑی کمزوری تھی۔ غلام محمد کے گھر کی روٹین لگی بندھی تھی۔ وہ صبح سویرے منہ اندھیرے اپنی دکان کھولتا۔ دہی اور انڈے اس وقت خوب بِکتے۔ نو دس بجے وہ ناشتا کرنے گھر آتا۔ نسیم گھر صاف ستھرا کر کے چمکا چکی ہوتی۔ اس وقت ناشتا کیا جاتا جس میں کچھ نقص نکالنا پھوپھی امّاں اپنا فرض سمجھتیں۔
’’نسیم! روٹی موٹی پکائی ہے۔ غلام محمد کے لیے بَل والے پراٹھے بنانا۔ آج چائے پتلی ہے۔ کل ہی انڈہ بنایا تھا، آج دہی منگوا لیتی‘‘۔ رہی سہی کسر غلام محمد پوری کر دیتا۔ پھوپھی امّاں لاکھ اعتراضات کے باوجود نسیم کے ہاتھ کا بنا ناشتا رغبت سے کھا لیتیں۔ بقول نسیم کی ماں کے، ’’تیری پھوپھی زبان کی کڑوی ہے مگر دل کی اچھی ہے‘‘ مگر غلام تو زبان کا کڑوا ہونے کے ساتھ ساتھ دل کا بھی بہت سخت تھا۔ بچپن سے ہی اس نے تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہونے کا بہت فائدہ اُٹھایا اور اب رعب اور غصّہ اس کی فطرت کا حصّہ بن چکے تھے۔
نسیم فی الحال گھریلو کاموں میں بہت طاق نہیں تھی۔ اس نے تو بس اسکول میں خوب دل لگا کر پڑھا اور قرآن پاک کی قرأت بہت محنت سے سیکھی تھی۔ سو ان چولھے ہانڈی کے کاموں میں وہ گھبرا جاتی۔ نسیم کی خوبصورتی غلام محمد کے غصّے کو مزید بھڑکا دیتی اور اس کا احساسِ کمتری عود کر آتا۔ غلام محمد کے غصّے کی وجہ سے وہ شادی کے ابتدائی دنوں میں بھی سنگھار نہ کر سکی لیکن وہ اپنے سفید رنگ اور قدرتی گلابی گالوںکا کیا کرتی جو سادہ پانی سے بھی دھل کر نکھر اُٹھتے۔ سادہ کپڑوں اور سیدھی چٹیا میں بھی وہ سب نندوں کے درمیان بیٹھی مور پری لگتی۔ سو صبح صبح غلام محمد اُسے دیکھ کر چڑ جاتا۔ کبھی پراٹھوں پر اعتراض ہوتا تو کبھی سالن پر… برتن روز پٹخے جاتے۔ شروع کی ڈانٹ ڈپٹ میں رفتہ رفتہ مارپیٹ بھی شامل ہونے لگی تھی۔
آس پاس محلّے کی عورتوں نے نسیم کی خوبصورت قرأت کئی بار سنی تھی۔ انھوں نے پھوپھی امّاں سے اصرار شروع کیا کہ نسیم کو ہماری بچیوں کو قرآن پڑھانے کی اجازت دے دیں۔ غلام محمد تو نسیم کے کسی سے ملنے کے بھی حق میں نہ تھا مگر ماں کی سفارش اور قرآن کی تعلیم پر اس کو اجازت دینا ہی پڑی۔
’’دیکھ نسیم! تو قرآن پڑھا دیا کہ مگر میرے دکان پر جانے کے بعد بچیاں آئیں اور میرے آنے سے پہلے جا چکی ہوں‘‘۔ غلام محمد نے شرط لگائی۔
’’ٹھیک ہے۔ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ نسیم پُر جوش انداز میں بولی۔
’’صبح فجر کے بعد بچیاں آیا کریں گی۔ پھوپھی امّاں کے سامنے ہی انھیں سبق دوں گی اور گھنٹا بھر میں سب واپس۔‘‘ نسیمہ بولی۔
’’دیکھ مجھے کوئی شکایت نہیں ملنی چاہیے۔‘‘ اب غلام محمد ذرا سختی سے بولا۔ دراصل نسیم کا خوشی سے کھِلا چہرہ اُسے فکرمند کر رہا تھا۔
’’کسی بچی سے فالتو بات نہ کرنا۔‘‘ اب وہ غرّایا۔
’’معصوم بچیوں نے کون سی فالتو بات کرنی ہے‘‘۔ نسیم سادگی سے بولی۔
’’بس! یہ خاوندوں کے آگے زبان چلانے والی عورتیں ہی جہنمی ہوتی ہیں۔‘‘ نسیم کے جواب نے غلام محمد کے تن بدن میں گویا آگ ہی لگا دی۔ وہ یک طرفہ بولتا رہا اور بہت لمبی تقریر کے بعد اُس نے آخری جملہ یہ کہا۔
خاوندوں کی ناشکری کرنے والی عورتیں سیدھی دوزخ میں جائیں گی۔ اتنی لمبی تقریر سن کر نسیم کی بھوری کانچ سی آنکھیں خوف، حیرت اور دُکھ کے پانیوں سے بھر گئیں۔ اس کی ناک مزید گلابی ہو گئی۔ غلام محمد کے اندر کے کمینے مرد کو عجیب سی تسکین ملی۔ اس کا دل اب اِس ملول زدہ لڑکی کو دیکھ کر مطمئن تھا۔ عمر میں بیس برس کا فرق اور نسیم کی بےنیازی و بےفکری، یہ وہ خوف تھے جو غلام محمد کو دن رات بے چین کیے رکھتے۔
اگلے روز فجر کے بعد جب غلام دکان پر چلا گیا تو محلّے کی مائیں اپنی بچیوں کو قرآن پڑھانے کے لیے لانا شروع ہو گئیں۔ دروازے کے سامنے ہی پھوپھی امّاں اپنی چارپائی بچھا کر بیٹھی تھی۔ ہر عورت پہلے ان سے دعا سلام کرتی اور پھر نسیم کے پاس بچی چھوڑ جاتی۔ زمین پر چٹائیاں بچھا کر جگہ بنا لی گئی تھی۔
ساتھ والی محمد بخش کلرک کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو لائی، تو سامنے والی شریف صاحب کی بیگم اپنی تین پوتیوں کو لیے آ گئیں۔ دو گھر چھوڑ کر رہنے والی باجی طاہرہ بھی اپنی بھانجی کے ساتھ آن پہنچیں۔ شروع میں یہ چھے بچیاں قرآن پڑھنے آنے لگیں۔ نسیم نے نورانی قاعدے سے پڑھانا شروع کیا۔ صبح صبح ان کا صحن بچیوں کی آوازوں سے مہکنے لگتا۔
بچیاں الفاظ کی ادائیگی سے زیادہ توجہ اپنی ایک لَے رکھنے پر دیتیں۔ کبھی کبھی کوئی بچی نیند میں بھی ہوتی تو دوسری بچیاں اس کا مذاق اُڑاتیں۔ نسیم کی تلاوت کلامِ پاک واقعی بہت خوبصورت تھی۔ اکثر مائیں اور دادیاں بھی اس کی تلاوت سننے وہیں بیٹھ جاتیں۔ نسیم قرآن پڑھا کر آخر میں بہت دل سوزی سے دعا مانگتی۔ اس کا مقصد اس طرح بچیوں کو دعائیں یاد کروانا ہوتا۔ روز مائیں بھی اپنی دعائیں اِس دعا میں شامل کر دیتیں۔ وہ سب اِس دعا کے ذریعے ربّ کے ساتھ بھی جڑتی جا رہی تھیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے سے محبت کے رشتے مضبوط ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ عرصے بعد ماؤں کے اصرار پر اب عصر کے بعد بھی نسیم بچیوں کو قرآن پڑھانے لگی۔ یہ بچیاں صبح شام اس کے ساتھ مل کر گھر کے بہت سے کاموں میں مدد بھی کروا دیتیں۔ سبق یاد کرتے کرتے بہت سے کام ہو جایا کرتے۔ اب پھوپھی امّاں کا دل بھی اِس آمدو رفت سے خوش رہتا۔ البتہ ایک غلام محمد تھا جس کے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی کے کوئی آثار نہ تھے۔
نسیم کا پاؤں بھاری ہونا پورے گھر کے لیے خوشی کی خبر ثابت ہوئی۔ پھوپھی امّاں نے پہلے ہی روز نسیم کو دھمکی دے ڈالی کہ بیٹا ہی ہونا چاہیے۔ نسیم کی ماں بھی اس روز بیٹی سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ اُسے یہ دھمکی بہت ناگوار گزری اور اس سے رہا نہ گیا۔
’’آپا خود تو پہلے تین بیٹیاں پیدا کیں چوتھے نمبر پر غلام محمد پیدا ہوا تھا اور میری معصوم بچی کو پہلی بار میں یہ دھمکی…؟‘‘
پھوپھی امّاں بھاوج کے سامنے تو خاموش ہو گئیں مگر رات گئے غلام محمد کی آمد پر خوب دل کی بھڑاس نکالی اور بھاوج کی باتوں کا غصّہ بہو پر خوب اچھی طرح نکالا۔
اِس خوش خبری کا استقبال اِس بھیانک انداز میں ہو گا، یہ نسیم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ آج تو غلام محمد نے تھپڑوں اور گھونسوں کا بھی خوب استعمال کیا اور اِس’ جہنمی عورت‘ کے دوزخی ہونے پر مکمل فتویٰ لگا دیا۔ جس عورت سے اس کا شوہر راضی نہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتی۔
نسیم صفائی دینے کے لیے بولنے کی کوشش کرتی تو نیا فتویٰ لگ جاتا، خاموش رہتی تو الگ۔ غلام محمد کی طویل تقریر اور مار پیٹ کے ختم ہونے تک اس پر اپنےماں باپ کے ساتھ ساتھ تمام بہن بھائیوں سے ملنے پر پابندی لگ چکی تھی۔ بقول غلام محمد ایک بیوی پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا اور شوہر پر اس کی ماں کا ہی ہوتا ہے۔
نسیم کے لیے اِس پہلی خوشخبری کا ایک ایک دن نئے عذاب کی طرح تھا۔ بیٹا پیدا کرنے کی یاد دہانی ہمہ وقت کروائی جا رہی تھی اور بیٹی ہونے کی صورت میں نتائج کی ذمہ دار نسیم ہوتی۔
نسیم کا قرآن پاک پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ دس بارہ سال کی بچیاں نسیم کے ہر ہر دکھ کو سمجھنے لگی تھیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ وہ اپنی اُستانی جی کی کوئی مدد کر سکیں۔ بچیاں صبح سویرے اس کے گھر کی صفائی کر دیتیں۔ برتن دھو کر آٹا گوندھ دیتیں بلکہ ناشتا بھی بنا دیتیں۔ شام والی بچیاں کپڑے دھو کر ڈال دیتیں، کھانے کا انتظام کروا دیتیں۔ شام کے وقت کوئی نہ کوئی بچی اچھی چیز یا مزے کا سالن آنکھ بچا کر نسیم کے کمرے میں رکھ جاتی اور دعاؤں کے رشتے نے تو ان سب کو ایک دوسرے سے جوڑ ہی رکھا تھا۔
اِن نو ماہ میں روز صبح شام سب نے نسیم کے لیے اولادِ نرینہ کی دعا کی۔ اس لیے نہیں کہ ان کی نظر میں بیٹے کی ہی اہمیت تھی، بلکہ اس لیے تاکہ نسیم پر آنے والی متوقع مصیبتوں کو ٹالا جا سکے۔ نسیم نے آدھی راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بیٹا مانگا تھا۔ پورا محلّہ اس کے لیے دعا گو تھا۔ یہ سردیوں کی ایک سرد اور دھند میں لپٹی صبح تھی جب مقامی اسپتال میں نسیم نے ایک بچی کو جنم دیا۔ پھوپھی امّاں اور غلام محمد تو بچی کی ولادت کا سنتے ہی واپس گھر آ گئے۔ پھوپھی امّاں نے مہربانی یہ کی کہ نسیم کی ماں کو فون کر دیا۔ اسپتال کا بل ادا کر کے نسیم کی ماں اُسے اپنے گھر لے گئی۔ چالیس روز نسیم وہیں رہی۔ ننھی بچی بالکل اپنی ماں جیسی تھی۔ پھولوں کی سی کھِلی کھِلی۔ سفید روئی کے گالوں جیسی اور ماں جیسی بھوری کانچ سی آنکھیں۔ نسیم نے اس کا نام عائشہ صدیقہ رکھا۔ اس کے محلے کی عورتیں اور اس کی شاگرد بچیاں بچی کو دیکھنے نسیم کی ماں کے گھر آئیں اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر بچی کو تحائف اور رقوم دیں۔
سوا مہینے بعد پھوپھی امّاں پوتی کو لینے بھائی کے گھر آئیں۔ بھائی کے سامنے نسیم کی ہزار برائیاں اور سب سے بڑا قصور بیٹی پیدا کرنے کو معاف کرتے ہوئے ساتھ لے جانے کی خوشخبری سنا کر گویا ان پر احسان جتانے لگیں۔ کہنے کو تو نسیم کی ماں کو بھی لاکھ گِلے تھے مگر بھائی اپنی بیٹی کا گھر بچانے کے لیے خاموش رہا۔ گلابی کمبل میں لپٹی اِس پیاری سی بچی کو لیے نسیم واپس سسرال آ گئی۔ اس کے حساب میں ایک اور گناہ لکھ لیا گیا تھا اور میکے والوں سے ملنے یا بات کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی تھی۔
غلام محمد ہمیشہ اپنی بہنوں کے بچوں کے خوب چونچلے اُٹھایا کرتا مگر ننھی عائشہ کو دیکھنا بھی اس کی اَنا کے خلاف ٹھہرا۔ نسیم کا اتنے دن میکے رہنا وہ جرم تھا جس کی معافی ممکن نہ تھی اور سب سے بڑا احسان نسیم کو بچی سمیت گھر واپس آنے کی اجازت دینا۔ اپنے تئیں غلام محمد نے بہت اعلیٰ ظرفی دکھائی تھی۔ اس کی دکان اِن دو سالوں میں ڈیپارٹمنٹل اسٹور بن چکی تھی۔ شادی کے بعد سے اس کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔
نسیم کو خرچ کے نام پر الگ سے ایک پیسا بھی دینے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تھی۔ بچی کی پیدائش پر بھی سارا خرچ نسیم کے والدین نے اُٹھایا تھا۔ نسیم کی واپسی پر اس کی ایک شاگردہ نے اپنے گھر سے روز دُودھ لا کر دینا شروع کر دیا۔ دوسری شاگردہ کی ماں دیسی گھی تو تیسری پنجیری بنا کر لے آئی۔ بچی کو سنبھالنے کے لیے یہ بچیاں ہمہ وقت تیار رہتیں۔ کوئی نہ کوئی عورت عائشہ کے لیے فراک سی کر لے آتی۔ گھر میں قرآن کی تعلیم پھر سے جاری ہو گئی۔ نسیم اس میں خوب مصروف رہتی۔ غلام محمد کے گھر آنے کے اوقات میں خاموشی ہو جاتی۔ عائشہ کو بھی سلا دیا جاتا ورنہ اس کی آواز سن کر غلام محمد ناراض ہوتا۔
باپ نے عائشہ کو پہلی بار گود میں اٹھایا جب گرمیاں آ چکی تھیں۔ چھے سات ماہ کی گول مٹول سرخ سفید بچی گھٹنوں گھٹنوں چلتی خود ہی باپ کے پاس آ گئی۔ نسیم کسی کام میں مصروف تھی۔ اتنی معصوم مسکراہٹ پر باپ نے بیٹی کو گود میں اُٹھا ہی لیا پھر نسیم کو آواز دی اور ماؤں کے اولاد کی طرف سے ایسے غافل رویے پر بہت سی وعیدیں سنائیں۔ آخری جملہ وہی تھا کہ جس عورت سے اس کاخاوند راضی نہیں وہ جہنمی ہے۔ عائشہ کو گود میں لے کر پشیمان اور شرمندہ نسیم اندر کمرے میں چلی گئی۔
اگلے سال پھر وہی آزمائش آن پڑی۔ نسیم پھر اُمید سے تھی اور اِس مرتبہ غلام محمد نے بیٹی ہونے کی صورت میں طلاق کی دھمکی بھی دے دی تھی۔ نسیم کی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی تھی۔ طلاق کی تلوار غلام محمد روز اس کے سر پر لٹکاتا۔ نسیم کا مرجھایا ہوا زرد چہرہ اُسے نفسیاتی تسکین دیتا۔
نسیم کے جہیز اور بری کے کپڑے پہن پہن کر اب بالکل گھِس چکے تھے۔ پھوپھی امّاں نے کئی مرتبہ گرمیوں اور سردیوں میں اپنے اور بیٹے کے بہت سے کپڑے خریدے اور سلوا ئے مگر نسیم دونوں میں سے کسی کی ذمہ داری نہیں تھی۔ اِس مرتبہ اس کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش گرمیوں میں متوقع تھی۔ یہ پرانے اور خستہ حال کپڑے اس کے پھیلے ہوئے وجود کو ڈھانپنے میں ناکام تھے۔ شام کو جب غلام محمد گھر آیا تو نسیم بیٹی کو چارپائی پر بٹھا کر کھانا کھلا رہی تھی۔ ڈوپٹے کے شگاف اس کے بال ڈھانپنے سے قاصر تھے۔ قمیص کو تین جگہ سے سیاگیا تھا مگر پھر بھی اس کا جسم کہیں کہیں سے نظر آ رہا تھا۔
غلام محمد کی نگاہ نسیم کے بے رونق اور تھکے ہوئے زرد چہرے پر پڑی اور ساتھ ہی اُس نے نسیم پر تھپڑوں اور گھونسوں سے حملہ کر دیا۔
’’لعنت ہے ان عورتوں پر جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں۔ یہ تم قرآن پڑھاتی ہو؟ اور خود ایسے عریانی اور فحاشی پھیلا رہی ہو۔‘‘ نسیم خوفزدہ ہو کر مار کھاتی رہی۔ عائشہ سہم کر زور زور سے چیخنے لگی۔ سیانی پھوپھی امّاں ایسے موقعوں پر کمرے سے باہر نہیں نکلتی تھیں کہ یہ میاں بیوی کا آپس کا مسئلہ ہے۔ نسیم بے دم ہو کر چارپائی پر ڈھے گئی۔ اس کے کپڑے مزید پھٹ گئے۔
’’جاؤ جا کر ڈھنگ کے کپڑے پہنو۔‘‘ غلام محمد غصّے سے چلایا۔
’’کون سے کپڑے؟ میرے تو سارے کپڑے ایسے ہی پھٹے ہوئے ہیں۔ عورتوں کے جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑے خریدنے بھی تو پڑتے ہیں۔‘‘ نسیم کانپتے ہوئے سہم کر بولی۔
’’شوہروں کے آگے زبان چلانے والی عورتیں جہنمی ہوتی ہیں۔‘‘ غلام محمد غرایا۔
غصّے سے نسیم کو دیکھتا وہ کمرے میں آ گیا۔ نسیم کا بکس کھولا جو واقعی سارا ہی پھٹے پرانے کپڑوں سے بھرا تھا۔ ’’چار سال میں اِس منحوس عورت نے ایک بھی کپڑا سلامت نہ چھوڑا۔ پورے دس جوڑے بنائے تھے میری ماں نے۔‘‘ غلام محمد کا کمال یہی تھا کہ وہ ہر بات میں قصور بیوی ہی کا نکال لیتا۔
’’اللہ بھی اپنے پیارے بندوں کا ہی امتحان لیتا ہے یا شاید میں واقعی جہنمی ہوں۔ میں نے کتنا تڑپ تڑپ کر بیٹا مانگا، کتنی ہی منتیں مانگیں۔ کتنا قرآن پڑھا، پڑھایا۔ دعائیں کیں مگر اللہ سائیں نے مجھے پھر بیٹی دے دی۔‘‘
نسیم لیڈی ڈاکٹر کو اپنی ماں کا فون نمبر دیتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی کیونکہ اِس مرتبہ پھوپھی امّاں اور غلام محمد اُسے تنہا اسپتال میں چھوڑ کر واپس جا چکے تھے۔ یہ تو اس کی شاگردہ کی ماں تھی جو عائشہ کو لیے لیبر روم کے باہر موجود بینچ پر بیٹھی رہی اور جس کے پاس نئی بچی کے لیے کپڑے بھی تھے۔
اِس مرتبہ پھر نسیم پر فردِ جرم لگا دی گئی تھی… اس کا قصور دوسری مرتبہ بیٹی کی پیدائش تھا۔ ننھی فاطمہ زہرا بہت ہی حسین بچی تھی۔ بالکل صابر اور پر سکون۔ اِس بار نسیم پورے تین ماہ اپنی ماں کے گھر رہی۔ پھوپھی امّاں اور غلام محمد نے ایک مرتبہ بھی آنے کی زحمت نہ کی۔
ان دنوں غلام محمد کو کاروبار میں بہت منافع ہوا۔ اس نے اپنے اسٹور کو سیلف سروس مال بنا لیا۔ اس کے ملازمین کی تعداد بھی بڑھ گئی اور اس کی کھٹارا موٹر سائیکل کی جگہ ایک کار بھی خرید لی گئی۔
تین ماہ بعد پھوپھی اماں پھر نسیم اور اپنے بھائی پر احسان کرتی اسے لینے آ گئی تھیں۔ مجبوری تھی کہ اس بڑھاپے میں گھر کے کام کاج اور غلام محمد کے نخرے اب اُٹھائے نا جاتے تھے۔ سارا گھرانا ہی نسیم کا محتاج تھا مگر اس حقیقت کا ادراک کبھی نسیم کو نہ ہونے دیا گیا۔
’’پھوپھی امّاں! غلام محمد نے تو مجھے بچی ہونے کی صورت میں طلاق دینے کا کہا تھا۔ میری بچی کے بعد میری تو طلاق ہو گئی ہے ناں‘‘۔ نسیم نے دل کی بات کہہ دی۔
’’ارے بیٹا یہ تو سارے مرد ایسے ہی کرتے ہیں۔ بھلا دھمکیوں سے طلاق تھوڑی ہو جاتی ہے۔ وہ تو بس تجھے غصّے میں دھمکاتا تھا۔‘‘ پھوپھی امّاں بڑی محبت سے بولیں۔
’’ابّاجی! اب آپ کسی عالم سے فتویٰ لیں۔‘‘ نسیم نے باپ کو بیچ میں ڈالا۔‘‘ ابّا جی اور غلام محمد ایک مفتی صاحب کے پاس گئے اور پھر طلاق نہ ہونے کے فیصلے کے ساتھ واپس آئے۔ خاندان بھر میں اِس معاملے کا چرچا تھا۔ نسیم کو پھوپھی امّاں دونوں بچیوں کے ساتھ واپس لے آئیں۔
ڈھائی سالہ عائشہ صدیقہ اور تین ماہ کی فاطمہ زہرا۔ غلام محمد نے دونوں کو ہی دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ کاروبار میں زبردست ترقی کا کچھ بھی اثر گھر کے ماحول یا رویوں پر نہ پڑا تھا۔ صرف پھوپھی امّاں کے بازو میں دو کڑے، کانوں میں بالیاں اور مہنگے کپڑوں کا اضافہ ضرور ہوا۔ اِس کے علاوہ گھر کی ہر چیز ویسی کی ویسی تھی جس میں سب سے اہم چیز نسیم کی اپنی اہمیت اور حیثیت۔
قرآن کی تدریس کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا تھا۔ اب عائشہ بھی دوسری بچیوں کے ساتھ ڈ وپٹا اوڑھ کر بیٹھنے لگی تھی۔ زندگی دھکے کھانے کے بعد پھر سے رواں ہو رہی تھی۔
نسیم کی زندگی میں تیسرا امتحان اگلے برس ہی آن پہنچا۔ نسیم نے اِس بار خود کو اپنے ربّ کے حضور گڑگڑانے والی بنا لیا۔ وہ خاموشی سے غلام محمد کی باتیں سنتی، مار کھاتی پر ایک حرف زبان پر نہ لاتی۔ غلام محمد کو اس کی خاموشی پر بھی آگ لگ جاتی۔ اس کے صبر کو وہ ڈھٹائی کا نام دیتا۔
’’شوہروں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے عورتوں کی اکثریت جہنم میں ہو گی‘‘۔ اگر عورت کو اللہ نے عقل دی ہوتی تو وہ بھلا کیوں اس کی گواہی کو آدھا کر دیتا… عورت کم عقل ہے۔ ناشکری، زبان دراز، جہنمی…‘‘ جتنا وقت وہ گھر میں رہتا، یہی جملے دہراتا رہتا۔
باپ کو دیکھ کر بچیاں کونوں میں چھپ جاتیں۔ نسیم خاموشی سے اپنے کاموں میں لگ جاتی۔ بچیوں کی مسکراہٹ، شوخیاں اور معصومیت سب ہی گم ہو جاتا۔ نسیم کے لیے یہ نو ماہ پہاڑ جیسی آزمائش کے تھے۔
تیسری مرتبہ اللہ کے کرم سے نسیم نے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔ غلام محمد بہت خوش تھا۔ پھوپھی امّاں نے مٹھائی محلّے بھر میں تقسیم کروائی۔ نسیم کو اسپتال سے گھر لائیں۔ بیٹوں کی خوب آؤ بھگت ہو رہی تھی۔ نندیں بھی بھاگی بھاگی آئیں۔
یہ نسیم کی خام خیالی تھی کہ بیٹوں کے بعد اس کی آزمائش کچھ کم ہو جائے گی اوراب غلام محمد اپنی اولاد پر کچھ خرچ کیا کرے گا ،مگر ہوا یہ کہ بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے رویّوں کا فرق ایک نئے پہاڑ کی صورت کھڑا ہو گیا۔ عائشہ اور فاطمہ دونوں بہت حسین ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھیں مگر غلام محمد انھیں تعلیم دلانے کے حق میں نہ تھا۔ نسیم نے بڑی مشکل سے باپ سے اجازت لے کر انھیں سرکاری اسکول میں داخل کروایا۔ چند ہی برس بعد عمر اور علی کے لیے مہنگے انگریزی میڈیم اسکول کا انتخاب ہوا۔ کاروبار میں بےتحاشا اضافے کے باوجود نسیم کو گھر کے خرچ اور بچیوں کی تعلیم کے لیے بہت ہی کم پیسے دیے جاتے۔
’’فضول خرچ عورتیں جہنمی ہوتی ہیں‘‘۔ قرآن پڑھانے والی لیکن اس پر عمل نہ کرنے والی عورتیں بھی دوزخ میں ہی جائیں گی۔‘‘ جانے عورتوں کے جہنم میں جانے کی اتنی بے شمار احادیث غلام محمد کو کس نے سنائی تھیں۔ شوہر کے آگے بولنے والی، بات کرنے والی، اپنی بات کی وضاحت دینے والی، سب عورتیں ناشکری ہو جاتیں اور پھر سیدھی جہنم میں پہنچ جاتیں۔
عائشہ اور فاطمہ نے سرکاری اسکول سے امتیازی نمبروں سے میٹرک کر لیا۔ وہ گھریلو کاموں میں بھی بہت طاق تھیں۔ ان کی خوبصورتی، معصومیت اور سگھڑپن نے انھیں ہر جگہ نمایاں کر رکھا تھا۔ نسیم انھیں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھی۔
اب اس کے پاس قرآن پڑھنے آنے والی بچیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ مائیں اپنی بچیوں کو اُستانی جی سے قرآن پڑھنے بہت شوق سے بھیجتیں۔ عائشہ اور فاطمہ بھی ماں کی طرح خوبصورت قرأت سیکھ چکی تھیں سو اکثر وہ دونوں بھی بچیوں کو سبق دے دیا کرتیں۔ علی اور عمر بھی ماں ہی کی طرح بہت سہمے ہوئے خوفزدہ بچے تھے۔ باپ کی ماں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا اثر بچوں پر بہت گہرا تھا۔ اچھا اسکول بھی انھیں اعتماد دینے سے قاصر رہا تھا اور روز جیب خرچ کے طور پر ملنے والی رقم بھی ان کے دلوں میں باپ کی محبت یا لگاؤ پیدا کرنے میں ناکام رہی تھی۔
فجر اور عصر کے بعد پرندوں کی چہچہاہٹوں کی مانند بچیوں کی قرآن پڑھنے کی آوازیں نسیم کے صحن کو رونق بخش دیتیں۔ کبھی کوئی بچی گھٹنوں تک آتے فراک پر بڑا سا ڈوپٹا اوڑھے نورانی قاعدہ پکڑے آن پہنچتی تو کوئی توتلے انداز میں الفاظ دُہرا رہی ہوتی۔ کچھ بچیاں ہفتوں ہفتوں بس ہلنے اور سر ہلانے کی مشق کرتی رہتیں۔ اب اس کی شاگردوں کی دوسری نسل بھی اس کے پاس آنے لگی تھی۔ محلّے بھر میں استانی جی کی شرافت اور قرآن سے محبت کی مثالیں دی جاتیں۔ محلّے کی ہر ماں اپنی بچیوں یا بیٹوں کے لیے مشورہ کرنے، دعائیں کروانے نسیم کے پاس آتیں۔ پھوپھی امّاں کی چارپائی اب بھی داخلی دروازے کے سامنے ہوتی، بس اب عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تیز نگاہیں کچھ کمزور ہوتی جا رہی تھیں مگر ان کی نگرانی اب بھی بہت کڑی تھی۔
عائشہ کے میٹرک کرنے کے بعدنسیم پر ایک اور کڑا امتحان آن پڑا۔ بچی پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور اسے پڑھنے کا شوق بھی بہت تھا مگر غلام محمد اس حق میں نہ تھا۔ اُوپر سے تینوں نندوں نے اپنے اپنے بیٹوں کے لیے سوال کر رکھا تھا۔ غلام محمد کے بھانجے اسکول کی شکل بھی نہ دیکھے ہوئے تھے۔ ایک مستری، دوسرا ویلڈر اور تیسرا بس مرغے لڑاتا یا پیسوں پر شرطیں لگاتا۔ باپ سعودی عرب سے محنت کر کے پیسے بھیجتا اور بیٹا اپنے شوق پورے کرتا۔
پھوپھی امّاں کے لیے تینوں نواسے برابر تھے اور ’’بہترین‘‘ بھی مگر پوتی فی الحال ایک ہی تھی۔ سو فیصلہ کرنا کٹھن تھا۔ نسیم کو یوں لگتا جیسے وہ اپنے ساتھ کم عمری میں ہونے والی زیادتیوں کااپنی بیٹی کے لیے دروازہ کھول رہی ہے۔ اللہ سے مانگنے گڑگڑانے کا سلسلہ پھر بہت طویل ہوتا جا رہا تھا۔ اللہ تو مسبب الاسباب ہے، مقلب القلوب ہے، منفتح الابواب ہے۔ میری فریاد سن لے۔ صبح شام دعائے استخارہ پڑھتی کہ ’’اے اللہ اگر اِس معاملے میں بھلائی ہے تو ٹھیک اور اگر برائی ہے تو اسے مجھ سے دُور کر دے۔‘‘
گرمیوں کی طویل دوپہر کے بعد عائشہ نے عصر کے وقت صحن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائیاں بچھا دیں۔ بچیاں اپنا سبق یاد کر رہی تھیں۔ ساتھ والے پڑوسی محمد بخش صاحب کی بیگم اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ چلی آئیں۔ یہ دونوں نسیم کی پہلی شاگرد تھیں۔ اندر کمرے میں بیٹھ کر پانی پیتے دونوں بچیاں حیران تھیں کہ سولہ سترہ برسوں میں اُستانی جی خود اور ان کا گھر بالکل ویسے کے ویسے تھے جبکہ غلام محمد کی کریانے کی دکان اب علاقے کے بہترین شاپنگ مال میں تبدیل ہو چکی تھی۔
اُستانی جی آج ہم آپ سے عائشہ کے لیے اپنے بھائی کا رشتہ مانگنے آئے ہیں۔ بڑی بیٹی نے ماں سے پہلے اپنے آنے کا مقصد بتا دیا۔ آرمی میں کیپٹن ڈاکٹر وحید سے بھلا اُستانی جی کیسے ناواقف ہو سکتی تھیں۔ کتنے سال انھوں نے اپنی پڑوسن کے کہنے پر اس کا نام لے لے کر کامیابی کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ اب وہ پڑوسن اپنے سب سے لائق بیٹے کے لیے نسیم کے سامنے جھولی پھیلائے بیٹھی تھیں۔
’’بےشک میرے رب تو ہی میرا مولیٰ ہے، میرا مالک ہے۔ تو سنتا ہے۔ تو دَر کھولتا ہے، آسانیاں کر دیتا ہے۔‘‘
بے اختیار نسیم کی آنکھوں سے تشکر کے موتی بہنے لگے۔
اب یہ رشتہ غلام محمد کے سامنے رکھا گیا مگر بھانجوں کا پلڑا بھاری تھا۔ نسیم نے زندگی میں پہلی بار غلام محمد سے بحث کی۔ آخر پھوپھی امّاں اور غلام محمد نے نسیم کو اپنے بل بوتے پر بیٹی کی شادی کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ہر خرچ سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ غلام محمد نے نسیم کو اِس من مانی کے لیے ایک دھیلا بھی دینے سے انکار کر دیا۔
محمد بخش کے گھر والوں نے جہیز کے نام پر کچھ بھی لینے سے منع کر دیا تھا پھر بھی ایک ماں اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ کیسے رخصت کر دیتی۔ اور کچھ نہیں تو کھانے پینے اور بارات کے کھانے پینے کا انتظام تو کرنا ہی تھا۔ نسیم کے پاس جمع پونجی کے نام پر کچھ بھی نہ تھا۔ پھوپھی امّاں کے کوسنے اور بددعائیں الگ جاری تھیں مگر نسیم نے اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہوئے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ اب اس کا ساتھ دینے کے لیے سارا محلّہ کھڑا تھا۔ اس کا باپ، بھائی سب موجود تھے۔ شادی کی تاریخ فوراً طے کر دی گئی اور اگلے مہینے ہی کیپٹن صاحب کو بارات لانے کی تاریخ دے دی گئی۔ پورا مہینہ نسیم نے جان کنی کی سی حالت میں گزارا۔ شادی کے لیے واقعی کچھ ہاتھ پلّے نہ تھا۔ عائشہ کی بارات سے ایک روز پہلے غلام محمد حسبِ معمول اپنے اسٹور پر جا چکا تھا۔ نسیم کی تینوں نندیں اپنے بچوں کے ساتھ تماشا دیکھنے آ پہنچیں۔ عائشہ سسرال کی طرف سے آئے پیلے جوڑے میں خوف سے بیٹھی ہول رہی تھی۔ ماں کی یہ پہلی بغاوت نہ صرف اس کے بلکہ باقی تینوں بزدل بہن بھائیوں کے لیے بھی ایک خوفناک مہم کی مانند تھی۔
شام ہوتے ہوتے محلّے سے نسیم کی تمام شاگردیں سجی سنوریں آنا شروع ہو گئیں۔ صحن میں شامیانہ لگ چکا تھا۔ دیگیں محلّے کے میاں جی اپنی زیرِ نگرانی پکوا رہے تھے۔ شادی کا تمام انتظام اہلِ محلہ سنبھال چکے تھے۔ گھر کا ایک کمرا خالی کر دیا گیا تھا جس میں عائشہ کے جہیز کی چیزیں اکھٹی کر کے رکھی جانی تھیں۔ گھنٹے بھر میں بہترین چمکتا ہوا فرنیچر، فریج، ٹی وی، پنکھا، کراکری، پیٹی، بستر سب جمع ہو چکے تھے۔ سب خواتین نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے چیزیں باہم تقسیم کی تھیں۔ بھلا اٹھارہ برس سے بلامعاوضہ قرآن پڑھانے والی اُستانی جی کو کیسے تنہا چھوڑا جا سکتا تھا؟ کپڑے اور زیور بھی اس کمرے میں پیک شدہ پہنچ چکے تھے۔ سب چیزیں پھوپھی امّاں اور ان کی بیٹیوں کی تسلی کے لیے یہاں اکھٹی کی گئی تھیں اور رات کو کیپٹن صاحب کے ہاں پہنچا دی گئیں۔
اگلے روز بارات کا انتظام اس سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ غلام محمد مجبوراً دنیا دکھاوے کو بارات کے استقبال کے لیے آن پہنچا تھا۔ اس کے دونوں بیٹے بڑی سنجیدگی اور ذمہ داری سے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے، یوں کہ جیسے وہ نہ بھی آتا تو کوئی کام رُکنے والا نہ تھا۔ شادی میں شریک ہر ایک مرد نے غلام محمد کو مبارکبادکے ساتھ سلامی کا لفافہ دیا۔ جن میں پیسوں کی مالیت ہزاروں میں تھی۔ نکاح میں حق مہر خاصا بھاری باندھا گیا جو فوری طور پر دلہا نے ادا کر دیا۔ بڑی عزت احترام سے عائشہ رخصت ہو کر اپنے سسرال گئی۔ ممنونیت سے اس کا سارا سسرال بچھا چلا جا رہا تھا۔
نسیم کے لیے نیا جوڑا جانے کون لایا تھا مگر اُس خوبصورت سوٹ میں وہ جنت کی حور کی مانند سیپ میں بند موتی لگ رہی تھی۔ بے شک میرا مولیٰ سنتا ہے۔ بے شک شکر کے الفاظ اور اشکوں کے موتی مسلسل اس کی زبان اور آنکھوں سے رواں تھے۔ اللہ اس کاسب سے بڑا سہارا، اس کا مددگار تھا۔
اگلے روز ولیمہ بہت شاندار تھا۔ غلام محمد، اس کی ماں اور بہنیں سارے انتظامات، عائشہ کا لباس اور زیورات حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کیپٹن وحید اور اس کے رشتے داروں نے انھیں کسی بات پر شرمندہ نہ کیا تھا جیسے اپنی شادی سے لے کر آج تک غلام محمد اپنے ماموں کو کرتا آیا تھا۔ عائشہ کی پڑھائی دوبارہ سے شروع کروا دی گئی تھی۔ نسیم اپنی بیٹی کی خوشگوار ازدواجی زندگی دیکھ کر بہت خوش تھی۔
غلام محمد کی اپنے گھر سے بےنیازی اب مزید بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ نسیم کو بات بے بات زیادہ ملّانی ہونے کے طعنے دیتا۔ اب وہ جہنمی عورت’ منافق‘ بھی بن چکی تھی جس نے خود پر مظلومیت کا پردہ ڈال کر سارے محلّے کو بےوقوف بنایا تھا۔ قرآن کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا اور قرآن پڑھانے کا معاوضہ بیٹی کے جہیز کی صورت میں وصول کیا تھا۔
عائشہ کی شادی کے دو سال بعد نسیم نے اسی طرح فاطمہ کا بھی بہت اچھی جگہ رشتہ کیا۔ محلّے کے لوگ پھر نسیم کے لیے ڈھال بن گئے۔ دونوں بیٹیوں کو اپنے گھروں میں آباد دیکھ کر نسیم اپنے دکھ بھول ہی گئی۔ وہ اب بھی بہت دلجمعی سے قرآن پڑھاتی۔ اس کی تلاوت سننے بہت سی خواتین آتیں اور پھر وہ سب دعاؤں کی لڑیوں میں جڑ جاتیں۔
عمر اور علی نے بھی پڑھائی کے میدان میں کامیابی حاصل کی۔ غلام محمد ان دونوں کو میٹرک کے بعد اپنے کاروبار میں شامل کرنا چاہتا تھا مگر بیٹوں اور باپ کے درمیان بہت فاصلہ تھا۔ وہ عموماً باپ اور دادی کی ماں سے زیادتیوں پر غصّے میں آ جاتے مگر ماں نے ہمیشہ انھیں خاموش رہنےا ور باپ کا احترام کرنے کا درس دیا تھا۔
ایف ایس سی کے رزلٹ سےپہلے ہی دونوں بیٹوں کی سلیکشن فوج میں ہو گئی اور دونوں لمبے تربیتی کورس کے لیے کاکول چلے گئے۔ غلام محمد نے اس فیصلے پر بھی نسیم سے بہت جھگڑا کیا۔ اب وہ منافق سے جھوٹی، مکار اور دھوکے باز کی مسند پر فائز ہو چکی تھی، جس نے بچوں کو باپ سے متنفّر کر دیا تھا۔ نسیم سب باتیں، گالیاں، دھمکیاں سن لیتی مگر یہ جہنم کی وعیدیں جو پچھلے بیس برس سے تسلسل اور تواتر سے دی جا رہی تھیں اس کے حوصلے کو توڑ کر رکھ دیتیں ۔وہ عورت جس سے اس کا شوہر راضی نہیں وہ جہنمی ہے۔ یہ غلام محمد کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔
پھوپھی امّاں اب ضعیفی کے اُس مرحلے میں داخل ہو چکی تھیں جہاں انھیں نسیم کی مکمل مدد ہر وقت درکار ہوتی۔ نسیم انھیں بہت محبت اور ذمہ داری سے سنبھالتی۔ بچوں کے اپنے اپنے گھروں کو جانے کے بعد اب دونوں ساس بہو ایک دوسرے کے لیے سہارا بھی تھیں مگر پھوپھی امّاں اب بھی شام کو غلام محمد سے اس کی بیوی کا گلہ کرنا نہ بھولتیں۔ روز اس کی کوئی نہ کوئی کوتاہی ان کی زبان پر ہوتی۔ اب منافق، جہنمی اور دھوکے باز کے بعد نسیم سست، کاہل اور احسان فراموش بھی ہو گئی تھی۔ ساس کی خدمت میں کوتاہی پر کوئی وعید غلام محمد کو تلاش کے باوجود نہ ملی تھی سو اب اس کی گالیوں کا رخ اس کی ذات کی طرف ہو چکا تھا۔
اُستانی جی کی شاگردیں اب ہر عمر کی تھیں۔ چھوٹی پانچ چھے برس کی بچیوں سے لے کر بڑی عمر کی خواتین تک۔ قرآن کی تعلیم نسیم کی زندگی کا وہ مقصد اور کام تھا جو اسے مصروف بھی رکھتا اور سکون بھی دیتا۔
اب نسیم کے بیٹے بھی کمانے لگے تھے۔ وہ چھٹیوں میں ماں کے لیے کسی نہ کسی سہولت کا انتظام کر جاتے۔ برسوں بعد اِس گھر کی مرمت ہوئی۔ سفیدیاں کروائی گئیں، غسل خانہ دوبارہ سے بنایا گیا، پانی کی موٹر اور ٹینکی لگوائی گئی۔ اگلے برس بیٹوں نے ماں کے لیے نئے بیڈ اور صوفے خریدے۔ نئے برتن اور گھر کے لیے نئی چیزیں جن کی خواہش کبھی نسیم کے دل میں ہوتی تھی۔ عائشہ اور فاطمہ ہر بار ماں کے لیے کپڑے سلوا کر لے آتیں۔ نرم اور آرام دہ جوتے، چپل۔ نسیم نے اس گھر سے نکلنا عرصۂ دراز سے چھوڑ دیا تھا۔ جب کبھی اس نے کسی غمی خوشی میں جانے کی اجازت مانگی، تو غلام محمد نے اسے ’گھر میں ٹک کر رہا کرو‘ کہہ کر انکار کر دیا تھا۔
دنیا کے رنگ، نئی چیزیں، نئے لوگ اُستانی جی کے لیے افسانوں کی طرح تھے۔ غلام محمد کا اسٹور ہر نئے فیشن کی چیز سے بھرا ہوتا۔ کریانہ، کراکری، ڈیکوریشن، جیولری، جوتے، پرس، الیکٹرانکس، موبائل مگر نسیم کو کبھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ملی۔ جب اس نے پہلی بار اپنی عائشہ کے ہاتھ میں موبائل فون دیکھ کر پوچھا تھا کہ یہ کیا ہے، تب بیٹی کو ماں پر بہت پیار آیا۔ وہ خوب ہنسی اور پھر اُسے موبائل پر دنیا کی بہت سی تصویریں دکھائیں۔ پہاڑوں، دریاؤں کا ذکر تو نسیم نے سنا تھا مگر اصل میں یہ کیسے دِکھتے ہوں گے اُس دن موبائل پر دیکھا۔
عیدالفطر کی آمد آمد تھی۔ نسیم اس بار اپنے بچوں کی منتظر تھی۔ وہ روز پھوپھی امّاں کے سامنے عائشہ اور فاطمہ کو عید پر بلانے کا ذکر کرتی۔ علی اور عمر کو بھی چھٹیوں پر گھر آنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اِس بار اس نے عید کے دن غلام محمد کو بھی بچوں کے ساتھ رہنے کا کہا تھا۔
’’ تم جیسی ناشکری عورتیں ہی مردوں کو خراب کرتی ہیں۔ بھلا کاروبار میں بھی ایسی عیاشیاں کی جا سکتی ہیں؟ عید کے دن چھٹی، یعنی عین کام کا، آمدنی کا دن اور اِن مولوانی صاحبہ کے کہنے پر چھٹی کر لوں۔ جانتی ہو علاقے کی عورتیں، بچیاں اور عزت دار لوگ بہت اعتماد سے ہمارے اسٹور پر آتے ہیں۔ اب اس اہم دن پر چھٹی کر لوں۔ میں گھر رہ کر کیا کروں گا؟ عجیب دوزخ بنا رکھا ہے اس گھر کو تم نے۔ جس شوہر کو اس کی بیوی سے گھر کا سکون نہ ملے، وہ گھر دوزخ ہوتا ہے۔‘‘
غلام محمد صاحب پھر ڈانٹتے، ناراض ہوتے اسٹور پر چلے گئے۔ اب بڑھاپا آن پہنچا تھا مگر ان کا غرور، غصّہ اور بدمزاجی کا عالم وہی تھا۔
روزوں میں نسیم کی صحت میں نمایاں فرق پڑا۔ جس کا سارا الزام پھوپھی امّاں اور غلام محمد اس کی سستی اور کام چوری کو دیتے رہے۔ گرمیوں کے طویل روزے اور پھوپھی امّاں کی مسلسل بیماری، ان کا ہر کام کے لیے بہو کو آواز دینا۔ گھر میں کوئی بھی دوسرا کسی کام اور مدد کے لیے موجود نہ تھا۔ رمضان کے آخر تک نسیم کی کمزوری بہت بڑھ گئی تھی۔ کام کے دوران آنے والے چکر اب آرام کے اوقات میں بھی آنے لگے۔ دل کی گھبراہٹ بھی بڑھنے لگی۔
چاند رات کو علی اور عمر دونوں چھٹی پر گھر پہنچے۔ عائشہ اور فاطمہ بھی اپنے سسرال سے سیدھی ماں کو ملنے آن پہنچیں۔ ماں کی صحت خاصی تشویشناک تھی۔ گھر کا سارا کام بچوں نے سنبھال لیا۔ دونوں بیٹے بھی ماں کے ساتھ لگ گئے۔ عید کے دن بچوں کو دیکھ کر نسیم میں طاقت آ گئی۔ بیٹے، بیٹیاں، داماد، نواسے سب گھر میں جمع تھے۔ عید کی نماز پڑھ کر نسیم کے والد اور بھائی بھتیجے بھی عید ملنے آ گئے۔ بیٹوں نے ماں کو نئے نوٹوں کی گڈی دی تھی تا کہ وہ سب کو عیدی دے سکیں۔ نسیم نے سب کو عیدی دی۔
پھر ایک سلسلہ اس کی شاگردوں کی آمد کا تھا۔ جو سب کھانے پینے کے نت نئے پکوان لیے چلی آ رہی تھیں۔ عید کی صبح خوب پُر رونق تھی۔ آج تو غلام محمد کو بھی نسیم کی صحت کی خرابی کا احساس ہوا۔ اس کا سفید گلابی چہرہ بالکل زردی مائل تھا۔ آواز میں کھنک مفقود تھی مگر اس کے لیے اتنی فکر مند اولاد دیکھ کر وہ پھر چڑ گیا۔
’’ڈرامے باز عورت… سب کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ڈراما کر رہی ہے۔‘‘ نسیم کے سامنے یہ فقرہ کہتا ہوا وہ اپنے اسٹور چل دیا۔
ظہر کی نماز کے بعد نسیم کو بڑا زور دار چکر آیا۔ جاءنماز سے وہ بمشکل اُٹھ کر اپنے بستر تک آئی۔ ابھی دعا مانگنا رہتا تھا۔
خالہ جان آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ ڈاکٹر وحید کو سب سے پہلے اندازہ ہوا۔ انھوں نے نسیم کی نبض چیک کرنے کی کوشش کی۔ عمر اور علی ماں کو دیکھ کر لپکے۔ سب اس کے پاس تھے مگر اس کی روح اپنے ربّ کی طرف لوٹ چکی تھی۔ پرندہ اپنا گھونسلا چھوڑ چکا تھا۔ چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ لبوں پر کلمہ مکمل ہو چکا تھا۔ آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں، ’’اے نفس مطمٔنہ چل اپنے رب کی طرف، وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی‘‘۔
کیسا نفس مطمٔنہ تھا کہ اپنے چاروں جگر گوشوں کے درمیان دنیا سے رخصت ہوا۔ جس کے ذمے کسی کا کوئی قرض، احسان، بوجھ کچھ بھی نہ تھا۔ بس اطمینان ہی اطمینان۔
اُستانی جی کے انتقال کی خبر منٹوں میں محلے بھر میں پھیل گئی۔ پورا محلّہ یوں اس گھر میں اُمڈ آیا جیسے یہ ہر گھر کے اپنے عزیز کی فوتیدگی ہے۔ سارے انتظامات اہل محلّہ نے سنبھال لیے۔ غلام محمد کو گھنٹے بھر بعد یہ خبر ملی۔ اُستانی جی کو رات بھر رکھنے کا تو سوال ہی نہ تھا۔ تمام اولادیں، رشتے دار سب ہی تو عید کی وجہ سے موجود تھے۔ عصر کے بعد عائشہ اور فاطمہ نے خود اپنی ماں کو نہلا دھلا کر تیار کیا۔ آج اُس کی شان ہی نرالی تھی۔ خوبصورت چہرہ اور پرسکون مسکراہٹ اور ٹھیک اُسی وقت جب اس کا صحن برسوں سے تلاوت سے مہک رہا ہوتا تھا، اسے رخصت کر دیا گیا۔ اسے کندھا دینے کے لیے اس کے جوان بیٹے، بھائی، بھتیجے، داماد سب موجود تھے۔
غلام محمد کو نسیم کا آخری دیدار کرنے کا موقع قبرستان میں ملا، جب اُسے قبر میںلٹایا جا چکا تھا۔ بیٹوں نے باپ کو آگے کیا، وہ اُسے دیکھنے کو جھکا۔ نسیم بالکل تازگی سے مسکراتی ہوئی نئے سفید کفن میں لپٹی تھی۔ وہ گلابی ہونٹ جس کی تازگی سے وہ عمر بھر چڑتا آیا تھا آج بہت ہی خوبصورتی سے مسکرا رہے تھے۔ وہ یقیناً نفس مطمئنہ تھی۔ غلام محمد کے دل نے گواہی دی، اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور سیدھے قبر میں جا گرے۔
اُستانی جی کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ ان کی شاگردیں صدمے سے اس قدر نڈھال تھیں کہ سگی بیٹیوں اور باقی بچیوں میں فرق کرنا مشکل تھا۔
اگلے روز صبح سویرے پھر ان کا صحن تلاوت کی مسحورکن آوازوں سے گونج رہا تھا۔ آج وہ خوبصورت تلاوت کرنے والی اُستانی جی نہیں بلکہ ان کی وہ ہزاروں شاگردیں تھیں جنہوں نے قرآن پاک پڑھنا، اس پر عمل کرنا اور ربّ سے مانگنا اُنھی سے سیکھا تھا۔ ہر بچی صدقۂ جاریہ تھی۔ یہ وہ ہزاروں گواہیاں تھیں جو غلام محمد کل سے مسلسل سن رہا تھا۔ اُستانی جی کے ایمان اور تقویٰ کی گواہیاں۔ اُس’’ جہنمی‘‘ عورت کے جنتی ہونے کے حق میں بےشمار گواہیاں۔
عید کے تیسرے روز عائشہ، فاطمہ، اپنے گھروں کو جبکہ عمر اور علی اپنے کاموں پر روانہ ہو گئے۔ کیسی بےضرر ماں تھی کہ بچوں کو چھٹی لینے کا تردّد بھی نہ کرنا پڑا۔ خاموشی سے ساری زندگی گزاری اور اس سے بھی زیادہ خاموشی سے چلی گئی۔
٭٭٭
پھوپھی امّاں تنہا اپنی چارپائی پر لیٹی دن رات نسیم کو یاد کر رہی ہیں اور غلام محمد اس خالی درو دیوار کو دیکھتے ہوئے سوچے چلا جا رہا ہے کہ بھلا اس معمولی سی عورت کے جانے کے بعد اس گھر کا سکون، رحمت اور برکت کہاں کھو گئی ہے؟ جانے یہ پہلے دوزخ تھا یا اب لیکن یہاں اس قدر وحشت پہلے تو کبھی نہ تھی۔ وہ ’’جہنمی‘‘ عورت جنّت اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
یہی وہ آبگینے ہیں جو گھر بھر کی زینت ہیں
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں
یہی فرحت بھی راحت بھی
انھی سے رونقِ محفل انھی سے حرمتِ محمل
یہی جنت کے زینے ہیں
[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]