fbpx

آپ سے خوشبو آے

perfume

[et_pb_section fb_built=”1″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_row _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_column type=”4_4″ _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default”][et_pb_text _builder_version=”4.9.2″ _module_preset=”default” text_font=”noori-nastaleq||||||||” text_font_size=”20px”]

سن ۱۵۲۸ء
چہارسو خاموشی کا عالم۔ محل کے در و دیوار دن بھر کے ہنگاموں کے بعد اب ساکت و جامد ہیں کہ یکایک ایک رعب در آواز محل کے سناٹے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے۔
’’کنیز حاضر ہو۔‘‘
اگلے ہی لمحے پردے کی اوٹ سے کنیز نمودار ہوئی اور کورنش بجا لاتے ہوئے بولی۔
’’حکم ظل الٰہی‘‘!
جہانگیر مخمور آواز میں بولا:
’’آج ہم بہت خوش ہیں۔ مملکت کے طول و عرض میں عالی شان جشن و دعوت کا اہتمام کیا جائے۔ وزراء و اُمراء کو اس دعوت پر مدعو کرو اور تمام غرباء و فقراء میں کھانا تقسیم کرو، کوئی بھی خالی دامن نہ جائے۔ آج ہم اپنی منظورِ نظر نورِ جہاں کو پا کر خود کو آسماں کی بلندیوں پر محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے ہماری شادی کی خوشی میں شادیانے بجائے جائیں۔ خوشیاں منائی جائیں اَور محل کے ذرّے ذرّے کو آراستہ وپیراستہ کیا جائے‘‘۔
’’حکم کی تعمیل ہو گی عالی جاہ۔‘‘ کنیز جیسے ہی رخصت ہوئی، نور جہاں نے مسکراتے ہوئے جہانگیر کے اس اقدام کو سراہا۔ اگلے دن محل کا کونا کونا نئی نویلی دلہن کی طرح چم چما رہا تھا۔ جہاں محل کے اندرونی حصے کو مشعلوں اَور قندیلوں سے روشن کیا گیا تھا، وہیں بیرونی باغیچے رَنگا رَنگ پھولوں سے اَپنی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔ تمام حوض گلاب کی پتیوں سے بھرے ہوئے، باغیچے کے چاروں جانب خوشبو بکھیر رَہے تھے۔ کنیزیں اَور ہرکارے زرق برق لباس میں اِدھر سے اُدھر کاموں میں مصروف تھے۔ ہر سو شادیانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی اَور دعوت کے لیے باورچی طرح طرح کے کھانے پکانے میں مصروف تھے۔
سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوے بکھیر رہا تھا۔ نور جہاں انتظامات اَور سجاوٹ دیکھنے کے لیے باغیچے میں ٹہل رہی تھی، اچانک اس کی نظر گلاب کی پتیوں سے بھرے حوض پر پڑی، سورج کی روشنی نے جہاں پانی کو تمتما دیا تھا، وہیں گلاب کی پتیوں پر کچھ قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ نورجہاں نے جب چند قطرے ہتھیلی پر ڈالے تو وہ چکنائی جیسے تھے۔ پہلے تو ملکہ کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے حوض میں چکنائی پھینکی ہو لیکن جب اُس نے ہتھیلی پر تیل کے قطرے کو ڈال کر مسلا تو اس میں سے گلاب کی انتہائی تیز خوشبو محسوس ہوئی جو اس نے فوراً کپڑوں پر مل لی۔ اس طرح گلاب کی خوشبو کشید کرنے کا طریقہ عمل ملکہ نورجہاں نے دریافت کیا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ کچھ عرصہ بعد اختلافات کی بنا پر جب نور جہاں کو جلا وطن کیا گیا تو اس نے لاہور میں رہنا پسند کیا کیونکہ وہ باغات میں گھرا ہوا تھا، اس طرح وہ خوشبو بنانے کے اپنے اس شوق کی تسکین کر سکتی تھی۔
٭٭٭
اللہ تعالیٰ کی خالقیت کا ظہور یوں تو زمین و آسماں کے ذرّے ذرّے سے ہوتا ہے لیکن دلکش و رنگ برنگے پھول اَور پودے اَپنے خالق کی خوبصورتی کا مظہر ہیں۔ یہ پھول نہ صرف ماحول کی خوشنمائی و خوبصورتی کا باعث ہیں بلکہ ان کی خوشبو دل و دِماغ معطر کر کے طراوٹ بخشتی ہے۔ اس لیے خوشبو کوئی بھی ہو، ہر ذی نفس کو بے حد پسند ہوتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے دین اسلام میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔
مشک ایک خوشبو ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ ہمارے نبی ﷺ خوشبو کو بہت پسند کرتے تھے، جب بھی کوئی آپ ﷺ کے پاس خوشبو تحفے کے طور پر بھیجتا تو آپ ﷺ اسے رَد نہ کرتے نیز حضور ﷺ نے خوشبو کو بہترین تحفے کا درجہ بھی عطا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ اور عیدین کے موقع پر خوشبو لگانے کا حکم دیا اور آپ ﷺ کو عود، کستوری اور ریحان نامی خوشبویات بہت پسند تھیں۔
خوشبو کو صفائی اور پاکیزگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے عام طور پر ہمارے ہاں دو طرح کی خوشبوئیں استعمال کی جاتی ہیں، ایک عطر اَور دوسرا پرفیوم۔
عطر
لفظ’’ عطار‘‘ یا ’’عطر‘‘ فارسی زبان کے لفظ ’’اتر‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’خوشبو‘‘ ہے۔ عطر دراصل تیل ہوتا ہے جسے مختلف نباتاتی ذرائع جیسے پھول، پودوں اَور درختوں کی لکڑی یا چھال سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پرفیوم
پرفیوم لاطینی زبان کے لفظ ’’پرفیومیری‘‘ سے اخذ شدہ ہے جس کا مطلب ’’دھواں‘‘ ہے۔ پرفیوم خوشبودار تیلوں، خوشبو والے مرکبات، مخلل اور خوشبو کو دیرپا قائم رکھنے والے کیمیکلز کا مجموعہ ہوتا ہے۔
خوشبو کی تاریخ
خوشبو کا سفر بہت پرانا ہے۔ خوشبو بنانے کے فن کا آغاز، قدیم میسوپوٹیمیا، مصر، وادیٔ سندھ کی تہذیب یا شاید قدیم چین سے ہوا۔ بعد میں اسے رومیوں اور عربوں نے مزید نکھار بخشا۔ قدیم تہذیبوں بابل و نینوا اور یونان کی داستانوں میں بھی خوشبو کا ذکر موجود ہے۔
تاریخ میں دو صدی قبل مسیح سب سے پہلی ریکارڈ شدہ کیمیادان ’ٹپوتی‘ کا ذکر موجود ہے جو پھولوں، درختوں اور دیگر جڑی بوٹیوں کو کشید کر کے عطر بنایا کرتی تھی۔ تین صدیاں قبل مسیح قدیم وادئ سندھ میں بھی خوشبو بنانے کا فن موجود تھا نیز چار صدی قبل مسیح مصر میں بھی للی کے پھولوں کو کشید کر کے ان سے خوشبو بنائی جاتی تھی۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی کہ مصر میں سب سے پہلے عطر فرعون کی ایک بیوی عابدہ نے بنائے۔
نویں صدی میں عرب کیمادان الکندی نے ایک کتاب لکھی جس میں پھولوں اور دیگر جڑی بوٹیوں سے عطر بنانے کی سو سے زائد تراکیب موجود تھیں۔ اس کے بعد ایرانی کیمیا دان ابنِ سینا نے پھولوں سے تیل کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا جوا ب بھی رائج ہے۔
یورپ میں خوشبو کا فن ۱۲۲۱ء میں پہنچا جب اٹلی کے دو راہبوں نے ملکہ الزبتھ کے کہنے پر ایک پرفیوم تیار کیا جو خوشبودار تیل اور الکحل پر مشتمل تھا۔ یہ پرفیوم ’’ہنگری واٹر‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ دور میں بھی رائج ہے۔
مسلمانوں میں تو خوشبو کو طہارت کے بعد ترو تازگی برقرار رکھنے کے لیے لگایا جاتا تھا لیکن سولہویں اَور سترھویں صدی، یورپ میں پرفیوم کا استعمال اس لیے شروع ہوا کیونکہ وہ طہارت اَور صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ سال ہا سال بغیر نہائے گزار دیتے یوں جسمانی بدبو کے باعث انھیں پرفیوم لگانا پڑتا۔
فرانس کی آخری ملکہ’’ میری انٹیونیٹی ‘‘دیکھنے میںانتہائی حسین و جمیل نظر آتی تھی لیکن اس کے پاس سے شدید بدبو آتی تھی۔ وجہ یہ کہ وہ مہینوں نہیں نہاتی تھی۔ کپڑے بھی کبھی کبھار بدلتی۔ سال میں ایک بار اگر نہاتی تو اس کا نہانا بھی رسماً ہوتا اَور چند دن بعد پھر بدبو آنا شروع ہو جاتی۔ اس لیے وہ بدبو کو کم کرنے کے لیے مختلف خوشبوئیں استعمال کرتی تھی۔
اسی طرح اسپین کی ملکہ ازابیل اوّل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زندگی میں دو بار نہائی تھی۔ ایک بار جب وہ پیدا ہوئی اور دوسری دفعہ جب اس کی شادی ہوئی۔
ملکہ الزبتھ اوّل نے زندگی میں شادی نہیں کی اور چند بار ہی نہائی اور اس کا کہنا تھا کہ میں مہینے میں ایک بار بھی تب نہاتی ہوں جب میری مرضی ہو وَرنہ نہیں۔ اس لیے ان خوشبوئوں کا شکریہ جنہوں نے ان پریوں جیسی خوبصورت اور نازک اندام نظر آنے والی ملکائوں کے بدبو دار پہلوئوں کو چھپائے رکھا۔
عطر اور پرفیوم کے اجزاء
عطر:
عطر بنانے میں تو صرف چند اجزا استعمال ہوتے ہیں۔ اوّل وہ قدرتی چیز جس کا عطر تیار کرنا ہو۔ مثال کے طور پر پھول کی پتیاں، جڑی بوٹیاں یا پھر خوشبودار درختوں کی لکڑی وغیرہ۔ ان اشیاء کو گرم پانی میں مناسب درجہ حرات کے بعد خوشبودار تیل کی صورت میں کشید کیا جاتا ہے۔
خالص عطر بہت تیز ہوتا ہے اور عام طور پر طبیعت میں بھاری پن پیدا کرتا ہے۔ عطر کے حوالے سے ہندوستان کا شہر قنوّج بہت مشہور ہے۔ وہاں صدیوں سے عطریات بنانے کا کام ایک صنعت کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ ہند کا اصلی عودِہندی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی تعریف شیخ سعدی شیرازیؒ نے گلستاں و بوستاں میں بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ چنبیلی، گلاب، کستوری، حنا، ریحان، خس، عنبر، مشک اور صندل کے عطر بھی کافی پسند کیے جاتے ہیں۔
پرفیوم:
پرفیوم بنانے کے بنیادی تین اجزا ہیں؛
پرفیوم آئل، پانی اور الکحل۔ پرفیوم آئل پھولوں، پودوں اور جانوروں وغیرہ سے کشید کیا جاتا ہے۔ الکحل میں ایتھال الکحل اور خالص صاف پانی اس لیے استعمال ہوتا کیونکہ یہ خوشبو کو پھیلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ پرفیوم میں پرفیوم آئل کی کم یا زیادہ آمیزش اس کی خوشبو دیر تک قائم رکھنے میں اہم ہوتی ہے، مزید برآں بلحاظ پرفیوم آئل، اس کی چار اقسام ہیں۔
۱۔ پرفیوم؛ اس میں ۱۵ سے ۲۰فیصد پرفیوم آئل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی خوشبوجسم پر چھے گھنٹے اور کپڑوں پر چوبیس گھنٹے تک قائم رہتی ہے۔
۲۔Eau de parfum؛ یوں تو ہر پرفیوم میں پانی شامل ہوتا ہے لیکن اس پرفیوم میں خاص طور پر لفظ Eau لکھا گیا جس کا مطلب پانی ہے یعنی اس میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی خوشبو زیادہ دیر پا نہیں ہو گی۔
۳۔Eau de toilette ؛اس میں خالص پرفیوم آئل صرف ۵ سے ۱۵ فیصد تک ہوتا ہے نیز اس کی خوشبو صرف دو گھنٹے تک قائم رہتی ہے۔
۴۔Eau de cologne؛ یہ ایک ہلکی قسم کی خوشبو ہے۔ اس میں۲ سے ۴ فیصد پرفیوم آئل کو الکحل اور پانی سے تیار کیا جاتا ہے جس کی خوشبو صرف دو گھنٹے تک برقرار رَہتی ہے۔
خوشبو کے ذرائع
خوشبو، جو عطر اور پرفیوم میں استعمال ہوتی ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔ ان میں اتنے اجزاء اور اتنی اقسام کے پھول و پودے ہوتے ہیں جو کسی ایک ملک میں یکساں طور پر موجود نہیں ہوتے، اس لیے بیسیوں اقسام کے پھولوں، ان کی پتیوں اور دیگراجزا کو درآمد کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر بہترین قسم کی خوشبو تیار ہوتی ہے۔ ان میں سے چند اَہم درج ذیل ہیں۔
۱۔پودوں سے
خوشبو کی اس صنعت میں پودوں کو متنوع اقسام کے آئلز اَور مہک والے مرکبات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پودے کے مختلف حصوں جیسے، پتے، پھول، پھل،چھال اور لکڑی وغیرہ سے تیل کشید کیا جاتا ہے، جسے پرفیوم اور عطر بنانے میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔
چھال؛ عام طور پر دارچینی، ساسافراس، سافرولی کی چھال کو خوشبو کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پھول؛ خوشبو بنانے کے لیے بے شمار پھولوں کی اقسام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض اتنی قیمتی ہیں کہ ان کے لیے جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے، تب کہیں جا کے مطلوبہ مہک حاصل ہوتی ہے۔ پھولوں میں سرِفہرست گلاب، چنبیلی، لونگ، فرنگی پانی، چھوئی موئی، سٹرس، ونیلا اَور نرگس وغیرہ شامل ہیں۔
پھل؛ پھلوں میں سیب، اسٹرابری، چیریز، گریپ فروٹ، لیموں اَور مالٹے وغیرہ کی خوشبوا ستعمال ہوتی ہے۔
پتے؛ پتوں میں لیوینڈر، نیازبو، سٹرس اور روزمیری کے پتے بہت ہی اچھی خوشبو رکھتے ہیں نیز بھوسے اَور ٹماٹر کے پتوں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔
بیج؛ ان میں کوکو، دھنیا، گاجر، سیاہ زیرہ، جائفل، الائچی اَور سونف وغیرہ شامل ہیں۔
لکڑی؛ اس میں صندل، صنوبر، عود اَور پائن کی خشک لکڑی شامل ہے۔
۲۔جانوروں سے
جانوروں کے مختلف اعضاء سے بھی خوشبو کشید کی جاتی ہے۔ ان میں سے بعض اتنے قیمتی اَور مشقت سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس کے لیے جان کی بازی بھی لگانی پڑ جاتی ہے۔ ان میں سے چند ایک دَرج ذیل ہیں۔
عنبر
عنبر جو پرفیوم اور عطر دونوں میں استعمال ہوتا ہے، شارک مچھلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جب شارک مچھلی زخمی ہوتی ہے تو وہ ان زخموں کو بھرنے کے لیے ایک خودکار نظام کے تحت مادہ خارج کرتی ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عنبر سمندر کی تہ میں اُگنے والا ایک پودا ہے جسے مچھلیاں کھا لیتی ہیں اَور پھر سمندر کی سطح پر آ کر اُگل دیتی ہیں۔
کاسٹوریم؛ یہ پیلے رنگ کا ایک مادہ ہے جو نر اور مادہ اود بلائو کی تھیلیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
سیوٹ؛ بھی ایک طرح کی خوشبو ہے جو ٹھوس پیلے یا برائون رنگ کی ہوتی اَور نیولوں کی طرح کے جانوروں کی خوشبودار تھیلیوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
امکسٹوریم؛ یہ خرگوش کی طرح کے ایک جانور کی چربی سے تیار کیا جاتا ہے۔
مشک؛ یہ قیمتی اور اعلیٰ ترین خوشبو ہے جو نر ہرن سے حاصل ہوتی ہے۔ ہرن کی ناف کے قریب اَیک تھیلی ہوتی ہے جس میں یہ جمع ہوتا رَہتا ہے۔ مشک والے ہرن کی خوشبو دُور سے ہی فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے کلام نہج البلاغہ میں بھی مشک کی تعریف کی ہے۔
پرفیوم کی اقسام
پرفیومز کی خوشبو کے لحاظ سے بھی بہت سی اقسام مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ آٹھ قسمیں درج ذیل ہیں، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ کونسی خوشبو خریدنی ہے۔
۱۔ اسٹریس
اِس طرح کے پرفیوم مالٹے اور لیموں وغیرہ سے کشید کر کے بنائے جاتے ہیں جو کھٹی اَور بھینی سی خوشبو کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ خوشبوئیں تازگی اَور زندہ دلی کا تاثر قائم کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر دن کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔
۲۔ فلورل
یہ مختلف قسم کے پھولوں کے امتزاج سے بنائی جاتی ہیں۔ ایسی خوشبوئیں میٹھی اور ہلکی سی ہوتی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کے لیے ایسی خوشبوئیں بہت مسحورکن ہوتی ہیں۔ اس لیے آپ بھی جلدی سے اپنے لیے فلورل پرفیومز خرید لیں۔
۳۔ پھلوں والی
یہ پھل دار خوشبوئیں بہت تازگی بخشتی ہیں۔ ان میں سیب، آڑو، بیری، آم اور دیگر پھلوں کی خوشبو کو ملا کر اور الگ الگ بھی بنایا جاتا ہے۔
۴۔ سبز پتوں والی
یہ سبز خوشبو والے پتوں اور گھاس سے تیار کی جاتی ہے۔ اگر آپ اداس اور پریشان ہوں تو اسے لگائیں۔ یہ سبز رنگ کی طرح آپ کو بھی فوراً تازہ دم کر دیتی ہے۔
۵۔سمندری
یہ دورِ جدید کی ایجاد کردہ خوشبو ہے۔ اس خوشبو کو بنانے میں بہت سے قدرتی اور مصنوعی مرکبات استعمال کیے جاتے ہیں،جیسے سمندر کی ہوا کی مہک، پہاڑوں کی خوشبو وغیرہ۔ اس قسم میں پانی کے استعمال اور احساس کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر آپ نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رَہے تو یہ بہترین انتخاب ہے۔
۶۔ اوریئٹل
اس قسم کے پرفیوم جذباتی اَور رومانی انداز لیے ہوئے ہوتے ہیں اَور زیادہ تر جانوروں سے حاصل کی گئی خوشبو جیسے عنبر اَور مشک سے بنائے جاتے ہیں۔
۷۔ اسپائسی
یہ پرفیوم میٹھے اَور مسالےدار تاثر لیے ہوتے ہیں۔ اس میں عام طور پر دار چینی، الائچی، ادرک، کالی مرچ اَور لونگ وغیرہ کی خوشبو نمایاں ہوتی ہے۔ اَگر آپ اپنے بچوں کے اُستاد کے ساتھ میٹنگ یا دفتر کے کسی ساتھی سے ملنے جا رَہے ہیں تو اسے ضرور لگا کر جائیں۔
۸۔ ووڈی
یہ جنگلاتی درختوں کی چھال اَور لکڑی سے بنتی ہے۔ ان میں صندل، صنوبر، عود اَور دوسری خوشبودار لکڑیوں کی خوشبو نمایاں ہوتی ہے۔
اصل اور نقل کی پہچان
خوشبو ہر خاص و عام کو پسند ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسان کی شخصیت میں نکھار آ کر وہ جاذبِ نظر بن جاتا ہے۔ ہر کوئی آپ سے ملنے اَور بات کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس لیے نقالوں سے ہوشیار رَہ کر ہمیشہ اصلی پرفیوم اَور عطر خریدیں۔ خوشبو کے اَصلی یا نقلی ہونے کا پتا آپ دَرج ذیل باتوں سے لگا سکتے ہیں۔
۱۔ پیکنگ
پرفیوم خریدتے وقت اس کی پیکنگ پر دھیان دیں۔ نقلی پرفیوم کی بوتل پر ایک تو الفاظ کے ہجے عموماً غلط لکھے ہوتے ہیں نیز اس کا پیکنگ والا کاغذ بھی بہت سخت نہیں ہو گا بلکہ کھلا سا ہو گا۔ اصلی پرفیوم کا پیکنگ پیپر سفید رنگ کا ہوتا ہے اور بوتل کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے اَندر گتا بھی لگا ہوتا ہے۔
۲۔ شیشی
اصلی پرفیوم اور عطر کی بوتل بھاری، انتہائی خوبصورت اور نفاست سے تراشی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کی نقل بنانا بہت مشکل ہوتا اور اگر ان کی نقل تیار بھی کی گئی ہو تو وہ بہت بدنما، ہلکی اور بھدی سی ہو گی، جو اس کے نقلی ہونے کو ظاہر کرے گی۔ اسی طرح اصلی پرفیوم کی اسپرے والی نوزل بھی چھوٹی ہوتی ہے اور اس سے اسپرے پھوار کی صورت میں ہوتا جبکہ نقلی والی بوتل کا نوزل بڑا نیز اسپرے بھی دھار کی طرح ہوتا ہے۔
۳۔ رنگ
اصلی عطر اور پرفیوم کا رنگ تیز، چبھتا ہوا نہیں بلکہ مدھم سا ہوتا ہے، جبکہ نقلی عطر ہمیشہ بھڑکتے ہوئے رنگوں کے ہوتے ہیں۔
۴۔ پرفیوم کی خوشبو
کسی بھی پر فیوم کی خوشبو جانچنے میں تقریباً پانچ منٹ لگتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ خوشبو پھیلنے کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ جب آپ اسپرے کرتے ہیں تو پہلا جھونکا تھوڑا تیز اور چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے پھر بتدریج ہلکا اور مزید ہلکا ہو کر خوشبو کا پتا دیتا ہے۔ جو خوشبو کچھ دیر بعد آئے وہی اس پرفیوم کی پہچان ہوتی ہے، کیونکہ پر فیوم کو پھیلنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ نقلی پرفیوم میں خوشبو ایک دم تیز سی آتی ہے جو فوراً ہی ختم ہو جاتی ہے اور ٹھہرتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔
۵۔ بار کوڈ اور سیریل نمبر
جب بھی پرفیوم خریدیں تو تسلی کر لیں کہ آیا اس پر بار کوڈ اور سیریل نمبر موجود ہے یا نہیں؟ اَور اگر موجود ہے تو کیا ڈبے پر موجود سیریل نمبر بوتل پر لکھے گئے نمبر سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اصلی پرفیوم پر تحریر شدہ سیریل نمبر بوتل اور ڈبے پر یکساں ہو گا۔
۶۔ مارکیٹ قیمت
جس بھی برانڈ کا پرفیوم خریدنے نکلیں، اس کی قیمت اور دیگر خصوصیات کے بارے میں معلومات کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل کر لیں۔ اگر کوئی بھی برانڈڈ پرفیوم آپ کو انتہائی کم قیمت میں بیچے تو مان لیں کہ وہ نقلی ہی ہو گا۔ ایسے دھوکے عموماً آن لائن خریداری کے وقت دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ہوشیار رہیں۔
خوشبو لگانے کا طریقہ
خوب صورت لباس اور آرائش و زیبائش کی طرح خوشبو لگانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اس مخصوص انداز میں پرفیوم یا عطر لگائیں گے تو اس کا اثر دیرپا بھی ہو گا اور دوسروں کو بھی تازگی کا احساس دلائے گا۔
۱۔ دن اور رات کا پرفیوم
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ کس وقت پرفیوم لگا رہے اور کون سا؟ کیونکہ دن اور رات کا پرفیوم اَلگ ہوتا ہے، جو اس کی خوشبو کے دیرپا ہونے میں معاون ہوتا ہے۔ پرفیوم کی بوتل پر اس کے بارے میں لکھا ہوتا کہ وہ دن کی ہے یا رات کی اور اَگر نہ بھی لکھا ہو تو دن کے پرفیوم کا رنگ ہلکا پیلا یا مالٹے رنگ کا ہوتا ہے جو بہار یعنی دن کو ظاہر کرتا ہے۔ رات کے پرفیوم کا رنگ گہرا نیلا، سرخ یا جامنی ہوتا ہے۔ رات کے پرفیوم کی خوشبو جلدی ختم ہو جاتی ہے جبکہ دن کی خوشبو دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے وقت دیکھ کر خوشبو کا انتخاب کریں۔
۲۔ گرم حصوں پر لگائیں
پرفیوم ہو یا عطر اسے جسم کے ان حصوں پر لگائیں جو گرم رہتے ہیں، جہاں خون کا بہائو زیادہ ہوتا ہے جیسے، نبض، کان کی لو کے پیچھے، گردن، ناف، گھٹنوں کے پیچھے اور کہنیوں وغیرہ پر، ماہرین کے مطابق کیونکہ یہ حصے ہر وقت گرم رہتے جس کی وجہ سے خوشبو کا اَثر بھی دیر تک رہتا ہے۔
۳۔ نہانے کے بعد
ہماری جلد پر پرخوشبو اس وقت زیادہ جذب ہوتی ہے جب وہ صاف اور گرم ہو۔ اس لیے اگر آپ نہانے کے بعد پرفیوم یا عطر لگائیں گے تو اس کی خوشبو زیادہ دیر تک قائم رہے گی نیز ہمیشہ ہلکی خوشبو والا صابن اور شیمپو استعمال کریں تاکہ پرفیوم اور ان کی خوشبو ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہوں۔
۴۔ خشک جلد پر لگائیں
نہانے کے بعد خوشبو لگانے سے پہلے جلد کو خشک کر لیں کیونکہ اگر جلد خشک نہیں ہو گی تو خوشبو کوئی بھی ہو، فوراً اڑ جائے گی۔
۵۔ لوشن لگائیں
پرفیوم سے پہلے جسم پر یا تو لوشن لگا لیں یا پھر پٹرولیم جیلی، جلد جتنی نرم و ملائم ہو گی خوشبو کا تاثر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ عطر سے پہلے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ عطر خود بھی تیل کی مانند ہی ہوتا ہے۔
۶۔ بالوں پر اسپرے کریں
جس طرح شیمپو اور صابن کی خوشبو بالوں میں لمبے عرصے تک رہتی ہے، اسی طرح اگر بالوں پر پرفیوم اسپرے کریں گے تو اس کی خوشبو مسحور کن تاثر دے گی۔ اس کے لیے کنگھی یا برش پر چھڑکاؤ کریں یا عطر مل کر اسے بالوں میں پھیریں۔
خوشبو لگانے میں کی جانے والی غلطیاں
آپ پرفیوم لگائیں یا عطر بہت سے لوگ جنہیں زیادہ معلومات نہیں وہ ان کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم آپ کی اس سلسلے میں مدد کیے دیتے ہیں۔
۱۔ رگڑیں مت
عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پرفیوم ہو یا عطر اسے لگانے کے بعد رگڑا جاتا ہے تاکہ خوشبو اچھی طرح لگ جائے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ مہکنے والی اشیاکو رگڑنے سے ان کے مالیکیول ٹوٹ جاتے ہیں یوںخوشبو جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے زور زور سے رگڑنے سے گریز کریں۔
۲۔ ہوا میں اسپرے مت کریں
بعض لوگ خوشبو خصوصاً پرفیوم کو ہوا میں اسپرے کرتے اَور پھر اس کے نیچے کھڑے ہو جاتے یا اس فضا میں چلتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح خوشبو مکمل طور پر ان کے جسم اور کپڑوں کو لگ جائے گی حالانکہ ایسا کرنے سے وہ صرف خوشبو ہی ضائع کرتے ہیں۔
۳۔ دھوپ اور گرمی سے بچائیں
پرفیوم کو دھوپ اور گرمی سے بچا کر سرد اور تاریک جگہ پر رکھیں۔ گرمی پرفیوم کے کیمیکلز کو تبدیل کر دیتی ہے جو نہ صرف خوشبو بلکہ رنگت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اسے ادویات کے ساتھ رکھنا بھی اثر ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
۴۔ اسپرےکریں مگر دور سے
اس کا چھڑکاؤ ہمیشہ جسم سے پانچ سات انچ کی دوری سے کریں، اگر اسپرے کرنے سے آپ کا جسم گیلا ہو تو اس کا مطلب آپ نے بوتل بہت قریب سے پکڑی ہے۔ اسپرے کی صرف پھوار آپ کے جسم پر پڑنی چاہیے۔
۵۔ پرفیوم صرف جسم پر
کوشش کریں کہ پرفیوم کپڑے اور زیورات پہننےسے پہلے لگائیں۔ بعض ایسی اقسام کے پرفیوم اور عطر وغیرہ ہوتے جو کپڑوں اور جیولری پر نشانات چھوڑ دیتے ہیں نیز ان کی وجہ سے زیورات کی رنگت اَور چمک دمک بھی ماند پڑ جاتی ہے، اس لیے احتیاط کریں۔
۶۔ کم ہی کافی ہے
وہ پرفیوم جن کی خوشبو تیز ہوتی ہے انھیں صرف ایک یا دو بار ہی لگائیں۔ اگر آپ بہت زیادہ لگائیں گے تو اس سے سر درد شروع ہو جائے گا۔ اس لیے بعض دفعہ کم ہی کافی ہوتا ہے۔
خوشبو کے فوائد
خوشبو لگانے کے بہت سے فوائد ہیں، جو درج ذیل ہیں۔
۱۔ مزاج خوشگوار کرتی ہے
خوشبو لگانے کا بنیادی فائدہ ہے کہ یہ آپ کے مزاج پر اثر انداز ہو کر اسے خوشگوار بنا دیتی ہے نیز اس سے آپ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ ہر خوشبو کا اپنا ہی ایک مزاج ہوتا ہے، اس لیے جس بھی تقریب میں جائیں، اس کے مطابق لگائی گئی خوشبو سب کو آپ کا دیوانہ بنا دے گی۔
۲۔ پُر اعتماد شخصیت
جس طرح اچھے کپڑے انسان کو پر اعتماد بناتے ہیں، اسی طرح جب آپ کو یقین ہو کہ جسم سے بدبو نہیں آ رہی اور مسحورکن مہک آپ میں چہار سو سمائے ہوئے ہے تو آپ کا اعتماد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
۳۔ پرکشش بناتی ہے
اگر آپ نے انتہائی دلفریب خوشبو لگائی ہو گی تو آپ جہاں سے بھی گزریں گے لوگ، اس خوشبو کو محسوس کر کے، آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔
۴۔ اچھی صحت میں معاون
اگر آپ کے سر میں درد ہو، پریشان ہوں یا پھر مایوسی و شدید ڈپریشن کا شکار ہوں تو اچھی خوشبو تنائو ختم کر کے آپ کو پُرسکون کر دیتی ہے۔ اسے Aromatherapyیا خوشبو کی تھراپی کا نام دیا جاتا ہے۔
۵۔ پُرسکون نیند
اگر رات کو اچھی نیند نہ آتی ہو اور آپ بےخوابی کا شکار ہوں توعطر یا پرفیوم لگا لیں۔ ان میں ایسے آئل ہوتے جو دماغ کو پرسکون کر کے آپ کو میٹھی نیند سلا دیتے ہیں۔
خوشبو کے بارے میں دلچسپ حقائق
٭ عطر قدیم مصریوں کے لیے خاص طور پر اہم تھے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ خوشبو سورج دیوتا ’’را‘‘ کے پسینے کی بوندیں ہیں۔ خوشبوؤں سے بھرے کمرے میں سے گزرنا ان کے لیے ایسا تھا جیسے اپنے خدا کے ہم قدم چلنا۔
٭ چودہویں صدی یورپ میں ایک پادری نے ’’ہنگری واٹر‘‘ کے نام سے پرفیوم تیار کیا تھا، جو نہ صرف لگانے، نہانے بلکہ پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
٭ دنیا میں سبھی انسانوں کی ناک ہوتی ہے لیکن خوشبو کی دنیا میں، وہ لوگ جو خوشبوجانچتے ہیں صرف انھیں (noses) یعنی ’’ناک رکھنےوالے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ لوگ جن کی سونگھنے کی حس باقی لوگوں سے تیز ہوتی ہے ان کی باقاعدہ طور پر اسکولوں میں تربیت کی جاتی ہے۔ خوشبو بنانے والی جو کمپنیاں ان کی خدمات حاصل کرتیں وہ ان کی ناک کی انشورنس بھی کرواتی ہیں کیونکہ وہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ عطر یا پرفیوم میں فلاں فلاں اجزاء شامل ہیں۔ ایسے افراد کی ناک بہت حسّاس ہوتی ہے۔ یہ لوگ جلد ہی سینے کے امراض اور حساسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
٭ پھولوں اور پھلوں کی خوشبو کے بارے میں تو آپ نے سنا ہو گا لیکن ۲۰۰۸ء میں امریکا میں برگر کنگ نے ایک ایسا پرفیوم متعارف کروایا تھا جس سے گرلڈ گوشت کی خوشبو آتی تھی۔ اس خوشبو کی مقبولیت کے بعد انھوں نے باربی کیو پرفیوم بھی لانچ کیا تھا۔
٭ مارچ ۲۰۱۹ء میں ’’دی اسپرٹ آف دبئی‘‘ نے ’’شمکھ‘‘ نامی ایک پرفیوم متعارف کروایا جس کی قیمت پاکستانی روپوں میں اٹھارہ کروڑ ہے۔ یہ خوشبو نہ صرف اعلی ترین ہے بلکہ اس کی شیشی بھی تین ہزار پانچ سو اکہتر ہیرے، پکھراج، موتی، اٹھارہ قیراط سونے اور خالص چاندی سے بنی ہے، نیز اس کا اسپرے ریموٹ کنٹرول سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
پرفیوم یا عطر کا استعمال یوں تو قدیم انسانی تہذیبوں سے ہو رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آ گئی ہے۔ پہلے ایک خوشبو گھر کے سارے افراد استعمال کرتے تھے مگر اب جدید تحقیق نے ثابت کیا کہ ہر انسان کو اپنی شخصیت کے مطابق پرفیوم یا عطر لگانا چاہیے۔ آپ کی ذات سے میل کھاتی ایک دلفریب خوشبو نہ صرف آپ کو مسحورکن احساس دلائے گی بلکہ آپ کو دوسروں کی نظر میں ممتاز بھی کر دے گی پھر سبھی آپ کو کہیں گے؎
تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے

[/et_pb_text][/et_pb_column][/et_pb_row][/et_pb_section]

Share:

More Posts

Buy Urdu Digest