دلیر لینا خان امریکی کمپنیوں کو اجارہ دار بننے سے روک کر عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے پُر عزم
پچھلے دنوں امریکا کے ممتاز اخبار، نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ امریکی سٹاک مارلیٹ میں صرف ”۱۳ “کمپنیاں پچپن فیصد سے زائد سرمائے کی مالک ہیں۔یہ سبھی ٹیک(Tech )کمپنیاں ہیں یعنی کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور متعلقہ ٹکنالوجیوں کا کاروبار یا تجارت کرتی ہیں۔
امریکا کی سٹاک مارکیٹ سرمائے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑی ہے۔یہ سرمایہ ”۴۲“ٹریلین ڈالر سے زیاد بتایا جاتا ہے۔اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ چین کا جی ڈی پی ۱۷ ٹریلین ڈالر ہے ۔اس بیالیس ٹریلین ڈالر میں سے تقریباً بائیس ٹریلین ڈالر صرف تیرہ ٹکنالوجی کپمنیوں کی ملکیت ہیں۔
ان دیوہیکل تیرہ کمپنیوں میں ایپل کمپنی سرفہرست ہے جس کی مالیت تین ٹریلین ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے۔اس کے بعد مالیت کے لحاظ سے یہ کمپنیاں آتی ہیں: مائکروسوفٹ کارپوریشن، الفابٹ (گوگل)، ایمزن، نیودیا(NVIDIA )، ٹیسلا، میٹا(فیس بک)، بروڈکام، اوریکل، کوسٹکو، ایڈوب، سسکو اور تھرموفشر سائنٹفک۔
بعض ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ بڑی ٹیک کمپنیاں خفیہ طور پہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں جن کی بدولت معاصر چھوٹی کمپنیاں ان کے سامنے ٹک نہ سکیں اور ناکام ہو جائیں۔یوں مارکیٹ ان کے قبضے میں رہتی ہے۔ان ہتھکنڈوں کے ذریعے وہ اپنے شعبے میں اجارہ دار بن چکی ہیں۔
اجارہ دار بن کر مگر کوئی بھی کمپنی آمر یعنی ڈکٹیٹر بن جاتی ہے۔مثال کے طور پر وہ اپنی مرضی کی قیمت پہ مصنوعات فروخت کرنے لگتی ہے۔چونکہ مارکیٹ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی اور بڑی کمپنی موجود نہیں ہوتی لہذا صارفین مجبور ہو جاتے ہیں کہ اجارہ دار کمپنی کی مصنوعات منہ مانگے دام پہ خرید لیں۔
ایف ٹی سی کا قیام
کمپنیوں کو اجارہ دار بننے سے روکنے اور صارفین کے حقوق کی حفاظت کے لیے حکومت ِامریکا نے ۱۹۱۴ءمیں ایک سرکاری ادارے، ایف ٹی سی (Federal Trade Commission)کی بنیاد رکھی تھی۔یہ ادارہ امریکی کمپنیوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔جو کمپنی غیر قانونی سرگرمی اپنائے یا اجارہ دار بننے کی سعی کرے تو اسے ہر قانونی طریق سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایک کمپنی کی ترقی اور پھیلاؤ اچھی بات ہے کہ اس طرح مملکت میں روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں اور لوگوں کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔مگر جب کمپنی مالکان غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقے اپنا کر اپنے شعبے میں دیگر کمپنیوں کو کام نہ کرنے دیں تو خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔اس عمل کے پیچھے عموماً لالچ وہوس کارفرما ہوتی ہے۔ایسے مالکان زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی تمنا رکھتے اور اپنا اثرورسوخ و طاقت بڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
امریکا میں اپنی کمپنیوں کو اجارہ دار بنانے کی خاطر سب سے پہلے انیسویں صدی کے آخر میں تب کے امیر ترین فرد، راک فیلر نے ناجائز و غیر اخلاقی طریق اختیار کیے تھے۔انہی ناروا طریقوں کی وجہ سے امریکی عدلیہ نے راک فیلر کی بڑی کمپنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔اور اسی واقعہ کے بعد ایف ٹی سی کا سرکاری ادارہ ظہور پذیر ہوا۔اس ادارے نے کمپنیوں کو اجارہ دار بننے اور دیگر غیر قانونی طریقے اپنانے سے روکنے کے لیے قوانین بنائے اور ان پہ سختی سے عمل درآمد کرایا جانے لگا۔
لینا خان کی آمد
۲۰۱۷ءمیں امریکی ئیل یونیورسٹی میں قانون کی ایک طالبہ، لینا خان نے اپنے مضمون ”Amazon’s Antitrust Paradox“کے ذریعے امریکا کے کاروباری و سرکاری حلقوں میں ہلچل مچا دی۔لینا خان نے مضمون میں یہ استدلال پیش کیا کہ ایف ٹی سی کے قوانین فرسودہ اور دقیانوسی ہو چکے،اس لیے اب وہ دیوہیکل کپمنیوں کی راہ نہیں روک پاتے اور وہ اپنے شعبوں میں اجارہ دار بن رہی ہیں۔
دراصل ایف ٹی سی کے قوانین سے بچنے اور چھوٹی کمپنیوں کو مسابقت یعنی مقابلے سے باہر کرنے کی خاطر امریکا میں بڑی کمپنیوں نے یہ حکمت عملی اپنا لی کہ زیادہ رقم دے کر انھیں خریدنے لگیں۔اس طرح ان کے شعبے میں کوئی بھی کمپنی ترقی کر کے بڑی نہ بن پاتی اور انھیں چیلنج نہ کرتی۔اس حکمت عملی کی مدد سے نامانوس طریقے سے کئی بڑی کمپنیاں اپنے اپنے شعبوں میں اجارہ دار بن گئیں۔امریکا کی دیوہیکل آن لائن بزنس کمپنی، ایمزن اسی حکمت عملی پر کارفرما تھی ، اسی لیے لینا خان نے اپنے مضمون میں اسے خاص نشانہ بنایا۔
لینا خان کے استدلال کو کمپنیوں کی اجارہ داری کے مخالف علمی، سیاسی اور معاشی حلقوں میں بہت مقبولیت ملی۔حتی کہ جون ۲۰۲۱ءمیں نئے امریکی صدر، جو بائیڈن نے اکتیس سالہ لینا خان کو ایف ٹی سی کا سربراہ بنا دیا۔آپ کو اس معزز سرکاری امریکی ادارے کی کم عمر ترین چیرمین بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ادارے کی تاریخ میں سب سے زیادہ جنگجو اور اختراع پسند سربراہ ہیں۔
یہ واضح رہے کہ لینا خان کے والدین پاکستانی ہیں۔وہ ترک وطن کر کے پہلے برطانیہ میں بس گئے تھے۔پھر ۲۰۰۰ءمیں امریکا چلے گئے۔گیارہ سالہ لینا یوں امریکی شہری بن گئیں۔انھوں نے ئیل یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف لاکر رکھا ہے۔۲۰۱۸ءمیں ماہر امراض قلب ، شاہ علی سے شادی ہوئی جو کولمبیا یونیورسٹی ، نیویارک میں کام کرتے ہیں۔
ایف ٹی سی کی سربراہ بن کر لینا خان خاص طور پہ امریکی ٹیک کمپنیوں کے خلاف سرگرم ہو گئیں۔جنوری ۲۲ءمیں مائیکروسوفٹ نے اعلان کیا کہ وہ وڈیوگیمز اور میڈیا کی کمپنی، ایکٹی ویژن بلیزرڈ(Activision Blizzard)ارب ڈالر میں خرید رہی ہے۔لینا خان نے اس خریداری کو اجارہ دار بننے کی کوشش قرار دیا اور خریداری روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔
مقدمہ ایک سال تک چلتا رہا۔عدالت نے آخر مائیکروسوفٹ کو ایکٹی ویژن بلیزرڈ خریدنے کی اجازت دے دی۔یوں ایف ٹی سی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔تاہم لینا خان نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اعلی عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گی۔ یہ یاد رہے کہ امریکا میں ٹیک کمپنیوں کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔بعض ماہرین کا تو یہ دعوی ہے کہ یہ کمپنیاں رشوت و دہمکیوں کے ذریعے عدالتی فیصلے تبدیل کرانے کی بھی طاقت رکھتی ہیں۔
ہائوس میں پیشی
جولائی ۲۳ءمیں لینا خان امریکی قومی اسمبلی(ہاؤس)کی جوڈیشنری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔ارکان کمیٹی تین گھنٹے تک ان سے سوال جواب کرتے رہے۔اپوزیشن پارٹی، ریپبلکن کے ارکان کا دعوی تھا کہ لینا خان اپنے اقدامات سے کمپنیوں کو ڈرا دہمکا رہی ہیں۔یوں کاروباری شخصیات پریشانی کا شکار ہیں۔اور یہ کہ وہ اپنے فرائض عمدہ طریقے سے انجام نہیں دے رہیں۔تاہم حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان نے ان کی تعریف کی اور کہا کہ وہ طاقتور ٹیک کمپنیوں کے خلاف مصروف عمل ہیں جو اجارہ دار بننا چاہتی ہیں۔
یہ واضح رہے کہ ایپل تین ٹرلیلن ڈالر مالیت کی کمپنی بن چکی اور اس کا پھیلاؤ مسلسل جاری ہے۔وہ چھوٹی کمپنیاں خرید کر اپنے شعبے میں درحقیقت اجارہ دار بن چکی۔جبکہ دیگر امریکی ٹیک کمپنیاں بھی بھرپور سعی کر رہی ہیں کہ جو چھوٹی کمپنی ان کا کاروبار کو چیلنج کرے، وہ اسے منہ مانگی رقم دے کر خرید لیں۔یہ کمپنیاں اتنی زیادہ رقم کی بولی لگاتی ہیں کہ اسے رد کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔یوں کئی چھوٹی کمپنیاں خرید کر ٹیک کمپنیوں نے اجارہ دار بننے کا سفر اختیار کر رکھا ہے۔
لینا خان اب اپنے سرکاری ادارے کے نئے قوانین تشکیل دے رہی ہیں۔مقصد یہ ہے کہ مقدمات میں ٹیک کمپنیوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔یہ ٹیک کمپنیاں نامی گرامی وکلا کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔نیز ایف ٹی سی اور لینا خان کے خلاف سوشل میڈیا میں منفی پروپیگنڈا زورشور سے کیا جاتا ہے۔اس کے باوجود لینا خان کا حوصلہ ماند نہیں پڑا اور وہ ہمت ودلیری سے ٹیک کمپنیوں کے طاقتور مالکوں سے نبردآزما ہیں۔یہ مالکان خفیہ طور پہ مل جل کر لینا خان کے خلاف حکمت عملی اپناتے ہیں تاکہ مقدمات میں انھیں شکست دی جا سکے۔
امریکی میڈیا کی رو سے صدر بائیڈن نے لینا خان کے تجویز کردہ قوانین منظور کر لیے ہیں۔اس منظوری کے بعد لینا خان کمپنیوں کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں روکنے کے لیے زیادہ سخت اقدامات کر سکیں گی۔یاد رہے، ان کا سرکاری ادارہ کمپنیوں کے کارٹل بنانے کی روش پر بھی روک تھام کرتا ہے۔
کارٹل کیا ہے؟
دنیا بھر میں کمپنیاں کارٹل اس وقت بناتی ہیں جب وہ اپنی مصنوعات یکساں قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتی ہوں۔یوں منڈی میں ان کے مابین مقابلہ نہیں رہتا جس سے صارف کو براہ راست نقصان ہوتا ہے۔یہ کارٹل اپنی مصنوعات کو زیادہ قیمت پر بیچنے کی خاطر بنائے جاتے ہیں۔اسی لیے عوام و صارفین کے حقوق کی نگران حکومتیں کارٹل نہیں بننے دیتیں اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہیں۔کمپنیاں خفیہ طریقے سے سازباز کر کے کارٹل بناتی ہیں۔
غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کمپنیاں اس طبقہ بالا یا ایلیٹ کلب کا حصہ ہیں جس نے ہر ملک میں بیشتر وسائل اور دولت پہ قبضہ کر رکھا ہے۔مملکت کا حکمران طبقہ یا اسٹیبلشمنٹ بھی اس ایلیٹ کلب کا حصہ ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں تو پھر طبقہ بالا نے وسائل و دولت میں عوام کو حصے دار بنا رکھا ہے، ترقی پذیر ملکوں میں ایلیٹ کلب کے ارکان ہی وسائل پہ قابض ہیں۔اگر کوئی ان پہ حملہ آور ہو تو وہ پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کرتے اور اسے ختم کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کا بھی بعینہ یہ دعوی ہے کہ وہ حکمران طبقے کی کرپشن و طاقت ختم کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے انھیں سزا دی گئی۔
ترقی پذیر ممالک میں چونکہ سبھی وسائل حکمران طبقے کی گرفت میں ہیں، اس لیے وہاں عوام الناس کا بُرا حال ہے۔وہ غربت، جہالت، بیماری، مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔جبکہ حکمران طبقے نے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا کر عام آدمی کی مت مار دی ہے۔نت نئے ٹیکسوں کی آمدن سے ہی حکمران طبقہ اپنے اللّے تللّے پورے کرتا اور یقینی بناتا ہے کہ اس کی زندگی بدستور آسائشوں سے پُر رہے۔
ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا کے کئی ملکوں میں کرپٹ سیاست داں، لالچی جرنیل، بے ایمان سرکاری افسر، انصاف دینے سے عاری جج اور قانون شکن نجی امرا سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔جبکہ عوام کو دو وقت کی روٹی بھی بہ مشکل ملتی ہے۔اگر یہی چلن رہا تو مستقبل میں کئی ترقی پذیر ملکوں میں سری لنکا کی طرح مشتعل عوام حکمران طبقے کا بوریا بستر گول کر دیں گے۔یا پھر وہاں انقلاب فرانس کی طرح خوفناک خونی کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔
امریکا میں بھی ایلیٹ طبقہ بہت طاقتور ہے کیونکہ تقریباً تمام وزیر(سیکرٹری)، جرنیل، سیاست داں، سرکاری افسر، جج اور امرا اس کا حصہ ہیں۔یہ اپنے مفادات کی سختی سے نگرانی کرتے ہیں۔امریکی پارلیمنٹ میں مگر سوشلسٹ ارکان بھی موجود ہیں۔لہذا یہ ارکان حکمران طبقے کے خلاف وقتاً فوقتاً قوانین بناتے رہتے ہیں۔سوشلسٹ ارکان کی اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہے اور وہی کھل کر لینا خان کی حمایت کرتے ہیں۔
لینا خان عنقریب ایمزن کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کر رہی ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ نہایت ہائی پروفائل کیس ہو گا۔یاد رہے، ایمزن دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے۔یہ مالیت کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی کمپنی ہے۔ ۱۴۰ سو ارب ڈالر سے زائد مالیت رکھتی ہے ۔اس کے مالک، جیف بیزوس کا شمار بھی دنیا کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا ہے۔مگر لینا خان کا کہنا ہے کہ ایمزن غیر اخلاقی اور ناجائز سرگرمیوں کی مدد سے اپنے شعبے (ای کامرس)میں اجارہ دار کمپنی بن چکی۔
ایمزن پہ لینا خان درج ذیل تین بڑے الزامات لگاتی ہیں۔انہی کی بنیاد پر امریکی عدالت میں کمپنی کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
چیزیں سستی بیچو
ایمزن میں ۶۰ فیصد اشیا آزاد بیوپاری یا تاجر فروخت کرتے ہیں۔ایمزن ان تاجروں پہ دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ اپنی اشیا کم قیمت پر یعنی سستی فروخت کریں۔جو تاجر ایسا کرنے سے انکار کریں، تو ایمزن دانستہ ان کی درجہ بندی کم کر دیتی ہے۔معنی یہ کہ جب صارفین سرچنگ کریں تو ان کی اشیا کا نام اوپر نہیں آتا ، چاہے وہ کتنی ہی معیاری چیزیں بیچ رہے ہوں۔
اشیائے ضرورت سستی ہونا صارفین کے لیے مفید امر ہے۔لیکن ای کامرس کی دیگر ویب سائٹس کے لیے یہ کاروباری لحاظ سے تباہ کن بات ہے کیونکہ وہ پھر ایمزن کا مقابلہ نہیں کر پاتیں اور جلد بند ہو جاتی ہیں۔یہ امر مسابقت کے اصولوں سے متصادم ہے۔اسی وجہ کے باعث کیلی فورنیا اور واشنگٹن ڈی سی کی امریکی ریاستیں ایمزن کے خلاف مقدمے کھڑے کر چکیں۔
ہماری خدمات حاصل کرو
ایمزن پہ یہ بھی الزام ہے کہ وہ بیوپاریوں کو مجبور کرتی ہے کہ سب اس کی لاجسٹکس سروسز یعنی شپنگ، وئیر ہاؤس، سٹوریج اور ایڈورٹائزنگ کی خدمات حاصل کریں۔جو تاجر یہ حکم ماننے سے انکار کر دیں، ان کی اشیا درجہ بندی میں بہت نیچے پھینک دی جاتی ہیں۔
یاد رہے، ایمزن ای کامرس کے علاوہ دیگر کاروبار بھی کر رہی ہے۔ان میں ایڈورٹائزنگ کمپنی، شپنگ نیٹ ورک، سپرمارکیٹ چین اور مووی اسٹوڈیو شامل ہیں۔یہ کمپنی خاص طور پہ امریکی عوام کی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکی۔تاہم اس کے تیزرفتار پھیلاؤ نے عام امریکیوں کو ایمزن سے خوفزدہ بھی کر رکھا ہے۔وہ قطعاً نہیں چاہتے کہ یہ کمپنی اجارہ دار بن جائے۔
غیر منصفانہ عمل
ایمزن کمپنی پر تیسرا بڑا الزام یہ ہے کہ وہ اپنی بنائی اشیا کو سائٹ کی درجہ بندی میں سب سے اوپر رکھتی ہے ، چاہے وہ دوسروں کی چیزوں سے ناقص ہی ہوں۔جبکہ معیاری اشیا صرف اس لیے درجہ بندی میں نیچے آتی ہیں کہ وہ دوسری کمپنیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔گویا ایمزن ناجائز طور پہ اپنی ناقص اشیا کی تشہیر کرتی ہے۔یہ امریکی قوانین کی رو سے غیر قانونی فعل ہے۔
ایمزن کے خلاف مقدمہ کئی سال چل سکتا ہے۔جبکہ لینا خان دسمبر ۲۰۲۴ءمیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گی۔نئے انتخابات سے دوبارہ ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں آ گئی تب بھی یقینی نہیں کہ وہ لینا خان کو اپنے عہدے پہ برقرار رکھے گی۔مگر اس پاکستانی نژاد دلیر خاتون کو امریکا میں اس لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے بڑی بہادری سے دیوہیکل ٹیک کمپنیوں اور طبقہ بالا سے ٹکر لی ۔ان کی سعی رہی کہ یہ طبقے قانون و انصاف کے سامنے سرنگوں ہو جائیں۔