روزمرہ زندگی میں مصائب و تکالیف دور کرنے والا اسمِ اعظم
محمدؐ مرکزِ مہر و وَفا ہیں محمدؐ مظہرِ نورِ خدا ہیں
محمدؐ فخرِ موجوداتِ عالم محمد مصطفیٰ صلِ علیٰ ہیں
محمد مصطفیٰ ﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں درود وَ سلام
ہر مسلمان کا دلِ سیہ پیغمبراں، ہادیِ اکبر، حبیبِ کبریا، خاتم الانبیاء ﷺ کی محبت سے سرشار ہے۔ اُس کا دل ہر وقت اُن کی یاد سے منور ہے۔ وہ زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’سو بہانوں سے تیرا ذِکر تیری بات کروں‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ کن الفاظ میں وہ ذاتِ برکات کو یاد کرے؟ اسلام وہ جامع اور کامل دین ہے جس نے اہلِ ایمان کو اِس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات واضح الفاظ میں بتا دی ہے۔ خالقِ کائنات نے قرآنِ کریم میں سورۃ الاحزاب میں صلوٰۃ کی نسبت اوّلاً اپنی طرف فرمائی ہے۔ اُس کے بعد اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کی طرف۔ پھر اہلِ ایمان کو حکم دیا کہ اے مومنو! تم بھی محمد ﷺ سے اپنی عقیدت اور محبت ظاہر کرنے کے لیے اُن پر درود وَ سلام بھیجو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، جو آدمی مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اُس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ)
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے توفیق دی کہ ہوش سنبھالتے ہی درودِ پاک پڑھنا اپنی عادتِ ثانیہ بن گئی۔ اگرچہ یہ ذاتی باتیں بندے اور رَب کا باہمی معاملہ ہیں۔ لیکن اِس مضمون میں چند واقعات بیان کرنے کا مقصد آپ احباب کو اَپنے عملی تجربات سے آگاہ کرنا ہے۔ یاد رَکھیں اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے کو بہت سے انعامات اور فوائد سے نوازتے ہیں۔
میرا چھوٹا بھائی امریکا میں کئی سال سے مقیم ہے۔ چند سال قبل وہ بچوں سمیت امریکا سے ملنے میرے پاس آیا۔ مَیں اُنھیں ہوائی اڈے سے لے کر گھر آیا۔ اُن کا سامان کمرے میں رکھا اور کسی کام سے نزدیکی بازار چلا گیا۔ وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ جب واپس آیا، تو دیکھا کہ بھائی ہتھوڑی اور چھینی سے اٹیچی کیس کے تالوں پر ضربیں لگا رہا ہے۔
مَیں نے پوچھا: یہ کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا کہ آتے وقت یہ دونوں اٹیچی کیس نئے خریدے تھے اور اَب یہ کھل ہی نہیں رہے۔ بڑی دیر سے اِنھیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ مجبوراً تالے توڑ رہا ہوں۔ مَیں نے کہا، ایک لمحہ انتظار کرو، تالے ابھی کھل جائیں گے۔ مَیں نے ایک مختصر تعداد دُرود شریف کی پڑھی اور اَللہ کا نام لے کر چابی لگائی، تو تالے کھل گئے۔ وہ بہت حیران ہوا کہ تم نے یہ کیا عمل کیا کہ تالے کھل گئے۔
مَیں نے بتایا: اِن پر اسمِ اعظم پڑھا ہے اور اُس کی برکت سے یہ تالے کھل گئے ہیں۔ اُس نے کہا، وہ اِسمِ اعظم مجھے بھی بتاؤ۔ مَیں نے کہا، وہ اِسمِ اعظم درود شریف ہے۔ وہ ماشاء اللہ اسلامی ذہن کا مالک ہے۔ اُس نے میری بات پر عمل کیا اور کامیاب زندگی گزار رَہا ہے۔
یہ ایک بہت پرانی بات ہے۔ مَیں دفتر سے گھر آیا، تو دیکھا بیگم بہت پریشان ہے اور ہاتھوں میں نوٹ ہیں۔ بار بار گن رہی ہے۔ مَیں نے کہا، تمہارے چہرے پر پریشانی ہے۔ خیریت تو ہے۔ کہنے لگی مَیں نے کمیٹی ڈالی تھی۔ شاہ صاحب کی بیگم کمیٹی لینے آ رہی ہیں اور اِس میں ایک ہزار رُوپے کم ہیں۔ کئی دفعہ نوٹ گن چکی ہوں۔ (اُس زمانے میں ایک ہزار رُوپے کی بڑی وقعت تھی۔) مَیں نے کہا، مَیں ابھی آتا ہوں۔ مَیں نے وضو کیا، ایک تعداد دُرود شریف کی پڑھی۔ پھر نوٹ گنے، تو وہ پورے تھے۔
مَیں نے بیگم سے کہا کہ نوٹ تو پورے ہیں۔ اُس نے کہا مَیں کئی دفعہ گن چکی ہوں۔ پھر مَیں نے اُسے ایک ایک کر کے نوٹ گنوائے، تو وہ پورے تھے۔ کہنے لگی، آپ کے ہاتھوں میں جا کر کیسے پورے ہو گئے؟ مَیں نے اُسے بتایا کہ جب بھی ایسی پریشانی ہو، تو درود شریف پڑھ لیا کرو۔ سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔
ملازمت کے زمانے میں بےشمار پریشانیاں اور مشکلات درپیش آئیں لیکن درود شریف پڑھنے سے حل ہو گئیں۔
ایک روز دَفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ چپراسی نے آ کر کہا، جنرل مینیجر نے فلاں فائل فوری مانگی ہے۔ اُن کے کمرے میں میٹنگ ہو رہی ہے۔ مَیں فوری طور پر اٹھا۔ فائلنگ کیبنٹ کا تالا کھولا۔ ساری درازیں اچھی طرح دیکھیں۔ فائل نہیں ملی۔ کئی بار دَیکھا لیکن اُس کا کہیں پتا نہیں تھا۔ مَیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ سوچنے لگا کہ یہاں سے کہاں جا سکتی ہے۔
اتنے میں میرے ایک ساتھی نے پوچھا، کیا مسئلہ پیش آ گیا، سر پکڑے کیوں بیٹھے ہو؟ مَیں نے اُسے مسئلے کی نوعیت بتائی۔ اُس نے کہا کہ لگتا ہے آپ اِس پریشانی میں درود شریف پڑھنا بھول گئے ہیں۔ مَیں نے کہا، واقعی تم درست کہتے ہو۔ اُس نے کہا، فوری طور پر دل میں پڑھو اَور پھر تلاش کرو۔ مَیں نے آنکھیں بند کر کے رِقت کے ساتھ درود شریف پڑھا، دعا کی۔ دوبارہ پہلی دراز کھولی، تو فائل سب سے اوپر پڑی تھی۔ وہاں کیسے آ گئی؟ مَیں اور میرا دوست حیران رہ گئے۔ فوری طور پر دو نفل شکرانے کے پڑھے۔
یہ کئی سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مجھے کسی کے ساتھ اُس کے کام کے سلسلے میں گرین ویو تھانے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اُس زمانے میں گرین ٹاؤن، لاہور آباد ہو رَہا تھا۔ سڑکیں ناہموار تھیں اور اُن پر روشنی بھی نہیں تھی۔ مَیں اُس شخص کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر گرین ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گیا۔ لوگوں سے راستے میں مطلوبہ جگہ کا پتا کرتے جا رہے تھے۔ بڑی مشکل سے جب تھانے کے سامنے پہنچے، تو موٹرسائیکل کو بند کرنے کے لیے سوئچ بند کرنا چاہا، تو دیکھا کہ چابیوں کا گچھا جس میں دفتر کی بھی ضروری چابیاں تھیں، سوئچ سے نکل کر کہیں گر گیا تھا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔
مَیں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اب ہم واپس چلتے اور چابیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ تم بھی درود شریف پڑھو اَور مَیں بھی پڑھتا ہوں اور اُس کی کرامت دیکھتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ سڑک پر بھی نظر رکھو حالانکہ مغرب کی اذان ہو چکی تھی اور اَندھیرا ہو گیا تھا۔ ہم مسلسل درود شریف پڑھتے جا رہے تھے۔ جب کافی آگے آ گئے، تو دیکھا کہ ایک دودھ دہی والی دکان کے سامنے ایک شخص ہاتھ میں چابیوں کا گُچھا لیے کھڑا لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ یہ چابیاں کس کی ہیں۔ اتنے میں ہم پہنچ گئے اور کہا کہ یہ ہماری ہیں۔ چابیاں حاصل کر کے بہت خوشی ہوئی۔
واپسی پر مَیں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اب بھی درود شریف پڑھتے ہوئے چلو تاکہ جس مقصد کے لیے جا رہے ہیں، وہ کامیاب ہو جائے۔ بہرحال جب ہم وہاں پہنچے، تو کرشماتی طور پر ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ ہوا اَور اُس شخص کا مسئلہ حل ہو گیا۔
مَیں اپنی ایک عزیزہ کی ایم آئی رپورٹ اور اَیکسرے وغیرہ لینے ایک لیبارٹری میں گیا۔ تمام چیزیں لیں اور رِکشے میں بیٹھ کر گھر آنے لگا۔ راستے میں بیکری سے کچھ سامان خریدا۔ جب گھر پہنچا، تو بیکری کا سامان اتار لیا لیکن وہ اَیکسرے اور رِپورٹیں اتارنا بھول گیا۔ رکشے والے کو پیسے دیے اور اُسے فارغ کر دیا۔ جب گھر میں داخل ہوا، تو تھوڑی دیر بعد بیگم نے کہا، جو رپورٹیں لینے گئے تھے، وہ کہاں ہیں؟ تب مجھے خیال آیا کہ مَیں بدحواسی میں وہ تمام رپورٹیں وغیرہ تو رکشے میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔
پریشانی کی حالت میں درود شریف پڑھتا ہوا باہر آ کر رِکشے کو دیکھنے لگا لیکن اُس کا دور دُور تک پتا نہیں تھا۔ مَیں درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ کچھ وقفے کے بعد مَیں نے دیکھا کہ وہ رِکشا مخالف سمت سے آ رہا ہے۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اُسے ہاتھ دیا، وہ رُک گیا۔ مَیں نے کہا، بھائی تمہارے رکشے میں میرے ایکسرے اور رِپورٹیں رہ گئی ہیں۔ اُس نے کہا مجھے نہیں پتا، آپ دیکھ لیں۔ جب اچھی طرح دیکھا، تو وہ نشست کے نیچے چلی گئی تھیں۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پوچھا کہ جب تم چلے گئے تھے، تو دوبارہ یہاں کیوں آئے؟
اُس نے کہا، جب مَیں اُس سڑک پر گیا، تو سوچا کہ آگے جا کر بڑی سڑک پر نکل جاؤں گا جہاں سواری ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جب کافی آگے چلا گیا اور بڑی سڑک نظر نہیں آئی، تو لوگوں سے بڑی سڑک کا پوچھا۔ اُنھوں نے کہا یہاں سے مین روڈ بہت دور ہے۔ جس راستے سے آئے تھے، اُسی راستے پر واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ مَیں دوبارہ اِسی راستے پر آ گیا اور آپ کی امانت آپ کو مل گئی۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ایک روز نمازِ ظہر پڑھ کر مسجد سے واپس آیا۔ اُس روز بڑی شدید گرمی تھی۔ جب گھر پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ پڑوسی پسینے میں شرابور تالا کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ کیا بات ہے، اتنی گرمی میں کھڑے ہیں؟ کہنے لگے کہ یہ تالا نہیں کھل رہا۔ گھر والے کسی کام سے گئے ہیں۔ مَیں نے کہا، تالا اِن شاء اللہ ابھی کھلتا ہے۔ آپ چھاؤں میں کھڑے ہو جائیں۔
مَیں نے کچھ تعداد میں درود شریف پڑھا اور اُس کی برکت سے تالا کھل گیا۔ اُنھوں نے مسلسل کئی بار تالا کھولا اور بند کیا۔ وہ ٹھیک کام کر رہا تھا۔ کہنے لگے کہ تم نے کیا عمل کیا؟ مَیں نے بتایا کہ درود شریف پڑھا، یہ اُس کی برکات ہیں۔ آپ بھی اپنی زندگی میں کثرت سے پڑھیں۔ آپ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
روزمرہ زندگی میں بےشمار مسائل اور مشکلات آئیں لیکن جہاں درود شریف کا ورد شروع کیا، سب مسائل اور تکلیفیں دور ہو گئیں۔ مَیں نے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’حج اور عمرہ بلاوائے خداوندی‘‘۔ اُس میں یہ تحریر کیا ہے کہ تین دفعہ مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو حج اور عمرے کا بلاوا آیا۔ میرے پاس پیسے تھے نہ ہی پاسپورٹ اور وِیزا۔ جانے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔ مجھے تینوں دفعہ صرف ایک ٹیلی فون آیا کہ آپ کا بلاوا آیا ہے اور مَیں ایک ہفتے کے اندر اندر عمرے؍حج کے لیے روانہ ہو گیا۔
مضمون ختم کرنے سے قبل دل کی گہرائیوں سے ؎
ہزاروں درود اُس طبیبِ جہاں پر ہزاروں سلام اُس شہ انس و جان پر
ہمیں جس نے بخشا اِک دین اِک آئینہ حق نما اللہ اللہ