fbpx

 ایران کے صدرابراہیم الرئیسی کو قتل کیا گیا؟

Iran's President Ibrahim

سائنسی ثبوت آشکارا کرتے ہیں کہ یہ حادثہ نہیں ایک قاتلانہ حملہ تھا جو جدید ترین ٹکنالوجی اور آلات کے ذریعے انجام پایا

یہ ۱۹ مئی ۲۰۲۴ءکی صبح تھی جب ایران کے صدرابراہیم الرئیسی سد قیز قلعہ سی نامی ڈیم پر پہنچے۔یہ ڈیم ایران اور آذربائیجان کی سرحد پر تعمیر ہو رہا ہے۔ایرانی صدر اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے آئے تھے۔اس میں آذربائیجانی صدر،الہام علیوف بھی شرکت کر رہے تھے۔تقریب ختم ہوئی تو ایرانی صدر اپنے ہیلی کاپٹر میں جا بیٹھے۔ان کے ساتھ ایرانی وزیرخارجہ اور دیگر تین ساتھی بھی تھے۔ہیلی کاپٹر کا عملہ تین افراد پہ مشتمل تھا۔ایرانی وفد کے بقیہ ارکان دو اورہیلی کاپٹروں میں سوار ہوئے۔ تینوں ہیلی کاپٹروں نے تبریز جانا تھا جہاں صدر ابراہیم نے ایک آئل ریفائنری کے منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔
دھند بہت تھی
دوران راہ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر پُراسرار انداز میں ایک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں ہیلی کاپٹر پہ سوار سبھی مسافر ہلاک ہو گئے۔ سرکاری طور پہ بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر موسم کی خرابی کے باعث تباہ ہوا۔معنی یہ کہ علاقے میں بہت دھند تھی اور ہیلی کاپٹر کا عملہ پہاڑی مقام کو نہ دیکھ سکا۔لہذا ہیلی کاپٹر چٹانوں سے جا ٹکرایا اور اس کے پرخچے اڑ گئے۔
گویا سرکاری لحاظ سے یہ ایک حادثہ قرار پایا۔ مگر بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حادثہ نہیں تھا ، بلکہ اس کی آڑ میں امریکا و اسرائیل نے اپنے ایک کٹر دشمن کو قتل کر دیا۔ کئی شواہد اس دعوی کے ثبوت کی حیثیت سے پیش کیے جاتے ہیں۔
خامنہ ای کے جانشین
تریسٹھ سالہ سید ابراہیم الرئیسی عالم دین تھے۔ایران کے قاضی القضاة (چیف جسٹس )بھی رہے۔انھیں ایران کے رہبراول، خامنہ ای کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔امریکا و اسرائیل کے کٹر مخالف تھے۔ کچھ عرصہ قبل انہی کے حکم پر ایرانی افواج نے تین سو سے زائد راکٹ، میزائیل اور ڈرون اسرائیل کی سمت داغے تھے۔یہ جنگ وجدل کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا جس نے امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک کے حکمران طبقوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا ۔گو اس حملے سے اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا مگر ایران کی عسکری صلاحیتوں کی دھاک امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے دلوں میں ضرور بیٹھ گئی۔
اسرائیل پہ ایرانی حملہ
اس حملے سے قبل اسرائیل اور امریکا کے بھی حکمران طبقے ایران کو دہمکیاں دیتے رہتے تھے کہ وہ فضائی حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں گے۔یہ دونوں ملک غیر ممالک پر حملے کرنے میں تجربہ ومہارت رکھتے ہیں۔اس لیے دنیا بھر میں یہ خیال پھیل گیا کہ امریکا و اسرائیل مل کر ایران پہ حملہ کرنے کی کامل قدرت رکھتے ہیں۔
اسرائیل پہ ایران کے زبردست فضائی حملے نے مگر اس خیال کو خاصی حد تک ماند کر دیا۔اسرائیلی حکمران تو ایران پہ حملے کی گیدڑ بھبکیاں دیتے رہتے تھے، اِدھر ابراہیم الرئیسی کی زیرقیادت ایرانی افواج نے اسرائیل پہ ایک بڑا فضائی حملہ کر دیا۔گو اس سے اسرائیلی عسکری تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا مگر ایرانی حملہ دو اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
دو اہداف حاصل
اول یہ کہ امریکا واسرائیل نے پروپیگنڈے کے زور پہ جو یہ خیال اجاگر کیا تھا کہ وہ باآسانی ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر سکتے ہیں، اس کو خاصی زک پہنچی۔ایران نے اپنے فضائی حملے کی بدولت سبھی پہ آشکارا کر دیا کہ وہ عسکری سائنس و ٹکنالوجی میں خاصی ترقی کر چکا اور اسے معمولی حریف نہیں سمجھا جائے۔دوم یہ کہ اپنے حملے سے ایران پوری دنیا میں یہ تاثر جنم دینے میں کامیاب رہا کہ اگر اسرائیل وامریکا نے ایرانی ایٹمی وعسکری تنصیبات پہ فضائی حملہ کیا تو انھیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ غرض امریکا و اسرائیل نے اپنی عسکری طاقت کا جو ظاہری طلسم کھڑا کیا تھا، ایران نے اپنے فضائی حملے سے اسے پاش پاش کر دیا۔
وار کا موقع مل گیا
اس فضائی حملے کے بعد ہی امریکا و اسرائیل میں اعلی ترین سطح پہ یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ جس طرح بھی بن پڑے، ایرانی صدر کو قتل کر دیا جائے۔یوں ایک تو دونوں ملک اپنے کٹر دشمن سے نجات پا لیتے۔دوم ایران کے فضائی حملے کا بھی سخت جواب دے دیا جاتا۔چناں چہ دونوں ملک موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔جب انھیں معلوم ہوا کہ ابراہیم الرئیسی ایران اور آذربائیجان کی سرحد پہ ڈیم کا افتتاح کرنے جائیں گے، تو ان کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ کیونکہ وہ اسی موقع پہ ایرانی صدر کو نشانہ بنا سکتے تھے۔خوش ہونے کی کئی وجوہ تھیں۔
امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر
پہلی وجہ یہ کہ امریکی واسرائیلی جانتے تھے کہ ایرانی صدر اندرون ملک امریکااور کینیڈا کے ساختہ ”بیل۔۲۱۲“پہلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں۔ یہ دراصل پہلے ایک جنگی ہیلی کاپٹر تھا جو Bell UH-1N Twin Huey کہلاتا ہے۔اس کے سول ورژن کو بیل۔۲۱۲کا نام دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ چند سال قبل ایرانی فضائیہ نے اپنا ہیلی کاپٹر قصر ِ صدارت کو بطور تحفہ دیا تھا۔وجہ یہ ہے کہ عسکری پابندیوں کا شکار ہونے کے باعث ایران میں بڑے سول ہیلی کاپٹر موجود نہیں۔ جبکہ ایرانی صدر کو بڑا ہیلی کاپٹر درکار تھا۔لہذا جنگی ہیلی کاپٹر(Bell UH-1N Twin Huey) میں مطلوبہ تبدیلیاں لا کر اسے بیل۔۲۱۲کی شکل دے دی گئی۔اس ہیلی کاپٹر میں عملے سمیت پندہ افراد سفر کر سکتے ہیں۔
امریکا واسرائیل کے حکمران یہ جان کر اس لیے خوش ہوئے کہ امریکی ہیلی کاپٹر ہونے کی وجہ سے امریکی و اسرائیلی ماہرین عسکریات بیل۔۲۱۲ کے پورے ٹیکنیکل سیٹ اپ سے واقف تھے۔انھیں علم تھا کہ ہیلی کاپٹر کی اڑان بھرنے سے لے کر لینڈنگ کرنے تک دوران پرواز کس قسم کے سسٹم (نظام)استعمال ہوتے ہیں۔یہ کئی اقسام کے سسٹم ہیں جن کی مدد سے ہیلی کاپٹر اڑتا،اپنی پرواز بحال رکھتا، دوران پرواز ہوائی اڈوں کے عملے سے رابطہ رکھتا اور مختلف طرح کے خطرات سے بچتا ہے۔
بلیک مارکیٹ کے سافٹ وئیر
جدید ہیلی کاپٹروں کے سیٹ اپ میں کئی قسم کے سافٹ وئیر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ایرانی فوج کے ماہرین نے بھی اپنے جنگی ہیلی کاپٹر کو سول بیل ۔۲۱۲ شکل دیتے ہوئے اس میں کئی سافٹ وئیر نصب کیے تھے۔یہ سبھی سافٹ وئیر بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے کیونکہ ایرانی کمپنیاں پابندیوں کی وجہ سے انھیں قانونی طور پہ نہیں خرید سکتیں۔ لہذا ایرانی مجبور ہیں کہ مطلوبہ سافٹ وئیر مہنگے داموں بلیک مارکیٹ سے خریدے جائیں۔
”زیرو ڈے“خامی
ہر سافٹ وئیر میں بنانے والوں کی بھرپور کوشش کے باوجود کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں یہ خامی ”زیرو ڈے“(Zero-day vulnerability)کہلاتی ہے۔ اس خامی سے فائدہ اٹھا کر اس سافٹ وئیر کو بے اثر بنایا یا اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام انجام دینے والا ”ہیکر“کہلاتا ہے۔سافٹ وئیر استعمال کرنے والے عموماً اس کی خامیوں یعنی زیرو ڈے سے ناوقاف ہوتے ہیں۔
شرانگیز سافٹ وئیر
مذید براں شرانگیز سافٹ وئیروں کے ذریعے بھی ایک کمپیوٹر یا نیٹ ورک کو تباہ کرنے یا اپنے قبضے میں لینے کی سعی ہوتی ہے۔ان شرانگیز سافٹ وئیرز کی کئی اقسام ہیں، مثلاً وائرس، وارم، ٹراجن ہارس، روٹ کٹ، بوٹ نیٹ وغیرہ۔
اس وقت کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں امریکی ماہرین سب سے آگے ہیں۔وہ سپر کپمیوٹر رکھتے ہیں جن کی مدد سے اس شعبے میں جدید ترین تحقیق وتجربات ہوتے ہیں۔یہ امریکی ماہرین سافٹ وئیروں اور نیٹ ورک کی خامیاں تلاش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔نیز ایسے خطرناک وائرس ، وارم وغیرہ ایجاد کرتے ہیں جو دشمنوں کے کمپیوٹروں اور نیٹ ورکوں میں بنانے والوں کا کام انجام دے سکیں۔
ہیکروں کے نشانے پر
دور جدید کے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر ، بحری جہاز ، ٹینک اور توپیں اب اپنے کام انجام دیتے ہوئے بتدریج اپنے سسٹمز چلانے کی خاطر زیادہ سے زیادہ سافٹ وئیر استعمال کرنے لگی ہیں۔اس طرح ان کا کام آسان ہو گیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب وہ ہیکروں کے نشانے پر بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دور بیٹھے ہیکر درج بالا متحرک اشیا تک کیسے پہنچتے ہیں؟
ریڈیائی مواصلاتی رابطے
ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، بحری جہاز وغیرہ چلانے والے ریڈیائی مواصلاتی رابطے(radio communication systems)کے ذریعے ائر ٹریفک کنٹرول سینٹر اور دیگر پائلٹوں سے رابطہ کرتے ہیں۔اب صدور اور اعلی حکومتی عہدے داروں کے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں انٹرنیٹ بھی دستیاب ہوتا ہے۔ریڈیو مواصلاتی رابطے کی کئی اقسام ہیں جنھیں مختلف طرح سے برتا جاتا ہے۔
ماہرین متفق ہیں کہ ان ریڈیو مواصلاتی رابطوں کے نظام اور انٹرنیٹ میں دخول کر کے کسی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے سسٹم میں داخل ہونا ممکن ہے۔مگر یہ کام کوئی عام ہیکر انجام نہیں دے سکتا۔یہ کام کرنے کے لیے جدید ترین آلات و بے پناہ وسائل درکار ہیں جو صرف ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے پاس ہیں۔اور ان حکومتوں میں امریکا و اسرائیل کی حکومتیں سرفہرست ہیں۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جاسوسی
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں پچھلے نو برس سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے وکلا کی ٹیلی فون کالیں، کمپیوٹری دستاویز، موبائل میسیجیز اور ای میلیں ہیکنگ کے جدید ترین طریقوں کی مدد سے حاصل کررہی ہیں۔اسی لیے اسرائیلی حکومت کو وقت سے پہلے ہی علم ہو گیا کہ یہ عالمی عدالت اسرائیلی وزیراعظم اور اس کے وزار کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے والی ہے۔
اسرائیلی حکومت کو وسیع پیمانے پہ ہیکنگ کی طاقت امریکی ماہرین کی مدد سے ملی ہے۔عام طور پہ دونوں ممالک کے ماہرین کمپیوٹر سائنس مل جل کر کام کرتے ہیں تاکہ ہیکنگ کے نت نئے آلات اور وسائل دریافت کیے جا سکیں۔ ان ماہرین کا خاص نشانہ شمالی کوریا، ایران، روس، چین اور شام بنتے ہیں کیونکہ یہی ملک امریکا یا اسرائیل کے مخالف ہیں۔
سٹکسنیٹ وارم
اب تو سبھی یہ سچائی جان چکے کہ ۲۰۱۰ءمیں اسرائیل و امریکا کے ماہرین نے مل کر ایک شر انگیز سافٹ وئیر، سٹکسنیٹ (Stuxnet)وارم بنایا تھا۔اس وارم کا خاص نشانہ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں لگی وہ مشینیں تھیں جن کے ذریعے ایٹم بم بنانے کے قابل یورینیم حاصل کیا جاتا ہے۔اس وارم نے کئی مشینوں کے نظام میں داخل ہو کر انھیں حد سے زیادہ تیز چلنے پہ مجبور کر دیا۔یوں بہت زیادہ تیزرفتاری کے باعث وہ تباہ ہو گئیں۔
سیٹلائٹ سے مشین گن چلائی
اس کے علاوہ اسرائیل ایسے شرانگیز سافٹ وئیر بھی بنا چکا جو ٹینک ، توپ، بکتر بند گاڑی وغیرہ کے سسٹم میں داخل ہو کر اسے اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔تب سافٹ وئیر چلانے والے وہ سسٹم چلاتے ہیں۔ایران میں نومبر ۲۰۲۰ءمیں ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو چکا کہ اسرائیل نے ایک مشین گن ایران میں اسمگل کی۔اس میں ایسے آلات لگے تھے جن کی مدد سے اسرائیل میں بیٹھے ماہرین اسے چلا سکتے تھے۔ان آلات کا بذریعہ خصوصی پرزہ جات ایک امریکی مصنوعی سیارے سے رابطہ تھا۔اور اس مصنوعی سیارے کی وساطت سے اسرائیلی ماہرین ہتھیار کو کنٹرول کر رہے تھے۔یہی مشین گن چلا کر ایرانی ایٹمی منصوبے کے ناظم، محسن فخری زادہ کو ہلاک کر دیا گیا۔
مصنوعی ذہانت سے مدد
امریکا اور اسرائیل ، دونوں کے ماہرین عسکری مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھی وسیع پیمانے پر تحقیق وتجربات کرنے میں مصروف ہیں۔مصنوعی ذہانت نے ایک عام کپمیوٹر سے لے کر طیارہ بردار بحری جہاز کے نیٹ ورک سسٹم کو ہیک کرنا مذید آسان بنا دیا ہے۔ ہیکنگ اب جدید جنگ وجدل میں ایک اہم بلکہ اہم ترین شعبہ بن چکا کیونکہ سبھی جدید بڑے ہتھیاروں میں سافٹ وئیرز کی مدد سے مختلف سسٹم چلانے کا رجحان جنم لے چکا۔مگر اسی تبدیلی نے ہیکروں کو بھی اس امر پہ ابھار دیا کہ وہ ایسے آلات و شرانگیز پروگرام ایجاد کریں جن کے ذریعے ہتھیاروں کا سسٹم قبضے میں لیا جا سکے۔
کئی اقسام کے سسٹم
جیسا کہ پہلے بتایا گیا، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں اڑان بھرنے سے لے کر اترنے تک مخلتف ذمے داریاں انجام دینے کی خاطر کئی اقسام کے سسٹم استعمال ہوتے ہیں۔اہم سسٹمز کے نام درج ذیل ہیں:
Traffic Alert & Collision Avoidance System (TCAS), ADS-B system, ACARS system, Flight Management System, CAN Bus Network, Aircraft software systems, Landing gear system, Hydraulic system, Electrical system, Engine bleed air system, Avionic systems, Environmental control system or Cabin control system, Fuel systems, Propulsion systems, Ice protection systems.
غرض سسٹمز کا ایک انبار ہے جنھیں دوران پرواز ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کا عملہ استعمال کرتا ہے۔خدانخواستہ ایک سسٹم بھی ہیکر اپنے قبضے میں کر لے تو وہ اڑتے جہاز کو تباہی کے راستے پہ گامزن کر سکتا ہے۔
دعوی کے ثبوت
اب تک ہم قارئین کو مطلع کر چکے کہ امریکا اور اسرائیل کے ماہرین دنیا کے کسی بھی خطّے میں موجود کمپیوٹری نیٹ ورک میں داخل ہونے کے لے زبردست صلاحیتیں و تجربہ اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔مزید براں دونوں ملک ایران کے کٹر دشمن ہیں۔نیز ابراہیم الرئیسی نے اسرائیل پہ بڑا فضائی حملہ کر کے انھیں حیران پریشان کر دیا تھا۔لہذا ایرانی صدر کو راہ سے ہٹانا ضروری ہو گیا تھا تاکہ وہ مستقبل میں ان کے لیے زیادہ بڑی مشکلات کھڑی نہ کر سکے۔ یہ عوامل دیکھتے ہوئے کم ازکم یہ خیال کرنا ممکن ہے کہ امریکی واسرائیلی ماہرین نے ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا سسٹم ہیک کر کے اسے پہاڑی علاقے پہ گرا کر تباہ کر ڈالا۔
اواکس کا استعمال
امریکی واسرائیلی ماہرین نے ہیلی کاپٹر کا سسٹم کیسے ہیک کیاہو گا؟ایک خیال یہ ہے کہ ہیکنگ کی خاطرایسا اواکس (Airborne early warning and control)طیارہ استعمال کیا گیا جس میں ہیک کرنے کے متعلقہ جدید ترین آلات نصب تھے۔ایسا طیارہ تیس ہزار فٹ کی بلندی پہ اڑ رہا ہو تو وہ ”ایک لاکھ بیس ہزار مربع میل “کے قطر میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔گویا اسرائیل کی سرحد پہ اڑتے اواکس طیارے میں بیٹھے اسرائیلی ماہرین آسانی سے ابراہیم الرئیسی کے ہیلی کاپٹر کا مرکزی سسٹم ہیک کر سکتے ہیں۔
کمانڈ وکنٹرول سینٹر
دوسرا خیال یہ ہے کہ آذربائیجان میں موجود اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے ایرانی و آذربائیجانی سرحد پہ ہیکنگ کرنے کے واسطے کمانڈ وکنٹرول سینٹر بنایا ہو گا۔دونوں ممالک کی سرحد پہ پہاڑی مقامات واقع ہیں ،یہ علاقے دشوار گذار راستوں اور گھنے جنگلات سے پُر ہیں۔لہذا وہاں کمانڈ وکنٹرول سینٹر بنا کر اسے پوشیدہ رکھنا امریکی واسرائیلی ایجنٹوں کے لیے مشکل نہ تھا۔
اس ضمن میں یاد رہے کہ صدرآذربائیجان کی شہرت زیادہ اچھی نہیں۔موصوف نوجوانی میں آوارہ طبع اور عیاش کے طور پہ مشہور تھے۔پھر باپ کی ناگہانی موت پہ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں نیا صدر بنا دیا۔الہام علیوف پہ الزام ہے کہ انھوں نے مع خاندان وسیع پیمانے پہ کرپشن کی ہے اور خود کو امیر ترین بنا لیا۔لہذا یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل وامریکا کو آذربائیجان حکومت میں ایسا کرپٹ عہدے دار مل گیا جس نے ان کی مہم انجام دینے میں مدد کر دی ہو۔
سیٹلائٹ کی مدد
تیسرا خیال یہ ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے سسٹمز پہ قبضہ کسی مصنوعی سیارے یعنی سیٹلائٹ کی مدد سے کیا گیا۔یاد رہے، کہا جاتا ہے، امریکا نے اپنے مصنوعی سیاروں کے ذریعے ہی اسامہ بن لادن کو شناخت کیا تھا۔جب وہ گھر کے لان یا چھت پہ گھومتے تو سیٹلائٹس نے ان کی تصاویر اتار لی تھیں۔اسی طرح بتایا جا چکا کہ اسرائیلی ماہرین بذریعہ سیٹلائٹ ایک مشین گن چلا کر ایک ایرانی ایٹمی سائنس داں کو مار چکے۔
ہیک کیسے کیا گیا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا مرکزی سسٹم ہیک کیسے کیا گیا؟ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکی واسرائیلی ماہرین ہیلی کاپٹر میں نصب کسی سافٹ وئیر میں موجود ”زیرو ڈے “خامی سے آگاہ تھے۔اسی خامی کی مدد سے وہ ہیلی کاپٹر کا نظام قابو میں کرنے میں کامیاب رہے۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سسٹم ہیک کیا گیا۔جب ہیلی کاپٹر واپس آ رہا تھا تو اس میں سوار ایرانی صدر کی وڈیوز موجود ہیں۔ظاہر ہے، یہ وڈیوز انٹرنیٹ کی مدد ہی سے واقف کاروں کو بھجوائی گئیں۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کی ریڈیو کیمونکیشن میں داخل ہو کر اسے اپنے قبضے میں کیا گیا۔
چیف آف سٹاف کے انکشافات
اس دن اڑان بھرنے والے تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک میں قصر ِ صدارت کے چیف آف سٹاف، غلام حسین اسماعیلی سوار تھے۔ان کا بیان اس دعوی کے سلسلے میں نہایت اہم ہے کہ امریکی واسرائیلی ہیکروں نے ہیلی کاپٹر کے نظام اپنے قبضے میں لے کر اسے سات ہزار فٹ بلند پہاڑی مقام سے ٹکرا دیا تاکہ سبھی مسافر ہلاک ہو جائیں اور کوئی بچ نہ سکے۔ ایرنا یعنی ”خبر گزاری جمہوری اسلامی “حکومت ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ہے۔ اس میں مورخہ اکیس مئی کو درج ذیل خبر شائع ہوئی:
قصر ِصدر میں دفاترکے سربراہ ،غلام حسین اسماعیلی دوسرے ہیلی کاپٹر میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے تقریباً دوپہر دو بجے بجے ٹیک آف کیا۔ شروع میں اور زیادہ تر پرواز کے دوران موسم نارمل تھا۔ پرواز کے پینتالیس منٹ بعد رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے، جو قافلے کا انچارج بھی تھا، دوسرے ہیلی کاپٹروں کو قریب کے بادل سے بچنے کے لیے اونچائی بڑھانے کا حکم دیا۔
بادل پر اڑان بھرنے کے ۳۰ سیکنڈ کے بعد اسماعیلی والے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے دیکھا کہ رئیسی کا ہیلی کاپٹر، جو دو دوسرے کے درمیان اڑ رہا تھا، غائب ہو گیا ہے۔ پائلٹ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے واپس آیا اور چند حلقے بنائے، لیکن وہ ریڈیو کے ذریعے اس سے رابطہ کرنے سے قاصر رہا اور بادل کی وجہ سے نیچے نہیں اتر سکا، اس لیے وہ تیس سیکنڈ بعد قریبی سنگن نامی تانبے کی کان پرجا اترا۔
پائلٹوں نے پھر کیپٹن مصطفوی کے فون پر کال کی، جو رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے انچارج تھے، لیکن ان کے نائب، علی ہاشم نے جواب دیا۔اس نے کہا کہ ہیلی کاپٹر ایک وادی میں گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ اسماعیلی نے خود ایک دوسری کال کی اور علی ہاشم سے بات کیجس نے اسے بتایا: “میں زخمی ہو چکا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا، مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں، میں درختوں کے نیچے ہوں ۔میرے حواس گم ہیں۔مجھے کوئی نظر نہیں آرہا، میں اکیلا ہوں۔”
اس کے بعد اسماعیلی طبی عملے کے ساتھ ایک ایمبولینس لے کر جائے وقوعہ کی طرف چل پڑے۔انھوں نے کئی بار علی ہاشم سے بات کی، جو تقریباً تین گھنٹے تک کالوں کا جواب یتارہا تھا۔افسوس کہ امدادی کارکنوں کے پہنچنے سے پہلے ہی علی ہاشم کی موت ہوگئی۔
وزیر توانائی، علی اکبر محرابیان اور ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹیشن کے وزیر، مہرداد بازرپاش، جو دوسرے دو ہیلی کاپٹروں میں سفر کر رہے تھے، تبریز میں بحفاظت پہنچ گئے۔
عجیب وغریب صورت حال
غلام حسین اسماعیلی کے بیان سے عیاں ہے کہ جب تینوں ہیلی کاپٹر محو پرواز تھے تو مطلع صاف تھا۔جب بادل ایک ٹکرا سامنے آیا تو فیصلہ ہوا کہ بلندی پہ پرواز کی جائے۔ بیل ۱۱۲ ہیلی کاپٹر سترہ ہزار فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔لیکن عجیب وغریب اور پُراسرار صورت حال میں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر نے نیچے کا رخ کیا اور ایک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ یہ بیان عیاں کرتا ہے کہ کسی نے ہیلی کاپٹر کا مرکزی نظام اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور اسی نادیدہ طاقت نے اسے آخرکار تباہ کر ڈالا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرکاری طور پہ ایران نے یہ اعلان کیوں کیا کہ ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوا؟شاید شروع میں حقائق اسی رخ کی نشاندہی کر رہے تھے۔بعد ازاں یہ امر نمایاں ہوا کہ کم از کم بلندی پہ مطلع صاف تھا۔ البتہ نیچے دھند اور بادل موجود ہو سکتے ہیں۔دوم نکتہ یہ کہ شاید حکومت ایران اس منظرنامے کو جنم نہیں دینا چاہتی کہ صدر ابراہیم کا قتل ہوا ہے اور اسے امریکا واسرائیل نے مل کر انجام دیا۔کیونکہ ایسی صورت میں ایرانی حکومت کی کوتاہی و غفلت آشکارا ہوتی ہے۔
حرف ِ آخر
قارئین کرام، یہ عین ممکن ہے کہ شاید موسم کی خرابی یا کسی انسانی غلطی کے سبب ایرانی صدر کا بدقسمت ہیلی کاپٹر تباہی کا شکار ہو گیا۔لیکن درج بالا حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ شاید یہ حادثہ نہیں تھا….بلکہ ایک قتل تھا جو امریکا واسرائیل کے ماہرین نے اپنے حکمران طبقات کے حکم پہ انجام دیا۔
یاد رہے ، پاکستان کے صدر ضیاالحق بھی ایک ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تھے۔کئی ماہرین اس واقعے کو حادثہ نہیں قتل قرار دیتے ہیں۔مثلاً ایک مشہور نظریہ یہ ہے کہ صدر کے ہوائی جہاز میں آم کی پٹیوں میں زہریلی گیس چھپائی گئی تھی۔ہوائی جہاز اڑنے کے بعد جلد ہی وہ خارج ہونے لگی اور اس نے مسافروں سمیت پائلٹوں کو بھی بے ہوش کر دیا یا انھیں موت کی نیند ُسلا ڈالا۔ پاکستانی صدر کی وجہ ِ شہادت بھی اب تک ایک سربستہ راز ہے۔

Share:

More Posts

برکاتِ درود شریف

روزمرہ زندگی میں مصائب و تکالیف دور کرنے والا اسمِ اعظم محمدؐ مرکزِ مہر و وَفا ہیں محمدؐ مظہرِ نورِ خدا ہیں محمدؐ فخرِ موجوداتِ

Buy Urdu Digest