امریکا کے بھجوائے خفیہ پیغام کا سائنس و ٹیکنالوجی کی کسوٹی پر پوسٹ مارٹم
سابق وزیرِاعظم پاکستان عمران خان سے منسوب کیا جانے والا سائفر ٹیلی گرام اب تک ایک معمہ ہے۔ اُس میں کیا لکھا ہوا تھا؟ کسی کو نہیں معلوم۔ لیکن معلوم کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ ویسے اگر آپ کو صفر سے نو تک گنتی آتی ہے اور انگریزی کے پہلے چھ حروفِ تہجی (اے تا ایف) سے آپ واقف ہیں، تو آپ بآسانی سمجھ جائیں گے کہ عمران خان کے خط میں کیا لکھا تھا۔ بس کچھ وقت اور تھوڑی سی ذہانت استعمال کرنی ہے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اُس خط میں کیا تھا۔
اگرچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ برائے معاملات جنوبی ایشیا، جناب ڈونلڈلو نے امریکی اَیوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں واضح بیان دیا ہے کہ سائفر کے ذریعے امریکی سازش کا عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ ہے، لیکن اِس مضمون میں ہمیں اِس سے غرض نہیں کہ کاتب کون تھا، مکتوب الیہ کون تھا اور پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کا دعویٰ درست ہے یا غلط۔ ہم اِس مضمون میں کوئی سیاسی گفتگو یا پاکستانی منظرنامے پر گفتگو نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہمارا کینوس تو اِس سے بھی کہیں وسیع، تکنیکی اور علمی ہے۔ ہم اپنے قارئین کو ناقابلِ فہم، ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دید خفیہ پیغام کا لطف دینا چاہتےہیں۔
میرا یہ مضمون ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا مضمون ہے۔ فکشن پڑھنے والے قارئین کو اِس خشک ترین مضمون میں کچھ نہیں ملے گا لیکن اِسے پڑھنے کے بعد وہ تمام پروٹوکولز آپ کی سمجھ میں آنے لگیں گے جن پر اصلی زندگی کا ڈراما چلتا ہے، یعنی زندگی کا وہ ڈراما جس میں ایک طرف غربت ہے، چیخ وپکار ہے، حرص و ہوس ہے، مہنگائی ہے اور ظلم و زیادتی ہے، تو دوسری جانب خوش حالی ہے، امید ہے، ترقی ہے، محبت و اُخوت ہے۔
مزاحتمی نثر اور شاعری، عالمی طاقتوں کی اِن چالوں کو سمجھنےکے لیے کافی نہیں جن سے وہ دنیا پر حکومت کرتی ہیں اور کیونکر دنیا بھر کا اقتصاد وَ معیشت عالمی طاقتوں کی افواج کی مٹھی میں ہے اور کس طرح وہ اَپنی افواج کے اعلیٰ دماغوں کو عامیانہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اِسی لیے عوامی دائرے میں موجود کسی ادیب، صحافی، استاد یا طالبِ علم پر عالمی طاقتوں کا کوئی راز آشکار ہوتا ہے جس میں علم اور تحقیق کی انتہا موجود ہو، تو وہ اِسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔
اگر مَیں یہ کہوں کہ مَیں آپ کو بتا سکتا ہوں، عمران خان کے لہرائے جانے والے سائفر ٹیلی گرام کے مندرجات یہ ہیں، تو عوام کی بڑی تعداد صرف اِس بات کو جاننے کی خواہش مند ہو گی کہ خط میں کیا لکھا تھا۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ انگریزی، اردو یا کسی بھی انسانی بولی کی مدد سے یہ بتایا اور سمجھایا نہیں جا سکتا کہ اُس خط میں کیا تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس لیے کہ خط لکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ صرف مکتوب الیہ کو ہی پیغام سمجھ میں آئے، باقی کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے۔ میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (امریکا) کے Prof. Gary Gensler نے اپنے ایک لیکچر میں ایک اصطلاح استعمال کی تھی: Communication in the presence of adversaries یعنی دشمنوں کی موجودگی میں بھی اطمینان سے گفتگو کر لینا۔
اِس لحاظ سے پوری پاکستانی قوم کے وہ اَفراد اور حکمران اِس خط کے لیے دشمن (Adversary) تصوّر ہوں گے جو مکتوب الیہ نہیں ہیں۔ خط اپنی پوری کوشش کرے گا کہ وہ اَپنے دشمنوں پر آشکار نہ ہو۔ لہٰذا سب سے پہلے اپنے ذہن میں آپ یہ بات واضح کر لیں کہ اگر آپ کو اَب تک اِس خط کے مندرجات معلوم نہیں ہیں، تو آپ اِس خط کے لیے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ کے لیے ہی اِس خط کے مندرجات اِس طرح لکھے گئے ہیں کہ آپ اِسے انسانی زبان کی مدد سے سمجھ ہی نہ سکیں اور نہ ہی آپ اِسے انسانی زبان کی مدد سے کسی کو بتا سکیں۔
عمران خان نے وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد پوری قوم کی توجہ ایک بچے کی ذہنی نشو و نما کی جانب مبذول کرائی تھی۔ ذہنی نشو و نما ایک ایسا عمل ہے جو لالچ، ہوس اور بدگوئی سے کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے لالچ اور دِیگر برائیوں سے خود کو دُور کریں اور زندگی کے پروٹوکولز کو سمجھیں۔
آپ طالبِ علم ہوں یا استاد، تاجر ہوں یا ملازم، زندگی کے پروٹوکولز سمجھنا ہر ایک کے لیے بہت ضروری ہے، یعنی کہ آپ کسی وقت جس جگہ، جس مقام پر موجود ہیں، وہاں قدرت یا عالمی طاقتوں کا کون سا پروٹوکول چل رہا ہے۔ یہ پروٹوکول ناقابلِ فہم، ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دید ہوتا ہے۔ اِسے محسوس کیا اور اِس کے مطابق خود کو ڈھالا جاتا ہے۔ معروف امریکی شاعر والس سٹیونس نے اِسے ’’آئس کریم کا بادشاہ‘‘ (Emperor of Ice Cream) قرار دِیا ہے۔
عمران خان کا ایک سائفر ٹیلی گرام عوام کی آنکھوں کے سامنے لانا اِس بات کی دلیل ہے کہ حکمران طاقتیں اب یہ چاہتی ہیں پاکستانی عوام اُن پروٹوکولز کو سمجھیں جس سے اُن پر حکومت کی جاتی ہے۔ آئیے، یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان کے سائفر ٹیلی گرام میں کیا تھا۔
سب سے پہلے ہمیں ایک مفروضہ قائم کرنا پڑے گا کہ اُس خفیہ خط میں کیا پیغام تھا، ورنہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اگرچہ ڈونلڈلو نے امریکی اَیوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں واضح بیان دیا ہے کہ عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ ہے، پھر بھی ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سائفر ٹیلی گرام کا پیغام یہ تھا کہ امریکی حکومت چاہتی ہے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر ہم عالمی طاقتوں کی چالوں کو سمجھنا چاہ رَہے ہیں، تو ہمیں اِس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کاتب کون تھا، مکتوب الیہ کون، اور ہمارا یہ مفروضہ درست ہے یا غلط کہ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔
ہم اِس مضمون میں سیاسی گفتگو یا پاکستانی منظرنامے پر گفتگو نہیں کر رہے بلکہ ہمارا کینوس تو اِس سے بھی وسیع اور علمی ہے۔ ہم تو ساری گفتگو اِس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان اِس خط کی نقول بھی پوری قوم میں تقسیم کر دیتے، تب بھی اس مکتوب الیہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اِس خط کو پڑھ، سمجھ اور سمجھا نہیں سکتا تھا کیونکہ سب تو دشمن تھے۔ گویا سائفر ٹیلی گرام جب تخلیق کیا جاتا ہے، تو اُس خفیہ پیغام اور اُس کے دشمنوں کے درمیان ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ خود عمران خان بھی اِس پیغام کو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر وہ مکتوب الیہ بھی ہوتے، تب بھی وہ اِس بات کا اظہار ہی نہیں کر سکتے تھے کہ سائفر ٹیلی گرام کا پیغام یہ تھا کہ امریکی حکومت چاہتی ہے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ جھوٹ اور سچ کا معاملہ نہیں، یہ تو فہم اور ناقابل فہم پیغام اور قابلِ اظہار اور ناقابلِ اظہار کا معاملہ ہے۔
اگر آپ اِس بات کو سمجھ گئے، تو آپ عالمی طاقتوں کی چالوں کو سمجھ جائیں گے۔ اور اگر آپ عالمی طاقتوں کی چالوں کو سمجھ گئے تو آپ امریکی شاعر والس سٹیونس کی نظم میں بیان کردہ آئس کریم کے بادشاہ کی چال سمجھ جائیں گے جسے امریکی صدر جوبائیڈن نے عملی طور پرآئس کریم کھاتے ہوئے دکھایا تھا۔ جہاں تک سائفر ٹیلی گرام کا معاملہ ہے، اُس کی تو فوٹو کاپی بھی نہیں ہو سکتی تھی اور کیمرے میں بھی اُس خط کے مندرجات نظر نہ آتے۔ ہم اِس مضمون کی مدد سے اپنے قارئین کو دراصل اُس زبان اور اُس پروٹوکول کو سمجھانا چاہتے ہیں جس میں یہ پیغام لکھا گیا تھا۔
فرض کریں کہ مذکورہ خفیہ پیغام جس میں امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے کو صفر سے نو تک گنتی اور انگریزی کے پہلے چھ حروف تہجی (A to F) کی مدد سے درج ذیل طریقے سے لکھا گیا تھا اور جسے صرف مکتوب الیہ ہی مشین کی مدد سے پڑھ سکتا تھا:
248d6a61d20638b8e5c026930
c3e6039a33ce45964ff2167
f6ecedd419db06c1
248d6a6…db06c1 ایک ڈائجسٹ ہے یعنی بظاہر نظر آنے والے چونسٹھ اعداد جسے صرف مکتوب الیہ ہی مشین کے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔ آپ کے ذہن میں پہلی بات یہی آئے گی کہ 248d6a6…db06c1 کو کیونکر امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے کے مساوی مان لیا جائے؟
پہلی بات تو یہ کہ ضروری ہے کہ امریکی حکومت کے اِس پیغام کو اَیسے حروف کی مدد سے لکھا جائے جو دشمنوں کے لیے ناقابلِ فہم ہوں۔ صرف ناقابلِ فہم ہی نہیں، بلکہ ناقابلِ بیان بھی ہوں۔ بہترین معیار یہ ہے کہ وہ اَلفاظ ناقابلِ دید بھی ہوں یعنی دشمن کی آنکھ اُسے دن کی روشنی میں یا کسی مصنوعی روشنی میں بھی دیکھ نہ سکے۔ اِسی لیے یہ بات یہاں جڑ پکڑتی ہے کہ سائفر ٹیلی گرام پر جو بھی کچھ لکھا تھا، وہ عمران خان اور آج بھی ہم سب کے لیے تاحال ناقابلِ فہم، ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دید ہے کیونکہ ہم سب دشمن ہیں۔
ہم سیاسی گفتگو سے ہٹ کر علمی گفتگو پر ہی مرتکز رہتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنے قارئین کو یہ بات بتائیں کہ 248d6a6…db06c1 آخر کس طرح امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے کےمساوی ایک پیغام ہے ۔
یہاں دو باتیں ممکن ہیں۔ ممکن ہے کہ 248d6a6…db06c1 اصل مراسلے کی ہی ایک شکل ہو جو مشین سمجھے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ db06c1 اصل مراسلےکی شکل نہ ہو بلکہ یہ اصل پیغام کی صحت ناپنے کے لیے 64 اعداد پر مشتمل ایک ڈائجسٹ ہو جو ہیکس کوڈ (Hex Code) کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔
مَیں نے ۶۴؍اعداد پر مشتمل ہیکس کوڈ کا بالخصوص تذکرہ اِس لیے کیا ہے کیونکہ معروف امریکی ادارہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی (NIST) اِس ہیشنگ سکیم (Hashing Scheme) کو بہت طاقتور سمجھتا ہے جو کسی پیغام کی مدد سے ۶۴؍اعداد پر مشتمل ڈائجسٹ پیدا کرتی ہے جو SHA-256 ڈائجسٹ کہلاتا ہے۔ دنیا بھر میں بلاک چَین اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی لائبریریاں اِن ہی 64 اعداد پر مشتمل ہیکس کوڈ تخلیق کرتی اور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اُنھوں نے Hashlib کی لائبریری کی مدد سے اِسے تخلیق کیا ہے جو SHA-256 کا ڈائجسٹ ہے لیکن ماخذ کوڈ یعنی سورس کوڈ تو کوئی بھی نہیں بتاتا۔ پھر کس طرح مان لیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بلاک چَین واقعی اصل SHA-256 ہی استعمال کر رہی ہیں؟
ایک منٹ ٹھہریں! کیا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ 248d6a6…db06c1 دراصل واقعی 64 اعداد ہیں یعنی آپ کو تعداد میں چونسٹھ دکھائی دے رہے ہیں؟ اگر آپ کے ذہن نے اِس بات پر یقین کر لیا ہے کہ 248d6a6…db06c1 دراصل چونسٹھ اعداد ہیں، تو پھر تو خفیہ پیغام جیت گیا اور آپ ہار گئے۔ کیونکہ نظر نہ آنے والے اعداد تو حقیقت میں چونسٹھ ہیں ہی نہیں۔ اگرچہ آپ اِنھیں جتنی مرتبہ گنیں، جواب چونسٹھ ہی آئے گا، لیکن یہ چونسٹھ ہیں نہیں۔ یہ تو Bits ہیں۔
ہر ایک عدد چار Bits کا ہے۔ آپ اِسے بآسانی صفر اور ایک کے ۲۵۶؍اعداد میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ اِن ۶۴؍اعداد کو یکساں تعداد کے آٹھ الفاظ (Words) میں توڑ سکتے ہیں کیونکہ یہ چونسٹھ اعداد ایک ہیئت نہیں ہیں بلکہ آٹھ اعداد کے آٹھ الفاظ کو ایک ساتھ لکھنے (Concatenate) کرنے سے حاصل ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے انگریزی زبان لکھتے وقت اِس کے حروفِ تہجی کو Concatenate کیا جاتا ہے، تب ہی کوئی لفظ یا جملہ وجود میں آتا ہے۔ گویا انگریزی زبان کے حروفِ تہجی اور اِس کے نشانات کی تخلیق کے پیچھے بھی ایک پروٹوکول کارفرما نظر آتا ہے۔ ہر لفظ کے آٹھ اعداد کو جمع تفریق ہونے والے Decimal نمبروں میں بھی بدلا جا سکتا ہے جیسے 248d6a61 کا مساوی نمبر ۳، ۲۳۴، ۳۸۶، ۴۳۶، ۶۱۳، ۶۳۱ ہے۔ اِسی طرح آٹھوں نمبر حاصل کیے جا سکتے ہیں جن پر Microsoft Excel کے فارمولے لگا کر اور Overflow کی صورت میں 32-Bit Single Precision IEEE 754 Binary Floating Point Standard System کی مدد سے نارمل کر کے 32 Bits تک محدود کیا جا سکتا ہے۔
گویا تحریر کوئی بھی ہو، نمبر کوئی بھی ہو، اگر وہ خفیہ پیغام ہے، تو وہ محض اِس خفیہ پیغام کے اظہار کا ایک نمونہ ہے۔ آپ پنکھا خریدیں اور بٹن دبا کر اِسے چلائیں۔ پنکھا چل پڑے گا۔ اب آپ بٹن بند کر دیں۔ زور زور سے چیخیں کہ پنکھے چلو، لیکن پنکھے پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ مشین ہے اور آپ کے اظہار کا طریقہ مختلف ہے۔
اِسی طرح خفیہ پیغام بھی آپ کو جس شکل میں نظر آ رہا ہے، وہ ایک طرزِ اظہار یا فارمیٹ (Format) ہے۔ سارا کھیل اِسی خفیہ طرزِ اظہار کو دُرست پیغام میں بدلنے کا ہے۔ ایک خفیہ پیغام کے کروڑوں اربوں طرزِ اظہار ہو سکتے ہیں۔ ہر طرزِ اظہار سے درست پیغام تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ ہم امریکی معیار سے ہی امریکا کے خفیہ پیغام تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو NIST کا طریقۂ کار ہے۔ فی الوقت SHA-256 ہیشنگ سکیم کو ہی درست مان لیتے ہیں۔
ہم نے فرض کیا تھا کہ ’’امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘ خفیہ پیغام یہ تھا:
248d6a61d20638b8e5c026930
c3e6039a33ce45964ff2167
f6ecedd419db06c1
اِسے 32 BITS کے آٹھ وَرڈ (Eight Words) میں توڑ دیں۔ وَرڈ کا مطلب ہے: مذکورہ Hexadecimal کوڈ سے لیے جانے والے آٹھ اعداد جن کا مجموعی سائز 32 BITS ہو، یعنی جب ہم کسی وَرڈ کو Binary میں تبدیل کریں، تو صفر اور ایک پر مشتمل بتیس اعداد سامنے آئیں۔
اگر تینتیس اعداد سامنے آئیں گے، تو وہ 32 BITS کا نہیں بلکہ 33 BITS کا وَرڈ کہلائے گا اور اِسے Overflow ہونا کہیں گے کہ نمبر اپنی مقررہ حد یعنی 32 BITS سے باہر نکل رہا ہے۔ اِس موقع پر IEEE 754 Binary Floating Point Standard سے مدد لیں گے اور نمبر کو 32 BITS میں تبدیل کریں گے۔
یہ بہت آسان حساب ہے اور اِنٹرنیٹ پر بآسانی ممکن ہے۔ مذکورہ کوڈ کا پہلا وَرڈ یعنی پہلے آٹھ اعداد: 248d6a61، دوسرا وَرڈ یعنی دوسرے آٹھ اعداد: d20638b8، بالآخر آٹھواں وَرڈ یعنی آخری آٹھ اعداد: 19db06c1 ہیں۔ ہیشنگ سکیم نے اصل خفیہ پیغام سے ہی یہ آٹھ ورڈ تخلیق کیے ہیں۔ سہولت کے لیے آپ اِنھیں قطعی الفاظ (Final Words) کہیں کیونکہ ابتدائی الفاظ (Initial Words) بھی ہوتے ہیں اور دَرمیانی الفاظ (Intermediate Words) بھی وجود میں آتے ہیں۔ ہیشنگ سکیم نے اصل خفیہ پیغام سے ہی یہ آٹھ فائنل ورڈ کس طرح تخلیق کیے ہیں اور اَصل خفیہ پیغام کیاتھا؟ آئیے دیکھتے ہیں:
وَرڈ کوئی بھی ہو، خواہ ہو یا وہ محض ایک نمبر ہوتا ہے جسے کسی بھی دوسرے نمبر کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ جیسے دو جمع دو چار ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ خفیہ پیغام کے پہلے لفظ یا وَرڈ 248d6a61 کو دو سے ضرب دینا ہو، تو دراصل آپ اُس کے Decimal مساوی نمبر ۳، ۲۳۴، ۳۸۶، ۴۳۶، ۶۱۳، ۶۳۱ کو دو سے ضرب دیں گے جس کا جواب۶، ۴۶۸، ۷۷۲، ۸۷۲، ۱۲۲۶، ۱۲۶۲ آئے گا۔
اگر یہاں تک بات سمجھ آ گئی ہے، تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم کسی بھی وَرڈ کو کسی بھی دوسرے ورڈ میں جمع کر سکتے ہیں۔ SHA-256 ہیشنگ سکیم یہی کام کرتی ہے۔ وہ پہلے آٹھ Prime Numbers ( یعنی ۲، ۳، ۵، ۷، ۱۱، ۱۷؍اور ۱۹) کے Square Root کے اعشاریے کے بعد والے حصے کو Hexadecimal میں تبدیل کرنے کے بعد حاصل ہونے والے نتیجے کے پہلے 32 Bits کو بطور ایک وَرڈ اُٹھا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر ۲ کا Square Root ہے: 1.41421356237۔ اِس کا اعشاریہ کے بعد والا حصّہ ہے: 0.41421356237۔ اِس کا Hexadecimal مساوی نمبر 1.6A09E667F…F0A ہے جس کے پہلے 32 BITS ہیں: 6A09E667۔ ہیشنگ سکیم اِسے H-0-{0} کہتی ہے۔ اِسی طرح آٹھوں Prime Numbers کو اِسی عمل سے گزارا جاتا ہے اور بالآخر 32 BITS کے آٹھ ابتدائی ورڈ (Initial Words) وجود میں آ جاتے ہیں جو Concatenate کر کے اِس طرح لکھے جا سکتے ہیں:
6a09e667bb67ae853c6ef372
a54ff53a510e527f9b05688
c1f83d9ab5be0cd19
مذکورہ 256 BITS کے ہیش میں bb67ae85 دوسرا اِبتدائی ہیش ہے یعنی H-1-{0}، جبکہ 5be0cd19 آٹھواں اِبتدائی ہیش ہے یعنی H-7-{0}۔ چونکہ اِن کے نام رکھنے میں گنتی صفر سے شروع ہوئی ہے، لہٰذا آٹھویں ابتدائی ہیش آپ کو H-8-{0} کے بجائے H-7-{0} نظر آ رہا ہے۔ یاد رَہے کہ یہ تمام چیزیں محض نمبر ہیں جنہیں جمع، تفریق، ضرب، تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اِس کے بعد 32 BITS کے ہر ایک ابتدائی ورڈ میں ایک منفرد نمبر جمع کیا جاتا ہے۔ وہ منفرد نمبر حاصل کرنے کے لیے درج ذیل طریقے سے ۶۴ مرتبہ Computing کی جاتی ہے:
فرض کریں کہ پہلا منفرد نمبر ہے a-0۔ دوسرا ہے b-0، تیسرا ہے c-0، اور اِسی طرح آٹھواں منفرد نمبر ہوا h-0۔ لیکن اِن کی ویلیو کیا ہے؟ یعنی یہ کون سے اعداد ہیں؟ اِس کافیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اِن میں ویلیو کرنے کے لیے اب اِنھیں کوئی Value دینے کے لیے ہیشنگ سکیم H-1-{0} کی ویلیو کو a-0 میں منتقل کر دیتی ہے۔ یعنی a-0 ایک ایسا ویری ایبل (Variable) ہے جس میں سب سے پہلی ویلیو H-0-{0} کی جاتی ہے یعنی bb67ae85۔ اِسی طرح b-0 میں H-1-{0} کی ویلیو آ جاتی ہے۔
یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور سب سے آخر میں h-0 میں H-7-{0} کی ویلیو آ جاتی ہے۔ اب پہلی Computing شروع ہوتی ہے جس میں مذکورہ آٹھ میں چوتھے ویری ایبل یعنی d-0 کو چھوڑ کر باقی سات ویری ایبل پر چھ Logical Functions استعمال کر کے دو نئے منفرد نمبر T1اور T2 نکالے جاتے ہیں اور یہ کام 64 مرتبہ کیا جاتا ہے اور خفیہ پیغام جس کی ترسیل کرنی ہوتی ہے، اُسے 512 BITS کے بلاکس میں پہلے سے توڑ دیا جاتا ہے اور ہر ایک بلاک کو 32 BITS کے سولہ Message Digests میں توڑ دیا جاتا ہے۔ T1 اور T2 نکالنے کے لیے جو Computing کی جاتی ہے، اُس میں ہر مرتبہ خفیہ پیغام کے کچھ Message Schedules بھی شامل کیے جاتے ہیں۔
چونسٹھ واں T1 اور چونسٹھ واں T2 حاصل ہونے پر اِن کی ویلیوز کو اور a-0 سے لے کر h-0 کی ویلیوز کو ایک خاص حساب سے جوڑ کر آٹھ نئے منفرد نمبر (یعنی a-1سےh-1) تک Compute کیے جاتے ہیں۔ یہ آٹھ نئے منفرد نمبر آٹھ درمیانی ہیش (8 Intermediate Hashes) نکالنے کے کام آتے ہیں یعنی H-0-{1} سے H-7-{1} تک۔ اِس کام کو بھی 64 مرتبہ کیا جاتا ہے اور آخرکار a-63 سے لے کر h-63 کی آٹھ فائنل ویلیوز کو Compute کر لیا جاتا ہے۔ اِن نئی ویلیوز کو فائنل ہیش نکالنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی H-0-{63} سے H-7-{63} تک۔ یہ آٹھ فائنل ہیش (Eight Final Hashes) اگلے 512 BITS کے بلاک کے لیے ابتدائی ہیش (Initial Hash) کی حیثیت رکھتے ہیں اور Computing کا عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ آخری 512 BITS کے بلاک سے جو آٹھ فائنل ہیش حاصل ہوتے ہیں، اُنھیں Concatenate کر کے لکھا جاتا ہے اور وُہ اصل پیغام کا ہیش ہوتا ہے۔
یہی ہیش عمران خان کے لہرائے گئے کاغذ میں موجود تھا جو اصل پیغام کی جانب اشارہ کر رہا تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ ہیش سے اصل پیغام کو سمجھنا ایک ناممکن کام ہے کیونکہ ہر بار ہونے والی Computing میں اصل پیغام کے صرف چند اجزا ہی اٹھائے جاتے ہیں۔
اب ہم اِس مفروضے کی طرف آتے ہیں کہ سائفر ٹیلی گرام کا خفیہ پیغام یہ تھا: امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ اِس پیغام کو لازماً کسی Encryption Scheme کے تحت سائفر میں تبدیل کیا ہو گا۔ فرض کریں کہ درست Decryption Scheme عمران خان صاحب کے ہاتھ لگ گئی اور اُنھیں کمپیوٹر سکرین پر یہ پیغام دکھائی دیا ’’امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘
لیکن سوال یہ ہے کہ اُنھوں نے اِس پیغام کا ہیش کس طرح چیک کیا کیونکہ ہیش میں اصل پیغام کے اجزا بطور Message Digests شامل ہوتے ہیں۔ اب وہ اصل اجزا کہاں سے آئیں گے اور یہ فیصلہ کس طرح ہو گا کہ اِن اجزا کا تعلق امریکی خفیہ پیغام کے کس حصّے سے ہے۔ مجموعی طور پر اصل پیغام کا ہیش ہی فیصلہ کرے گا کہ عمران خان کو نظر آنے والا پیغام درست دعویٰ ہے یا غلط الزام ہے۔
لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ اَپنی کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والے پیغام کا ہیش کون سی Hashing Scheme کی مدد سے نکالیں گے؟ کیا SHA-256 الگورتھم کے ذریعے جس کی تفصیل NIST کے قرطاسِ ابیض میں موجود ہے اور جسے بلاک چَین اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس اوپن سورس (Open Source) قرار دَیتی ہیں؟ یا ہزاروں لاکھوں ہیش سکیموں کو ایک ایک کر کے چیک کریں گے؟ اور جو بھی جواب آئے گا، وہ اُس کا موازنہ کس ہیش سے کریں گے تاکہ اُن پر آشکار ہونے والے سائفر کے اصل پیغام کی صداقت معلوم ہو سکے؟
کیا امریکی حکومت کی اپنی Hashing Schemes کے الگورتھم نہیں ہیں جو وہ اُنھیں چھوڑ کر اوپن سورس کے الگورتھم استعمال کرے گی جسے سب جانتے ہیں؟ اور کیا عمران خان کے ہاتھ امریکی الگورتھم لگ سکتے ہیں جنہیں کوئی دوسری مشین بروٹ فورس کر سکے؟ اور اگر وہ اُسے بروٹ فورس کر بھی لیں، تو اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اُنھوں نے جس الگورتھم کو بروٹ فورس کیا ہے اور جس سائفر کو Decrypt کیا ہے، وہی Hashing Scheme اور وُہی Encryption Scheme خفیہ پیغام کو سائفر بنانے میں استعمال ہوئی ہے؟
اِن سوالات کے جوابات سامنے آنے سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ نہ تو کوئی درست Decryption Scheme تک پہنچ سکتا ہے جو امریکی حکومت نے خفیہ ترسیل کے لیے اُس خاص روز، اُس خاص وقت اور اُس خاص علاقے کے لیے استعمال کی تھی جہاں وہ خفیہ پیغام بھیجا گیا تھا اور اگر بالفرض کوئی شخص یہ معلوم بھی کر لے، تب بھی وہ اُس کی صداقت معلوم کرنے کے لیے اُس پیغام کا ہیش نکالنے پر مجبور ہو گا لیکن اَن گنت Hashing Schemes میں وہ کون سی سکیم استعمال کرے گا جس سے حاصل ہونے والا ہیش بالکل وہی ہو جو اصل پیغام کا ہیش تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مشین کہاں سے آئے گی جہاں درست الگورتھم چلے گا۔ یہ واقعی ایک ناممکن کام ہے۔
اِس ساری گفتگو کا حاصل یہی ہے کہ امریکی حکومت کے خفیہ پیغام کو پڑھنا کسی دشمن کے لیے ناممکن ہے۔ اِس لیے عمران خان کا یہ دعویٰ کرنا کہ سائفر کے ذریعے امریکی سازش کی گئی ہے، یہ الزام اِس بات کا متقاضی ہے کہ عمران خان وہ Decryption Scheme، وہ Hashing Scheme اور وُہ مشین سامنے لائیں جس نے امریکی خفیہ پیغام کو درست طور پر پڑھ لیا ہے۔ ہم نے اوپر دیکھا کہ SHA-256 میں سب کی سب چیزیں دراصل ریاضی کے نمبر ہی ہیں جو آگے پیچھے اور جمع تفریق ہو رہے ہیں۔
عین ممکن ہے عمران خان نے غلط الگورتھم، غلط Decryption Key اور غلط مشین استعمال کر رہے ہوں جو اُنھیں کمپیوٹر سکرین پر لفظ ’’مَحرم‘‘ کو ’’مجرم‘‘ اور ’’دُعا‘‘ کو ’’دَغا‘‘ دکھا رہا ہو۔ عمران خان صاحب کو ملنے والا سائفر اگر اُن کے لیے روانہ نہیں کیا گیا تھا، تو وہ اُس سائفر کے لیے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں اور جدید امریکی ٹیکنالوجی کی معراج ہی یہی ہے کہ دشمن کی موجودگی میں بھی وہ پیغام رسانی (Communication) کو ممکن بناتی ہے جبکہ دشمن کو کمپیوٹر سکرین پر جو بھی نظر آتا ہے، وہ غلط پیغام ہوتا ہے، مثلاً یہی دکھائی دے رہا ہو ’’امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔