کچھ عرصہ قبل مجھے یہ جان کر ازحد مسّرت ہوئی اور میں نے فخر محسوس کیا کہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑے سائنسی تجربے”لارج ہیڈرون کولائڈر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستانی سائنس دانوں اور ماہرین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس شاندار کامیابی کا جتنا چرچا ہمارے قومی میڈیا میں ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہو سکا۔ یہ میڈیا وطن عزیز کے بارے میں منفی خبریں زیادہ دیتا ہے جو قوم میں اُمید اور جوش و جذبہ پیدا نہیں ہونے دیتیں بلکہ ہم وطنوں پہ ڈپریشن و مایوسی طاری کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکامیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ، پاکستانیوں نے پچھلے ستتر سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر کئی نمایاں کارنامے بھی انجام دئیے ہیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں جوہر قابل کی کمی نہیں۔ یہی دیکھیے کہ حکمران طبقے کی عدم توجہ کے باوجود ستتر برس میں پاکستانی سائنس دانوں اور انجینروں نے بے مثال کارنامے انجام دئیے۔عالم اسلام کا پہلا ایٹمی منصوبہ مکمل کیا۔ ہزارہا میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے ایٹمی بجلی گھر بنائے۔ نت نئے میزائیل اور دیگر بھاری ہتھیار بنا کر دنیا والوں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا اور ملکی دفاع مضبوط تر بنا دیا۔”لارج ہیڈرون کولائڈر“ جیسے عظیم الشان عالمی منصوبے میں پاکستانی ماہرین کی سرگرم شمولیت بھی ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے۔ اس کارنامے کی تٖفصیل تکنیکی ہے ، مگر یہ اجاگر کرتی ہے کہ پاکستانی ماہرین کا معیار اور قابلیت سطحی نہیں بین الاقوامی نوعیت کی ہے ۔اور انھوں نے کتنا اہم کارنامہ کر دکھایا۔
یورپی ممالک کے سائنسی ادارے، سرن نے یہ منصوبہ ۱۹۹۸ ءمیں شروع کیا تاکہ مادے (Matter) کے ان سب سے چھوٹے ذرات کو تلاش کیا جا سکے جن سے انسان ، حیوان،پتھر غرض کائنات کی ہر شے بنی ہے،چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ۔ ان ذرات کی دریافت سے جانا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات بسیط کیونکر تشکیل پائی، کہکشائیں ،ستارے اور سیارے کب بنے اور ان میں زندگی نے کیسے جنم لیا۔ غرض منصوبے کی مدد سے بنیادی و آفاقی نوعیت کے جوابات کی کھوج لگانا مقصود تھا جو کئی شعبوں مثلاً کوانٹم طبعیات یا روشنی کی رفتار سے سفر میں بنی نوع انسان کے کام آ سکتے ہیں۔
ایٹم کے چھوٹے ذرات ”ذیلی ایٹمی ذرے“(Subatomic particle)کہلاتے ہیں۔محض ڈیرھ سو سال قبل تک انسان ایٹم کومادے کا سب سے چھوٹا ذرہ سمجھتا تھا۔پھر سائنسی تجربات سے انکشاف ہوا کہ ایٹم کے تومذید حصّے ہیں یعنی الیکٹرون،نیوٹرون، پروٹون اور فوٹون ایٹمی سائنس نے ترقی کی تو افشا ہوا کہ ان حصّوں کے بھی مذید چھوٹے حصّے ہیں۔ نیز ایسے حصّے بھی جو آزاد ہیں۔ لارج ہیڈرون کولائڈر ہی نے ۲۰۱۲ءمیںایک ایسا آزاد ذیلی ایٹمی ذرہ ” ہگس بوسون“ (Higgs boson)دریافت کیا۔ مذید مرکب یا خودمختار ذیلی ایٹمی ذرات ڈھونڈنے کی خاطر وہاں تجربات جاری ہیں۔
لارج ہیڈرون کولائڈر دنیا کی سب سے بڑی مشین ہے۔ یہ سوئس شہر، جینوا میں زیرزمین سترہ میل لمبی کروّی سرنگ میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تعمیر پہ دس ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ایک سو ممالک کے دس ہزار ماہرین نے تعمیر میں حصہ لیا۔اس کے تین مرکزی حصے ہیں: ایک کولائڈر یا مصادم،چار ڈیکیٹر یا شناخت کنندہ اور گرڈ۔”کولائڈر“ میں ۹۳۰۰ دیوہیکل مقناطیسوں اور رفتار بڑھانے والے خصوصی آلات کے ذریعے دو مختلف ذیلی ایٹمی ذرات کو انتہائی تیزی سے گھما کر ٹکرایا جاتا ہے۔ اس ٹکراؤ کی شدت کا اندازہ یوں لگائیے کہ تب سورج کے قلب میں موجود درجہ حرارت سے ایک لاکھ گنا زیادہ ٹمپریچر جنم لیتا ہے۔ اس زبردست تصادم سے اگر نئے ذرات پیدا ہوں،تو ”ڈیٹیکٹر “انھیں شناخت کرتے ہیں۔ ”گرڈ “۳۶ ممالک کے ۱۷۰ مقامات پر موجود ہزارہا کمپیوٹروں کا جال ہے جو مل کر سپر کمپیوٹر بناتے ہیں۔ یہ سپر کمپیوٹر تجربے کے ڈیٹا کا تجزیہ کر کے نتائج بتاتا ہے۔
یہ فخر وانبساط کی بات ہے کہ ایک ڈیٹیکٹر،”سی ایم ایس“(Compact Muon Solenoid)کی تیاری میں پاکستان کے سائنس دانوں اور انجینروں نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ ۱۴ ہزار ٹن وزنی ڈیٹیکٹر ہے۔ اس کو سہارا دینے کے لیے آٹھ ستون (support-feet) ٹیکسلا میں واقع ہمارے مایہ ناز ادارے ، ہیوی میکنیکل کمپلیکس میں بنائے گئے۔ہر ستون ”۲۵“ٹن وزنی ہے۔ان ستونوں پہ سبز ہلالی پرچم ثبت ہے۔ نیز پاکستان نے ڈیٹیکٹر کا مرکزی مقناطیس بنانے کے لیے بھی میٹریل فراہم کیا۔ جب جنوری ۲۰۰۶ءمیں صدر پرویز مشرف نے سرن کا دورہ کیا، تو یورپی ادارے نے ہیوی میکنیکل کمپلیکس کو اپنے ”بہترین صنعتی پارٹنر“کے اعزاز سے نوازا تھا۔
سی ایم ایس میں چار سو چھوٹے ڈیٹکٹر نصب ہیں جو ”آر پی سی “(Resistive Plate Chamber)کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ۲۴۵ آر پی سی پاکستان میں ڈیزائن اور تیار کیے گئے جس پر پاکستانی قوم کو نازاں و شاداں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے امریکا، جاپان اور چین کی کمپنیوں کو شکست دے کر یہ ٹینڈر جیتا جن میں مشہور جاپانی کمپنی، کاواساکی ہیوی انڈسٹریز بھی شامل تھی۔ یہ آر پی اے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اور قومی مرکز برائے طبعیات ، اسلام آباد کے سائنس دانوں نے ڈیزائن کیے، جبکہ ہیوی میکنیکل کمپلیکس میں انجینروں نے انھیں تیار کیا۔ مذید براں سی ایم ایس چلانے والے کمپیوٹروں (گرڈ)میں پاکستانی کمپیوٹر بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق سی ایم ایس کی تیاری کے دوران پاکستانی سائنس دان اور انجینر اس کے مختلف مراحل میں شریک رہے۔ تیاری کے ان مرحلوں میں ڈیٹیکٹر کی سیمولیشن(simulation)، طبعیاتی تجزیہ( Physics analysis)، گرڈ کمپیوٹنگ(Grid computing)، متفرق ریاضیاتی سافٹ وئیر کی ایجاد، میکنیکل آلات کی بنائی ، لیزر کی مدد سے سی ایم ایس کے ٹریکر کی الائنمنٹ( Alignment of the CMS tracker using lasers)، الیکٹرونک آلات کی ٹیسٹنگ، بیرل یوک(Barrel Yoke) کی تعمیر اورسیلی کون ٹریکر کے سی ایف فنز کی اسیمبلنگ ( Assembling of CF Fins for the Silicon Trekker’s TOB)شامل ہیں۔ پاکستان نے دیگر ڈیٹیکٹروں کے لیے بھی میٹریل اور افرادی قوت مہیا کی۔آج بھی سرن کے مختلف منصوبوں میں’ پچھتر‘ سے زائد پاکستانی سائنس دان اور انجینر کام کر کے بیش بہا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔
یہ اشد ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت سائنس وٹکنالوجی کی ترویج واشاعت پر خصوصی توجہ دے کیونکہ دور جدید میں یہی شعبہ کسی بھی مملکت کو ترقی وخوشحالی کی راہ پہ گامزن کر سکتا ہے۔اورحقائق سے عیاں ہے کہ پاکستانی بہترین قابلیت و صلاحیتیں رکھتے ہیں جنھیں مثبت انداز میں ابھارا و چمکایا جائے تو اہل وطن کرشمے دکھا سکتے ہیں۔ مثلاً پاکستان ریلویز مردہ سرکاری ادارہ ہو چکا تھا مگر اُسے اہل وقابل پاکستانیوں نے سنبھالا تو حالیہ مالی سال میں اس نے ۷۰ ارب روپے کا منافع کما لیا۔یہی نہیں، ٹکٹوں کی قیمت گھٹا کر مالی فائدہ عوام کو بھی منتقل کیا گیا۔
حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ اپنے شاہانہ اخراجات برقرار رکھنے کے لیے ٹیکسوں کا بھاری بوجھ عوام اور کمپنیوں پر نہ ڈالے بلکہ اپنا بڑھتا خرچ کم کرے اور غیر فطری پھیلاؤ سمیٹے۔ ٹیکسوں میں اندھا دھند اضافہ تو ہر ریاست کی معیشت کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ ٹیکسوں اور بلوں میں کمی ہی سے پاکستان میں کاروبار، صنعت وتجارت اور زراعت کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملیں گے۔ یوں روزگار جنم لے گا اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔سرمایہ کاری ہو گی، جوہر قابل بیرون ملک فرار نہیں ہو گا نیز پاکستانی نوجوان نسل کو موقع ملے گا کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ہنروکمال سے کارہائے نمایاں انجام دے سکے۔